حسِ باطنی: کوے کے بچے کا جسد

کوے کے بچے

 

(شیخ محمد ہاشم)

“بس بہت ہوگیا آج آپ نے شام بعد نماز عصر تا مغرب ہر صورت ہمارے ساتھ واک پر چلنا ہے” بیگم کے بڑھتے وزن اور پھیلتے بدن کو دیکھ کر ہم نے دو ٹوک انداز میں اُ نھیں وارننگ دے ڈالی ۔
“اچھا اچھا ۔۔ٹھیک ہے ۔۔چلیں گے” بیگم نے ہمارے خوفناک تیور کو بھانپتے ہوئے حامی بھر لی ۔
پھیلتی ہوئی خواتین ہماری آنکھوں اور دل کو بالکل نہیں بھاتیں۔ بیگم صاحبہ کا بڑھتا اور پھیلتا ہوا جسم ہمارے لئے تشویش کا باعث تھا ۔ یہ ہی و جہ تھی کہ دو ہفتے قبل ہم اُنھیں ہفتہ بازار سے واکنگ شوز دلاچکے تھے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں خواتین اس قسم کی مشقت سے گریزاں رہتیں ہیں۔ آج ہم نے بھی حتمی فیصلہ کر لیا تھا ،کہ بیگم کے بڑھتے ہوئے وزن کو ہر صورت گھٹانا ہے یہ ہی ہمارا مشن تھا۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر ہم نے شوز پہنے اور بیگم کو بھی ہدایت کر دی کہ وہ بھی شوز پہن لیں۔ چاروناچار انھوں نے بھی شوز پہنے اس دوران ہم ان کے چہرے کی کیفیات کا بغور جائزہ لے رہے تھے، جن پر ناگواری کے تاثرات صاف نمایاں تھے۔ اور ہمارا چہرہ تھا کہ طمانیت کے باعث دمک رہا تھا ۔ہماری طمطراق دیکھنے کے قابل تھی ،کیونکہ آج ہمیں بیگم پر فتح حاصل ہونی تھی ۔ فوقیت کی فتح۔ احساس برتری کی فتح۔ ہم نے پہلے ہی سے سوچ رکھا تھا کہ بِل بھی پاس ہو چکا ہے اگر آج ہمیں ہلکا پھلکا تشدد بھی کرنا پڑا تو انشااللہ کریں گے ،تحفظ حقوق نسواں بِل کے پاس ہونے سے ہمارا حوصلہ بھی بڑھ چکا تھا، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کر لینا چاہیئے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ہلکا پھلکا تشدد کا پیمانہ کیا ہوگا لیکن ہمت کر کے ہم ایسا بھی کر لیں گے۔ وجہ وہی تھی کہ پھیلتی ہوئی بیگم ہم کو بالکل گوارا نہیں تھی۔ شکریہ تحفظ حقوق نسواں بِل کہ آپ نے ہم مردوں کو تحفظ فراہم کیا۔
گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پارک تھاجس میں خواتین کے لئے واکنگ ٹریک علیحدہ سے بنا ہوا تھا۔ گھر سے پارک اور واپسی میں پارک سے گھر تک کا فاصلہ ہمیں بیگم صاحبہ اور ان کی ناگواری کے ساتھ ہی طے کرنا تھا۔
ہمارے گھر کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر ایک تناور درخت تھا۔ گھر سے نکلتے ہی ہماری نظر اس درخت پر بیٹھے دو عدد کووؤں پر پڑی۔ ہم نے محسوس کیا وہ دونوں کوئے کچھ بے چین تھے .ہم نے اُنھیں نظر انداز کر دیا، کیوں کہ آج ہم ایک اہم مشن پر تھے .ہمارے قدم پارک کی جانب رواں دواں رہے ۔ابھی آپس میں محو گفتگو تھے اور کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا ،کہ وہی دونوں کوئے ہمارے سر کے پاس سے برق رفتاری سے گذرے ۔جن کے پروں کی سنسناہٹ ہماری سماعت سے ٹکرائی اور اس کی سنسناہٹ نے ہمارے جسم میں چند لحموں کے لئے لرزا سا طاری کر دیا تھا۔ ہمارے بالکل قریب سے گزرنے کے بعد د ونوں کوئے ہمارے سامنے والے ایک درخت پر جا کر بیٹھ گئے۔ ہم نے محسوس کیا کہ اب وہ پہلے سے کچھ زیادہ بے چین نظر آ رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر ہم نے اُنھیں نظر انداز کیا اور اپنا سفر پارک کی جانب جاری و ساری رکھا ۔
پارک کے گیٹ پر پہنچ کر ہم نے بیگم کو ہدایت کی کہ وہ عورتوں والے ٹریک پر جا کر واک کریں۔ ابھی ہم بیگم کو ہدایت دے ہی رہے تھے، کہ اُن دونوں برق دم کوؤں نے(جنھیں ہم کچھ دیر پہلے بھول چکے تھے ) بڑی کامیابی کے ساتھ ہمارے سر کے بیچوں بیچ عین اُس مقام پر جہاں سے ہمارے گنج پن کا گول دائرہ شروع ہوتا ہے یکے بعد دیگرے پہلے ایک کوے نے پھر دوسرے نے اپنی نوکیلی چونچ سے ٹھونگیں ماریں ۔ اس اچانک حملے نے ہمارے اوسان خطا کر دئیے تھے ۔ہم نے سر کو سہلاتے ہوئے اوپر کی جان دیکھا تو دونوں کوئے ہمیں ٹھونگیں رسید کرنے کے بعد پارک کے قریب ہمارے سامنے والے ایک درخت پر براجمان ہوچکے تھے۔

“ان کوؤں کو کیا ہو گیا ہے۔ آپ کے پیچھے پڑ گئے ہیں” بیگم نے گیٹ سے اندر جاکر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
” اللہ جانے کیوں انھوں نے ہم ہی کو نشانہ بنایا ہوا ہے؟” ۔۔گنجے سروالے حصے پر تیزی سے سہلاتے ہوئے ہم نے جواب دیا ۔
آپ نے کسی کوّا پری کو تو چھیڑ نہیں دیا کہیں۔بیگم نے قہقہے لگاتے ہوئے کہا ۔اور ہماری جان جل گئی۔
پارک میں مردوں کے ٹریک پر پہنچ کر ہم نے واک شروع کرنا تھی ۔لیکن دونوں کوؤں کی ٹھونگیں کھا نے کے بعدہماری توجہ واک سے زیادہ اُن کوؤں کی جانب مبذول ہوگئی تھی، جو ایک درخت پر بیٹھے فاتحانہ انداز میں ہماری جانب ہی دیکھ رہے تھے ،جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ آج تمھاری خیر نہیں ہے بچّو ۔ ہم نے بادل نخواستہ واک شروع کی، لیکن اس سے قبل نادانستہ گردن گھما کر درخت کی جانب دیکھا تو ہم حیران رہ گئے ،دونوں کوئے ہم پر حملہ کرنے کے لئے اسٹارٹ لے رہے تھے ،جیسے کوئی طیارہ رن وے پر سے فضا میں بلند ہونے کے لئے تیار ہو رہاہوتا ہے۔ فرق یہ تھا کہ طیارہ بلندی کی جانب جانے کے لئے تیار ہوتا ہے، جب کہ یہ دونوں بلندی سے ہماری جانب آنے کو تیار ہو رہے تھے۔ اور پھر پلک جھپکتے ہی ایف16کی طرح وہ اپنے ٹارگٹ یعنی ہمارے گنجے سر کے دائرے پر ٹھونگ اور پنجے رسید کرنے کی غرض سے چند ہی لحموں میں ہمارے سر کے اوپر موجود تھے ۔ہم بھی اس طوفانِ بد تمیزی کے لئے پہلے سے ہی تیار تھے۔ ہم نے بھی جیکی چن کی طرح جوڈو کراٹے کی فلموں والی جھکائی دے کر اپنے دائرہ نما گنج کو بچایا ،لیکن ہم جیکی چن تو نہیں تھے نا۔ جاتے جاتے ایک بے رحم کوئے کا پنجہ ہمارے ہاتھ پر اپنے نشان چھوڑتا ہو اگیا ۔ہمارے ہاتھ میں پنجوں کی لکیروں کے تین عدد نشانوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔جس کی کھرچن سے معمولی خون رس رہا تھا ۔
“اُف ہو۔کیا مصبت ہے۔ یہ آخرہمارے پیچھے کیوں پڑے گئے ہیں؟۔۔ہم نے ان کاکیا بگاڑا ہے” اپنے ہاتھ پر پنجوں کی جلن کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے خود سے سوالات کئے۔جو ہماری سمجھ سے بالا تر تھے۔
کوؤں کی جانب دیکھا تو وہ دوبارہ اُسی درخت پر بیٹھ کر ہماری جانب ہی دیکھے جا رہے تھے ۔ اتنی بے رحمی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اُن کا دل نہیں بھرا تھا۔ ہمارے تحت الشعور سے تو مفتوحہ ہونے کی طمطراقی کافور ہو چکی تھی، جو کچھ دیر قبل ہم نے اپنی اہلیہ کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔
اچانک ہمارے ذہن میں ایک سوال بجلی کی کوند کی مانند ابھرا ۔ کہیں یہ ہماری بیگم صاحبہ کی سازش تو نہیں ہے ،کہیں یہ کوئے اُن کے پالتو اور سدھائے ہوئے تونہیں؟
کیونکہ اکثر ہم نے اُنھیں کوؤں،چڑیاوں، میناوں اور دیگر پرندوں کو دانہ پانی ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس خیال کے آتے ہی ہم نے واک کا پروگرام کینسل کیا اور واپسی کی ٹھانی۔ جدید دور کی ایجاد موبائل فون پر بیگم صاحبہ کو اپنے ارادے سے مطلع کیا اور گیٹ سے باہر آجانے کو کہا۔پارک کے گیٹ کے باہر بیگم ہمیں حیرت کی تصویر بنی دکھائی دیں اور حیرت زدہ انداز سے ہم سے گویا ہوئیں ،
“اب کیا ہو گیا آپ کو ”
“کچھ نہیں بس گھر چلتے ہیں “ہم نے بھی مختصرجواب دیا
کچھ توقف کے بعد اپنا نشان زدہ ہاتھ دکھاتے ہوئے ہم نے اپنی درد بھری داستان بیگم کے حوالے کر دی۔
اب ہمیں بیگم کے چہرے کے تاثرات میں فاتح ہونے کی طمطراقی واضح نظر آ رہی تھی۔
“پیچھے مڑ کر دیکھیں وہ دونوں ہمارے پیچھے آ رہے ہیں “اچانک بیگم نے کہا
ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا واقعی دونوں کوئے ہمارے عقب میں پرواز کر رہے تھے، جنھیں دیکھتے ہی ہماری سٹی گُم ہو گئی ۔
“آپ پریشان نہ ہوں اب وہ آپ کو پریشان نہیں کریں گے” بیگم نے مسکراتے ہوئے ہمیں تسلی دی،
یہ سُن کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی واقعی وہ ہمارے پیچھے پیچھے پرواز کر رہے تھے۔ لیکن اُن کی رفتار میں وہ برق بن کر گرنے والی بات نہیں تھی، جس کا مظاہرہ کچھ دیر قبل ان دونوں نے کیا تھا۔
“ہوں!تو اب سمجھ میں آیا کہ یہ آپ کی سازش تھی۔ ان دونوں کو آپ نے ہمارے پیچھے لگایا تھا”ہم نے بیگم سے وہ سوالات کر ہی ڈالے جو کچھ لحمے پہلے ہمارے ذہن کو پرا گندہ کئے ہوئے تھے۔
“ارے نہیں بھلا میں ایسا کیوں کرونگی ۔۔آپ بھی حد کرتے ہیں”بیگم نے پیار سے مسکراتے ہوئے ہمیں سمجھایا،
‘دراصل میں پرندوں کی نفسیات سے واقف ہوں ۔میں کافی عرصے سے ان جیسے پرندوں کی خدمت کر رہی ہوں ۔۔میرے خیال میں یہ دونوں کوئے آپ سے کچھ چاہتے ہیں ۔”
” اچھا جی۔۔ تو یہ بھی بتا دیجئے کہ یہ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے بیگم کا تمسخر اُڑاتے ہوئے سوال کیا ۔
” میں وثوق سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی” بیگم نے دونوں کندھے اُچکاتے ہوئے جواب دیا ،”لیکن یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ آپ سے کچھ چاہتے ہیں”
بیگم کے اس انکشاف سے کہ وہ پرندوں کی نفسیات کو سمجھتیں ہیں ہمیں بڑی حیرت ہوئی، کہ ہماری نفسیات سے زیادہ بیگم کو پرندوں کی نفسیات پر عبور حاصل ہے۔ ا س بات کا اندازہ ہمیں کوؤں کی پرواز کی رفتار سے ہو چکاتھا ۔دونوں کوئے اب ہمیں پریشان بھی نہیں کر رہے تھے بلکہ شریف بچوں کی طرح ہمارے عقب میں پرواز کر رہے تھے۔ جب ہم گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھے تو دونوں کوئے ہمارے سروں کے اوپر سے ہوتے ہوئے ہم سے آگے نکل کر ہمارے گھر کے سامنے والے درخت تک پہنچ گئے۔درخت پر بنائے اپنے گھونسلے پر پہنچ کر دونوں کووں نے ایک نظر ہم پر ڈالی اور پھرہم نے انھیں گھونسلے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
بیگم نے درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہم سے کہا۔” چلیں تھوڑی دیر کے لئے ہم اُس درخت کے نیچے جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں”۔
تجسس کے عالم میں بیگم کے ہمراہ ہم ا س درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے۔چند سیکنڈ کے بعد ہم نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا جسے ہم زندگی بھر نہیں بھُلا سکتے ۔جس نے ہماری حس باطنی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
دونوں کوئے گھونسلے سے باہر آئے۔ ایک کوئے کے پنجے میں ہمیں کوئی شے نظر آئی۔ اُس کوئے نے اُس شے کو ہماری جانب پھینکا۔ زمین پر ایک دھب کی آواز آئی۔ ہماری نگاہ جب اُس شے پر پڑی، تو ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ زمین پر پڑی ہوئی شے ان کووں کے ایک مرے ہوئے بچے کی لاش تھی ۔اہلیہ نے ایک نظر کوئے کے بچے کی لاش پر ڈالی اور پھر گردن اُٹھا کر درخت پر بیٹھے کوؤں کی جانب دیکھا۔
جب ہماری نظر بیگم پر پڑی تو اُن کی موٹی موٹی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ہم نے وجہ پوچھی تو وجہ تو نہیں بتائی بلکہ بھرائی ہوئی آواز میں مخاطب ہوئیں۔
“آپ اس بچے کی لاش کو اُٹھائیں، اور بہت ہی ا حترام کے ساتھ اس کو گڑھا کھود کر دفنا دیں۔”
بیگم نے اپنے آنسو وں کو دوپٹے سے پونچھتے ہوئے اپنی کہی ہوئی بات کی ہم سے تصدیق کروائی “دیکھا ۔۔میں آپ سے۔۔ کہہ رہی تھی نا ۔۔کہ یہ دونوں آپ۔۔ سے کچھ چاہتے ہیں”
“جی جی ! آپ بالکل درست کہہ رہی تھیں “ہمارے تصدیقی جملے میں افسردگی بھی شامل تھی۔
گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہم نے ایک صاف ستھری جگہ کا انتخاب کیا اور گڑھا کھودنے میں مصروف ہو گئے ۔گڑھے کو کھودنے کے دوران اچانک ہماری یادوں کے جھرونکے کھل گئے اور پندرہ سے بیس دن قبل کا ایک منظر ہماری آنکھوں کی اسکرین کے سامنے تھا۔
ہم اپنی گاڑی میں کراچی کی مصروف شاہراہ سے گزر رہے تھے ۔ ایک شخص کی لاش تپتی سڑک پر پڑی تھی ۔سڑک کاوہ حصہ خون آلود تھا۔ جہاں اس نا معلوم شخص کا سر کسی نا معلوم گاڑی نے کچل دیا تھا ۔ اس شخص کا کچلا ہوا سر اور بھیجا سڑک پر بکھرا پڑا تھا۔ ٹریفک جام ہو چکا تھا۔ ہر گاڑی کچھ وقفے کے لئے اُس جگہ پر آہستہ ہوتی اور آگے نکل جاتی۔ دوسری گاڑیوں کے بے حس سواریوں کی طرح ہم نے بھی گاڑی کی رفتار کو آہستہ کیا، ایک نظر تپتی سڑک اور خون آلود لاش پر ڈالی، اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آگے نکل گئے ۔
آج ہم کوے کے بچے کو دفنانے کے لئے دیوانہ وار گڑھا کھودے جا رہے تھے۔ ہماری آنکھوں سے بہنے والے آنسو مٹی میں جذب ہو رہے تھے۔ آج
بھی ہمارے سامنے ایک لاش پڑی ہوئی تھی۔۔ کواااااااااے کے بچے کی لاش۔۔ جوں ہی ہماری نظر کوئے کے بچے کی لاش پر پڑتی ہمیں اُس کا سر کچلا ہوا نظر آتا۔آج ہماری حس باطنی ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے۔ ہمیں ہمارے وجود سے سڑاند کی بُو آتی محسوس ہو رہی ہے۔۔ آج ہم اپنے پر ایک بوجھ محسوس کر رہے ہیں۔ آج ہمیں اپنا وجود ایک بوجھ لگ رہا ہے۔آج ہماری روح ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے۔ شائد یہ ہمارے ضمیر کا بوجھ ہے۔ یہ بوجھ ۔۔یہ بوجھ اب کب اُترے گا؟۔ ۔پتہ نہیں ۔۔کچھ پتہ نہیں کب اُترے گا ؟ شائد۔۔شائد حساب والے دن۔۔شائد حساب والے دن بھی نہیں۔