بشن سنگھ مرا نہیں تھا!

لکھاری کی تصویر
صاحب مضمون، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

(ناصر عباس نیرّ)

اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کو حیرت نہیں ہوئی تھی کہ منٹو کے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘کا بشن سنگھ مرا نہیں تھا،بے ہوش ہوا تھا۔ان دیکھنے والوں کے ذہن میں پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوا کہ جب بشن سنگھ گرا ہے تو کسی کویہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس کی نبض ہی دیکھ لے۔ہو سکتا ہے ،چل رہی ہو۔کیا سب اس کی موت چاہتے تھے ؟ ایک پاگل سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے ؟آخر سب نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ وہ جب زمین کے اس ٹکڑے پر اوندھے ، جس کا کوئی نام نہیں تھا، تو وہ مر گیا تھا۔ کیا اوندھے منھ پڑا ہوا آدمی لازماً مرا ہوا ہوتا ہے؟ یہ جو ایک نئی جگہ وجود میں آئی تھی ،جس کا کوئی نام نہیں تھا ،وہاں کوئی آدمی زندہ نہیں رہ سکتا؟زندہ رہنے کے لیے جگہ ہی کتنی چاہیے ؟کیازندہ رہنے کا حق صرف انھی کو ہے جو خاردارتاروں کے اِس طرف یا اُس طرف رہتے ہیں؟زمین پر ان دو طرفوں کے وجود میں آنے کے بعد وہ سب لوگ کیا کریں جن کے لیے زمین سب طرفوں سے بے نیاز ہوتی ہے ؟دیکھنے والوں نے ایک دوسرے سے اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا کہ بشن سنگھ کی چیخ سن کر دوڑنے والے افسر تبادلے کے کام سے تھکے ہوئے تھے،کیااس لیے انھیں بشن سنگھ کی نبض دیکھنے کا خیال نہیں آیا؟تھکے ہوئے افسرموت کے سوا کچھ نہیں سوچتے؟ان تھکے ہوئے افسروں نے یہ غورکیوں نہیں کیا تھاکہ بشن سنگھ اوندھے منھ ہی کیوں گرا تھا؟ اوندھے منھ تو وہی گرتا ہے جسے دھکا دیا گیا ہو؟اگر بشن سنگھ کو مرا ہوا سمجھنے والے غور کرنے کی تھوڑی سی زحمت کر لیتے تو اس شخص کی تلاش ضرور کرتے ،جس نے بشن سنگھ کو خاردار تاروں پر دھکا دیا تھا۔ہوسکتا ہے ،دھکا کئی دن پہلے ،کئی ہفتے پہلے ، یا پندرہ سال پہلے دیا گیا ہو،مگر لحیم شحیم بشن سنگھ گرا ،اب ہو۔ بشن سنگھ کو زندہ دیکھنے والوں کی متفقہ رائے تھی کہ اگر اس شخص کو تلاش کرلیا جاتا ،اور اس کا ٹرائل کیا جاتا ،جس نے بشن سنگھ کودھکا دیا تھا تو خاردارتاروں کے دونوں طرف توپیں نہ گرجا کرتیں۔ایک بشن سنگھ کو مرا ہوا سمجھ کر ،اس سے لاتعلق ہونے کی سزا کروڑوں لوگوں کواتنی کڑی نہ ملتی ۔بشن سنگھ کو زندہ دیکھنے والوں نے اس بات پر کافی غور کیا کہ سرحد پر تبادلے کے افسر وں نے بشن سنگھ کی چیخ کو مدو اور پکار کیوں نہ سمجھا، آخری ہچکی ہی کیوں سمجھا؟کیا وہ افسرا س شخص کے ساتھ ملے ہوئے تھے ،جس نے بشن سنگھ کو دھکا دیا تھا؟ یا تبادلے کا کام کرنے والوں میں مدد کی پکار اور موت کی چیخ میں فرق کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی؟
دیکھنے والے ،ایک طرف بشن سنگھ کو دیکھتے تھے،اور دوسری طرف آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ وہ پہلا سوال یہ کرے گا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ اس نے خاموشی سے سب کی طرف دیکھا۔سب سوچنے لگے کہ وہ’ اوپڑ دی گڑ گڑ اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین‘ کہے گا،مگر وہ چپ چاپ سب کو دیکھتا رہا۔سب منتظر تھے کہ بشن سنگھ کیا کہتا ہے۔بشن سنگھ نے اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھا،جوپندرہ سال تک کھڑے ہونے کی وجہ سے سوج گئی تھیں،اور کئی جگہوں سے پھٹ گئی تھیں ،اور ان میں گہرے زخم تھے۔اس نے پہلی مرتبہ ان میں درد محسوس کیا۔اپنے سینے کو دیکھا جس پر خاردار تاروں کے زخم تھے ،اور خون اب تک تازہ تھا۔اس نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔پہلی بار اسے ڈاڑھی کے بال کرخت محسوس ہوئے۔
دیکھنے والوں سے رہا نہیں گیا۔سب بہ یک زبان بول اٹھے ۔بشن سنگھ کچھ کہو گے نہیں؟
بشن سنگھ نے سب کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کی پہچان کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ دیکھنے والے سمجھ گئے کہ وہ خود کو اجنبیوں میں محسوس کررہاہے۔ ایک نوجوان بولا۔ تو ہم سب کو نہیں جانتا ،ہم اپنا تعارف کروائے دیتے ہیں۔بشن سنگھ ، ہمارا جنم تمھارے ’ اوپڑ دی گڑ گڑ اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین‘ سے ہوا ہے۔تو زندہ ہے ،اور دیکھ ہم تیری اوپڑ دی گڑ گڑ کی اولاد ہیں،جو کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ہم بھی کسی کو سمجھ نہیں آئے،پر تو ہمیں سمجھ سکتا ہے۔دوسرے نوجوان نے کہا۔ہم تیری اس چیخ کا جواب ہیں جو اس روز سورج نکلنے سے پہلے تیرے حلق سے نکلی تھی ،اور جس سے فلک کا سینہ شق ہوگیا تھا،اور وہ آسمانوں میں آوارہ پھرتی تھی ،اور کسی ٹھکانے کی تلاش میں تھی۔ہم کوہ ندا کی طرح اس چیخ کی صدا پر ساٹھ سالوں سے دوڑتے ہاپنتے یہاں تک آئے ہیں،اور اپنے سینوں میں اسے جگہ دی ہے۔تیسرا نوجوان بولا۔تو نو مینزلینڈ پر ساٹھ سالوں سے پڑا تھا۔ ہم تمھیں وہاں سے اٹھالائے ہیں۔ بشن سنگھ نے سب کی طرف مزید حیرت سے دیکھا۔
پہلا نوجوان بولا۔ تو ،اینکس کا مطلب تو جانتا ہے ناں،نو مینز لینڈ وہ ہے ،جس کا اینکس نہیں ہواتھا،نہ اس وقت ہو سکتا تھا۔ ہم تمھیں کیسے بتائیں وہاں ہم کیسے پہنچے۔جب تو بے ہوش ہو کر گرا تھا ،اس وقت اس جگہ پر جھگڑا نہیں تھا۔اس کے بعد کوئی جگہ ،ایک انچ ایسانہیں ،کوئی لفظ ایسا نہیں جس پر جھگڑا نہ ہو اہو،جہاں خون نہ گرا ہو،جہاں خون گرنے کا ہر وقت امکان نہ ہو۔تو جہاں موجود ہے،اس پر بھی دونوں طرف بہت جھگڑے ہوئے ہیں۔اب جگہ کا مطلب بھی بدل گیا ہے،اب لفظ ،کہانی سب جگہ ہیں،ان پر کس طرح کے جھگڑے ہیں، تو سنے تو تیرے سینے میں اس سے بڑا زخم ہو،جو خاردارتاروں پر گرنے سے تجھے لگا ہے۔
بشن سنگھ کی حیرت کچھ کم ہوئی،مگر سخت کرب اس کے چہرے سے عیاں تھا،اور اس کی سفید گرد آلود ڈاڑھی بھیگ گئی تھی۔
دوسرا نوجوان بولا۔ بشن سنگھ ، ہم سب حیران تھے کہ تمھیں مر دہ سمجھنے والوں نے تیرے انتم سنسکار بھی نہیں سوچا۔
تیسراا نوجوان بولا۔اچھا کیانہیں سوچا، ایک جیتے جاگتے آدمی کو چتا میں ڈال دیتے،اور پھر جھگڑااس بات پر ہوتا کہ لاش کس طرف کے گوردوارہ میں لے جائیں، معلوم نہیں کوئی کیرتن کے لیے بھی ملتا کہ نہیں،پھر اس پربھی جھگڑا ہوتا کہ چتا کے لیے لکڑیاں خاردارو تاروں کے اس طرف کی ہوں ،یا اس طرف کی، راکھ ٹوبہ ٹیک سنکھ کے پاس کے دریا میں بہائیں یاکہیں اور۔تم جانتے ہو ،اس کے بعدجنگل،دریا، شہرسب کو ہماری طرح مذہب مل گیا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سن کر بشن سنگھ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ،جیسے پوچھ رہا ہو،تم کس طرف کے ہو؟
پہلاانوجوان سمجھ گیا۔بولا۔بشن سنگھ ہم منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرف کے ہیں۔
بشن سنگھ ایک مرتبہ پھر حیران ہوا۔وہ تو اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے واقف تھا، یہ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں سے آگیا۔ دوسرے نوجوان نے اس کی حیرانی دیکھتے ہوئے کہا ،بشن سنگھ، تیرے ٹوبہ ٹیک سنگھ نے تو تجھے نکال دیا تھا، منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ نے تمھیں اپنے دل میں جگہ دی۔ بشن سنگھ نے دیدے پھاڑ کر دیکھا۔ تیسرا نوجوان اس کی مشکل سمجھ گیا۔بولا۔بشن سنگھ ،تو جس جگہ گرا تھا، وہ کسی کی نہیں تھی،منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ اسی خاک کے ٹکڑے سے اگا تھا۔اگر منٹو تجھے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جگہ نہ دیتا تو کسی کو پتا ہی نہ چلتاکہ کوئی بشن سنگھ تھا ،اور اس کا ایک ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا۔ہوسکتا ہے تو بھوت بن جاتا،اور تیری اوپڑ دی گڑ گڑ سے راکھشس جنم لیتے،ہم نہیں ۔منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ نے تجھے بچا لیا اور تجھے ابدی ٹھکانہ بھی مل گیا۔ اس نے آنکھیں جھپکیں۔ جیسے پوچھ رہا ہو، میں اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو چھوڑ کر کسی اور کے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کیسے رہ سکتا ہوں، جیسے کَہ رہا ہو، میں یہاں سے نکلنا چاہتاہوں۔پہلا نوجوان اس کا سوال سمجھ گیا۔ بولا۔ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔
بشن سنگھ نے ان تینوں کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھا۔ دوسر ا نوجوان بولا۔دیکھو ،بشن سنگھ،ہم سب اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جب ایک دفعہ نکل جاتے ہیں تو واپس نہیں جاسکتے،اور جس نئے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جابستے ہیں ،وہاں سے نکل نہیں سکتے،اور ہر کسی کو نیا ٹوبہ ٹیک سنگھ نہیں ملتا۔کتنے ہی لوگ ہیں جو صرف مارے مارے پھرتے ہیں۔وہ بالآخر بھوت بن جاتے ہیں،اور انسانوں کی دنیا سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتے ہیں۔تمھیں تونیا ٹوبہ ٹیک سنگھ مل گیا ،امر ہوگئے ،ہم جیسے کتنے ہی تیری اوپڑ دی گڑ گڑ سے جنمے ،اور جنم لیتے رہیں گے،مگر انھیں نہ تو اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ ملے گا ،نہ کسی منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ۔
بشن سنگھ کی ڈاڑھی بھیگ گئی۔ پہلے نوجوان نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا،اور پڑھااور سمجھا۔ بولا۔میں سمجھ گیا بشن سنگھ،تو اس لیے دکھی ہے کہ تو امر تو ہوگیا ،لیکن اپنی سوجی ٹانگوں اوردھکا لگتے سمے ،سینے میں لگنے والے زخموں کے ساتھ۔ بشن سنگھ ،ابدی زندگی خود ایک سزاہے ،لیکن سوجی ٹانگوں اور رستے زخموں کے ساتھ امر ہونا، سزاے عظیم ہے،اور یہ دونوں سزائیں ہم تیرے ساتھ چار پشتوں سے بھگت رہے ہیں!!

( مصنف کے زیر اشاعت اوّلین افسانوی مجموعے میں شامل ’حکایات جدید ومابعد جدید‘ کی ایک حکایت)

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas

2 Comments

  1. Seems to me an example of ‘Scriptable’ text of Roland Barthes – a re-writing in which the reader not only brings out the inherent ‘gaps’ and ‘holes’ of the text but also re-creates the text. The most astonishing element of this piece is that it is ‘creative practice – a short story’ in its own right but at the same time it is a kind of ‘radical’ criticism. Sir Nasir Abbas Nayyar has demonstrated how ‘criticism’ can be ‘creative’. A masterpiece.’

  2. ہم جو بے دھیانا سے جنمے تھے انھیں بھی زباں مل گئی

Comments are closed.