منٹو، ٹی وی کے حوالے سے

منٹو، ٹی وی کے حوالے سے

منٹو، ٹی وی کے حوالے سے

از، پرویز انجم

منو بھائی نے کیا خوب صورت بات کہی تھی’’فلم کا موضوع ٹی وی ڈرامے کے موضوع سے مختلف ہوتا ہے اس کو یوں سمجھایا جا سکتا ہے کہ دیوار کا گرنا فلم ہے، مگر دیوار گرنے کے بعد کیا ہوا؟ یہ ٹی وی ڈرامہ ہے۔‘‘ منٹو کی کہانیوں میں اسٹیج، فلم اور ٹی وی کے لیے بے شمار امکانات موجود ہیں لیکن کسی بھی شعبے میں کام کرنے سے پہلے منٹو کی تخلیقات کے تھیم کو سمجھنا بے حد ضروری امر ہے۔ منٹو کی فکر، تخیّل، سوچ اور سچ کو جاننا بہت ضروری ہے۔منٹو کا کوئی بھی موضوع نئے جہانوں کو متعارف کراتا ہے۔ اس لحاظ سے اُن کا کینوس انوکھا اور وسیع ہے۔ فکشن کے کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں جو کبھی پرانے نہیں ہوتے اور ہر عہد کے ناضرین کے لیے معنی خیز ہوتے ہیں۔ تاہم یہ پروڈیوسر ڈائریکٹر کی تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کے پاس زمان و مکان کا کون سا تصور ہے اور وہ موضوع سے کس طرح سلوک کرتا ہے کہ اس کی یکتائی مجروح نہ ہو۔

منٹو کے افسانوں یا ڈراموں میں سب کچھ Visual ہوتا ہے اور کسی بھی ڈائریکٹر کے لیے وہ سب دکھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دِقت اس وقت پیش آتی ہے جب فکشن Visual نہ ہو۔ اُن کے کرداروں میں بڑی جان ہے۔ تکنیکی اعتبار سے ، ایک ایک ڈائیلاگ میں کردار نبھانے والے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایک ایک جملہ جامع اور گہرائی کا حامل ہوتا ہے۔ سماجیات کے حوالے سے اس عظیم افسانہ نگار نے انسانی نفسیات جیسے اہم پہلو کے بارے میں، اپنی تخلیقات میں ایسے ایسے نازک انکشافات کیے ہیں کہ جو بڑے بڑے ماہرینِ نفسیات کے لیے بھی ممکن نہ تھے۔ اُن کے افسانوں کی ایک کثیر تعداد ٹی وی اسکرین کی زینت بنائی جا سکتی ہے اور کچھ ذہین لوگوں نے اُن کے فکشن کو موضوع بنایا بھی ہے۔

وقتاً فوقتاً بڑی اسکرین کے علاوہ چھوٹی اسکرین یعنی ٹی وی پر بھی منٹو کی کہانیوں کو پیش کیاجاتا رہا ہے۔اس کا آغاز سب سے پہلے ستر کی دہائی میں ہوا۔دراصل منصوبہ یہ تھا پاکستان کے معیاری ادب کو پاکستانی ناظرین تک ڈراموں کی صورت پہنچایا جائے۔ اس کے تحت سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور اور دیگر نامور افسانہ نگاروں کی تخلیقات ڈرامائی شکل میں ٹی وی اسکرین پر پیش کی جائیں۔ اس کی ابتدا کراچی اسٹیشن سے سعادت حسن منٹو کے تیرہ افسانوں سے کی گئی۔ جس کا مقصد ناظرین کو وہ سعادت حسن منٹو دکھانا مقصود ہے جن کے ذہنوں میں منٹو کے نام کے ساتھ ’’کالی شلوار‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔ جن میں سے اکثر کی غلیظ سوچ نے ان کے افسانوں میں فحاشی اور غلاظت تو حاصل کر لی اور باقی جو کچھ تھا گندی نالی میں پھینک دیا اور اب بھی منٹو کو محض ایک فحش نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں اور یوں منٹو کو ایک بار موت کے گھاٹ اُتارنے کے بعد اُسے مسلسل قتل کرتے آرہے ہیں۔

اب منٹو کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کا مقصد پاکستانی ناظرین کو وہ سعادت حسن منٹو دکھانا تھا جو انتہائی ذہین، دردمند، بالغ نظر اور باشعور افسانہ نگار تھا اور جسے ’’کالی شلوار‘‘ پر فحاشی کے الزام میں چلنے والے مقدمے نے فحش نگار مشہور کر دیا۔ اس پروگرام کے ذریعے پاکستانیوں کو اصل منٹو سے متعارف کرانا مقصود تھا۔ اس خبر پر پرنٹ میڈیا میں اس وقت بڑی تنقید ہوئی کہ ’’ہمارے ٹیلی ویژن کی ادائیں بھی بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ اس کے منصوبہ ساز بڑے معیاری منصوبے بناتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ پسِ پردہ ہی ہوتا ہے۔ اب انہوں نے سعادت حسن منٹو کے شہرہ آفاق ڈراموں کالی شلوار اور ٹھنڈا گوشت کو ڈرامائی صورت میں ٹیلی ویژن پر پیش کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے مگر زیادہ امکانات کچھ ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ اس منصوبے کا حشر بھی وہی ہو گا جو ’’لال قلعہ سے لالو کھیت تک‘‘ کا ہوا جسے لاکھوں روپے کی لاگت سے فلمایا گیا لیکن کئی سال گزر جانے کے باوجود ناظرین کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ منٹو مرحوم کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل اور پیشکش کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو۔‘‘

تاہم چھوٹی سکرین پر سب سے پہلے اردو افسانے کو ڈرامے کا روپ دینے کا سلسلہ کراچی ٹی وی سے شروع ہوا۔ ۱۹۶۹ء میں ڈراما نگار کمال احمد رضوی نے آغاز کیا اور منٹو کی تخلیق’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ کو ٹی وی پر پیش کیا جس کے پروڈیوسر ظہیر بھٹی تھے اور اس میں کمال احمد رضوی اور غزالہ رفیق نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ پھر ۱۹۷۲ء میں چھوٹی اسکرین پر منٹو کی تیرہ کہانیوں پر مشتمل ’’منٹو راما‘‘ سیریل پیش کی گئی۔ اُس وقت معروف شاعر افتخار عارف جو بطور اسکرپٹ رائٹر وہاں موجود تھے، اِس میں اُن کا بھی تعاون رہا۔ ’’منٹو راما‘‘ کے پروڈیوسر کنور آفتاب تھے جن کی منٹو سے Equation تھی، وہ خود بھی منٹو کے مداح تھے۔ ’’منٹو راما‘‘ میں پہلا لانگ پلے ’’منٹو ادبی عدالت میں‘‘ پچاس منٹ کا تھا۔اس سیریز کے ڈائریکٹر حمید کاشمیری تھے، اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:

’’منٹو راما میں سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی تھی۔بلاشبہ آج کے مقابلے میں وہ دَور زیادہ بہتر اور خالص ادب کا دَور تھالیکن پھر بھی ’’سعادت حسن منٹو‘‘ اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوجود عام پڑھے لکھے متوسط اور قدامت پسند خاندانوں کے اندر ایک شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کو بغیر کسی تعارف اور صفائی کے ٹیلی ویژن پر پیش کرنا کارِ دارد تھا لیکن یہ بات بھی اپنے طور پر ناقابلِ تردید تھی کہ منٹو کے بغیر اردو افسانے کا کوئی تذکرہ اور تعارف مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔لہٰذا پروڈیوسر کنور آفتاب احمد نے یہ خواہش ظاہر کی کہ منٹو ٹیلی ویژن پر پیش کرنے سے پہلے منٹو کا مثبت انداز میں ایک تعارف اور دفاع ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مجھ سے یہ مقدمہ لکھنے کو کہا گیا۔ مَیں نے یہ مقدمہ لکھا جو کہ ’’منٹو راما‘‘ کا پہلا اور اہم ترین ڈرامہ تھا…’’منٹو ادبی عدالت میں‘‘ لکھنے سے پہلے مَیں نے ذہن کو تازہ کرنے کے لیے ازسرِ نو ان تمام تحریروں کا مطالعہ کیا جو منٹو نے لکھی ہیں۔ اس مقدمے کے اندر مَیں نے منٹو کی زبان میں منٹو کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے اور منٹو کی اپنی تحریروں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔‘‘
(دیباچہ: ’’منٹو ادبی عدالت میں‘‘ مقبول اکیڈمی، لاہور ۱۹۹۳،ص۱۵-۱۴)

’’منٹو ادبی عدالت میں‘‘ میں حمید کاشمیری نے منٹو کے افسانوں؛ ممی، یزید، نیا قانون، بابو گوپی ناتھ، ممد بھائی سے تھیم لی تھی یعنی ان افسانوں کے Jest پیش کیے تھے۔ اِس میں اداکار قربان جیلانی پراسیکیوٹر بنے اور اداکار ایس ایم سلیم نے منٹو کا رول کیا تھا جس میں وہ ہو بہو منٹو کے کردار کی تصویر بنے تھے۔ اِس میں مہر رضوی نے بھی اچھے رول کیے۔ ایک دن اس کی فلم بندی دیکھنے منٹو کی بیگم صفیہ اور اُن کی بچیاں بھی ٹی وی اسٹیشن گئی تھیں۔’’منٹو ادبی عدالت میں‘‘ کے علاوہ چھ سیریل ’’نکی‘‘، ’’کرامت پیر‘‘، ’’مسٹر معین الدین‘‘، ’’نعرہ‘‘ وغیرہ ڈرامے تھے جن کے ہدایت کار حمید کاشمیری تھے۔ ’’منٹو راما‘‘ میں کچھ اور لوگوں کے بھی ڈرامے تھے۔ ’’اس منجدھار میں‘‘ محمد نثار حسین نے پیش کیا۔ منٹو کی اولین ناقد ممتاز شیریں نے اس پلے کو محمد نثار حسین کے گھر آن ائیر دیکھا۔ اس ڈرامے کے مفلوج مرکزی کردار نے اُن کے ذہن پر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ خود کو اس کے مماثل سمجھنے لگیں۔ بقول اختر جمال ’’وہ منٹو کے اس حساس پلے کی زبردست مداح تھیں۔‘‘ اس کے علاوہ جیسے سرمد صہبائی کا پلے ’’نیا قانون‘‘ جس میں اشرف خاں اور صبا حمید کے مرکزی کردار تھے ۔ اس میں اداکار اشرف خاں نے منگو ٹانگہ بان کا عمدہ رول ادا کیا تھا۔ پھر منٹو راما سیریز میں کمال احمد رضوی کے کھیل ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘کو دوبارہ نشر کیا گیا۔اس بار اس کے پروڈیوسر محسن علی تھے۔

ضیاء محی الدین نے بھی اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بڑے خوب صورت انداز میں قرأت کی تھی جو کہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ نوے کی دھائی میں پروڈیوسرو ڈائریکٹر شوکت زین العابدین نے منٹو کے ڈرامے ’’آؤ‘‘ کے کچھ سبجیکٹ PTV پر پیش کیے۔ یہ پیش کش اس انداز سے تھی کہ اسکرین پر دو سیٹ ہیں۔ ایک میں منٹو کے ڈراموں کی ریڈنگ ہوتی ہے اور دوسری جانب اُسے پلے کی صورت ایکٹ کیا جاتا ہے۔ اِس میں منٹو کا کردار اکبر سبحانی اور صفیہ بیگم کا رول صبا حمید نے کیا تھا۔نعمان اعجاز نے بھی اس میں کام کیا۔ یہ ایک بہت اعلیٰ پائے کا کام تھا۔ سرمدصہبائی نے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کو بہت عمدہ طریقے سے ٹی وی پر پیش کیا۔ شوکت زین العابدین نے منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو بھی ٹی وی کی زینت بنایا۔پی ٹی وی پر منٹو کا افسانہ ’’ٹوٹو‘‘ ایوب خاور کی زیرِ ہدایت پیش ہوا ہے، جس میں نعمان اعجاز اور عفت رحیم نے خوب صورت اداکاری کی۔

ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ٹی وی اسکرین کی اپنی ایک افادیت ہے۔ ٹی وی ایک بہت پاور فل میڈیا ہے اور entertainment کے حوالے سے اس کی اہمیت و وسعت اپنی جگہ مسلّم ہے۔موضوعاتی اعتبار سے منٹو کا ادب ایک بڑا اچھوتا اور خوب صورت مواد اپنے اندر رکھتا ہے اور اُن کے بہت سے افسانے اور کہانیاں ہیں جو ٹی وی اسکرین پر پیش ہو کر معاشرتی سوچوں میں مثبت اندازِ فکر کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اِس نئی صدی کے ابتدائی سالوں میں نئے پرائیویٹ چینلز کے آ جانے سے چھوٹی اسکرین پر پھر ایک بار منٹو کے افسانوں پر مبنی ٹی وی ڈراموں کی بھرمار ہوئی اور اِنڈس ٹی وی نے منٹو کے چھ سات افسانوں پر مبنی ایک سیریل پیش کی۔ ’’ممد بھائی‘‘ اور ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ میں بالترتیب ساجد حسن اور فردوس جمال نے عمدہ اداکاری کی تھی۔پی ٹی وی پر منٹو کا ایک پلے ’’جیب کترا‘‘ بھی پیش کیا گیا۔ جس میں طاہرہ واسطی نے کام کیا تھا اور منٹو کی ایک کہانی ’’سودا بیچنے والی‘‘ بھی پی ٹی وی سکرین کی زینت بنی۔

’’ہتک‘‘ میں سوگندھی کا کردار سویرا ندیم نے ادا کیا تھا اور کاشف محمود نے دلال کا کردار عمدگی سے نبھایا تھا۔ اِس کے علاوہ ’’دس روپے کا نوٹ‘‘، ’’نیاقانون‘‘ اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ بھی پیش کیے گئے۔اور پھر ۲۰۰۵ئمیں جیوٹی وی کے ذریعے سے اداکارہ زیبا بختیار کے’’ وارڈ روب زیبا بختیار‘‘ کے تحت ’’باشاہت کا خاتمہ‘‘ کو ایک بار پھر کیمرہ کی زینت بنایا گیا ۔ جس کے ہدایت کار انجم ایاز تھے۔ اس میں زیبا بختیار اور انجم شہزاد نے مرکزی کردار ادا کیے تھے ۔

۲۰۰۵ میں ہی جیو ٹی وی پر منٹو کا افسانہ ’’ممد بھائی ‘‘ پیش کیا گیا ۔ جس میں ممد بھائی کا کردار ساجد حسن نے اور منٹو کا کردار اکبر سبحانی نے ادا کیا تھا۔اُس سال پی ٹی وی پرائم پر بھی منٹو کی کہانیوں پر مبنی ڈرامے دکھائے گئے اور ۲۰۰۸ئمیں ’’ہم ٹی وی‘‘ نے منٹو کی کہانی ’’کالی شلوار‘‘ عمر قمر کی ڈائریکشن میں پروڈیوس کی جس کی ڈرامائی تشکیل شیخ ناصر محمود نے کی تھی۔اس میں ثانیہ سعید، نادیہ جمیل اور فیصل الرحمان نے کام کیا تھا ۔سرمد صہبائی نے ’’نیا قانون ‘‘اور’’سوگندی‘‘ بھی ڈرامائی تشکیل میں پیش کیے۔ اور ایک چینل نے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کو بھی پیش کیا۔ جس میں راوی کے فرائض اداکار نبیل نے انجام دیے تھے اور رشید فاروقی، طارق بٹ اور شبیر رانا نے بھی اس میں اداکاری کی۔ اس طرح ادبی چاشنی کی کئی کہانیاں اور کئی پلے مختلف برسوں اور مختلف وقتوں میں ٹیلی کاسٹ ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ ادبی شہ پاروں میں اور خصوصیات سے منٹو کے افسانوں میں فلم اور ٹی وی کے لیے بڑا مواد ہے، صرف ان پر گوشت پوست چڑھانے کی ضرورت ہے۔