ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے

ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے

ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے

از، خضر حیات

ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی ایک وجہ غیر معیاری ڈراموں اور گھٹیا پروگراموں کا آن ایئر ہونا بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران بغیر روک ٹوک کے کچے پکے media content کا نشر ہونا ہوائی فضا کو مسلسل متعفّن کر رہا ہے۔ ماہرین نے سفارش کی ہے کہ ان پروگراموں اور ڈراموں پر فوری طور پر اگر کوئی روک ٹوک نہ لگائی گئی تو حالات ایسے ہو جائیں گے کہ دن کی روشنی میں بھی کچھ سُجھائی نہیں دے گا۔ نشریاتی آلودگی ریالٹی کو پوری طرح دُھندلا دے گی اور پاس کے ڈھول بھی سہانے لگنے لگیں گے۔

اصل بات یہ ہے کہ فضاء اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کس کس چیز پہ سَر پیٹیں۔ عصرِ حاضر کا میڈیا ایک طرف دن رات نشر کی جانے والی خبروں، تبصروں اور تجزیوں کی مدد سے ایک خاص طرح کی فضا تخلیق کر رہا ہے تو دوسری جانب ٹیلی ویژن ڈرامے بھی کچھ زیادہ مختلف کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔

زمینی حقائق سے دُور دُور کا بھی تعلق نہ رکھنے والے مسائل پہ درجنوں قسطوں کے سیریل بنائے جا رہے ہیں اور دکھائے جا رہے ہیں۔ خواتین کے مسائل پر بات کرنے کے نام پر عورت کو مظلوم ترین بنا کے پیش کرتے جاؤ اور اس کے دل میں انتقام کا جذبہ پیدا کر کے معاشرتی equation کو بگاڑتے چلے جاؤ۔

ہمارے معاشرے کی عورت کو اس حد تک بد ظن کر دو کہ وہ اپنے ہر رشتے پر شک کرنے لگے۔ اسے یہ دکھایا جائے کہ وہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی۔ محبت کے نام پہ اسے ہمیشہ استعمال ہی کیا جائے گا اور محبت حقیقت میں چاہے کچھ بھی ہو مگر اگر ایک مرد اس کا اظہار کرے گا تو لازمی بات ہے وہ محض آپ کا فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے، اپنی جسمانی بھوک مٹانے کے لیے ڈورے ڈال رہا ہے۔

یہاں دکھایا جاتا ہے کہ ہر آدمی دوسری شادی کرنا چاہتا ہے کیوں کہ پہلی شادی خاندان والوں نے کی ہوتی ہے تو arrange marriage کی تو قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ اس نے ناکام ہونا ہی ہونا ہے۔ مرد اور عورت کے باہمی تعلق میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی باقی تمام وجوہات کو نظر انداز کر کے محض ایک ہی وجہ کو تمام کیسز پر اپلائی کر دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ منطق کی زبان میں اسے the fallacy of hasty generalization  کا مغالطہ کہیں گے۔

مذکورہ بالا کے علاوہ جو چند ایک دیگر پاپولر تھیمز ہیں ان میں سرِ فہرست یہ ہے کہ حسد سب سے مضبوط جذبہ ہے۔ بھارتی ٹیلی ویژن ڈراموں سے ہم نے خود ساختہ اور چھینی ہوئی وراثت میں جو مصالحے حاصل کیے ہیں، یہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ اور پھر یہ بھی دکھاتے جاؤ کہ کسی ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی تمام انسانی رشتے نا قابلِ اعتبار ہیں۔ لکھنے اور ڈرامہ بنانے والے کی نظر میں اس سے شاید معاشرہ مضبوط ہوتا ہوگا۔

انسانی تعلقات اور معاملات سے متعلق ڈرامہ لکھنے والا خود ساختہ سوشل سائنٹسٹ بند کمرے میں بیٹھ کر اپنا نظریہ عوام کی بڑی تعداد کے ذہنوں پر نقش کر رہا ہے۔ میاں بیوی، ساس بہُو، دیور بھابھی اور دیگر سبھی رشتوں کو خود ساختہ محدب عدسے کے نیچے رکھا جاتا ہے اور اس عدسے میں سے وہ رشتے جس شکل میں بھی لکھنے والے کو نظر آتے ہیں لکھنے والا ساری خلقت کو دکھاتا چلا جاتا ہے۔

ذرا کچھ دیر کے لیے غور کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ موجودہ ڈرامہ نگاروں کا لکھا ہوا ایک ایک مکالمہ مشاہدے کی شدید کمی کی چُغلی کھا رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بیش تر زندگی بڑے شہروں میں رہتے ہوئے گزری ہے مگر آپ ڈرامہ لکھ رہے ہیں تھل کی معاشرتی زندگی پر، یا بلوچستان کے سیاسی حالات پہ۔ اچنہھا تو ہوگا ہی!

اور پھر جس جس انداز کے سیٹ دکھائے جاتے ہیں ان سے مصنوعی پن چھلک چھلک کے باہر آ رہا ہوتا ہے اور بجائے سنجیدگی ظاہر کرنے کے یہ کسی مزاحیہ صورتِ حال کا بہترین نمونہ لگ رہا ہوتا ہے۔

ایک ایسی فضا جہاں اَن گِنَت چینلز پر ہر روز بے پناہ ڈرامے بازی چل رہی ہو، جہاں ڈراموں کی ایک بڑی تعداد اسی قسم کے مسائل پر بات کر رہی ہو اور یہ ڈرامے سال ہا سال تک چلتے جائیں، تو دیکھنے والوں کے ذہنوں پہ جو اثر پڑے گا اس کا اندازہ لگانا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔

ٹیلی ویژن ڈرامہ ایک بہت ہی مضبوط میڈیم ہے جو ملکی آبادی کی بڑی اکثریت کو ایک وحدت میں پِرو سکتا ہے۔ معاشی اعتبار سے لوئر کلاس ہو، لوئر مڈل ہو، یا پھر مڈل کلاس ان تین کلاسوں کو آپ ڈرامے کے ذریعے ایک لڑی میں باندھ سکتے ہیں۔ ان کی ذہنی تربیت کر سکتے ہیں انہیں صحت مند تفریح فراہم کر سکتے ہیں اور انہیں مثبت سوچنے پر قائل کر سکتے ہیں۔

یہ سب کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن تقریباً 40 سال تک یہی کچھ کرتا رہا ہے۔ ہمیں اب بھی ہمارے بڑے اس طرح کی کہانیاں سناتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے کے وقت شہروں کی سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں۔ لوگ شادی بیاہ کی تاریخیں مقرر کرتے وقت یہ ضرور خیال رکھتے تھے کہ اس دن کہیں ہمارے پسندیدہ ڈرامے کی قسط نہ نظرانداز ہو جائے۔ ایک ایسی ہی مثال 1979ء میں پی ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل وارث کی دی جا سکتی ہے۔

کیسا سنہری دور تھا جب مضبوط کہانی اور عمدہ سکرپٹ نے ملکی آبادی کے بڑے حصے کو ایک ڈرامے کے انتظار پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ ڈرامہ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بالکل بھی خواہ مخواہ مجبور نہیں کیا تھا۔ ‘وارث’ جاگیر داری نظام پر بنایا جانے والا اب تک کا شان دار ترین ڈرامہ ہے جس نے امجد اسلام امجد کو ایک بڑے ڈرامہ نگار کے طور پر متعارف کروایا۔

کہانی اتنی جان دار کہ ایک ایک مکالمہ موتیوں کی مانند چمکتا نظر آئے۔ مناظر ایسے شان دار کہ آنکھ جھپکنے کو دل نہ کرے۔ پچھلی نسل کے لوگوں کے ذہنوں میں ‘چوہدری حشمت’ آج بھی اپنے پورے رُعب، دبدبے، شان و شوکت، غصے، جبر اور خوف کی صورت میں زندہ ہے۔ یقین نہ آئے تو دو چار پرانے لوگوں کو ٹٹول کر دیکھ لیں۔

امجد اسلام امجد کے قلم سے نکلا ہوا یہ شاہکار ڈرامہ پہلی دفعہ پی ٹی وی پر 1979ء میں نشر کیا گیا تھا۔ ڈرامے کی کاسٹ میں اس قدر عظیم فنکار اور فنکارائیں شامل تھیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس نے عمدہ اور کس نے بہترین اداکاری کی ہے کیوں کہ سبھی ایک دوسرے سے آگے نکل رہے ہوتے ہیں۔ محبوب عالم، شجاعت ہاشمی، عابد علی، فردوس جمال، منور سعید، اورنگزیب لغاری، عظمیٰ گیلانی، ثمینہ احمد، غیور اختر، جمیل فخری، طاہرہ نقوی، آغا سکندر و دیگر جیسے بڑے فن کار اس ڈرامے کی کاسٹ میں شامل تھے۔

بنیادی طور پر یہ ایک جاگیردار خانوادے کی کہانی ہے جو انگریز کے دور سے اور اُن کی شہہ پہ مقامی لوگوں پر حکمرانی کرتا چلا آیا ہے اور ہر صورت میں اپنی جاگیر اور حاکمیت کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ حکومتِ پاکستان جب ‘سکندر پور’ میں ڈیم بنانے کا اعلان کرتی ہے تو اس خاندان کو اپنی بقاء کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی خطرے سے لڑتے ہوئے ہم ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو کسی زخمی شیر کی طرح اپنے پنجے ہوا میں چلا رہا ہے اور جب اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتا تو اپنی کچھار میں ہی جان دے دیتا ہے۔ یہی جان دینے والا شیر پی ٹی وی ڈرامے کی تاریخ میں آج تک چوہدری حشمت کے نام سے زندہ ہے۔

اس ڈرامے کا سب سے بڑا کردار بلا شبہ چوہدری حشمت کا ہے جسے ایک عظیم فن کار محبوب عالم نے نبھایا ہے اور کیا ہی عُمدگی سے نبھایا ہے۔ محبوب عالم اتنا بھرپور ادا کار تھا کہ ڈرامے میں اس کے سامنے اتنے بڑے بڑے ادا کار نظر آئے مگر کوئی بھی اس کی شبیہ پر حاوی نہ ہو سکا۔

عابد علی نے دلاور کا سنجیدہ کردار بہت مہارت سے نبھایا۔ وجاہت ہاشمی نے مولا داد کے کردار کے ساتھ انصاف کیا۔ فردوس جمال نے چوہدری انور کا نفرت انگیز کردار بھرپور انداز میں پورٹرے کیا۔ منور سعید چوہدری یعقوب جیسے شاطر، زمانہ شناس اور لالچی آدمی کے روپ میں خوب جچے۔ اورنگزیب لغاری چوہدری نیاز کے روپ میں آدھا جاگیر دار اور آدھا عام انسان بن کے اپنے اندر کی کشمکش کو بڑی خوب صورتی سے پردے پر لے کے آیا۔

عظمیٰ گیلانی نے ذکیہ کا کردار نبھایا۔ ڈرامے کی کاسٹ بہت بڑی تھی اور سبھی اپنی اپنی جگہ پر دنیائے ٹیلی ویژن کے مایہ ناز ستارے تھے۔ مگر چوہدری حشمت بلا شُبہ اور بلا شرکتِ غیرے اس کہکشاں کا چاند تھا اور سب کرداروں پر حاوی رہا۔

رواں صدی کی پہلی دھائی میں پی ٹی وی نے کاجل گھر کے نام سے ایک ڈرامہ نشر کیا تھا جس میں سہیل احمد کو ایک ظالم جاگیر دار کے روپ میں دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جاگیرداری نظام پر بہت سارے ڈرامے بن چکے ہیں جن میں زمین داروں کے ہاتھوں چھوٹی چھوٹی ذاتوں کا استحصال بہت عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔ ہوائیں، ماروی، راہیں، ملنگی وغیرہ سارے جاگیر داری نظام پر بنے ہوئے ہیں مگر وارث جیسا ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔

وارث کے علاوہ خُدا کی بستی، تعلیمِ بالغاں، دھوپ کنارے، ان کہی، تنہائیاں، آنگن ٹیڑھا، پرچھائیاں، انکل عرفی، خواجہ اینڈ سن، الف نون، الفا براوو چارلی اور دیگر پی ٹی وی ڈراموں نے بھی اس طرح کا معیار مقرر کیا جو آج تک صرف پی ٹی وی کا ہی خاصا بن کے رہ گیا ہے۔


مزید دیکھیے: پی ٹی وی ڈراما : ایک تہذیب جو دم توڑ گئی

منٹو، ٹی وی کے حوالے سے


ہم اس طرح کی باتیں اکثر سنتے رہتے ہیں کہ میڈیا صرف وہی کچھ دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں، یا دوسری طرف والے کہتے ہیں  کہ عوام وہی کچھ دیکھتے ہیں جو میڈیا دکھانا چاہتا ہے یہ بالکل ویسی ہی صورتِ حال ہے کہ انڈہ پہلے آیا تھا یا مرغی۔ ہم شاید حتمی طور پر کسی بھی ایک صورتِ حال کو درست تسلیم نہیں کر سکیں گے مگر بعض صورتوں میں کامن سینس سے بھی رہنمائی لے لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

دیکھیں اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ڈراموں کے نام پر دکھایا جا رہا ہے عوام یہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں اور کچھ معیاری یا سنجیدہ دکھانا شروع کر دیا جائے تو ویوور شپ کا گراف گر جائے گا تو میرا خیال ہے یہ خود سے تعمیر کیا گیا ڈر کا قلعہ ہے جو کمزور بنیادوں پر استوار ہے۔ مجھے یہ بتا دیں کہ وہ کوئی آسمانی مخلوق تھی جو دن رات پاکستان ٹیلی ویژن کا سنجیدہ، موضوعی، فکری اور معیاری content دیکھتی جاتی تھی اور اس سے بور بھی نہیں ہوتی تھی؟ وہ یہی ہمارے والی ہی قوم تھی اور تب تو خواندگی کا تناسب بھی آج کی نسبت کم تر تھا۔ اللہ جانے ہم آگے کو جا رہے ہیں یا پیچھے کو!

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو تفریح چاہیے اور فارغ اوقات کے خلا کو انہوں نے کسی نہ کسی چیز سے بھرنا ہی ہے۔ اگر آپ ٹیلی ویژن پہ کچھ نیا دکھانا شروع کر دیں گے تو وہ یہ نیا بھی اسی شدّ ومد اور شوق سے دیکھتے جائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی تفریحی ترجیحات اور رجحانات میں ایک تبدیلی واقع ہوتی چلی جائے گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کا سنجیدہ content بھی آپ کو اتنے ہی اشتہار لے کے دے گا جتنے آپ کو آج کل مل رہے ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم تو وہی کچھ دکھا رہے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔

کینوس آپ کے پاس ہے، برش آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ کو چاہیے کہ آپ ذمہ داری لے کر کچھ اچھا پینٹ کریں اور عوام کو اچھا دیکھنے کا عادی بنائیں۔ بالفرض شروع میں وہ سنجیدہ مواد کی جانب نہیں راغب ہو رہے تو یہ بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے کہ انہیں اس کے لیے تیار کریں، ان کا ذہن بنائیں کیوں کہ بہرحال آپ پر یہ بھاری ذمہ داری ضرور عاید ہوتی ہے کہ میڈیم کو محض پیسہ کمانے کی مشین ہی نہ سمجھ لیں بلکہ اس کے ذریعے سے سماجی آگاہی کا فریضہ بھی سرانجام دیا جانا چاہیے۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج کل تمام پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز کے تمام ہی ڈرامے غیر معیاری ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ کہیں کہیں کچھ اچھا بھی نظر آ جاتا ہے مگر جتنے بھی چینل گھماتے جائیں عمومی تاثر یہی ملتا ہے کہ  mature content نایاب ہوگیا ہے۔ خدارا تھوڑا پروڈیوس کر لیں مگر ذرا معیار پر توجہ دے لیں۔ سبھی کچھ پیسہ ہی نہیں ہوتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پیسہ ہر ہر جگہ سے کمایا جائے۔ آپ ڈرامے کے میڈیم کو بخش دیں۔ فلموں، پروگراموں، گیم شوز، ٹاک شوز میں جتنی مرضی کمرشلائزیشن ڈالتے جائیں۔ صرف ٹی وی ڈرامے کی جان چھوڑ دیں اور اسے کسی بہتر شکل میں سامنے آنے کے لیے راستہ دے دیں۔

عین نوازش ہوگی۔