برطانیہ میں تاریخ کی نصابی کتب میں سابقہ سامراج کی دانشی بد دیانتی: سچ کے قلب میں موجود گہری کھائی

برطانیہ میں تاریخ کی نصابی کتب میں سابقہ سامراج کی دانشی بد دیانتی: سچ کے قلب میں موجود گہری کھائی

(ترجمہ: یاسر چٹھہ)

_____________________________________

(نوٹ: محترمہ مونی محسن کا یہ مضمون، جس کا یہاں ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، معروف برطانوی اخبار گارڈین میں مورخہ 31 اکتوبر 2016 کو شائع ہوا۔ یہ مضمون محترمہ مونی محسن کی دانشی امانت ہے (intellectual property)۔ ہمارا اس مضمون کا ترجمہ کرنے کا مقصد محض اردو پڑھنے والے طبقہ تک دنیا میں اہم موضوعات پر جاری بحثوں کو سامنے لانے تک محدود ہے۔)

_______________________________________

یہ بات جو میں بتانے لگی ہوں، پاکستان کے اہم شہر لاہور میں گزرے میرے بچپن کے دنوں کی بات ہے۔ ان دنوں کی بات جب میرے والدین نے ایک شخص کو اپنے ہاں ڈرائیور کی ملازمت پر رکھا۔ ان کا نام تھا، سلطان۔ یہ ریٹائرڈ فوجی تھے اور جہلم کے ایک نواحی گاؤں کے رہائشی تھے۔ یہ لگ بھگ ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کے خوش باش مزاج کے حامل انسان تھے۔ یہ ہمارے بیڈمنٹن کے کھیل میں جلد ہی ہمارا حصہ بننے لگ گئے۔ لیکن سلطان کی شخصیت میں جو سب سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات تھی وہ ان کی اطالوی زبان بولنے کی صلاحیت تھی۔ گو کہ یہ ٹوٹی پھوٹی، جوڑ توڑ کرکے بولی جانے والی اطالوی زبان تھی، پر تھی تو وہ بہرحال اطالوی زبان ہی۔ اس زبان کو سلطان نے اٹلی میں بطور جنگی قیدی کسی نا کسی طور سیکھا تھی۔ انہوں نے مجھے کم از کم تین لفظ اطالوی زبان کے سکھائے اور مجھے “سنورینا” کہہ کے پکارتے تھے۔

کئی عشرے برس گزر گئے جب میں نے اپنے بچوں کو سلطان ڈرائیور کے متعلق بتایا۔ وہ سلطان کے متعلق اس بات کو سن کر مارے حیرانی کے منھ میں انگلیاں ڈالے ہی رہ گئے۔ میرے بچوں نے کہا، ایک پاکستانی گاؤں کے باسی کا اٹلی میں جا کر جنگ لڑنے سے کیا مطلب؟ میں نے فوری طور پر واضح کرنے کی کوشش کی کہ سلطان تو اس وقت ایک ہندوستانی تھے، وہ بھلا اس وقت پاکستانی کیسے ہو سکتے تھے۔ بلکہ وہ تو بیس لاکھ کے قریب ان ہندوستانی فوجیوں میں سے ایک فرد تھے جو اتحادیوں کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں لڑنے گئے تھے۔ “نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیسی باتیں کرتی ہیں آپ بھی! کیا واقعتا اس طرح کا معاملہ تھا؟” اس جملے کے ساتھ بچوں کی تھمی سانسیں رواں ہوئیں۔

میرے بچے، (میرا مطلب ہے کہ میری سترہ سال کی بیٹی، اور 15 برس کا بیٹا) لندن ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے بھی ہیں۔ وہ اس لحاظ سے بڑے قسمت کے دھنی ہیں کہ انہیں یہاں لندن کے بہترین اسکول میسر رہے ہیں۔ ایسے اسکول جہاں دیگر عام طور پر میسر مضامین کے علاوہ موسیقی، ڈرامہ، آرٹ اور اسپورٹس کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں پر مبنی ایک گلدستہ انتخاب بھی رسائی میں تھا۔ ان اسکولوں میں ان کی ہم نصابی سرگرمیوں کی کلبوں میں عربی زبان و ادب، تانیثی تھیوری، فلکیات، ہمدردی اور انسیت کے تربیتی ماحول فراہم کرنے والی، اور لکڑی سے اشیاء تیار کرنے جیسی سرگرمیاں کرنے کی سہولیات دستیاب تھیں۔ جس وقت میں خود لاہور میں کانونٹ (Convent) اسکول کی طالبہ علم تھی، مجھے با ادب خاموشی سے سب کہیوں اور ان کہیوں کو سننا پڑتا تھا۔ میرے بچوں کے اندر لندن میں، البتہ، کسی بھی موضوع پر سوالات اٹھانے اور بحث و مکالمہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

لیکن ان کی اس ساری وسیع المشربی کی نمو کا خیال کرتے تعلیمی ماحول کے منظر نامے کی موجودگی کے باوجود بھی میرے بچوں کی آج تک کی تعلیم میں کہیں بھی ان کا برطانوی نو آبادیاتی ماضی سے آمنا سامنا نہیں ہوا؛ اور نا ہی کسی طور ہونے دیا گیا۔ یہاں تک کہ میری بیٹی اے لیول کے دوسرے سال میں تعلیم پا رہی ہیں۔ وہ اپنی 9 برس کی عمر سے تاریخ کو بطور مضمون پڑھتی آ رہی ہیں۔ لیکن ان سارے برسوں میں برطانوی سلطنت کے تاریخی وجود کے متعلق آگاہ کرنے والے کسی قریب ترین تصور کا تذکرہ، انہیں اپنے GCSE کے نصاب میں پہلی بار ملا۔ برطانوی سامراجیت کا یہ تذکرہ بھی اگر نصاب کے رستے میں کہیں سے آن پھٹکا، تو وہ جنگ عظیم دوئم کے سیاق و سباق کے منظر نامے کی وضاحت کی ذیل میں۔ ورسائے (Versailles) کی جنگ بندی معاہدے کے مطالعے کے دوران انہوں نے جانا کہ ان وقتوں میں کچھ ملکوں کی کئی ایک نو آبادیات ہوتی تھیں؛ اور شکست خوردہ جرمنی سے بطور سزا، اس کے زیر تسلط نو آبادیاتی علاقوں سے اسے محروم کر دیا گیا۔ بس اتنا سا نو آبادیاتی سلسلے کا ذکر! نا اس سے کچھ زیادہ، نا کچھ کم۔

گو کہ میری بیٹی نے شمالی افریقہ اور بحر الکاہل میں درندوں کو شرم دلا دینے والی جنگوں کے بارے کسی حد تک پڑھا، لیکن ان نصابی کتابوں میں ان 25 لاکھ ہندوستانیوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا جو جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کی طرف سے بہ رضا و رغبت لڑے مرے؛ نا ہی ان کتابوں میں ان 13 لاکھ ہندوستانیوں کا نام تک لیا گیا جو جنگ عظیم اول (2014 تا 2018) میں خدمات سرانجام انجام دیتے رہے۔ ان کتابوں کے اندر دوسری جنگ عظیم (1939 تا 1943) کے دوران ان 87 ہزار جان سے جانے والے ہندوستانی جوانوں کا کوئی حوالہ تک میسر نہیں۔ میری بیٹی کے ذہن میں اس چیز کا خفیف سا بھی تاثر و خیال موجود نہیں کہ کس طرح ہندوستان اور دوسری برطانوی نو آبادیات کے علاقوں کے لوگوں نے برطانیہ کے مفادات کے لئے لڑی گئی جنگوں میں اپنے تئیں اہم ترین کردار ادا کیا۔ یہ ہے سارا سیاق و سباق جو میری بیٹی کے اندر ہمارے پرانے ملازم ڈرائیور سلطان کی اطالوی زبان سے مانوسیت پر حیرانی کا موجب ہے۔

بلا تردید میرے بچے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کے آباء و اجداد کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی تقریبًا آدھی آبادی ایک وقت کے میں برطانوی محکوم رہی ہے۔ لیکن یہ سارا علم انہیں ان کے اسکول کی طرف سے تو ہر گز نہیں ملا۔ بلکہ یہ بات تو انہیں اپنے گھر سے پتا چلی۔ میرے گیارہ برس کے بیٹے کو اپنی جغرافیہ کی کتاب سے محض خالی خولی، تفصیلات سے تہی موجود واحد سطر میں یہ پتا چلا کہ افریقی ملک گھانا (جو انیسویں صدی کے برطانوی حکمران طبقہ کے تخیل و زبان میں ساحل زر کہلاتا تھا) کی موجودہ زمانے کی اقتصادی پسماندگی کی ایک وجہ اس پر روا رکھا گیا برطانوی تسلط ہے؛ اس ایک سطر سے میرے بیٹے کو پتا چلا کہ برطانیہ، گھانا کی ساری دولت کو چٹ کر گیا تھا۔ اب جبکہ وہ اپنے ثانوی تعلیمی دور میں ہیں، وہ آج کل ایک پرانے بوکر انعام یافتہ (Booker Prize) ناول The White Tiger از Aravind Adiga کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اپنی موجودہ تعلیمی ٹرم کے باقی ماندہ آدھے حصے کے لئے ان کی استانی صاحبہ نے میرے بیٹے کو ہندوستان کے متعلق ایک عدد کوئی سا اور ناول پڑھنے کا کہا ہے۔ ان استانی صاحبہ نے میرے بیٹے کو پڑھنے کے لئے ناولوں کی جو فہرست دی ہے ان میں رڈیارڈ کپلنگ کا ناول Kim، ای ایم فورسٹر کا A Passage to India، اور سلمان رشدی کا Midnight’s Children شامل ہے۔ میں فرض تو کر سکتی ہوں کہ ان ناولوں کے متنوں پر ان کی جماعت میں دوران بحث کچھ نا کچھ نوآبادیات کے متعلق بات تو ضرور چھڑنا چاہئے۔

لیکن اس راہ چلتے سیکھ جانے کی بات کی مثل یہ تعلیم جو کہ محض ایک فرد، یعنی ان استانی صاحبہ کے ذہن کا کار خوباں ہی تو ہے۔ یہ کسی طور پر بھی منظم و مروج نصاب کا حصہ نہیں۔ گزشتہ برس میری بیٹی، جو اپنے اے لیول کی جماعت میں آرٹ کی تاریخ کا مضمون اختیار کئے ہوئے ہیں، کو *Tate Britain (*سنہ1897 سے قائم شدہ آرٹ کا میوزیم ہے، مترجم) میں آرٹ اور سلطنت کی نمائش میں لے جائی گئیں۔ وہاں لے جانا میری بیٹی کی استانی صاحبہ نے ان کی جماعت کے علم شرقیات کے امتحانی پرچے کی تیاری کے لئے مناسب سمجھا۔ یہ استانی صاحبہ اپنے ایام جوانی میں سیاسی کارکن رہی تھیں۔ ان استانی صاحبہ نے اپنے خاص پس منظر کی رعایت سے برطانوی استبداد کی تاریخ پر جذبات سے بھرپور لیکچر بھی دیا۔ پر باضابطہ نصاب میں تاریخی سیاق و سباق کا فراہم کیا جانا کسی طور بھی مطلوب نا تھا۔ طلباء سے اتنی سی توقع اور تقاضا تھا کہ وہ جن جن فن پاروں کا مطالعہ کریں، ان کا صرف اوپری اوپری تکنیکی جائزہ پیش کریں۔ ان سے ہر گز اس طور سے تحقیق و مطالعہ کی توقع وابستہ نہیں کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی زیر مطالعہ فن پارے کی تخلیق اور اس کے منشئہ شہود پر آنے کے وقت کے سیاسی و سماجی پس منظر کے حوالوں کے متعلق جانیں، یا کھوج کریں۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے جنوبی ایشیاء سنٹر کی ڈائریکٹر اور ایتھروپالوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر مکولیکا بینر جی برطانوی طالب علموں کے متعلق ایک چشم کشا بات کرتی ہیں کہ یہ جب “یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو برطانوی سلطنت کی تاریخ سے مطلقا بے بہرہ ہوتے ہیں۔ اپنی تاریخ کے ایک انتہائی اہم دور سے بالکل نا بلد۔ جب موجودہ دور میں شام کے مسئلے کے متعلق کوئی بات چھیڑئیے، تو انہیں اپنے ملک کی جانب سے پچھلی صدی کے دوران مشرق وسطیٰ میں کردار کے متعلق ذرہ برابر بھی علم نہیں ہوتا۔ جب آپ ان سے موجودہ عہد کے سلگتے سیاسی موضوعات پر بات کریں، تو انہیں تاریخی سیاق سباق سے اس حد تک بھی آگہی نہیں ہوتی کہ اپنے ملک برطانیہ کے ماضی کا وہاں کے آج کے حالات سے منسلک تعلق کی کڑی سے کڑی جوڑ سکیں۔ بالکل اسی طرح، انہیں بین الاقوامی ہجرتوں کی تاریخ کی زیر زبر کا بھی پتا نہیں ہوتا۔ انہیں مطلقا کچھ علم نہیں ہوتا کہ دیگر لسانی گروہوں کے لوگ آخر برطانیہ میں ہجرت کر کے آئے ہی کیوں! انہوں نے اپنے اسکول میں اس متعلق کچھ بھی تو سیکھا پڑھا نہیں ہوتا۔ نتیجہ کے طور پر، یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوسرے سال کے دوران میرے ان طلباء کے اندر اپنے ملک کی تاریخ کے متعلق اپنی تہی دامنی کا احساس اپنے سامنے آن موجود ہوتا ہے، تو ان میں شدید غصہ عود آتا ہے۔”

میں اندازہ نہیں کر پائی کہ تاریخ کے اس بھلائے جانے کے عمل کے پس منظر میں کسی قسم کی شرمندگی کا احساس ہے، یا پھر کسی بدلہ لئے جانے کا خوف ہے، یا پھر اس کے پیچھے، عوام کو جو برطانوی سیاسی نظام میں رائے دہندگان کے درجے پر فائز ہیں، انہیں بے خبر اور ہاتھوں کا کھلونا بنائے رکھنے کا کوئی بد نیتی پر مبنی منصوبہ ہے۔ بہرحال، اس رویے کے پیچھے جو بھی منطق روا رکھی گئی ہو، یا کوئی منطق موجود ہو، برطانیہ میں یورپی یونین چھوڑنے کے متعلق چند ہفتے قبل ہونے والے ریفرنڈم کے دوران جس قسم کے نسل پرستانہ خیالات کا چرچا رہا، وہ فوری طور متقاضی ہے کہ تاریخ کے مضمون کی درسی کتب میں فوری طور پر اصطلاحات سازی کی جائے؛ اور اپنے سامنے درپیش کھائی سے واپسی کا رستہ دیکھا بھالا جائے۔ ان مجوزہ اصلاحات کے سر انجام دیئے بغیر یہ درسی کتابیں محض مسخ شدہ حقیقتوں کی ترجمانی کر رہی ہیں، یا اپنے قومی ماضی سے آنکھیں میچ لینے کے مترادف ہیں؛ یہ سیدھی سادی بد دیانتی کا مظہر ہیں۔ مجھے یاد پڑتی ہے کہ میں بہت ہنسا کرتی تھی جب برطانیہ میں میرے احباب مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ میں نے انگریزی کہاں سے سیکھی۔ (گو کہ میں پچھلے بیس سال سے اس ملک میں مقیم ہوں، لیکن میرے انگریزی بولنے کے لہجے میں پاکستانی رنگ آج تک موجود ہے۔) یورپی یونین سے برطانیہ کا اخراج کا راستہ لینے کے مابعد کا منظر نامہ میرے دل کو کچھ خاص نہیں بھاتا۔ کسی طور پر بھی کوئی ایسی بات کہنے کا مجھے کچھ خاص چاؤ بھی نہیں چڑھا کہ ملائشیا، نائجیریا، ہندوستان، اور کینیا کی تاریخ کسی انداز سے دنیا کی تاریخ کے درجے پر فائز ہے، اس وجہ سے شاید یہ جدید برطانیہ کے نصاب کا حصہ ہر گز نہیں بن پائی۔ بھئی، یہ برطانیہ کی اپنی تاریخ ہی تو ہے، کسی اور ملک کی تاریخ تو نہیں۔ مجھے رڈیارڈ کپلنگ، جو کہ سلطنت برطانیہ کے دور کے متنازع فیہ، لیکن اہم شاعر کا ایک اقتباس پیش کرنے دیجئے:

“وہ انگلستان کے بارے میں بھلا کیا علم رکھتے ہونگے، جن کی اس سے شناسائی صرف اس انگلستان سے ہے جو انہوں نے محض اپنی خالی نظروں دیکھا ہے؟”

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

2 Comments

  1. اپنی تاریخ کا نہ ہمیں شعور ہے اور نہ اب اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے. یہ بڑا المیہ ہے.

  2. it is very informative piece of writing,my request to admin is to post more and more translations,it is also requested to establish a TRANSLATION SECTION,.thanx

Comments are closed.