کوئٹہ: جب جسم اُڑے اور روحیں پرواز کر چُکیں

یاسر چٹھہ

یاسر چٹھہ

روم جل رہا تھا۔ لیکن نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ یہ لفظ اور سطر باز ہر گز اس بات کا قائل نہیں بانسری بجانا کوئی غلط اور باعثِ گناہ کام ہے۔ لیکن یہ ضرور مانتا ہے کہ ہر بہت اچھے کام کو بھی غلط وقت پر کیا جائے تو وہ کبھی احسن قدم نہیں ہوسکتا۔ کچھ وقتوں میں تو رب کریم نے اپنے بندوں کو سجدے کرنے سے بھی منع کیا ہوا ہے۔
رب سے یاد آیا کہ اخباریں اور ٹی وی شور مچا رہے ہیں رب کے کچھ بندے کوئٹہ کے سِول اسپتال  کے دروازے پر بارود زد ہوگئے ہیں۔ بلوچستان اور کوئٹہ میں تو موت دبے پاؤں شاذ ہی آتی ہے۔ یہاں تو یہ اپنے سے منحوس رقص میں رقصاں ہی آتی ہے۔ یہاں کچھ نیا نہیں۔ نیوز چینلوں پر کوئٹہ کا نام آجائے تو اگلا لفظ لاش، مسخ شدہ، مِسنگ پرسن، ہزارہ، سریاب روڈ وغیرہ پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ پہلے ہی اگلے لفظوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ موت کا لفظ مُنھ سے ٹپک پڑتا ہے۔
 لیکن اب کی بار تھوڑا سا مختلف مقام تھا۔ یہ سِول اسپتال کوئٹہ تھا۔ یہاں پر ایک وکیل رہنما جو نشانہ باز قاتلوں کا شکار ہوا تھا، اس کا جسد زندگی اور موت کی کشمکش میں لایا گیا۔ زندگی بھر کے دوست و ہمجولی اس کی آخری سانسوں کے گواہ بننے آئے تھے۔ لیکن اپنی سانسوں، جسم کی بوٹیوں، روح کی رمقوں کا حساب بھی کروا بیٹھے۔ کُل اکہتر سے زیادہ تھے۔
 لیکن یہ سُنیے گا کہ سِول اسپتال بھی اس دن کوئی پہلی بار تو نشانہ نہیں بنا تھا۔ اسی اسپتال میں پہلے بھی ہزارہ برادری کے بم کے زخمیوں کے چُور جسموں پر بارود کا لیپ کرنے والے آئے تھے۔ سو گزرا کل آج میں آنکھیں ملاتا آرہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود  انسانی جسدوں کو لقمہ بنا کر پیش کرنے کی روش کی سانسیں نہیں اکھڑیں۔
یہ دہشت گردی کے جان لیوا واقعات جاری ہیں۔ روح کا کرب اور چھلنی جگر ابھی بھی درد کی ٹِیسوں کا عادی نہیں ہو پایا۔ البتہ ہم پاکستانی عوام کے کانوں کو کچھ روایتی اور تیار شدہ مذمتی بیان سننے کی عادت ضرور پڑ گئی ہے۔ جب بھی دہشت گردی کا بہت بڑا واقعہ ہوجاتا ہے تو اعلٰی عہدیداروں کے مذمتی بیان پُھرر پُھرر کرتے جاری ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
مذمتی بیانوں کے ساتھ ساتھ عہدیداروں کی “میٹنگیں” بھی برپا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ “اہم فیصلہ کرنے کا لمحہ آن پہنچا” کی گردانیں دراز  ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم کی صدارت میں “اعلٰی سطحی” اجلاس منعقد ہوجاتا ہے، تو دوسری طرف کور کمانڈروں کے اجلاس میں بھی “threat perception” یعنی خطرے کے تمام پہلوؤں کا نئے سرے سے جائزہ لے لیا جاتا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے ذریعے منعقد شدہ “اعلٰی سطحی اجلاسوں”  کے شرکاء کی بہترین زاویے سے کھینچی تصاویر اور فٹیج جاری کردی جاتی ہیں۔ ان تصاویر میں رنگوں اور زاویہ جات کی خوبی پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوتا۔
وزیراعظم کی صدارت میں اعلٰی سطحی اجلاس کے علاوہ، نیکٹا یعنی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو فعال کرنے کا ہر بار کا فیصلہ ایک بار پھر سے کر لیا جاتا ہے۔انٹیلیجنس کی نظام کو مربوط کرنے کا فیصلہ بھی پل بھر میں ہوجاتا ہے۔ دیر کیوں لگے، کتنی بار کو ایسا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر تمام پہلوؤں سے عمل کرنے کا پکا ارادہ کیا جاتا ہے۔ خطرے کے تمام پہلوؤں کا جائزے لینے والوں کی میٹنگ بھی تصویروں اور فُٹیجز میں تو فعالی سے سوچتے ہوئے عہدیداران کی دکھائی دیتی ہے۔ جان لیجئے کہ ذمے داران کا لفظ ہم سے نا لکھا اور بولا جائے گا۔
لحظہ بھر کے لئے ہی پر ان ساری کار روائیوں کی جوہری نوعیت کو دیکھئے۔ کیا یہ کسی اندروہناک واقعے کی تفہیم کرنے کا عمل نظر نہیں آتا۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ یہ نشستن اور برخاستن تک ہی محدود رہتا ہے۔ کسی بامعنی زمینی کاروائی کے فضول نتیجے تک بہت ہی کم پہنچ پاتا ہے۔ حتٰی کہ وہی منحوس دہشت گردانہ کارروائی ہم پاکستانیوں کا پھر سے مقدر بن جاتی ہے۔
دوبارہ سے وہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔ وزیراعظم کی صدارت میں اجلاس، قومی ایکشن پلان کے سارے کونے کُھدروں پر انگلیاں پھیرنے، نیکٹا کو گہری نیند سے جگانے، خطرے کے سب پہلوؤں کے جائزے کی کور کمانڈروں کی کانفرنس کی خودکار نشستن برخاستن کی مشق شروع ہوجاتی ہے۔ ہوتا کیا ہے، صرف بربادی میں پل جھپکنے کا وقفہ۔
ہم اہلیان پاکستان دہشت گردی کا کوئی آج سے شکار تو نہیں ہوئے۔ لیکن ہمارے ارباب اختیار کا معاملات اور خطرے کا تفہیمی عمل پورا ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہم اپنے جسم بارود کو پیش کر، کر کے بارود اور دہشت گردوں کے کلیجے میں مقدور بھر ٹھنڈ ڈالنے کی ہمت کرتے جارہے ہیں۔ کسی اور کی تو شاید ہی ٹوٹی ہو، مگر ہماری کمر ضرور ٹوٹ چکی۔ لیکن حالات میں تبدیلی کیا آئی؟ دیکھئے تو بہت تبدیلی آئی! پہلے دہشت گرد ہمارے ایٹمی اثاثوں پر میلی آنکھ سے نظر رکھنے کی وجہ سے ہمارے گوشت کو کوئلہ بناتے تھے، اب میلی آنکھ نے سی پیک پر نظریں جما لیں ہیں تو ہمارے اعضاء کے سالم تِکے ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں دہشت گردی اور خطرے کی تفہیم کے عمل میں اجلاس اور میٹنگیں کرنے والوں کے بیانوں سے پتا چلا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ان دہشت گردوں کے پیچھے “را” ہے، ہمسایہ ملک کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ لگتا ایسے ہے کہ ہماری حفاظت سے زیادہ ہمارے ارباب اختیار کو اس بات کی فکر ہے کہ ہم اس ظلم و جفا کے کھیل کے تفہیمی و تشریحی نظریات کی بابت جہل کا شکار نا رہ جائیں۔
جہاں تک ان واقعات کی ذمے داری کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ ہمارے ایک دوست نے ایک جملے میں ہی کردیا ہے۔ بقول ہمارے اس دوست کے دہشت گردی کے ہر واقعہ کے ذمے دار صرف دہشت گرد ہی ہیں۔ گویا کوئی اسے ہماری حکومت اور سلامتی کے اداروں کی ذمے داری ہرگز نا جانے۔ ہماری حکومت اور سلامتی کے اداروں کا کام تو فوراً اس نتیجے پر پہنچنا ہے کہ کسی بھیانک واقعے کی وجہ کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سا بیرونی ہاتھ اور کون سی سر زمین ہے۔ اس دوست نے اپنے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ خود دیکھ لیں اسی کوئٹہ کے واقعے کی ذمے داری کم از کم تین گروہوں نے لے ہی لی ہے تو آپ کون غدار ہوتے ہیں اپنی ہی حکومت اور ریاستی اداروں پر اس کی ذمے داری ڈالنے والے! یہ بات کہتے ہی البتہ ہمارے اس دوست کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اسے کی آنکھوں نے ابھی اپنی بے بسی پر طنز کرنا نہیں سیکھا ہے۔
جس طرح نیرو کو بانسری بجانے کا شوق روم کے جلنے سے پہلے پورا کر لینا چاہئے تھا، اسی طرح ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو ملک عزیز میں دہشت گردی کے بھیانک واقعات کے ہونے سے قبل ان کی تفہیم اور روک تھام کا کام کرلینا چاہئے تھا۔ کسی واقعے کے کون پیچھے ہے، کون سی سر زمین استعمال ہو، اس بے وقت کی راگنی اور بانسری ہمیں نہیں سننا۔ ہمیں جینا ہے۔
About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.