جنس زدہ شاہین: بہن، ہمشیرہ، ‘سسٹر’، اور physique وغیرہ

 

(یاسر چٹھہ)

پچھلے کچھ دنوں مصروفیت رہی۔ اپنی پسند کے موضوعات پر مطالعے اور ان کے دیگر متعلقات میں زیادہ کھبا ہوا تھا۔ ماننا ہوگا کہ بے اعتدال آدمی ہوں؛ اپنی پسندیدگیوں اور شوق کے سلسلوں کو سود و زیاں کے ترازووں پر کم ہی تولتا ہوں۔ بہرحال حضرت ارسطو کہہ گئے اور خوب کہہ گئے ہیں کہ میانہ روی ہی بہترین روش ہے: پیغمبر اسلام (صلعم) نے بھی میانہ روی کو بہترین شعار قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ثواب زہد سے پہلو تہی ہو جاتی ہے؛ کیا کیا جائے، آخر انسان ہی تو ہیں۔ اسی اعتدال سے خالی عادت کا تازہ شکار آج کل کے اہم زیر بحث معاملے، یعنی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی زبان کے ایک حالیہ منعقدہ پرچے کے ایک سوال کے گرد گھومتی بحث ہے۔ یہ فنکشنل انگریزی کا سوال نمبر 5 تھا۔ بے چارے مرد امیدواروں کو کوئی اختیار بھی میسر نہیں تھا۔ یعنی اس سوال کا جواب دینا بہت ضروری تھا۔ سوال کیا تھا؟ تصویر میں دیکھ لیجئے۔

صبح اپنے جائے روزگار پہنچنے پر ایک عزیز دوست نے کہا کہ غضب ہوگیا! دریافت کیا کہ کیا غضب ہوگیا؟ کہتے ہیں کہ اوپن یونیورسٹی نے سوال نمبر پانچ دے دیا ہے۔ اس پر کچھ برادران ملت سخت طیش میں آ گئے ہیں۔ ایک صاحب نے تو ‘اخلاق باختگی’ اور اہم سماجی اور ملی مسئلے پر پورے کا پورا ٹی وی پروگرام فرما دیا ہے۔ عزیز دوست کسی درپیش طوفان کا ذکر کر رہے تھے، لیکن میرے سامنے پڑی میری چائے کی پیالی میں کوئی طوفان ندارد!

میرے سامنے چائے کی پیالی میں طوفان کیوں نہیں آ رہا تھا؟ میرے دوست مجھے کافی برسوں سے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں کہا کہ پچھلے سال کے اسی اوپن یونیورسٹی کے پرچے میں بھی اسی طرح کا مضمون تھا۔ تب کا وہ سوال زیادہ بحث کی چکی میں کیوں نہیں پسا؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ پچھلے سال کے سوال میں مضمون کو بھائی صاحب کی ذات پر لکھنا مطلوب تھا۔ اس جواب کے بعد بھی میری چائے کی پیالی میں طوفان نا آیا، لیکن ذہن میں معاشرے کے اندر کچھ کڑیوں سے کڑیاں مل گئیں۔ کچھ سال پہلے کے ایک فلیش بیک میں جانا ہوگیا۔ ہر چند فلیش بیک میں جانا ضروری نہیں بھی تھا کہ آج بھی منظر ایسا ہی ہے۔ پھر بھی بات پرانی کا تذکرہ کرنے دیجئے کہ یہ انتہائی اہم مسئلے کا ایک جزو ضرور ہے۔

ہمارے کچھ ہم جماعت تھے، جن سے کافی بے تکلفی تھی؛ کوئی بھی چیز موضوع بحث ہوتی تھی تو ہماری زبان میں لکنت نہیں آتی تھی۔ لیکن جب کسی جملے میں انہیں اپنی بہن کا تذکرہ کرنا پڑتا تھا تو ان کی بولنے کی روانی میں خلل آتا تھا۔ ایک دم رک جاتے تھے۔ پھر چھوٹی سی سانس کے ساتھ اپنی بڑی بہن کو آدھے کٹے لفظ سے ‘چھوٹی’ کہتے۔ حالانکہ ہمیں کوئی شک نہیں تھا کہ چھوٹا یا چھوٹی کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس مشکل لفظ بہن کی ادائیگی کے لئے ان کی جانب سے کوئی euphemism ڈھونڈی جاتی۔ اس سلسلے میں فارسی کا سہارا لے کر ‘ہمشیرہ’ کہا جاتا۔ حالانکہ ہمیں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ گھر میں پنجابی بولتے تھے اور فارسی کا اس قدر چلن اور جگہوں اور صورتوں میں ہر گز مخصوص نہیں تھا۔ لیکن بظاہر بڑے قد کی زبانیں مشکل تصورات کی ادائیگی میں اکثر بہت مددگار ہوتی ہیں۔ بعض موقعوں پر وہی بہن جیسا سیدھا سادا لفظ انگریزی کے sister کے لبادے میں ادا ہوتا۔ لیکن ان دونوں زبانوں کے لفظوں سے پہلے ایک سیکنڈ کے کچھ حصوں کے لئے دم ضرور سادھا جاتا جس سے باور کیا جا سکتا تھا کہ ان برادر محترم کو بہن کا لفظ منھ سے نکالنے میں کس قدر دقت ہورہی ہوتی تھی۔ بعد میں زیادہ لوگوں سے میل جیل ہوا تو پتا چلا کہ ہمارے وہ دوست اس مشکل میں اکیلے نہیں تھے۔ بلکہ یہ رویہ تو تقریباً پورے سماج میں سرایت کئے ہوئے تھا۔

سوال ذہن میں بیٹھ گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس وقت بہت سوچا، لیکن جواب نا ملا۔ لیکن سوال اپنی جگہ پر قائم رہا۔ عمر بڑھتی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک عورت ہوتی ہے اور ایک مرد ہوتا ہے۔ کالج میں آکر معلوم ہوا کہ لڑکوں کی سب سے بڑی سر دردی انہیں اپنے آپ کو مرد ثابت کرنا ہے۔ لیکن مرد ثابت کرنے کے لئے ان کے جو پیمانے تھے، وہ کچھ ایسی چیزوں پر اٹکے ہوئے تھے جن میں جنسیات کا تصور ایک اہم حوالے کے طور پر موجود تھا۔ مرد کی مرادنگی کے تقریباً تمام اشاریے تھے وہ ‘لمبائیوں’، ‘قطروں’، ‘سختیوں’، ‘منٹوں’، ‘سٹیمینا’، وغیرہ جیسی طبعی، جسمانی اور فاصلاتی اکائیوں اور شماریات پر مشتمل تھے۔ مردانہ خودی کی شبیہ ان چیزوں کے گرد اپنی بنت کاری کرتی تھی۔ اس کے مقابل دوسری صنف انسانی، یعنی عورت یا لڑکی کی پوری شخصیت بھی چند جسمانی اعضاء کی طبعی پیمائشوں وغیرہ کے گرد گھومتی تھی۔ یقین و اعتبارات اس بات کے گرد جڑے ہوئے تھے کہ لڑکی یا عورت کی ساری شخصیت صرف استحصال کے لئے ہی پیدا ہوئی ہے؛ وہ ناقص العقل ہے۔ سمجھا جاتا کہ وہ بہن یا ماں نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف جنس کی بے روح گٹھڑی ہوتی ہے۔ وہ اپنی نہیں ہوتی، وہ صرف کسی اور کی بہن ہوتی ہے۔ تقریباً سب لڑکے ان زاویوں پر سوچتے؛ اور جو 100 فیصد کے علاوہ بزعم خود ایسا نہیں سوچتے تھے، وہ اتنا ضرور سمجھتے تھے کہ باقی کے لڑکے ایسا ضرور خیال کرتے ہیں۔
آج بھی جب بڑی عمر کے، پڑھے لکھے اور بظاہر نفیس شخصیات کے لوگوں گفتگووں کو سننے یا ٹی وی وغیرہ پر دیکھنے کا موقع ملتا ہے، یا روزمرہ کی زندگی میں لطیفوں کے سننے کے دوران ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی اپنی شریک حیات کی نسبت کوئی دوسری عورت ہی جنسی اعتبار سے زیادہ دلکش ہے۔ (جو نہیں پڑھے لکھے وہ تو پہلے والے کریلوں کی نسبت نیم چڑھے ہیں!) لیکن بڑھی ہوئی عمر کے ساتھ بھی جنس کی شبیہ مردانہ تخیل میں مشترک اور وہی teen age والی ہی رہی۔

اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی کے موجودہ پرچے کے سوال نمبر 5 پر آئیے۔ بھئی پچھلے سال تو عین اسی سانچے پر بھائی کی شباہت پر مضمون لکھنا تھا تو کسی ‘اخلاقستون’ کی رگ اخلاقیات نہیں پھڑکی؛ بہت ساری لڑکیاں بھی اوپن یونیورسٹی کے امتحان دیتی ہیں، انہوں نے بھی باآسانی وہ پرچہ حل کرلیا تھا۔ کسی نیوز چینل پر بجلی نہیں گری۔ لیکن اب کی بار چونکہ بڑی بہن کے نام پر مضمون تھا اس لئے مسئلہ عظم ہوگیا۔ جب سب مردوں نے اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر اس ناقص العقل کی جو شبیہ تراشی، تو وہ محض جنس کی بے روح گٹھڑی تھی؛ لہٰذا اب اس مضمون کو لکھتے وقت سب کو اپنے اندر کا وہ آئینہ درپیش ہوگیا جو کبھی ان کے منھ پر ‘بہن’ کا لفظ جاری نہیں ہونے دیتا تھا۔ ہمارے مردوں کے شبیہاتی مقتدراتی معاشرے کو یاد آگیا کہ یہ تو اسی ‘گندے’ ذہن کے ساتھ ان سے پوچھا گیا ہے جس سے وہ سب مل کر باتیں کرتے تھے، باتیں گھڑتے تھے۔ لہذا بہت مشکل ہوگیا۔

سوال نمبر 5 میں لفظ physique پر بہت غلغلہ مچا ہے۔ گو کہ راقم کو اس کا مطلب پتا تھا اور کبھی اس سے بے پردگی کا تعفن محسوس نہیں ہوا تھا، لیکن ایسے ہی مخمصے میں آ گیا کہ شاید اس کا واقعی کوئی غلط مطلب تو نہیں کہ جو اہل خرد و ایمان کو ‘عقل خالص’ پر اس قدر بھاری ہوا پڑا ہے۔ حوالے کے طور پر آکسفورڈ ڈکشنری کے ویب سائٹ سے اس لفظ کا مطلب دیکھا:

20161115_20123620161115_20133420161115_201412

تصویر بنا لی تاکہ اس کی معیاری مثالوں سے بتایا جاسکے کہ اصل میں تعفن کہاں ہے؟ بھئی، یہ عورت، تانیثیت اور جنس کے غلیظ تصورات والے اذہان میں ہے۔

وما علینا الا لبلاغ

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

2 Comments

  1. یاسر چٹھہ ۔۔۔۔بہت عمدگی اور دلائل سے آپ نے اس نازک مسلہ پر لکھا ہے .. نازک اس لئے کہا کہ لوگ یہاں ابھی مطمئن نہیں ہووے ہوں گے ….. یہ سارا تعفن اذہان کا ہے ….اس غیرت کا ہے جو زرعی معاشرہ کے کرتا دھرتاوں نے پورے سماج میں لاگو کر رکھی ہے ….فیوڈیلزم جب تک ختم نہیں ہوگا اذہان میں تعفن برقرار رہے گا ….. یا ملک میں انڈسٹریل انقلاب کا جوہر لایں ۔۔۔

Comments are closed.