جگہیں،چہرے ، یادیں اور خیال (سفر نامہ، چوتھی قسط)

(نجیبہ عارف)

سوآس میں پہلا دن:
سوآس (SOAS)میں جین سیوری سے میری پہلی ملاقات ۲ جنوری کو گیارہ بجے ہونا تھی۔لیکن میں صبح جلد ہی اٹھ بیٹھی۔ پہلے دن یونی ورسٹی جانے اور وقت پر پہنچنے کے احساسِ ذمہ داری کے دباؤ تلے میں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ شاہدہ باجی سے اسٹیشن تک جانے کا راستہ پوچھا مگر وہ مصر تھیں کہ مجھے خود ٹیوب اسٹیشن تک چھوڑ کر آئیں گی۔ میرے لاکھ انکار کے باوجود انھوں نے مجھے بس پر جانے کی اجازت نہ دی اور اپنے گھر سے قریب ترین، فئیرلوپ انڈر گراؤنڈ اسٹیشن تک لے گئیں۔ وہاں جا کر انھوں نے میرے لیے ڈے ٹریول پاس خریدا، مجھے اسٹیشن سے لندن انڈر گراؤنڈ کا نقشہ اٹھا کر دیا اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ واپسی پر ایک دو اسٹیشن پہلے ہی انھیں فون کر دوں تاکہ وہ مجھے لینے آجائیں۔ پھر پاس کو مشین کی درز میں ڈال کر مجھے اندر دھکیل دیا۔
لیجیے جناب، یہ رہا لندن اور یہ رہی میں۔
اس لمحے سے پہلے تک میں مسلسل کسی نہ کسی کے دھیان، توجہ اور نگرانی کے حصار میں تھی۔ یہ پہلا لمحہ تھا جب مجھے اپنا راستہ خود ڈھونڈنا تھا اور میں اپنے سوا کسی کے ساتھ نہیں تھی۔ یہ احساس ایک طرف سرشار کر دیتا ہے تو دوسری طرف دل پر بوجھ بھی ڈال دیتا ہے۔
اندر جاتے ہوئے راستہ دو طرف کو مڑتا ہوا نظر آیا۔ دونوں طرف زینے بنے ہوئے تھے۔
میں نے گارڈ سے پوچھا،
’’سنٹرل لندن؟‘‘
اس نے دائیں ہاتھ کے زینے کی طرف اشارہ کر دیا اور میں آہستہ آہستہ پتھر کی پرانی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
فئیر لوپ اسٹیشن انڈر گراؤنڈ نہیں ہے بلکہ زمین کی سطح سے خاصا بلند ہے اور گاڑی ایک پل کے ذریعے سڑک کے اوپر سے گزرتی ہے۔ اس لیے اسٹیشن کا منظر کسی پرانی انگریزی فلم کے سین جیسا لگتا ہے۔ بادلوں سے ڈھکا ہوا آسمان ، کھمبے سے لگا ہوا گول گھڑیال، دیوار سے ٹیک لگا کر پڑے ہوئے لکڑی کے بنچ، سلیٹی پتھرو ں کا فرش، نیلے رنگ کے بورڈ پر ٹرینوں کے آنے جانے کے اوقات اور صرف دو متوازی پٹڑیاں،ایک شہر کے مرکزی علاقے کی طرف جاتی ہوئی اور دوسری مرکز سے حاشیے کی طرف آتی ہوئی۔دونوں طرف کے پلیٹ فارموں پر اکا دکا مسافر۔ یہ اسٹیشن مرکزی لندن سے تقریباً پون گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اس پر کبھی زیادہ ہجوم نہیں ہوتا۔ آج بھی صرف دو مسافر ٹرین کے منتظر تھے۔ ڈجیٹل بورڈ بتا رہا تھا کہ شہر کی طرف جانے والی ٹرین کے آنے میں دو منٹ باقی تھے۔ میں بنچ پر بیٹھ گئی اور پیچھے دیوار پر لگے انڈر گراؤنڈ کے بڑے سے نقشے کو سمجھنے میں مصروف ہو گئی۔ عین دو منٹ بعد ٹرین زوں سے آئی اور کھٹا کھٹ اس کے برقی دروازے کھلنے شروع ہوئے۔ اترنے والا تو کوئی بھی نہیں تھا ، چڑھنے والے بھی ہم تین ہی تھے اور ٹرین تقریباً خالی تھی۔ یہ سنٹرل لائن تھی جسے عرف عام میں ریڈ لائن بھی کہتے ہیں۔اس وقت صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے اور لندن کی پبلک ٹرانسپورٹ کے مصرو ف ترین اوقات (peak hours) ختم ہو چکے تھے۔ اس دورانیے کو اوف پیک آورز (off-peak hours) کہتے ہیں۔ان اوقات میں نہ صرف ٹرین میں نشست حاصل کرنا آسان ہوتا ہے بلکہ کرایہ بھی مصروف ترین اوقات کی نسبت کم ہوتا ہے۔ ساڑھے نو بجے صبح سے چار بجے سہ پہر تک یہی کیفیت رہتی ہے اور چار سے سات بجے شام تک دوبارہ مصروف ترین اوقات کی شرائط لاگو ہو جاتی ہیں۔
تین سال پہلے جب میں ایک ہفتے کے لیے لندن آئی تھی تو انڈر گراؤنڈ ٹرینوں کے نظام سے خاصی واقفیت ہو گئی تھی اس لیے کچھ نیا نہیں لگ رہا تھا لیکن اس بار یہ احساس نیا تھا کہ اب کے یہ نظام نسبتاً زیادہ دیر تک مددگار رہے گا۔مجھے فئیر لوپ سے چودہ اسٹیشن چھوڑ کر ہولبورن اترنا تھا اور یہ تقریباً چالیس منٹ کا راستہ تھا۔ چالیس سے اکتالیس یا بیالیس تو ہو سکتے یا کبھی کبھی اڑتیس یا انتالیس منٹ بھی لگتے تھے لیکن اس سے زیادہ فرق کبھی نہیں پڑا۔
ہولبورن سے رسل سکوائر صرف ایک سٹاپ کے فاصلے پر ہے لیکن یہاں سنٹرل لائن سے اتر کر پکیڈلی لائن (بلیو لائن)تک جانے کے لیے ایک طویل برقی زینہ طے کرنا پڑتا ہے۔ پکیڈلی لائن انڈر گراؤنڈ کے غالباً آخری نچلے درجے میں چلتی ہے۔ اسی لیے جب میں رسل سکوائر پر اتری ، اور مسافروں کے ہجوم میں خود کار طریقے سے پلیٹ فارم سے باہر نکلی تو خود کواوپر جانے کے لیے نصب دو بڑی بڑی لفٹوں کے سامنے کھڑا پایا۔ دونوں کے سامنے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پہلے بائیں طرف کی لفٹ نمبر ایک آنے والی تھی، چنانچہ لوگوں کی کوشش تھی کی اس کے سامنے جگہ مل جائے لیکن بہت سے لوگ یہ اندازہ کر کے کہ پہلی لفٹ میں جگہ ملنا مشکل ہوگا، لفٹ نمبر دو کے سامنے بھی جمع ہو رہے تھے۔ لفٹ آئی اور اس کے دروازے کھلے تو اندر کھڑے ہوئے لوگوں کی تین قطاریں نہایت منظم طریقے سے عقبی دروازے سے باہر نکلتی ہوئی دکھائی دیں۔ ایسی ہی تین قطاریں اندر داخل ہوئیں اور عقبی دروازے کی طرف رُخ کر کے کھڑی ہو گئیں۔ نہ کوئی دھکم پیل، نہ کوئی جلد بازی، نہ نفسا نفسی۔ ذرا عجیب عجیب سا لگا۔ میں بھی درمیان کی قطار میں کھڑی ہو گئی۔ جب لفٹ اوپر جا کر رکی اور اعلان ہونے لگا کہ دروازوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور اپنے ٹکٹ تیا ررکھیں ، تو میں نے بھی ٹریول پاس بیگ سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا ۔
لندن یونی ورسٹی کے اسکول اوف اورئینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز کا جو پتا میرے پاس تھا، اس پر رسل سکوائر لکھا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب میں اسٹیشن سے باہر نکلوں گی تو ایک بڑا سا چوک نظر آئے گا اور اس کے ارد گرد کہیں ایک بڑی عمارت ہوگی جس پر جلی حروف میں SOASکا بورڈ لگا ہوگا۔تین سال پہلے بھی میں ایک مرتبہ یہاں آچکی تھی لیکن تب اسد میرے ساتھ تھا اور مجھے راستہ ڈھونڈنے اور یاد رکھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔اب کے میں جو اسٹیشن کے سرخ پتھروں والے محرابی دروازوں سے باہر نکلی تو خود کو ایک پتلی سی سڑک پر پایا جس کے دونو ں طرف سڑک سے بھی زیادہ چوڑے چوڑے پتھریلے فٹ پاتھ بنے ہوئے تھے اوربالکل سامنے لندن کے مشہور گروسری اسٹور ٹیسکو (Tesco) کا بورڈ نظر آرہا تھا۔ ایک دو لوگوں سے پوچھا لیکن اتفاق سے میرا انتخاب غلط نکلا۔ ان میں سے کوئی بھی سوآس کی عمارت اور اس کے محل وقوع سے واقف نہ نکلا۔ میں نے بغیر کسی اندازے کے سڑک پار کی اور سامنے کی گلی میں گھس گئی اور ناک کی سیدھ میں چلنا شروع کر دیا۔ مگر کہیں کسی ایسی عمارت کے آثار نظر نہ آئے جس کی تصویر میرے حافظے میں محفوظ تھی۔ آخر کار میں نے راستہ چلنے والوں کوغور سے دیکھنا شروع کیا تاکہ کسی کے طالب علم ہونے کا گمان ہو تو اس سے پتا پوچھوں۔کئی چینی، ایشین اور یورپین طالب علم نما راہگیروں سے پوچھتے پچھاتے جب میں تقریباً چالیس منٹ کے بعد سوآس کی کالج بلڈنگ کے سامنے پہنچی تو سوا گیارہ بج رہے تھے۔ ابھی مجھے جین سیوری کو تلاش کرنا تھا۔
جین سے فیلو شپ کے سلسلے میں کئی مہینے سے برقی ڈاک کے ذریعے رابطہ رہا تھا۔میرے ذہن میں اس کی ایک خاص تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔ جین نے مجھے یہاں آنے سے پہلے تفصیل سے تمام ہدایات لکھ بھیجی تھیں۔ اس نے تو سوآس کی عمارت اور اس کے محل وقوع کے آن لائن نقشے کا لنک بھی بھیجا تھا۔ عمارت میں داخل ہو کر استقبالیے سے رجوع کیا اور انھیں بتایا کہ مجھے جین سیوری سے ملنا ہے۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر انھوں نے مجھے ملاقاتی(visitor) کی پرچی تھمائی اور یہ پرچی دیکھ کر اونچے اسٹول پر بیٹھے ہوئے طویل قامت ، سیاہ فام پہرے دار نے نہ صرف اٹھ کر اپنے کارڈ کی مدد سے داخلے کا مشینی راستہ کھول دیا بلکہ مجھے چوتھی منزل پر جین کے کمرے کا محل وقوع بھی سمجھا دیا اور اس کمرے کے قریب کھلنے والی لفٹ کی طرف بھی اشارہ کردیا۔ میں پورے ساڑھے گیارہ بجے جین کے کمرے میں داخل ہو گئی۔
پہلا کمرہ رحیمہ بیگم کا تھا۔ رحیمہ بیگم چوڑے چکلے، شگفتہ چہرے والی بوٹے قد اور قدرے بھاری جسم کی نوجوان لڑکی تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور وہ بہت گرم جوشی سے مجھے ملی۔آواز سن کر پچھلے کمرے سے جین بھی اٹھ کر آگئی۔ میرے تصورات کے برعکس وہ انتہائی دھا ن پان سی، تیکھے نقوش کی خاتون تھی۔ ابتدائی خیر مقدمی کلمات کے بعد اس نے ایک دو فون کیے اور پھر بہت ندامت سے معذرت کرنے لگی کہ ابھی تک میرے دفتر کی چابی اسے حاصل نہیں ہو سکی اور اگر میں برا نہ مانوں تو ایک دو دن تک اسی کے کمرے میں مجھے ایک کمپیوٹر اور میز کرسی فراہم کر دی جائے۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ پھر جین نے ایک ایک کر مجھے ان تمام سہولیات سے آگاہ کیا جو سوآس کی جانب سے مجھے مہیا کی جانے والی تھیں۔ ان میں پرنٹ، سکین اور فوٹو کاپی کی لامحدود سہولت کے ساتھ مفت لوکل اور انٹر نیشنل فون کی سہولت بھی شامل تھی۔ لیکن ان سب سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے میرے پاس سوآس کا سٹاف کارڈ ہونا ضروری تھی۔ چناں چہ جین اور میں سب سے پہلے نچلی منزل پر واقع لائبریری تک گئے جہاں جین نے میری تعیناتی کا خط دکھایا اور پندرہ منٹ کے اندر اندر وہیں میری تصویر کھینچ کر مجھے ایک عدد سٹاف کارڈ فراہم کر دیا گیا۔ یہ کارڈ گویا کھل جا سم سم کا منتر تھا۔ عمارت میں داخلے سے لے کر لائبریری سے کتاب حاصل کرنے، اور بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ پورے یو کے کی تمام یونی ورسٹیوں کی لائبریری تک رسائی کے لیے یہی کارڈ کارآمد ثابت ہوگا۔
سٹاف کارڈ کے بعد اگلی باری سوآس کے حوالے سے میرے برقی پتے کی کلید (password) مقرر کرنے کی تھی۔ یہ برقی پتا میرے یہاں آنے سے پہلے ہی تیار کر لیا گیا تھا۔ چناں چہ جین مجھے لے کر عمارت کی سب سے نچلی، زیر زمین منزل (basement) میں واقع آئی ٹی سیکشن میں آگئی جہاں میں نے اپنی مرضی سے ایک کلید مقرر کرلی۔ یہ گویا دوسرا منتر تھا کیوں کہ اس پتے سے میں نہ صرف یونی ورسٹی کی عمارت میں جا بجا پڑے مختلف کمپیوٹرکھول سکتی تھی بلکہ فوٹو کاپی مشینیں، سکینر اور پرنٹر بھی استعمال کر سکتی تھی۔ لائبریری کی آن لائن سہولتوں تک رسائی کے لیے بھی مجھے اس پتے کی ضرورت تھی۔ اس کی مدد سے میں گھر بیٹھے لائبریری کی کتاب اپنے پاس رکھنے کی مدت بڑھوا سکتی تھی،کسی خاص کتاب کے بارے میں درخواست کر سکتی تھی، ان مجلوں کے متن تک رسائی حاصل کر سکتی تھی جو صرف سوآس کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے مخصوص ہیں اور ایسے ہی کئی اور کاموں کے لیے یہ برقی پتا مفید ثابت ہوتا رہا۔ یہی پتا یونی ورسٹی کی ویب گاہ پر میری شناخت تھا اور ا س کی مدد سے کوئی بھی میرا نام و نشان ڈھونڈ سکتا تھا۔
سٹاف کارڈ اور برقی پتے کی یہ مرکزیت اور انفرادیت نہایت کارآمد ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ یونی ورسٹی کے اربابِ اختیار کو اپنے ا سٹاف اور طالب علموں کے بارے میں مسلسل معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ کون کس وقت یونی ورسٹی کی عمارت میں داخل ہوا، کتنے بجے لائبریری میں گیا، کتنے کاغذ پرنٹ کیے، کتنے صفحات فوٹو کاپی یا سکین کیے گئے، سکین کیے ہوئے صفحات برقی ڈاک کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں، چناں چہ یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس نے کیا سکین کیا۔ ایک طرف تو افراد کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری ہو تی ہے اور دوسری طرف انتظامیہ کو اپنا کنٹرول قائم رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ ایسا کنٹرول ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا اور نہ محسوس ہوتا ہے۔ ہر شخص خود کو مکمل طور پر آزاد سمجھتا ہے اور اپنی آزادی اور اختیار کو استعمال کر سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کسی بھی وقت یہ آزادی ایک مسلسل نگرانی کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ مگر میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جب عملی طور پر ایسی کوئی صورت پیش آئی ہو؛ بلکہ یونی ورسٹی کے ہر درجے کے سٹاف کا مجموعی رویہ بھرپور تعاون اور باہمی امداد کے اصول سے مزین نظر آیا۔
جب یہ دو مرحلے طے ہو گئے تو جین ، جو اسی دوران فون کر کر کے میرے کمرے کی چابی حاصل کر چکی تھی، مجھے ساتھ لے کر کالج بلڈنگ کی چوتھی منزل کے ایک کونے پر واقع کمرہ نمبر ۴۴۰۵ میں پہنچ گئی۔یہ نسبتاً بڑا کمرا تھا ۔ یہ کمرا پبلک انٹر نیشنل لا کے پروفیسر عیائین سکوبی (Iain Scobbie) کاتھا جن کی تحقیق و تدریس کا خصوصی موضوع مسئلہ فلسطین و اسرائیل ہے۔ایک کونے میں ان کی میز کرسی لگی تھی اور دیواروں پر لگی شیلفوں میں قانون کی موٹی موٹی کتابوں کے ڈھیر لگے تھے۔ دوسری طرف تین لمبی میزیں جڑی ہوئی تھیں جن میں سے ایک میرے لیے تھی۔ باقی کی دو میزیں خالی تھیں مگر پروفیسر صاحب کے ریسرچ اسسٹنٹ کبھی کبھی آکر کوئی کام کر لیتے تھے۔
جین نے جلدی جلدی میری میز درست کی، کمپیوٹر اور اس کے اجزا کو درست طور پر جمایا، ایک ٹوکری میں کاغذ، کاپیاں، قلم ، پنسلیں اور دیگر لوازمات ڈھیر کیے، ساتھ رکھے لاکر کی چابی تالے میں ڈالی اور مجھے اپنی ذاتی کلید استعمال کر کے کمپوٹرکھولنے کی ہدایت دی تاکہ اسے اطمینان ہو جائے کہ میری رسائی یونیو رسٹی کے مر کزی نظام تک ہو گئی ہے۔ یہ اطمینا ن کر لینے کے بعد وہ پھر مجھے ساتھ لے کر باہر نکل آئی۔ کمرے کی چابی میرے حوالے کی اور عمارت کی ہر منزل پر رکھے، پرنٹر ، سکینر اور فوٹو کاپی مشینوں کے استعمال کا طریقہ سمجھایا۔ پھر اس نے مجھے وہ کمپیوٹر روم دکھائے جہاں میں کسی بھی وقت کمپیوٹر استعمال کر سکتی ہوں۔ آخر میں ہم تیسری منزل پر واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچے جسے کھولنے کے لیے تالے پر ایک خفیہ نمبر دبانا پڑتا ہے۔ یہ کمرا صرف اساتذہ کے لیے مخصوص ہے۔ ڈاکیا ہر روزیہاں آ کر نہ صرف ہر استاد کے مخصوص خانے میں اس کی ڈاک رکھ دیتا ہے بلکہ اگر کسی نے کوئی خط بھیجنا ہو تو وہ بھی ایک مخصوص ٹوکری میں رکھ دیا جاتا ہے اور ڈاکیا یہیں سے وہ خط لے جاتاہے۔اس کمرے کو ایکوئپمنٹ روم (Equipment Room) یعنی آلہ خانہ کہتے ہیں اور یہاں پرنٹر، سکینر اور فوٹو کاپی مشین بھی موجود ہے۔ جین نے مجھے تالے کا خفیہ نمبر بتاتے ہوئے کہا کہ باہر رکھی ہوئی مشینیں چوں کہ طلبہ اور اساتذہ دونوں کے استعمال میں ہوتی ہیں اس لیے اکثر انھیں استعمال کرنے والوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ایسے میں میں ضرورت پڑنے پر ان مشینوں کا استعمال کر سکتی ہوں جو صرف اساتذہ کے لیے مخصوص ہیں۔
آخر کار ہم واپس جین کے کمرے میں پہنچے جہاں اس نے مجھے تحفے کے طور پر سوآس کے نشان (logo) والا ایک کپڑے کا تھیلا اورکارڈ رکھنے کا البم دیا۔ میرے استفسار پر کہ لندن میں پرانی کتابوں کی دکانیں کہاں ہیں اور برٹش لائبریری یہاں سے کتنی دور ہے، جین نے اپنی دراز کھولی اور لندن کے گلی کوچوں کے مفصل نقشوں پر مشتمل اپنی ایک کتاب مجھے مستعار دے دی،مجھے فیلو شپ کی حدود وقیود سے آگاہ کیا اور میں پوری طرح مطمئن ہو کر اپنے کمرے میں آ گئی۔