خدارا کشمیر یوں کو جینے دو

حیدر شیرازی

جہاں واحد بلوچ جیسے جیتے جاگتے لوگ غائب ہو جائیں جہاں منہ پر تالے لگے ہو ں بچے دِن دیہاڑے اغوا ہو جائیں بھلا ایسی ریاست سے کوئی کشمیری الحاق کرنا پسند کرے گا دوسری جانب ایسے ہی دیکھ لیتے ہیں کہ جہاں اپنے شہر میں، اپنے لوگوں سے، اپنا چھوٹا سا علاقہ لیاری نہیں چھڑایا جا سکتا تو بھلا کیسے پاکستان کے باسی اتنے بڑے کشمیر کو بھارتی چُنگل سے آزاد کرانے کے خواب دیکھتے ہیں ۔۔ ؟ یہ میرے سوالات ہیں اپنے پاکستانی بھائیوں سے جو کشمیر کو پاکستان کی شاہ رگ حیات سمجھتے ہیں ۔ سب سے پہلے آگا ہ کردوں کہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹemotional attachment) )جذباتی لگاؤہے ۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ہم جغرافیائی تاریخ سے ناواقف ہیں اوردوسرایہ کہ ہم نے نہ جانے کیوں مٹی سے ایک عجیب سا رشتہ بنا رکھا ہے جیسے یہ ہماری ماں ہے ،ہم نے ماضی میں دیکھا کہ یہ ماں کئی بار تقسیم ہوئی ہے کبھی ہندو کی ماں بنی ہے کبھی مسلمان کی ،کبھی سکھ کی اور ریاستی اعتبار سے دیکھیں تو کبھی بنگالی کی ماں بنی ہے کبھی بلوچی کی کبھی سندھی کی کبھی پٹھان نے اِسے ماں بنایا ہے اب یہ ماں بہت تھک چکی ہے اور شائد بوڑھی بھی ہو چکی ہے ۔

سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ علاقہ نہیں بدلتا سرحدیں بدلتی رہتی ہیں ،جس کی سب سے بڑی مثال دنیا کا نقشہ ہے جس میں گذشتہ 20سال میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے ،اور کشمیر کے معاملے پر ہمیں جذبات سے کام نہیں لینا چاہیے اِن جذبات نے کشمیریوں کی نسلوں کو تباہ کر دیا ہے، اگر پاک بھارت تعلقات خراب ہوتے ہیں اور جھڑپیں ہوتی ہیں تومرتا صرف کشمیری ہے چاہے پونچھ میں مرے یا نیزہ پیر پرکوئی جوان جان کی بازی ہارے ۔ کشمیر میں سیلاب آیا بھارت نے آزاد کشمیر کے باسیوں کو مدد کی پیش کش کی جس کے بعد نواز شریف نے کشمیر پیکج کا اعلان کیاکشمیریوں کو تو اپنے حقوق بھی ایسے ملتے ہیں، دوسری جانب بھارت نے کشمیر کے لئے پانچ ہزار کروڑ پیکج دیالیکن کشمیریوں کی محبت نہ حاصل کر سکا کیوں ۔ ۔؟آزاد کشمیر میں بجلی کی سہولت ابھی تک موجود نہیں سڑکوں کا حال سب کے سامنے یہاں تک کہ آزاد کشمیرمیں موبائل سروسز نہیں۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کو مزید کیا کہوں ۔میں نے جتنے بھی کالم ،بلاگ کشمیر کے حوالے سے پڑھے زیادہ تر جذبات میں آکر لکھے گئے تھے یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوا بھارت میں بھی بے شمارلکھاری اور صحافی جذبات کی زبان بولنے لگے جن میں ارناب گوسوامی بھی شامل ہیں ، میں صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستانیوں کے لئے شہید بھارت کا دہشتگرد ہوتا ہے اور پاکستانیوں کا دہشتگرد بھارت کا ہیرو ۔

اس لئے کشمیر میں موجودہ خونریزی پر غیر جانبدار ہو کر بات کرنی چاہیے برطانوی ادارہے چیتھم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق43فیصد کشمیری آزادی چاہتے ہیں وہ اس جملے (کشمیر پاکستان کی شاہ رگ حیات ہے یا کشمیر بھارت کا اٹوٹ اٹنگ ہے ) کس نظر سے دیکھتے ہوں گے ہمارے صحافی دوست کوئٹہ میں بیٹھ کر جموں پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں جس سے یقیناًکشمیری عوام لطف اندوز ہوتی ہے ۔ اب موضوع کی جانب آتے ہیں کہ کیوں کشمیری جان دے رہے ہیں لیکن آزادی کی تحریک کمزور نہیں ہو رہی اس کی سب سے بڑی وجہ محرومی ہے جس کا شکار کشمیری عوام ہیں چاہے وہ سیاسی لحاظ سے ہو روزگار کے حوالے سے ہو یاعلم و آگہی کے حوالے سے پسماندگی ہو جس کی وجہ سے تحریک مختلف روپ لئے مختلف اوقات میں نظر آتی ہے ، 2008میں زمین کا جھگڑا ہوا بھر 2010میں طفیل احمد کی موت کا واقعہ جب کشمیر میں مسائل پیدا ہوئے اس کے بعد 2016میں برہان وانی والا معاملہ ہواجو اَبھی لائیو چل رہاہے اورہمیں کشمیر ایشو کو سمجھنے کے لئے تاریخ کے ساتھ کشمیری عوام کو سمجھنا ہو گا ۔

بھارت کی کشمیر کے بارے میں ناکام پالیسی 2010میں واٖضع ہو گئی تھی جب سیاسی وفود نے سرینگر کا دورہ کیا اور اُن سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ بھارت کو کشمیر کی فکر تب ہوتی ہے جب کشمیر جل رہاہوتا ہے ،مجھے پاکستانی اخبارات میں پی۔ڈی ۔پی کی گورنمنٹ جو جموں میں ہے اور جس کا بی۔جے ۔پی سے معاہدہ ہے یہ الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں کہ بھارت نواز حکومت ،بھارتی نواز وزیر اعلی ،اور بے شمار مواقع پر تو غدار بھی کہا جاتا ہے ۔اِسی نظریے کے ساتھ اگر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کی حکومت کو دیکھا جائے توکیا کہا جائے گا ۔؟کشمیریوں پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ قوم پرستوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں کیوں اوربھارت میں کہا جاتا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز سے صرف بات چیت ہو گی، حریت رہنماؤں سے بات چیت نہیں ہونی چاہیے لیکن کشمیر میں حریت رہنماؤں سے مذاکرات کی شق11 صفحات پر مشتمل دستاویز میں شامل ہے جس کی بنیاد پر بی۔جے ۔پی اور پی۔ڈی۔پی کامعاہدہ ہوا ہے یاد رہے کوئی کشمیری تحریک آزادی سے پیچھے نہیں ہوا ۔جس کی مثال مظفر بیگ (PDP) کا بیان ہے کہ برہان وانی کے معاملے پر ہمیں شک ہے ،اور طارق محمود جو سرینگر سے ممبر پارلیمنٹ ہیں انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے یہ کشمیریوں کی نسل کُشی ہے اور اگر یہ لوگ بھارتی اسمبلی میں نہ جائیں تو کشمیر کا نظام کیسے چلایا جائے اِس پر تو کوئی بحث نہیں کرتابس غدار غدار کی سند بانٹے میں لگاہے۔

بھارت نے برہان وانی کو دہشت گرد کہا ہے اور میرا یہ سوال ہے کہِ اس معاملے کے بعد 2500 لوگ جو زخمی ہوئے ہیں کیا وہ تمام دہشتگرد تھے یا علیحدگی پسند تھے ۔ ۔ ؟ یہی سوال ماہرہ سود جو بھارتی وکیل ہیں اُن کا ہے جنہیں بھارت میں غدار کہا جا رہا ہے اور کیا وجہ ہے کہ کشمیریوں سے تمام بھارتی مذاکرات ناکام ہوئے جن میں UPA مذاکرات ،رنگ راجن کمیشن شامل ہیں کیوں کامیاب نہیں ہوئے ،اور سب سے بڑھ کر من موہن سنگھ کی گول میز کانفرنس کیوں ناکام ہوئی ۔ان سب باتوں کو سمجھنے کے لئے کشمیری رویے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بھارت اندرونی معاملات پر توجہ دے جیسا کہ ایک بھارت آرمی آفیسر نے جے ۔این۔یو میں علیحدگی کا کیس کیا ہے جس میں جو د ھا پور یونیورسٹی کلکتہ میں علیحدگی پسند تحریک کا بھی ذکر ہے اور حیدر آباد کا بھی معاملہ نظر آتا ہے اس کے ساتھ بھارت میں کیوں افضل گورو کے حق میں تحریک چلی اور کیوں کہا گیا افضل ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں اس لئے کہ خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ۔ اور بھارتی مذاکرات میں ناکامی کی ایک وجہ بھارت کی فوج بھی ہے ،جس کا 740 کلومیٹر لمبا سلسلہ اکھنور سے شروع ہو کر سیاچن پر موجود NJ9842تک جاتا ہے۔لائن آف کنٹرول پر نگرانی کی ذمہ داری ناردرن کمانڈ کی ہے جس کے تین آپریشنل کور ہیں 16کورجس کا ہیڈ کوارٹر نگروٹا میں ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی فیلڈ فارمیشن ہے 15کور کا ہیڈکوارٹر سری نگر میں ہے جو کشمیر گھاٹی میں نگرانی کرتی ہے اور 14کورجس کا ہیڈ کواٹر لداخ کے لیہ میں ہے اور اس کا سامنا پاکستان او ر چین کی افواج سے ہے سوال یہ کہ کشمیری کیا اتنے ظالم و جابر ہیں کہ اُن کے لئے اتنی فوج اور اس کے علاوہ دیگر عسکری ادارے بھی الگ ہیں۔

جب اتنی بڑی تعداد میں افواج کسی علاقے میں ہوں تو کیا وہاں نٖفرت کے جذبات نہیں اُبھریں گے پاکستان اور بھارت کو کشمیری پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستانی سیاست دانوں کا کشمیر الیکشن میں رویہ نہایت شرمناک تھا جس سے تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچا اور کشمیری کس سے شکوہ کریں ،کیاحریت لیڈرمقبول بٹ کو پاکستانی قید میں رکھاگیا؟اور بھارت نے کیا ظلم نہ کئے سب سے پہلے پاک بھارت کو اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ کشمیر کا جو بھی فیصلہ کشمیری کریں گے دونوں ممالک اُ سے تسلیم کریں چاہے فیصلہ کچھ بھی ہو ،کیونکہ علاقے نہیں بدلتے سرحدیں اور نقشے بدلتے رہتے ہیں ،اور پڑوسی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔