ایک ایکٹر، ایک ایکٹریس اور منٹو کی آنکھ

ایک ایکٹر، ایک ایکٹریس اور منٹو کی آنکھ

ایک ایکٹر، ایک ایکٹریس اور منٹو کی آنکھ

از، پرویز انجم

سعادت حسن منٹو ۱۹۳۶ء کے اواخر میں ’’مصور‘‘ ویکلی نیم ادبی و فلمی میگزین کے مدیر ہو کر بمبئی گیا۔ وہاں انہوں نے فلمی صحافت کے ساتھ ساتھ فلم نگاری کی طرف بھی رجوع کیا اورایک فلم ساز ادارے سے وابستہ ہو گئے۔ اُس اسٹوڈیو میں منٹو کو جس پہلی فلم کے مکالمے وغیرہ لکھنے کا کام ملا، وہ ’’بَن کی سندری‘‘ تھی۔ اِس فلم کی ہیروئن عیدن تھی اور ہیرو راج کشور تھا۔ فلم کے ڈائریکٹرکر پلانی تھے اور میوزک ماسٹر گھوش اور ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی. این موگھا تھے۔ منٹو کی زندگی ایک ہموار ڈگر پر آ گئی تھی۔ اسٹوڈیو کی رنگینیوں میں وقت خوب گزر رہا تھا۔ صبح پابندی سے اسٹوڈیو آتے۔ نگار خانوں میں ایکٹر ، ڈائریکٹر اور دیگر عملے کے لوگ عموماً نو بجے پہنچ جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اُن کو ڈائریکٹر اپنے سامنے طلب کر کے اسکرپٹ ، لباس اور گیٹ اَپ کے متعلق ازسر نو ہد ایتیں دیتا ہے طربیہ سین ہوں اُس کے مطابق اور حُز نیہ سین ہوں تو اُس سچوائشین اور کردار کے مطابق۔ لباس اور ہیّت کے تبدیلی میں ایک دو گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد پکچرائزیشن کا کام شروع ہو جاتا ہے نگار خانوں میں مختلف کام کرنے والوں میں بڑی بے تکلفی ہوتی ہے ۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔ کام کے دنوں میں فلور آراستہ اور آباد ہوتے ہیں لیکن باقی دنوں میں اِن کی حالت ویران عمارتوں کی سی ہوتی ہے نگار خانے ایک اپنی خصوصیت رکھتے ہیں ۔ بعض شورو ہنگامے سے معمور ہوتے ہیں۔ بعض میں مکمل سکوت کی حکمرانی ہوتی ہے ، کہیں بڑی سرعت اور تیزی سے کام ہوتا ہے اور کہیں اطمینان و سہولت سے ۔
منٹو نے اپنا لکھنے لکھانے کا کام سنبھال لیا تھا ۔ ڈائریکٹر کے مشورے سے اپنا پیپر ورک کرتے رہتے ۔ فلمی ساتھیوں سے گپ شپ بھی ہوتی۔ ایکسٹرا لڑکیوں سے ہنسی مذاق بھی کرتے رہتے، اور فرصت کے اوقات میں مختلف کام کرنے والے اداکاروں اور ٹیکنیشنوں سے ملتے ۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے اور دل بہلاتے ۔ایکڑوں اور ایکٹرسوں میں تاہم خوش گوار تعلقات بھی ہوتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے نگار خانوں میں آتے جاتے ہیں یہاں بھی ایکٹرسیں آتیں اور ایک دوسرے کے کاموں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتیں۔ منٹو کو جب کوئی کام نہ ہوتا تو وہ اسٹوڈیو کے باہر گلاب کے ہوٹل، جس کی چھت کورو گیٹڈ اسٹیل کی تھی، اُس میں چائے پینے چلے جاتے۔ وہاں سیٹھ ہرمزجی فرام جی، اُن کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔فلموں کے شوقین نوجوان بنے ٹھنے چائے خانے کی کھڑکی سے پھاٹک کے اندر سٹوڈیو کے اندر آتی جاتی ایکٹرسوں کے شربتِ دیدار کے گھونٹ اور کڑک چا ئے پی رہے ہوتے۔ یہ ہوٹل بہت غلیظ تھا کہ الاماں۔ مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے اور گلاب صاحب اپنے ماس خوردہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اُردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ بہت لفڑا ہو جائیں گا۔‘‘ یا پھر زیرِ تکمیل فلم پر تبصرہ کر رہا ہوتا، ’’ایک دم بنڈل فلم بن رہا ہے۔۔۔ مگر اس میں راج بھائی کام کر رہا ہے جو لنگوٹ کا پکا اور دیوتا کے مافق ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اسٹوڈیو میں سارا دن چہل پہل رہتی۔ کوئی خاص مشکل اور تخلیقی کام نہیں تھا وہاں۔ چالو سی فلم بن رہی تھی جس کے لیے چالو قسم کے مکالمے منٹو لکھ دیتے تھے۔ ایک مشکل کام تھا وہاں منٹو جیسے آدمی کے لیے مالک اور ڈائریکٹروں کی چاپلوسی۔ فلمی دنیا میں یہی دستور ہے۔ فلم کے کرتا دھرتا لوگوں کی نازبرداریاں کرنا پڑتی ہیں۔ ذرا سی غفلت کا مطلب ہے کام سے ہاتھ دھونا۔ منٹو لکھتے ہیں:
’’اُس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑ ے ہموار طریقے پر رفتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے۔ بنگالی ایکٹریس سے، جو اُس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی، جو اُس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔ اسٹوڈیو کا مالک ہرمزجی فرام جی، جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹریس کی محبت میں گرفتار تھا۔ ہر نووارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اُس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بو بازار کی رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساؤنڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بہ یک وقت عشق لڑا رہی تھی۔
’’بَن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو، جو اُس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پر کیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اِس ’’بَن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیرمانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اُس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اِس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے مجھے بالکل نہیں تھا، کیونکہ میں اُس زمانے میں ایک منشی تھا، جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اُردو میں جو ڈائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آ جائے، پنسل سے کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔‘‘(میرا نام رادھا ہے ’’چغد‘‘)
اپنے نئے آقاؤں کے چرنوں میں بیٹھنے کے فوراً بعد منٹو کو سب سے پہلا جو سبق پڑھایا گیا کہ ادب محض ایک بکواس ہے۔ سو اُنہیں وہ سب کچھ فراموش کرنا ہوگا جو انہوں نے اب تک ادب کی معرفت سیکھتا تھا۔ فلم کے لوگ فرمائش کرتے کہ اُن کے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنایا جائے لہٰذا منٹو معاوضے کی خاطر خود کو حتی المقدور بانجھ بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ منٹو چونکہ شوبزنس میں وارد ہونے سے پہلے بطور ادیب متعارف ہو چکے تھے لیکن فلمی فکشن لکھنے کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے فلم میں سب سے پہلے کہانی لکھی جاتی ہے جو ایک طرح سے پوری فلم کی تلخیص اور پلاٹ ہوتی ہے اس کے بعد اگر منظر نامہ اور مکالمے لکھنے والا ایک ہی شخص ہے تو مکالمہ اور منظر نامہ کے ایک ساتھ لکھے جاتے ہیں لیکن اگر دونوں کے لکھنے والے الگ الگ شخص ہیں تو منظر نامہ پہلے لکھا جاتاہے اس کے بعد مکالمے لکھے جاتے ہیں مگر عام طور پر منظر نامہ لکھنے والا ہی مکالمے لکھتا ہے ۔ اور اگر وہ نہیں بھی لکھتا ہے تو بھی اکثر کہانی اور منظر نامہ کو واضح کرنے کے لیے وہ مکالمے بھی لکھ دیتا ہے۔ بعد میں کوئی ماہر مکالمہ نگار پہلے کے لکھے ہوئے مکالموں کی مدد لیتے ہوئے اُن کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے پھر سے مکالمے لکھتاہے۔ایک طرح سے یہ ماہر مکالمہ نگار اُن پرانے مکالموں پر پالش کرنے کا کام کرتا ہے اور منٹو صاحب بھی اس فلم ساز ادارے میں مکالموں کو اُردو زبان میں ترجمہ کرتے اور حذف و اضافہ کرتے ہوئے انہیں مؤثر فہم عطا کرتے ۔ فلم’’ بَن کی سندری ‘‘ کی کہانی اور پلاٹ تو جو بھی ہو گا مگر اس فلم کی تکمیل میں اور ایک کہانی تشکیل پا رہی تھی۔ فلم کا ہیرو راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا جس کا کسرتی جسم بہت مردانہ اور سڈول تھا۔ وہ ہمیشہ کھدّر پہنتا اور کانگریس کے جلسوں اور ادبی میٹنگوں میں بھی جاتا تھا۔ لوگوں کے دُکھ درد میں بھی شریک ہوتا تھا اور عوام میں ایک پوتّر ہیرو کے طور پر مقبول تھا۔ وہ کسی کے چرن چھُوتا، کسی کی سیوا کرتا اور ہر وقت بھلائی کے سماجی کاموں میں لگا رہتا۔ فلم پروڈیوسر بھی اُس کی عزت کرتے تھے۔ فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبّوں سے پاک رہنا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ یوں راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا، لیکن منٹو صاحب کو راج کشور کی تعریف و توصیف گراں گزرتی تھی، نہ جانے کیوں؟۔۔۔ منٹو اُس وقت کوئی بڑے آدمی نہیں تھے، فقط ایک منشی تھے۔ اس کے باوجود راج کشور گھنٹوں اُن سے باتیں کرتا رہتا۔ وہ ہر ایک کی عزت کرتا تھا مگر منٹو کے دماغ میں یہ خیال زور پکڑ گیا تھا کہ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے اور یہ بن رہا ہے۔ اس میں شک نہیں اُس کا کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ بیوی کے سوا کسی دوسری عورت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ سب ایکٹریسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اُسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ لیکن منٹو کا سوچنے کا اپنا انداز تھا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے۔ بقول منٹوجیسے کوئی بورڈ لگایا جا رہا ہو، ’’یہ سڑک بند ہے۔‘‘ یا پھر ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بھئی جب آپ کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اُس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ‘‘ انہیں یہ الجھن تھی۔ منٹو صاحب کے خانے میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ یہ بندہ یونہی بن رہا ہے۔
فلم کی ہیروئن مس عیدن تھی اور ویمپ کے رول کے لیے ایک نئی لڑکی کو لیا گیا تھا۔ منٹو نے اُسے نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر آ رہے تھے کہ منٹو کی اُس سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ چونکہ عورتوں کو ہمیشہ چور آنکھ سے دیکھنے کے عادی تھے، اگر کوئی عورت ایک دم اُن کے سامنے آ جاتی تو اُنہیں اس کا کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ سانولے سے رنگ کی اُس لڑکی کا نام نیلم تھا۔ آہستہ آہستہ مس نیلم سے اُن کی دوستی ہو گئی۔ وہ منٹو کو سعادت کے بجائے صادق کے نام سے مخاطب کرتی تھی۔ ایک دن منٹو نے اُس سے کہا کہ ’’نیلم! تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اُس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اُسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘ اُن کے تعلقات بہت بے تکلّف ہو گئے تھے۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ منٹو نے ایک بار اُس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اُس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ اور پھر اُس نے کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے!‘‘ منٹو کو اندازہ تھا کہ وہ جسے اسٹوڈیو کے لوگ ایک معمولی ایکٹریس سمجھتے تھے اور ہر کوئی اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ بہت پیاری چیز تھی۔ اُس میں دوسری ایکٹریسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اُس کے سانولے چہرے کی ملیح جِلد، بہت ہی صاف اور ہموار تھی۔ اُس کی آنکھوں میں اور پتلے ہونٹوں کے کونوں میں غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں۔ مگر واقعہ یہ تھا کہ اُس چیز نے اُسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کر دیا تھا۔ بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اِس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہو سکتا۔ ’’بَن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ منٹو حیران تھے کہ نیلم کو اِس فلم میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا۔ کیونکہ اُس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو منٹو کو بہت صدمہ پہنچا۔ نیلم دوسروں کا ردّعمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ اُس نے منٹو سے وضاحت کی کہ ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے اس لیے تمہارے واسطے اِس لباس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ میں نے اُن سے کہا، اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کو تیار ہوں۔‘‘
منٹو نے پوچھا، ’’ڈائریکٹر نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم نے خفیف سی پُراسرار مسکراہٹ میں جواب دیا، ’’انہوں نے تصوّر میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا ہو گا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں، یعنی اِس لباس میں مجھے دیکھ کر بے چارے تصوّر پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی!‘‘ یہ فقرہ ذہین لوگوں کے لیے نیلم کے تعارف کے لیے کافی ہے۔ ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی ہیروئن عیدن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ سب لوگ میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم بھی ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ کوئی بازاری قسم کا گانا تھا مگر دُھن اچھی تھی۔ ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے فرداً فرداً سب کو آداب کیا۔ مس عیدن کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن! کل آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا، آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ پھر اُس کی نظر پیانو کے پاس ایک کرسی میں دھنسی ہوئی نیلم پر پڑی۔ ایک دم اُس کے ہاتھ نمسکار کے لیے اُٹھے۔ یہ دیکھتے ہی نیلم اُٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہئے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہو گئے۔ راج کشور کھسیانہ سا ہو گیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘ نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔ اگلے روز گلاب کے ہوٹل میں اس واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔۔۔ ’’سالی کا اپنا من میلا ہو گا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ بُرا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو اُس کی مراد پوری نہیں ہو گی۔ راج بھائی لنگوٹ کے بہت پکے ہیں۔‘‘
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی، منٹو نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا، جس کا مطلب ہے کہ وہ نہایت دلچسپ باتیں کر رہا تھا اور نیلم اُس کی کسرتی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اُس کے کُرتے کے بٹن کھلے تھے اور سفید بدن پر اُس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہو رہے تھے۔ جب ایک دم نیلم اور منٹو کی آنکھیں چار ہوئیں تو منٹو کو اُس کی نگاہوں کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا، نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ جب کشور چلا گیا تو نیلم نے ہاتھ کے اشارے سے منٹو کو بلایا اور تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد کہا کہ ’’آج آپ میرے ساتھ چلئے گا۔‘‘ شام کو چھ بجے وہ نیلم کے مکان پر تھے۔ گفتگو کرتے ہوئے نیلم نے منٹو سے اچانک پوچھا، ’’صادق! راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ راج کشور میں کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آ گئی ہے؟‘‘
منٹو نے فوراً کہا، ’’مجھے وہ پسند نہیں۔۔۔ اُس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ اُس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔ ہو سکتا ہے تمہیں اُس سے محبت ہو گئی ہو!‘‘
نیلم نے صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے سنجیدگی سے کہا، ’’صادق! یہ کیسے ہو سکتاہے؟ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہو گی؟‘‘ منٹو نے کہا، ’’بائیس سال!‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہو گی۔ مگر تم یقین نہیں کرو گے میں تمہیں جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم! وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔‘‘ وہ تنگ آ کر اُٹھ کھڑی ہوئی، ’’تمہارا کیا خیال ہے میں کس قسم کی عورت ہوں؟‘‘
منٹو مسکرائے اور جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اُس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
منٹو نے کچھ سوچ کر کہا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی۔ اُسے رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اُس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بِلا آ جایا کرتا تھا۔ پھر اُن دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ خدا کی پناہ۔۔۔ مگر اُس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔۔۔ ہٹاؤ جی اِس قصّے کو۔۔۔ تم نہیں جانتے میں زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری مراد کیا ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پُراسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگ اختیار کر گئی۔
کئی دن گزر گئے۔ نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہو گئی تھی اور راج کشور کے کُرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ ’’بَن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کے سین کی فلم بندی ہو رہی تھی۔ جو سین لیا جا رہا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ منٹو نے اس کے مکالمے لکھے تھے، اُنہیں معلوم تھا کہ باتیں کرتے کرتے راج نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس کے تصوّر سے منٹو کے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ رہی تھی کہ دونوں کا ردّعمل کیا ہو گا۔ شوٹنگ شروع ہوئی۔ سارا سین مکمل ہو گیا اور کچھ نہ ہوا۔ ’’اسٹارٹ‘‘ اور ’’کٹ‘‘ کی آوازیں بلند ہوتیں، ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ لائٹس روشن ہوتے اور گُل ہو جاتے اور پھر جب شام کو سین کے کلائمکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کر کے اپنا ہاتھ چوم کر الگ کر دیا۔ منٹو کا خیال تھا کہ اِس پر نیلم جذباتی ہو کر اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا ریکارڈسٹ کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اِس کے برعکس انہوں نے دیکھا کہ نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ تھی جس میں ایک عورت کے مجروح جذبات تھے، مگر اس کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ یہ صرف ایک لمحے کو تھا۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کے بجائے راج نے اپنا ہاتھ کیوں چوما؟ کیا اُس نے عورت کی تذلیل کرنے کی کوشش کی تھی؟۔۔۔ کیا اُس نے ریکارڈنگ روم میں بہن کہنے والی بات کا انتقام لیا تھا؟ ایسے کئی سوال منٹو کے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔ اُنہیں سخت مایوسی ہوئی۔ اِس بات کو تین روز گزر گئے۔ گلاب کے ہوٹل میں اِس بات کے خوب چرچے ہوئے۔ چوتھے روز منٹو ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گئے تو اُس نے بھی مزے لے کر اپنے انداز میں اس قصّے کو شروع کر دیا۔ ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی باتیں بتاتے نہیں یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے، راج بھائی نے کیا کیا؟۔۔۔ آپ کی فلم میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب! کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکھیائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا کہ نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے۔ اُس گندی عورت کا منہ میں کیوں چوموں گا۔۔۔ بس صاحب، پھر ڈائریکٹر کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی، تم منہ نہ چومو، ہاتھ چوم لو۔ مگر ہمارے راج بھائی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اُس نے اِس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اُس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
منٹو نے اِن باتوں کا ذکر نیلم سے نہیں کیا۔ اُسے خوامخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ؟اٗس ماحول میں حٗسن و جوانی کی رعنائیاں اور جھوٹ، فریب، مکاریاں، کینہ، مصلحتیں،انسانی زندگی کے رویوں میں تضادات،زندگی کے اِس نئے پن سے منٹو میں دنیا کو دیکھنے اور انسان کو بہتر انداز میں سمجھنے کی صلاحیت اور بڑھ رہی تھی جن کو وہ اپنے ادب میں سمیٹتے جارہے تھے کچھ دن ہوئے کہ ’’بَن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا۔ بارش بڑے زوروں پر تھی۔ بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ نیلم اچانک تیز بخار میں مبتلا ہو گئی۔ چونکہ منٹو کو اسٹوڈیو کوئی کام نہیں تھا، مکالمے لکھے جا چکے تھے، اس لیے وہ نیلم کے گھر اُس کی تیمارداری کے لیے چلے جاتے۔ نیلم کی آنکھوں اور اُس کے ہونٹوں کے کونوں میں ناقابلِ بیان تلخیاں گھلی رہتیں۔۔۔ ایک دن جب وہ مس عیدن کی بیمار پُرسی کاشکریہ ادا کر رہی تھی، نیچے سے موٹر کی آواز آئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اور راج کشور کھادی کا بستہ کاندھے پر لٹکائے اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔ عیدن کو بہن کہہ کر سلام کیا۔ منٹو سے ہاتھ ملایا اور اپنی تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو بیوی کا سب سے تعارف کرا کے نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا اور مسکرا کر بیمار نیلم کی طرف دیکھا۔ منٹو نے پہلی مرتبہ اُس کی دُھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتے ہوئے دیکھا۔ پھر اُس نے کھلنڈرے انداز میں کہنا شروع کیا کہ ’’بہت دنوں سے ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کی بیمار پُرسی کے لیے آؤں مگر کم بخت موٹر دس دن تک خراب کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے اپنی پتنی شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور اُن سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اُس نے ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی سنولاہٹ میں اور زیادہ درد انگیزی پیدا ہو گئی۔ اُس کے پتلے ہونٹ بھنچ گئے تھے، جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہو۔ منٹو کو یقین تھا کہ ایک دم سے کچھ ہو گا اور وہ ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ وَا ہوں گے۔۔۔ لیکن اُس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنے والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم، جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اُس کا تکمہ بند کر رہی تھی۔ راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ روپے دیے جو اُس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، نیلم اور منٹو اکیلے رہ گئے تو اُس نے بس ایک اُجڑی ہوئی نگاہ منٹو پر ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پر راج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ منٹو کوئی دو گھنٹے اُس کے پاس بیٹھے اخبار پڑھتے رہے۔ جب اُس نے کوئی بات نہ کی تو وہ اُٹھ کر چلے آئے۔
اِس واقعے کے چند روز بعد منٹو ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھے شیو کر رہے تھے اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرینڈیز کی گالیاں سن رہے تھے کہ نیلم اندر داخل ہوئی۔ اُس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا ہو، سر کے بال صحیح حالت میں نہیں تھے، سفید ساڑھی کی بوٹیاں اُڑی ہوئی تھیں، بلاؤز کے ہُک کھلے تھے اور اُس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آ رہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر منٹو سے کچھ پوچھا ہی نہ گیا۔ انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ دروازہ بند کر دیا اور کرسی کھینچ کر اُس کے پاس بیٹھے تو اُس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ منٹو نے کہا۔
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے مکان پر آئے گا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس کے بے شکل ہونٹوں پر وہی خفیف سی پُراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا۔۔۔ میں نے کہا، چلئے دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ میں میک اپ کرتی رہی، وہ خاموش کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں چڑیل بن گئی تو میں نے دروازہ بند کر دیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ منٹو نے سوال کیا۔
’’میں نے اُس کو جھنجھوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اُس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اُس نے میرا منہ نوچا، میں نے اُس کا۔ ہم بہت دیر تک ایک دوسرے کونیچا دِکھاتے رہے۔ اُس میں بلا کی طاقت تھی۔ لیکن جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں، وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا،میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ میں نے اُسے پکڑ لیا۔ میں نے اُس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔ اُس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے اِن انگلیوں سے نوچیں۔ اُس نے میرے بال نوچے مگر میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ فتح میری ہو گی۔۔۔ ہانپتے ہوئے بھی میں نے اُس کے کُرتے کوچندی چندی کر دیا۔ اُس وقت میں نے اُس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔ میں ایک دم اُس پر جھکی اور اُسے کاٹنا شروع کر دیا۔ جب میں نے اُس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اُسے ایک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہو گیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے اُس سے ایک دم نفرت ہو گئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اُس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اُس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ کمرے کی ہر چیز مجھے مصنوعی دکھائی دی۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا کہ شاید میرا دم نہ گھٹ جائے، اور سیدھی تمہارے پاس چلی آئی۔‘‘
وہ خاموش ہو گئی۔۔۔ سامنے میز پر شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ ہانپتے ہوئے چارپائی سے اُٹھ کر اُس نے پانی پیا اور جاتے ہوئے صرف اِس قدر کہا، ’’سعادت! میرا نام رادھا ہے!‘‘
’’ نیلم ‘‘۔۔۔ یا ۔۔۔’’ میرا نام رادھا ہے ‘‘ ایک اداکار اور اداکارہ کی کہانی جو کیمرے پر منتقل نہیں ہوئی ، مگر منٹو کے شیشے سے چھپی نہ رہ سکی ۔