ضعیف سماج کا مینارِ نور، عاصمہ جہانگیر

ضعیف سماج کا مینارِ نور
Picture courtesy: Express Tribune Pakistan

ضعیف سماج کا مینار نور، عاصمہ جہانگیر

از، نعیم بیگ

عاصمہ چلی گئیں، لیکن اپنے پیچھے سماج کی تاریک راہداریوں میں ایسی روشن فضا قائم کر گئی ہیں، جس میں پاکستان کی نئی نسل توہمات و واہموں کی دنیا سے نکل کر جرات و کمال ہنر مندی، عقل و شعور اور فکری راستوں کی تلاش میں اپنی سمت پا چکی ہے۔ عالمی سطح پر کسی بھی معاشرے کی پہلی پہچان اس کا آرٹ و کلچر اور تہذیب پر مبنی اقدار ہوتی ہیں۔عاصمہ نے انہی راستوں پر نئے سنگ میل بھی رقم کیے۔ اس نے بحیثیت ایک انسان، اِس نوزائیدہ، نو دمیدہ اور ضعیف سماج میں انسانی حقوق کے وہ انمٹ اور گہرے نقش چھوڑے ہیں جن کی نظیر فی زمانہ ملنا دشوار ہے۔

یہ اُس کی زندگی کے بظاہر کھٹن اور دشوار گزار دن تھے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی اسے یحٰیی خان جیسے ٓامر کے مارشل لا میں اپنے والد کی رہائی کے سلسلے میں سائل کے کٹہرے سے وکالت کے روسٹرم پر تنہا اور بے یارو مددگار لا کھڑا کیا۔ تب اس کی عمر اکیس برس تھی، جس عمر میں معصوم بچیاں، لڑکیاں بالیاں سہانے خواب دیکھتی ہیں، نوجوانوں پر ریاستی اور حکومتی خوف طاری تھا، لیکن عاصمہ نے خوف اور جبر کی اوڑھنی سے سر ڈھانپنے سے انکار کر دیا۔ مارشل لا کے کوڑے اور زندان منہ کھولے نگل جانے کو تڑپ رہے تھے، لیکن عاصمہ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ننگے سر اپنے والد کو مارشل لا کے چنگل سے نکال باہر لائی۔

وہ دن اورآج کا دن، عاصمہ نے دل میں تہیہ کر لیا کہ جب تک وہ پاکستانی کمزور اور لاغر سماج کی بچیوں کو انکا قانونی اور وراثتی حق اور معاشرے میں حقیقی مقام نہ دلائے گی وہ اپنا سر نہیں ڈھانپے گی۔ یوں اس نے مزاحمت کی لازوال داستان رقم کر دی۔
پھر اس نے کئی ایک محاذ کھول لیے۔ مارشل لا کو غیر آئینی قرار دلایا۔ عاصمہ جیلانی کیس تاریخ میں زندہ ہے۔ اس کیس میں بھٹو کو مارشل لا اٹھانا پڑا اور سول حکومت بحال کرنی پڑی۔ تب ملکی اسٹبلشمنٹ کی کتاب میں اسے ملک دشمن، غدار اور اسلام مخالف ٹھہرا دیا، لیکن اسے پروا نہ تھی۔ وہ اپنے مشن پر رواں دواں رہی۔

۱۹۸۳ء کے تاریک ضیائی دور میں تیرہ سالہ حاملہ صفیہ بی بی کیس میں اسے زنا بالجبر کی بجائے زنا بالرضا کی سزا ہو گئی، کیونکہ وہ چار عینی شاہدوں کو پیش نہ کر سکی تھی، عاصمہ نے یہ کیس لڑا اور صفیہ کو رہائی دلوائی۔ تب وہ ایک عظیم فیمنسٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اس نے پاکستان کی عورت کو اس کا قانونی حق دلانے میں قانونی دلائل کی رو سے عورت کو اپنی مرضی کی شادی کا حق دلایا۔ اس سے پہلے قانون میں سرپرست کی مرضی کے بغیر کوئی لڑکی اپنی شادی نہیں کر سکتی تھی۔

۱۹۹۳.ء میں سلامت مسیح کو بلاسفمی کے مقدمہ میں بچایا، جب کہ کوئی مائی کا لال وکیل کیس لینے پر تیار نہ تھا۔ اس نے بڑھ کر سلامت مسیح کا ہاتھ تھاما اور عدالت عالیہ کو باور کروایا کہ ماتحت عدالت نے موت کا فیصلہ درست نہ دیا تھا، یوں سلامت مسیح کو بچا لیا گیا۔

نوے کی دھائی ہی میں اس نے ایک جاپانی عورت کی پاکستان کی عدالتوں میں اس کی اولاد کی سپردگی کا کیس لڑا اور بعد ازاں سپردگی کے مالی بانڈ کی عدم ادائیگی پر اپنی جیب سے بارہ لاکھ روپیہ دے کر بچے اس عورت کو دلائے۔ اگر اس بات کا ریکارڈ کھنگالا جائے تو معلوم ہوگا کہ عاصمہ نے اپنی زندگی کے اکثر و بیشتر پیشہ وارنہ کیسز اعزازی طور پر بلا کسی مالی منعفت سر انجام دیے، لیکن اس نے ہمیشہ گریز کیا کہ اس کے ان اقدامات کو سرِ عام سراہا جائے۔ تاہم میڈیا اور پیشہ ور وکلا اور اس کے ساتھی سبھی جانتے ہیں کہ اس نے اپنی زندگی کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھا تھا، جس میں سب سے زیادہ اہمیت عورت کی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس میل ڈومین سماج میں عورت کو اس کا پیدائشی، اخلاقی اور قانونی حق دلانے میں ابھی بھی بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔

اصولوں پر سودے بازی اور حکومتی اقربا پروری کی مخالفت میں اس نے اپنی دوستی کے کئی ایک رشتے قربان کیے، جس میں بے نظیر بھٹو کی ذاتی دوست ہونے کے باوجود ساری عمر اس سے سیاسی اختلاف رائے رکھا۔ درحقیقت وہ’ سٹیٹس کو‘ کی مخالف تھی۔ وہ پاکستان کی سماجی و تہذیبی روایات کو عقل و شعور، فکرو فہم اور انسانی موریلیٹی کے اس معیار پر دیکھنے کی خواہش مند تھی، جہاں آئیڈیلزم اور عملیت پسندی کا ایک شاندار انضمام ہوتا ہو۔ وہ متوازن لیکن سخت گیر قانونی رویہ کو جرات کا نام دیتی ہے۔ اپنے اصولوں پر سودے بازی کرنا اس کی سرشت میں نہ تھا۔

وہ پاکستان کی ایک بہت بڑی اکثریت کی زبان تھی۔ اس نے ٹین ایج میں ایوب اور یحییٰ کا للکارا۔ نوجوانی میں بھٹو کے نا پسندیدہ اقدامات کو  آڑے ہاتھوں لیا۔ ضیاالحق کے جبر و ستم کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ مشرف کے دور میں اس کی پرزور مخالف بنی۔ اس نے ہر بنیاد پرست اور انتہا پسند کو للکارا۔  طالبان کی بدترین مخالف ہونے کے باوجود یہ بھی کہا کہ وہ کسی قیمت پر طالبان کی ماورائے عدالت قتل کی حمایت نہیں کر سکتی، اور اگر ایسا ہوا تو وہ طالبان کی حمایت میں قدم اٹھائے گی۔

عاصمہ نے اپنے آخری دنوں میں جمہوری اداروں کی سربلندی کے لیے کئی ایک ایسے اشارے دیے جنھیں عوامی نقطہ نظر سے پسندیدہ نہیں دیکھا گیا۔ اِن پر الزام آیا کہ وہ جمہوریت کی آڑ میں سیاسی لٹیروں، غیر قانونی مالی منعفت خوروں، عہدوں سے ناجائز فائدے کے حصول یافتہ طبقے اور کرپشن کرنے والوں کو سپیس دے رہی ہیں۔

دی ایکسپرس ٹریبیون کے بارہ فروری کی اشاعت کے مطابق ’گولڈن دل کی مالکہ‘ عاصمہ جہانگیر حکومتی وزیر طلال چوہدری کا عدالت عظمہ کی توہینِ عدالت کا کیس ہاتھ میں لے رہی تھیں کہ موت نے انھیں جا لیا۔

وہ ایک نڈر، بے باک، بہادر اور شاندار خاتون تھیں۔ اِس کے زندگی بھر کے حقوقِ انسانی، پیشہ ورانہ اور دیگر فیمینسٹ کارنامے تاریخ کے سنہرے اوراق میں لکھے جائیں گے۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔