تعلیمی نظام کے کچھ پہلو: بھٹکا ہوا مسافر

Children in Class, نظام تعلیم

(حافظ مظفر احمد کھوسو)

کچھ عرصہ پہلے کسی سرکاری ٹیچر کی ایک پوسٹ پڑھی۔ محترم نے کچھ یوں اپنی دکھڑا تحریر کیا تھا۔ میں دن کے وقت سو رہا تھا کہ بائیومیٹرک کے نمائندے کا فون آیا اور انھوں نے کہا کے میں بائیو میٹرک کا نمائندہ بات کررہا ہوں آپ سکول آئیں کچھ معلومات لینی ہیں۔ محترم لکھتے ہیں کہ اکثر سرکاری اساتذہ کو ایسے فون آتے ہیں کچھ اساتذہ نے تعلیمی افسران سے رابطہ کیا اور کہا کہ استاد کا ایک مقام ہوتا ہے آخر ہمیں وہ مقام کب ملے گا ہمارے ساتھ سوتیلی اولاد کی طرح کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔ یہ تو رہی ایک سرکاری ٹیچر کی آپ بیتی۔
جناب سندھ کا تعلیمی نظام ایسا مفلوج ہوچکا ہے کہ بائیو میٹرک سے تصدیق کی ضرورت پڑگئی کہ آیا کون سے اساتذہ روزانہ اسکول آتے ہیں کون سے نہیں۔ رہی بات اساتذہ کے ادب و احترام کی تو قوم پرستی انا پرستی نے ادب و احترام کی زندہ لاش کو دفن کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک استاد جو کہ خود تو بادشاہ نہیں ہوتا مگر اپنے علم و فراست، محنت اور جدوجہد محبت کے قلم سے شاگرد کو بادشاہ بنا دیتا ہے اسے غلط اور سہی کا فرق سکھاتا ہے الف سے اللہ کا لفظ پڑھا کر اسے روحانیت کے گر انسانیت کے آداب سکھاتا ہے۔
لیکن آج کی خود ساختہ قوم پرستی اور ووٹ پرستی نے استاد کی اہمیت کو صرف کلاس کے کمرے تک محدود کردیا ہے اور ووٹ کے بیلٹ پیپر پہ ٹھپہ لگانے اور لگوانے تک!
اسی ووٹ پرستی کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سرکاری نوکریاں تو ملیں لیکن معاشرے میں اس نوکری کا بہترین معیار جو میرٹ نے بنایا تھا جو عزت میرٹ کے ذریعے ملتی تھی وہ ووٹ اور زرداری ازم کے ذریعہ ملنے والی دو ٹکے کی نوکری نے چھین لی۔
اور آج ہمارے معاشرہ میں استاد کی اہمیت جتنی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ ادب اور احترام کرنے نا کرنے کی تصدیق بھی بائیو میٹرک سے ہی ہوگی۔
اور نام نہاد سیاسی لوگوں کی کرپشن لوٹ مار کی وجہ سے آج ایک کروڑ بچہ تعلیم کے زیور سے محروم ہے۔ شہروں میں کوئی مستقبل کا معمار ریڑھی لگا کے بیٹھا ہے تو کوئی ریوڑیاں بیچ رہا ہے۔ جن بچوں کے منہ سے سکول ٹائم الف ب کی آواز سننے کو ملنی چاہیۓ تھی ان کے منہ سے صبح نہار انڈے لے لو مونگ پھلی لے لو کی چھنکار سننے کو ملتی ہے۔ غربت کی چار دیواری میں رہنے والے بچے کو کیا پتہ کتاب کیا چیز ہے قلم کس کو کہتے ہیں وہ تو شاید اپنی زبان میں یہی سنا سکے گا کہ غربت۔ کیسی بھیانک درس گاہ ہے جس میں پڑھنے والا صرف اپنی پیٹ کے لئے دو وقت کی روٹی کی ہی جنگ لڑسکتا ہے۔

حضور اگر ہمارا نظام بہتر منصوبہ بندی کے تحت بنایا جائے اگر میرٹ کا نظام بہتر کیا جائے ہر ضلعی بورڈ میں اساتذہ کےلیۓ ریفریشر کورس رکھے جائیں پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم چلایا جائے ہمارا نصاب جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہو تو یقینا نظام میں بہتری آسکتی ہے۔ ایک تعلیمی انقلاب آسکتا ہے۔ جہالت کے اندھیرے چھٹ سکتے ہیں روشنی کی صبح کی امید بن سکتی ہے بحیثیت قوم ہمیں خدا نے بے پناہ صلاحیتیں بخشی ہیں ہم نا ممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ اقتدار ایسے لوگوں کے پاس ہو جو ملک و قوم کا درد رکھتے ہوں جن کے ذہن ہر قسم کی غلامی سے پاک ہوں جو اپنی ذاتی انا کو ملک کے مفاد سے ایک طرف رکھ کے دفن کرنے والے ہوں۔
تعلیم کے شعبے میں ایک معقول بجٹ رکھی جائے جس کو پھر منصفانہ طریقے سے استعمال کیا جائے۔ہم بحیثیت قوم ٹوٹ پھوٹ اور جنگ و جدل کا شکار ہیں۔ اختلافات کا ٹوکرا اپنی جگہ، لیکن ملکی ترقی پہ ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے ترقی کےلیۓ متحد ہونا ضروری ہے۔
کہتے ہیں کہ اگر چیونٹیاں بھی متحد ہوں تو وہ شیر کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ آخر کیوں وطن عزیز کی معاشرتی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی و ثقافتی زندگی بری طرح منتشر ہو کے رہ گئی ہے۔ ہمیں آزاد ہوئے تقریبا ستر برس ہونے کو ہیں لیکن آخر کیوں بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ہم اپنی منزل کا تعین نہ کرسکے۔ اگر ہم نے نظام تعلیم کو بہتر نا بنایا تو چور ڈاکو لوٹ مار دہشت گرد ہمارے مقدر ہوں گے کیوں کے جہالت تو یہی ثمرات دیتی ہے حضور!

1 Comment

Comments are closed.