لا علمی میں ہندوستان ، پاکستان ایک ہیں

Kishwar Naheed aik Rozan
کشور ناھید، لکھاری

لا علمی میں ہندوستان ، پاکستان ایک ہیں

(کشور ناہید)

پرانے زمانے کا قول ہے کہ دانش کہاں سے سیکھیں۔ فرمایا بےوقوفوں سے۔ اسے ہم الٹا کر استعمال کرسکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں، سی این این نے ایف بی آئی سے نکالے گئے چیف کومےکا ڈیڑھ گھنٹے کا انٹرویو پیش کیا۔ جس میں پندرہ منٹ، کومے نے اپنی وضاحت پیش کی۔ باقی سوا گھنٹہ سینیٹ کے اراکین نے باری باری سوالات کئے۔ کئی سینیٹرز تو اپنے علاقے کے لوگوں کے تاثرات بھی نوٹ کر کے لے آئے تھے۔

میں یہ حوالہ کیوں دے رہی ہوں۔ اس لئے کہ ہمارے لوگ چاہے وہ دانیال عزیز ہوں کہ نہال ہاشمی، پھیپھڑوں کا سارا زور لگا کر ایسے بولتے ہیں کہ سننے والوں کو ناگوار گزرتا ہے۔ وہ ان کی باتیں کیسے سنیں، جب چیخ چیخ کر سچ کو بھی جھوٹ بنادیتے ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ اس دن انگلینڈ میں انتخابات ہورہے تھے۔ کامیاب امیدوار، دو چار منٹ کے لئے اپنے منتخب ہونے کے بارے میں تاثرات پیش کرتے تھے۔ وہ بھی سارے ماٹھے تھے کہ آہستہ بول رہے تھے۔ نہ کوئی ایک دوسرے کے منہ میں برقیاں ڈال رہا تھا اور نہ کہیں ہوائی فائر ہورہے تھے۔ ہم ایسے منظروں کے عادی ہی نہیں اس لئے بہت عجیب لگ رہا تھا۔

کہنے کو تو ہمارے اپر ہاؤس میں سوال و جواب ہوتے ہیں۔ بہت کم وزیر، تیاری کر کے آتے ہیں۔ بلکہ فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اندر ان پر آوازیں پڑ رہی ہوتی ہیں۔ وہ آرام سے چائے پی رہے ہوتے ہیں۔ مفت خوروں کو پیسٹریاں کھلا رہے ہوتے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہوتا تو آج چار برس بعد ہم یہ نہ پوچھ رہے ہوتے کہ جائزہ تو لیں، آپ نے ملک کے لئےکیا کام کیا ہے۔ ہر شخص جو میڈیا پرآتا ہے، وہ اپنی پارٹی کی تعریف کرتا ہے۔ چند نام ایسے ہیں جیسے اعتزاز احسن، شبلی فراز اور اسد عمر کہ جو سنجیدگی سے تجزیہ بھی کرتے ہیں، اونچی آواز میں شور بھی نہیں مچاتے۔

اب تو ہر سیاسی پارٹی میں برساتی مینڈکوں کی طرح، لوگ ادھر سے ادھر آجارہے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ لوگ چوہدری منظور کے ساتھ خود کو لیفٹسٹ کہتے ہوئے، یکدم موقع پرست بن گئے کہ اگر یہ حکومت میں آئے تو ان کے کرتوتوں کی لوگوں کو خبر نہیں ہوگی۔ پورے خاندان کو کمانے پر لگا دیں گے۔ ان میں کوئی بھی خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی سردار عبدالرب نشتر اور راجہ صاحب محمود آباد نہیں ہے کہ پہلے دو سال، پاکستان حکومت کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، راجہ صاحب ہی دیتے رہے ہیں۔

ویسے تو ہم ہر سطح پر زور لگاتے ہیں کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے، ہمیں وہ سکھاتا ہے۔ جب ذرا سا تجزیہ، یا سوال اور جواب کا مرحلہ آئے تو ہمارے نوجوان اور درمیانی عمر کے لوگ بالکل سادہ سوالوں کے جوابات بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ مثلاً پوچھا گیا کہ روح قبض کرنے والے فرشتے کا کیا نام ہے۔ ایک شخص بھی صحیح جواب نہ دے سکا۔ پوچھا قرار داد پاکستان کس نے پیش کی۔ ایک بھی ٹھیک جواب نہ آیا۔

پوچھا حضرت عیسیٰ کی والدہ کا نام کیا تھا۔ جواب صفر۔ پوچھا قائد اعظم کی بیگم کا نام کیا تھا۔ جواب صفر۔ ان سب لوگوں نے میٹرک کے بعد ہی کالجوں میں داخلہ لیا ہوگا۔ وہ خود کیا پڑھتے ہیں اور استاد کیا پڑھاتے ہیں۔ پوچھا اسکندر مرزا کون تھا۔ جواب صفر۔ بہت نزدیک کا سوال، مشرقی پاکستان کو اب کیا کہتے ہیں۔ جواب صفر۔ ویسے مجھے ہر نوجوان کے ہاتھ میں موبائل نظر آتا ہے۔ آخر اسے کس لئے استعمال کرتے ہیں۔

اب اگر یہ امریکہ میں ہورہا ہوتا تو ہمیں صبر آجاتا کہ وہاں بچے نہ اردو پڑھنا جانتے ہیں اور نہ پاکستانی تاریخ اور جغرافیے سے واقف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں امریکی بچے ہر تین ماہ بعد گھروں میں ٹھہر کر تہذیب و ثقافت اور آپس میں بول چال خاص کر اردو بولنے کا ہنر، اردو ادب کے بارے میں معلومات اور باقاعدہ اردو لکھنا سیکھ جاتے ہیں۔

ادھر امریکہ میں ہماری دوست طاہرہ نقوی، اپنے شاگردوں کو اردو پڑھنا ہی نہیں سِکھا رہیں بلکہ ادب سے شناسا بھی کررہی ہیں۔ آج کل امریکہ کے زیادہ تر نوجوان ہندی سیکھنے کی چوائس دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کو انڈیا کی اسپانسر شپ مل جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں گلگت بلتستان کے علاقوں کی وہ زبانیں جو معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ ان کو زندہ کرنے کے لئے کبھی اطالوی، کبھی فرانسیسی اور کبھی امریکی آکر اپنے خرچے پر چھ چھ مہینے تک رہتے، واپس جاتے ہوئے جب پاک امریکہ مرکز میں اپنی تحقیق کے بارے میں بتاتے ہیں تو کئی دفعہ شرمندگی کے مارے ہماری آنکھیں بھی اوپر نہیں اٹھتیں۔

اب جب اسمبلی کا تجزیہ کیا جائے تو وہاں آپ کو سوائے ایک فاٹا کے ممبر کے جنھوں نے اب تک اسمبلی کے سارے سیشن باقاعدگی سے اٹینڈ کیے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ نے چار سالوں میں صرف 2 دفعہ اسمبلی کو اپنے وجود سے سرفراز کیا ہے۔ ادھر انڈیا میں بھی بلبلاتے ہوئے کیڑوں کی طرح وہ نوجوان سامنے آرہے ہیں جنھیں معلوم نہیں کہ رادھا اور سیتا میں کیا فرق ہے۔ ان کا بھی ایمان یہی ہے کہ دریائے گنگا جمنا پر جا کے اشنان کرلو، بالکل اس طرح جیسے ہمارے یہاں ہر عرس پر ہزاروں لوگ جاتے ہیں، نہیں جانتے کہ آخر اس بزرگ کی کرامات کیا تھیں۔ یہ لاعلمی پورے برصغیر کو کہاں لے جائے گی۔


بشکریہ: روزنامہ جنگ