صنف (Gender)کی حیاتیاتی بنیادیں اور ارتقا

ہمارا بنیادی نظام تعلیم
ٖٖفیاض ندیم ، صاحب مضمون

( فیاض ندیم )

سماجی لحاظ سے جنس (sex)اور صنف (Gender) دو مختلف معانوں میں استعمال ہونے والی اصطلاحات ہیں۔ جنس کا تعلق نر اور مادہ کے حیاتیاتی اختلاف سے ہے۔ مثلاََ جنسی طور پر مادہ اور نر کی جسمانی ساخت، اُن کے ہارمونز، کروموسومز اور تولیدی اعضأ وغیرہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ صنف کا تعلق سماجی خصوصیات سے ہے۔ صنف کی تشکیل میں جنس کاکردار پرائمری حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کی ہئت کی تشکیل میں سماجی عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی بھی فرد کی جنس اس کی پیدائش کے وقت متعین ہو جاتی ہے اور زندگی بھر تبدیل نہیں ہوتی، لیکن صنف میں وقت کے ساتھ تبدیلی ممکن ہے۔ مثلاََ مماثل جڑواں بچے اپنی بیالوجی میں تو مماثل ہو تے ہیں لیکن ان میں مختلف حالات میں پرورش پانے کی وجہ سے صنفی خصوصیات میں تفریق ممکن ہے۔
ماضی میں صنف کے لحاظ سے لوگ بہت واضح ہوتے تھے۔ نر جنس کی صنف اور مادہ جنس کی صنف سے متعلق افعال ، کردار اور خصوصیات متعین ہوتی تھیں۔ اگر ان خصوصیات میں کسی قسم کا تغیر دیکھنے میں آتا تھا تو اسے متغیر صنف کہا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ دور میں صنفی تغیرات کے علم میں اضافے کے ساتھ ان کے تعین میں پیچیدگی نمایاں ہوتی گئی ہے۔اور اصناف محض دو مختلف اقسام کی بجائے ایک تسلسل میں دیکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا اگر نر میں تانیثی خصوصیات موجود ہیں تو انہیں پہچان ملے گی اور اگر مادہ میں تذکیری خصوصیات نمایاں ہیں تو اُن کو بھی کیٹیگرائز کیا جائے گا۔

حیاتیاتی اعتبار سے جنس اور صنف میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ لیکن سماجی اعتبار سے جنس صنفی رویے کا باعث بنتی ہے۔ صنف کا انحصار دو حیاتیاتی عناصر پر ہے۔ ایک ہارمونز اور دوسرے کروموسومز۔ ہارمونز ایسے کیمیائی مادے ہیں جو غدودوں سے خارج ہوتے ہیں اور پورے جسم میں خون کے ذریعے گردش کرتے ہیں۔ ان کا عمل صرف ان کے لئے مخصوص خلیوں پر ہی ہوتا ہے اور ان خلیوں کو ان کے ٹارگٹ سیلز کا نام دیا جاتا ہے۔ نر اور مادہ میں ایک ہی طرح کے ہارمونز کا افراز ہوتا ہے لیکن دونوں جنسوں میں ان ہارمونز کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ اور اسی طرح ان ہارمونز کے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں۔
ٹیسٹوسٹیران ایک جنسی ہارمون ہے اور یہ نر میں مادہ سے زیادہ خارج ہوتا ہے۔لہٰذا اسے نر ہارمون بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا کسی فرد کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں نشوونما اور رویے دونوں پر اثر ہوتا ہے۔ ساتویں ہفتے کے دوران نر اعضا کی نشوونما اس ہارمون کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اس ہارمون کا دوسرا اثر دماغ پر ہوتا ہے۔ دماغ کا ایک حصہ ہائپوتھیلمس ہے۔ یہ ہارمون ہائپوتھلمس پر اثر انداز ہوتا ہے اور فرد کے اندر نر رجحانات کا باعث بنتا ہے۔ ٹیسٹوسٹیران کا اثر ٹھیٹھ نر خصوصیات جیسا کہ جارحیت، مقابلہ ، اشیا کی ان کی جغرافیائی تعلقات کی بصری تناثر (Visio-spatial) میں پہچان اور جنسیت کے شدید اظہار کا رجحان وغیرہ کو نمایاں کرتا ہے۔۔ دماغ کے زیریں جانب ہائپوتھیلمس کا ایک حصہ جنسی دو شکلہ مرکز SDN(Sexually Dimorphic Nucleus) کہلاتا ہے۔ یہ نر میں مادہ کی نسبت کافی بڑا ہوتا ہے۔ ٹیسٹوسٹیران SDNکی بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس وجہ سے یہ لڑکوں میں لڑکیوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ دماغ کا بڑا حصہ سیریبرم دو نصف کرّوی حصوں میں منقسم ہوتا ہے۔ تمام انسانوں میں دماغ کی بائیں طرف زبانی(Verbal) اور دائیں طرف غیر زبانی اور مکانی (Non Verbal and spatial) مہارتوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ 1995 میں شیوٹز اور اس کے ساتھیوں نے گفتگو کے دوران مردوں اور عورتوں کے دماغ کے MRI- Scanes کو جانچا اور یہ بات سامنے آئی کہ گفتگو کے دوران عورتوں کے دماغ کے دونوں نصف کرّ ے استعمال ہوتے ہیں جبکہ مرد وں میں صرف بایاں کرہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مردوں میں دماغ کے دونوں کرے عورتوں کی نسبت اپنے افعال میں ایک دوسرے سے آزادانہ کام کرتے ہیں اور یہ کہ عورتوں میں دونوں کرّے اپنے افعال میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اور تجربات نے یہ بھی ثابت کیا کہ مردوں میں یہ مظہر ٹیسٹوسٹیران کے زیرِِ اثر ہوتا ہے۔
ٹیسٹوسٹیران کے ان اثرات کی تصدیق جانوروں پر تجربات کے ذریعے کی گئی۔ کواڈینگو Quadango (1977) نے اپنے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مادہ بندر جنہیں پیدائش سے پہلے ماں کے بطن میں ٹیسٹوسٹیران کی زیادہ خوراک دی گئی تھی، اُن کا رویہ دیگر مادہ بندروں سے زیادہ کرخت، اور پھرتیلا تھا۔ 1966 میں ینگ نے نر اور مادہ چوہوں کے صنفی رویے کو ہارمونز کے ذریعے تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ ایسے مادہ چوہے جن کو اُن کی نشوونما کے ابتدائی دنوں میں نر ہارمونtestosteron دیا گیا اُن میں تذکیری خصوصیات زیادہ غالب تھیں جبکہ نر چوہے جن کو مادہ ہارمونز دیے گئے تھے ان میں تانیثی خصوصیات زیادہ پروان چڑھنا شروع ہو گئیں اور یہ تبدیلی نا قابلِ تحریف تھی۔ ینگ نے اپنے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ یہ ہارمونز دماغ میں جنسی دو شکلہ مرکزے SDN کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ چونکہ یہ تجربات تجربہ گاہوں میں کئے گئے تھے لہٰذا ان کی قدرتی ماحول میں واجبیت پر سوال ہو سکتا ہے۔ جیسے تجربہ گاہ میں ہارمون کو ایک ہی خوراک (Dose) میں زیادہ مقدار میں انجیکشن کے ذریعے دے دیا جاتا ہے، جبکہ قدرتی ماحول میں ہارمونز ضرورت کے مطابق وقفے وقفے سے خارج ہوتے ہیں۔
ہمیں جانوروں پر کی گئی ریسرچ کو انسانون پر لاگو کرنے سے پہلے بہت سی باتوں کو مدّنظر رکھنا ہوگا۔ یہ اس لئے کہ انسانی فزیالوجی ہو بہو جانوروں جیسی نہیں ہے اور اسی طرح معاشرتی اعتبار سے بھی انسان دوسرے جانوروں سے بہت پیچیدہ ہے۔ اس کا رزلٹ یہ ہوتا ہے کہ تجربہ گاہوں میں کئے گئے تجربات اصل صورتِ حال میں ویسے نتائج فراہم نہیں کرتے ۔
تاہم ہنس 1982 کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے نتائج کو انسانوں پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ہنس نے اُن ماؤں کو جن کے بطن میں مادہ بچے پرورش پا رہے تھے اسقاطِ حمل سے محفوظ کرنے کے لئے انہیں انجیکشن کے ذریعے نرہارمون دیے۔ ایسے مادہ بچے اپنے رویوں میں نارمل بچوں سے زیادہ جارحانہ، اور مذکر خصوصیات کے حامل تھے۔ ہنس نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ بطن میں اضافی ٹیسٹوسٹیران کی موجودگی پیدا ہونے والے بچے کی آئیندہ زندگی کے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایسی بچیاں جنہیں پیدائش سے پہلے ماں کے بطن میں نر ہارمونز دے جائیں اُن کی دلچسپیاں لڑکوں جیسے کاموں میں زیادہ ہوتی ہیں۔اسی طرح نر بچوں پر مادہ ہارمونز (Estrogen, Progestron)کی زیادہ مقدار کے اثرات پرورش پانے والے بچے کی آئندہ زندگی کے رویوں کو متاثر کرتے ہیں اور ایسے بچوں پر تانیثیت کا غلبہ رہتا ہے۔ لیکن ایسے تجربات بہت کم ہوئے ہیں، کیونکہ جب بچہ اپنی ماں کے بطن میں پرورش پاتا ہے تو مادہ ہارمونز کا افراز تو ہر حالت میں ہوتا ہے چاہے پرورش پانے والا بچہ مادہ ہو یا نر۔ لیکن مادہ ہارمونز کی مقدار کو کم یا زیادہ کر کے اس کے اثرات کا بچے کی مستقبل کی زندگی کے رویوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کوئی مطالعہ ابھی تک زیرِ بحث نہیں آیا۔ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ نر ہارمونز کی
غیر موجودگی یا کمی بچے کی آئندہ زندگی کے رویوں کو متاثر کرتی ہے۔ ایک بچہ جو جینیاتی طور پر نر ہے، لیکن اگر اسے ڈویلپمنٹ کے دوران ٹیسٹوسٹیران کی کمی کا سامنا ہو تو اس کے اندر تانیثی رویے غالب رہیں گے۔ اُس کے بولنے کا انداز لڑکیاناں سا ہوگا، چلنے اور حرکات میں بھی تانیثیت نمایاں ہوگی۔ لیکن اگر ابتدائی پرورش کے بعد کسی بھی موقع پر بچے پر مادہ ہارمون کا اطلاق کیا جائے تو اس کے اثرات بلوغت کے وقت اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
صنفی خصوصیات پرجو دوسرا فیکٹر اثر انداز ہوتا ہے و ہ کروموسامز کا فرق ہے۔ ایک نارمل انسانی خلیے میں کروموسومز کے 23 جوڑے ہوتے ہیں۔ کروموسوم ایک لمبا، انتہائی باریک دھاگہ نماعضویہ ہے جو دو مادوں ڈی این اے اور پروٹینز سے بنا ہوتا ہے۔ DNA وراثتی مادہ ہے اور اس کا ایک ٹکڑا جو مخصوص پروٹین بنانے کا کوڈ رکھتا اسے جین کہتے ہیں۔ یہ پروٹینز ہی ہماری خصوصیات کا باعث بنتی ہیں، کیونکہ ہمارے جسم کا ہر عمل ان کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ ہر خلیے میں ہزاروں طرح کی پروٹین بنتی ہیں جو خلیوں میں ہونے والے کیمیائی تعاملات کو بھی کنٹرول کرتی ہیں اور خلیوں کی ساخت میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ یہ سبھی پروٹینز اپنے اپنے جینز کے مطابق خلیوں کے اندر بنتی ہیں۔ ہر کروموسوم کے پاس مختلف طرح کے جینز ہوتے ہیں جو نشوونما کے مختلف پہلووں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
کروموسومز کے 22 جوڑے نر اور مادہ انسانی خلیوں میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں آٹوسومز کہا جاتا ہے۔ فرق کروموسومز کے تیئسویں جوڑے میں ہوتا ہے اور یہ جوڑا جنسی کروسومز (Sex Chromosomes)کا جوڑا کہلاتا ہے۔ یہی جوڑا انسانوں میں جنس کا تعین کرتا ہے۔ کروموسومز اپنی شکل و صورت میں کم و بیش انگریزی حروف X اور Y جیسے ہوتے ہیں۔ جنسی کروموسومز مادہ میں دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں لہٰذا اس صورتِ حال کو ہم XX سے ظاہر کر سکتے ہیں جبکہ نر انسان میں ایک کروموسوم تو X جیسا ہی ہوتا ہے، جبکہ دوسرے کی شکل مختلف ہوتی ہے اور انہیں ہم Y سے ظاہر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا نر میں جنسی کروموسومز کا جوڑا XY سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ Y کروموسوم پر ایک جین SRY (Sex Determining Region of Y-Gene) کہلاتا ہے۔ نشوونما کے چھٹے ہفتے میں SRY جین بچے میں جنسی اعضا یعنی ٹیسٹیز کی نشوونما کرواتا ہے۔ اگر یہ جین موجود نہ ہو جیسا کہ مادہ بچے میں Y کروموسوم کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوگا تو ٹیسٹیز کی بجائے اووریز یعنی مادہ جنسی اعضا بننا شروع ہو جائیں گے۔ بعض اوقات Y کروموسوم پر SRY جین موجود نہیں ہوتا یا کسی وجہ سے اپنا فعل انجام نہیں دے پاتا تو ایسا بچہ XY کروموسومز رکھنے کے با وجود لڑکی کی خصوصیات کے ساتھ جوان ہوتا ہے، اس کے بعد عورت کی صورت میں بڑھوتری پاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے اور لوگوں کے لئے مادہ ہی نظر آتے ہیں لیکن یہ بار آور نہیں ہوتے۔
کوپ مین (1991) نے اپنے ایک تجربے کے ذریعے معلوم کیا کہ اگر جینیاتی طور پر چوہے کے مادہ زائیگوٹ (نر اور مادہ جنسی خلیوں کے ملاپ سے بننے والا جاندار کا پہلا خلیہ) میں SRY جین پیوند کردیا جائے تو یہ نر چوہے کے طور پر پرورش پا جائے گا۔ اس دریافت کا سب سے متنازعہ استعمال 1992 میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے کیا جب انہوں نے SRY جین کو صنف کی پہچان کے طور پر استعمال کیا۔ ایسے ایتھلیٹس جن میں SRY جین موجود تھا اور ان کی صنف اس جین کے متحرک نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں جیسی تھی، انہیں مادہ کھلاڑیوں کے طور پر کھیلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسے افراد جن میں نارمل کروموسومز نہیں ہوتے وہ نارمل کروموسومز والوں سے معاشرتی، جسمانی اور ذہنی اعتبار سے مختلف نشوونما پاتے ہیں۔ اس کی مثالیں ٹرنر سینڈروم(Turner Syndrome) اور کلائین فیلٹر (Klinefelter Syndrome) وغیرہ ہیں۔
ٹرنر سینڈروم (XO) میں ایک ایسی مادہ کی نشوونما ہوتی ہے جس میں صرف ایک X کروموسوم ہوتا ہے۔ اور ایسا اتفاق 5000 پیدائشوں میں ایک ہو سکتا ہے۔ ایک X کروموسوم کی غیر موجودگی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی لڑکی کی نشوونما وجود میں آتی ہے جو بیرونی طور پر تو لڑکی نظر آتی ہے لیکن اس میں اووریز نہیں بنتیں۔ اس کے علاوہ ایسے افراد میں بلوغت کا عمل بھی نشوونما نہیں پاتا اور گردن جھلی دار سی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ا یسے افراد کے رویے اور ذہنی صلاحیتیں بھی نارمل سے مختلف ہوتی ہیں۔ ایسے افراد میں نارمل لوگوں کی نسبت verbal صلاحیت زیادہ ہوتی ہے جبکہ Spatial Perception کم ہوتی ہے۔ یہ سماجی طور پر اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ گھل مل نہیں سکتے اور ساتھیوں کے ساتھ ان کے تعلقات کمزور ہوتے ہیں۔
کلاین فیلٹرسینڈروم (Klinefelter Syndrome) میں جنسی کروموسومز XXY ہوتے ہیں۔ یعنی ان میں ایک X کروموسوم نارمل مادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا پیدائشی اتفاق 750 میں سے ایک ہے۔ جسمانی طور پر ایسے لوگ نر دِکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں verbal صلاحیت بہت کمزور ہوتی ہے اور یہ تین سال کی عمر تک بھی صحیح طور پر بول نہیں سکتے۔ بچپن میں ان کا رویہ انتہائی شریفانہ سا اور تعاون والا ہوتا ہے۔ یہ سکون اور شرمیلا پن ان میں پوری زندگی رہتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ جارحیت ایک حیاتیاتی مظہر ہے نہ کہ سماجی۔
ایسے ہی ارتقا بھی ایک حیاتیاتی مظہر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ رویّّوں کی تشکیل سماجی عناصر کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی عوامل سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ جینز حالات کے مطابق تبدیل ہونے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ارتقائی نقطۂ نظر کا ماننا ہے کہ صنفی کردار کی تقسیم جانداروں میں ماحولیاتی چیلنجوں کے لحاظ سے تطبیقی تبدیلی (Adaption) کے طور پر ہوئی۔ لہٰذا ذہن ایسی جبلتوں سے لیس ہواجو ہمارے آباؤ اجداد کو بچاؤ اور تولید میں مدد گار ہوتی تھیں۔ ہر دو جنسوں نے اپنے اندر ایسی حکمتِ عملیوں کو بڑھوتری دی ہے جو اُن کے بچاؤ اور تولیدی کامیابی کو یقینی بنا سکتی تھیں۔ یہ اس امر کی وضاحت ہے کہ مرد اور عورتیں نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہوتی ہیں۔ ان کے اندر مختلف سماجی کردار ادا کرنے کا رجحان کیوں ہوتا ہے ۔ ارتقائی نقطۂ نظر کی حمایت کے لئے تخصیصِ کار کو مفید حکمتِ عملی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ پرانے وقتوں میں مرد اور عورتوں کے درمیان تخصیصِ کار موجود تھی۔ مرد شکار کرتے تھے یا خوراک کا بندوبست کرتے، جبکہ عورتیں بچوں کی نگہداشت کرتی تھیں۔ شکار جو خوراک کے لئے ضروری تھا زیادہ رفتار، بہتر نظر اور پھرتیلی صلاحیت کا متقاضی ہے۔ اگر عورتیں شکار میں حصہ لیتیں تو یہ تولیدی عمل میں رکاوٹ پیدا کرتا۔ لہٰذا عورتوں میں ایسی خصوصیات زیادہ ڈویلپ ہوتی گئیں جو انہیں بچوں کو پالنے اور عملِ تولید کی کامیابی کے لئے ضروری تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ شکار میں کمی ہوتی گئی اور عورتوں نے خوراک کی کاشت، کپڑوں کی بنوائی اور گھروں کی تعمیر جیسے کاموں میں بھی ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ یہ نا صرف تولیدی صلاحیت کی بقا کے لئے ضروری تھا، بلکہ بھوک سے بچنے کے لئے بھی نا گزیر تھا۔ لہٰذا ارتقا میں یہ ایک اضافی تطبیقی تبدیلی تھی۔
اگر ارتقا کے اس نظریے کو نا گزیر نقطۂ نظر کے طور پر لاگو کیا جائے کہ مرد اور عورت کے پاس اپنے رویوں (کہ عورت قدرتی طور پر ایک پرورش کار ہے اور مرد زیادہ کھردرے مزاج، مقابلہ کی صلاحیت سے لیس اور پھرتیلا ہے ) کو کنٹرول کرنے کا بہت کم اختیار ہے تو جدید معاشرے میں برابری کے مواقع کی پالیسی کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ کیونکہ مرد قدرتی طور پر زیادہ مقابلے کی صلاحیت رکھنے والا، خطرات کا سامنا کرنے والا اور کیریر میں زیادہ ترقی کرنے والا ہوگا۔ اس طرح عورتوں کے استحصال کا ایک اور در وا ہوجائے گا۔اس بارے میں بہت سے لوگوں کے یہ دلائل کہ موجودہ زمانے میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کرتی ہیں اور اور بعض مردوں سے بھی زیادہ صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں، ارتقائی نظریے کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ ارتقا تغیرات کا مرہونِ منت ہے۔ اور عورتوں میں یہ صلاحیتیں انہیں حیاتیاتی تغیرات کا نتیجہ ہیں۔ کیونکہ شماریاتی اعداد و شمار کے لحاظ سے تانیثی صنف میں ایسے صلاحیتیں جینیاتی تغیر کا نتیجہ ہی گنی جائیں گی۔ حیاتیاتی و سماجی نقطۂ نظر ایک Interactionist نقطۂ نظر ہے جو اس امر پر زور دیتا ہے کہ فطرت اور سماجی پرورش دونوں صنف کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جان مو (1972) کا نظریہ یہ تھا کہ حیاتیاتی طور پر جب نر اور مادہ کا جنم ہو جاتا ہے تو سماجی حیثیت اور لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کا اختلاف اُن کی پرورش اور صنف کی تشکیل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ نظریہ فطرت اور سماج کو ضم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ کسی کے ساتھ سماجی برتاؤ اور اس کی حیاتیاتی جنس بچے کی صنف کا تعین کرتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک نقطۂ نظر ہے کہ بچے کی صنف تین سال کی عمر سے پہلے تک نیوٹرل ہوتی ہے اور اس کے بعد اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک حیاتیاتی لڑکا جس کی پرورش لڑکی کے سے انداز میں کی جائے، اس میں لڑکیو ں والی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس نظریے کو (Theort of Neutrality)کا نام دیا جاتا ہے۔
روبن نے 1974 میں والدین کے تیس جوڑوں کے انٹرویوز کئے اور اُنہیں اپنے بچوں کی خصوصیات بیان کرنے کو کہا اور اُنہیں پہلے سے تیار شدہ ایک سوالنامہ بھی دیا گیا۔ تمام والدین نے اپنے لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت زیادہ مضبوط، کرخت طبیعت اور چاک و چوبند قرار دیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ والدین بچوں پر لیبل لگا دیتے ہیں جو اُن کی بڑھوتری اور صنفی کردارپر اثر انداز ہوتا ہے۔

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔