جناب صدر میری بیٹی پر رحم کیجیے

جناب صدر میری بیٹی پر رحم کیجیے

جناب صدر میری بیٹی پر رحم کیجیے

ترجمہ از، ندیم عباس

صدرِ محترم!

میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس کچھ نہیں ہے سوائے ایک بیٹی کے۔ کنیزاں میری اکلوتی اولاد ہے۔ جب وہ بول سکتی تھی تب بھی زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔

اس مسکین نے تو کبھی  کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ بڑی فرماں بردار تھی، کبھی کسی کام سےناں نہیں کی۔ آنسو اس کی پلکوں پر دھرے رہتے تھے، اپنی کلائیوں کی طرح وہ خود بھی بے حد  نرم و نازک تھی۔

بہت کمزور دل کی تھی، اپنی ماں سے بڑا لگاؤ تھا اسے، اسی لیے اکثر ماں کی آغوش میں رہتی تھی۔ بالکل اپنی ماں پر گئی تھی، ویسی ہی رنگت، ویسا ہی  گول چہرہ۔

پراس کے سر سے ماں کا سایہ بڑی جلدی اٹھ گیا۔ میری بیوی ۔۔۔ مجھے اور میری بیٹی کو بھری دنیا میں تنہا چھوڑ گئی۔

میں کاشت کار تھا، روپے پیسے کی کمی رہتی تھی۔ جو تھوڑی بہت بچت تھی جلد ہی ختم ہو گئی۔ مگر خوش قسمتی سے میری کنیزاں میرے پاس تھی۔ وہ گھر کے کام کاج میں میں ہاتھ بٹاتی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ دوو قت کی روٹی  بھی مشکل ہو گئی ہے، اس نے مجھے کہا کہ وہ کام کرنا چاہتی ہے۔ پہلے پہل تو میں ذرا جھجھکا۔ میں اسے سکول نہیں بھیج سکا تھا۔ پر وہ بھی کیا کرتی؟

ابھی کنیزاں کا بچپنا باقی تھا کہ اس نے ایک امیر زمین دار خان محمد کے گھر کام کرنا شروع  کر دیا۔ وہ زمین دار کے بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی۔

جلد ہی بچے اس کے ساتھ خوب گھل مل گئے۔  زمین دار کی بیوں اکثر اسے ڈانٹتی تھی، اسے ڈر تھا کہ کہیں زیادہ کھیل کود سے بچے بگڑ نہ جائیں۔ وہ معمولی اجرت پر کام کر رہی تھی مگر یہ معمولی اجرت بھی  ہماری ضروریات پوری کرنے میں معاون تھی۔ میں اس سب کے لیے ہمیشہ اپنی بیٹی کا احسان مند رہوں گا۔

لیکن جناب! یہ سلسلہ زیادہ تر تک قائم نہیں رہ سکا۔

کمالیہ میں ہماری بستی کے قریب ہی قتل کی ایک لرزہ خیز واردات ہوئی۔ اپنے بیوی بچوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھ کر محمد خان کی آہ و بکا  میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

محمد خان اور اس کا خاندان جائداد کے ایک تنازعے میں الجھا ہوا تھا۔ زمین کا یہ جھگڑا دن بدن  سنگین ہوتا گیا۔ پولیس نے جائے وقوعہ پر محمد خان سے پوچھا تھا کہ کیا اس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہے؟ اس نے اپنے چار رشتے داروں کے نام لیے تھے۔ پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا۔

وہ دو روز تک حوالات میں بند رہے، مگر پیسے والوں کے لیے ضمانت کرانا مشکل نہیں۔

ایک رات کنیزاں اور میں رات کا کھانا  کھانے کی تیاری کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔  گاؤں کا ایک با اثر شخص اللہ یار ہمارے گھر آیا تھا۔ وہ سنجیدہ مگر پر عزم دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے  بتایا کہ لوگ باتیں بنا رہے ہیں، کسی نہ کسی کو سزا دلانا ہو گی۔ اس نے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی کنیزاں کی طرف دیکھا۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اس نے کہا، “قرآن پاک کی قسم، میں جانتا ہوں تیری بیٹی بے قصور ہے، لیکن مجھے اسے تھانے لے جانے کی اجازت دے۔ ” اس نے وعدہ کیا کہ پوچھ گچھ کے بعد پولیس اسے چھوڑ دے گی۔

لیکن وہ کبھی نہیں لوٹی۔

کنیزاں ان بچوں کی دیکھ بھال کرتی رہی تھی، وہ ان بچوں کے ناز نخرےاٹھاتی رہی تھی اور ان کے ساتھ کھیلتی رہی تھی۔ وہ مجھے ان بچوں سے متعلق سب کچھ بتاتی تھی۔ ان بچوں کے قتل کی خبر پا کر وہ بے حد پریشان ہو گئی تھی۔ وہ پگلی یہ سمجھتی رہی کہ وہ قاتلوں کی تلاش میں پولیس کی مدد کر رہی ہے۔ یہی سوچ کر وہ تھانے جانے پر رضا مند ہو گئی۔

اللہ یار اسے تھانے لے  گیا اور اسے پولیس کی تحویل میں دے آیا۔ کنیزاں اس وقت سولہ برس کی تھی لیکن پولیس نے اپنے ریکارڈ میں اس کی عمر پچیس برس لکھی۔

میرا بھتیجا تھانے کے قریب ہی رہتا تھا۔ کنیزاں کے ساتھ ہونے والا سلوک بتاتے ہوئے اس پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔


مزید دیکھیے: لا علمی میں ہندوستان، پاکستان ایک ہیں 


ہمارے گاؤں کی عورتیں اپنے قریبی رشتے داروں کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتیں لیکن کنیزاں کو کئی راتیں حوالات میں اجنبی افراد کے درمیان گزارنی پڑیں۔ میں اس سے ملاقات کے لیے جاتا تھا تو وہ مجھے ملنے  نہیں دیتے تھے۔

انہوں نے اسے رسیوں سے باندھ  کر چھت کے پنکھے سے لٹکایا۔ وہ اس کے نازک جسم کو پوری قوت سے مارتے رہے۔ کنیزاں ساری عمر چوہوں سے ڈرتی رہی تھی۔ لیکن  انہوں نے اس کی شلوار کے پائنچے باندھ کر اس میں چوہے چھوڑ دیے۔

انہوں نے  کنیزاں کو بار بار بجلی کے جھٹکے لگائے۔ ہو سکتا ہے خوش قسمتی سے وہ اس دوران بے ہوش ہو گئی ہو؟ میں یہ سوچ کر خود کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہو سکتا ہے وہ اس تمام تشدد اور اذیت کے دوران بے ہوش رہی ہو گی۔

کنیزاں کو نڈھال کر دینے کے بعد انہوں نے اس سے اعترافی بیان پر دستخط کرا لیے۔ یہ سوچنا مشکل نہیں کہ کس طرح اس نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہو گا۔

میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ میں مقدمے کی کارِ روائی کے دوران عدالت جا سکتا۔ مجھے تو بہت عرصے تک یہی نہیں پتہ چلا کہ اسے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ جب کبھی حالات اجازت دیتے تھے میں اس سے ملنے چل پڑتا تھا، میں نے اس مقصد کے لیے ہر کسی سے قرض لیا۔

لیکن ہر بار جب میں اس سے ملتا تھا تو وہ پہلے سے زیادہ مُرجھا چکی ہوتی تھی۔ جلد ہی اس کی صحت بگڑنے لگی۔ جیل کا عملہ بھی اس کے لیے متفکر تھا۔ 2006 میں اس کی صحت کے پیشِ نظر اسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ منتقل کر دیا گیا۔

کہتے ہیں اب اسے آوازیں سنائی دیتی ہیں، اس پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، وہ خود سے کھانے پینے اور کپڑے پہننے کے قابل نہیں رہی۔ 2015 میں ہسپتال انتظامیہ نے جیل حکام کے نام ایک خط میں کنیزاں کو پھانسی کے لیے ناموزوں قرار دیا۔

جناب صدر!

میری بیٹی کئی سالوں سے بالکل گم سُم ہے۔ وہ خوف زدہ ہے، وہ ہر وقت روتی رہتی ہے۔ اسے  دیکھ بھال کے لیے میری اور اپنے باقی گھر والوں کی ضرورت ہے۔ وہ بیمار ہے اور کال کوٹھڑی اس کا مسکن نہیں ہونی چاہیے۔

میں غریب آدمی ہوں، میں آپ کو بدلے میں کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ لیکن میں آپ سے التجا کرتا ہوں،  کہ اس کی پوری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزری ہے، اس کی خاموشی کو نظر انداز مت کیجیے اور اس کے حال پر رحکم  کیجیے۔

میں جانتا ہوں اگر یہ خط آپ تک پہنچ گیا تو خدا آپ کے دل میں اس کے لیے رحم ضرور ڈالے گا۔

عاجز

شیر محمد


شیر محمد کا انتقال 2016 میں ہو گیا تھا۔ کنیزاں 29 برس  قید جھیلنے، بے گناہی کے شواہد اور ذہنی مریضہ ہونے کے باوجود تا حال سزائے موت کی قیدی ہے۔ دسمبر 2014 سے اب تک صدرِ پاکستان نے کسی  قیدی کی رحم کی اپیل منظور نہیں کی۔ کنیزاں کو حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے حکم پر جیل سے دوبارہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ منتقل کیا گیا ہے۔