ناول ڈئیوس، علی اور دِیا ۔۔۔ تاثرات

ناول ڈئیوس، علی اور دِیا

ناول ڈئیوس، علی اور دِیا … تاثرات

تبصرۂِ کار: سید صداقت حسین

نعیم بیگ موضوعاتی سطح پر دقیق علمیت کی دسترس کے ساتھ افسانے لکھنے کے فن سے بخوبی واقف تو ہیں ہی مگر ان کے ساتھ ساتھ انگریزی اور اردو میں لکھے گئے ان کے ناول ایک نہایت ذی ہوش اور حساس رائیڑ کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ اردو کے جدید افسانہ نگار اور ناول نگار ان کا پاکستانی معاشرت میں ادبی قد ان کے معیاری اور فکری بیانیے کے باعث ایک اہم وجود رکھتا ہے۔ نعیم بیگ کے ہاں موضوعات کا تنوع مثالی ہے۔ وہ اپنے سماجی ثقافتی اور معاشرتی افسانوں میں سماجیات کے ساتھ سیاسیات کے اہم پہلوؤں کو بھی بڑی مہارت سے منعکس کرتے چلے جاتے ہیں۔

نعیم بیگ کی بیشتر تحریریں ان کے ترقی پسند فکرو فلسفہ کی آئینہ دار ہیں۔ ان کا ادبی سفر صحافت کی کٹھن اور دشوار راہوں سے ہوتا ہوا افسانے کی جمالیات تک کا احاطہ کرتا ہے۔ انگریزی زبان میں ان کے لکھے دو ناول “ٹرپل سول” “کوگن پلان” علاقائی سیاسی سماجی ماحولیات اس کے دیرپا اثرات اور ان حالات کے پیدا کرنے میں بین الاقوامی کنکشن ان کے فہم و تدبر اور عالمی سیاست پر گہری بصیرت کا مظہر ہیں۔

اردو ادب میں نعیم بیگ نے افسانے کو نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ‘یو – ڈیم – سالا‘ اور ‘پیچھا کرتی آوازیں‘ ان کے فنی ثبوت کا علمی و عملی مظاہرہ ہے۔ وہیں مذکورہ ناول ” ڈئیوس، علی اور دِیا” آج اور کل کے تناظر میں عصریت کا وہ آئینہ ہیں جنھیں دیکھنے کی خواہش ہر دل میں ہے۔ ناول کا اسلوب زبان و بیان علمی سطح پر ایک اعلی مقام رکھتا ہے۔ ادبی جمالیات میں رومانس ایک منفرد کشش رکھتا ہے جسے دکھانے کا سلیقہ نعیم بیگ کے ہاں بہت دل فریب ہے۔ وہیں سماجی بے چینیوں اور سیاسی افراتفری کے مابین زندگی کے رنگ و آواز اور خوبصورت تخلیقی جملوں نے اس ناول کی دل فریبی میں ایک زبردست ہلچل مچادی ہے۔

ناول اپنے موضوع کے لحاظ سے پچھلے کئی عشروں کی سیاسی بے چینی کو تاریخی حوالوں سے قاری کے سپرد کرتا ہے۔ جہاں سماجی المیے انسانی معاشرت کے حوالے سے ایک غیر متوازن زندگی کو اسطوری رنگ میں دیکھتے ہیں ۔ ایوان اقتدار اور اس سے ملحق سیاسی افراتفری قاری کو آج کی سیاست کے حوالے سے ان عوامل کا ادراک واحساس کا بھی بغور جائزہ پیش کرتی ہے جن حالات سے آج کا انسان نبرد آزما ہے۔

کرداروں کی زبان نفیس اور محبت کے نرم ماحول میں کبھی کبھی ترش مکالموں کے ذریعے آج کی سوشیو اکنامک، کلچرل اور پولیٹیکل ہیج منی کو طشت ازبام کرتی ہے۔ نعیم بیگ سیاسی اجارہ داری۔ دولت کے ارتکاز۔ اشرافیہ کی مبینہ سماجی اور اخلاقی دہشت گردی، غربت افلاس کے پیچھے چھپی سرمایہ دارانہ ذہینت کو استعاراتی تفاعل کے ذریعے بڑی حد تک اس ناول میں دکھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یوں مصنف کی خود شعوریت اور گہرے ثقافتی و سیاسی شعور نے جو ناول کے متن در متن دیکھی جاسکتی ہے ناول کی ساکھ اس کے حقیقی بیانیے اور حقیقت نگاری کے مظہر نے ناصرف ناول کے مستقبل کی عمر کا تعین بڑے اہتمام سے کردیا ہے۔ بلکہ مصنف کو اردو ادب میں ناول کی جدیدیت کے حوالے سے ایک اہم مقام پر بھی فائز کردیا ہے۔

اس ناول کے مطالعہ کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ نعیم بیگ اردو ادب میں ناول نگاری کے حوالے سے ایک منفرد اسلوب، خیال و ندرت اور ثقافتی خوشبو کی بدولت ایک گہرا رشتہ استوار کرچکے ہیں۔ جو ادبی قارئین کے لیے انتہائی مسرت کا مقام ہے۔