دنیا کے عظیم کہانی کار: دوستوئیفسکی کی کہانی

دوستوئیفسکی کی کہانی

از، حبیب الرّحمٰن

عظیم روسی ناول نگار فیودور دوستوئفیسکی 11 نومبر1821ء کو ماسکو میں پیدا ہوا۔ سات بہن بھائیوں میں دوستوئفیسکی دوسرے نمبرپر تھا۔ اس کی ماں ماریافیودورناایک خوش شکل،نرم خواور سلیقہ مند خاتون تھی۔جبکہ باپ جو بدمزاج اور اَکھڑ طبعیت کا مالک تھا، ایک خیراتی ہسپتال میں ڈاکٹر تھا۔

دوستوئفیسکی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی دس سال کی عمر میں ایک فرانسیسی ٹیوٹر کے پاس پرائیوٹ سکول میں داخل کروایا گیا۔ اور درجہ چہارم تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدایک بورڈنگ سکول میں داخل کروایا گیا۔

1837ء میں دوستوئفیسکی کو پیٹرز برگ کے ملٹری انجنیرنگ کالج میں داخل کروایا گیا۔ کالج کی تعلیم کے دوران ہی اس کے باپ کو اُس کے زرعی غلاموں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کر دیا۔جس کی وجہ سے دوستوئفیسکی کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ 18سال کی عمر میں دوستوئفیسکی کو مرگی کا دورہ پڑا اور زندگی کے آخری مراحل تک اس بیماری نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔

1843ء میں دوستوئفیسکی ملٹری انجنیرنگ کور میں سب لیفٹینٹ کے عہدے پر فائز ہوا۔لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اُس نے ملازمت کو خیر باد کہہ دیااور کل وقتی ادیب بننے کا فیصلہ کیا۔دوستوئفیسکی دیوانگی کی حد تک جوئے کا شوقین تھا۔اور اسی لت کی بدولت وہ عمر بھر غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا رہا۔دوستوئفیسکی کی شخصی زندگی انتہائی غیر متوازن تھی۔

صاحب مضمون، حبیب الرحمٰن
صاحب مضمون، حبیب الرحمٰن

اپریل1849ء کو جمعہ کی شب دوستوئفیسکی کو زارحکومتکی مخالف انجمن میں ایک خط پڑھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیااس خط میں حکومت اور مذہب کے اداروں کی توہین کی گئی تھی۔1849ء میں اسے سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا۔لیکن آخری وقت میں جب وہ تختہ دار پر موت کا منتظر تھا اس کی سزاء کو قید اور جلا وطنی میں بدل دیاگیا۔اسی ایک لمحے نے دوستوئفیسکی کے ذہن پر ہول ناک گہرے اثرات مرتب کیئے۔

دوستوئفیسکی کو دنیائے ادب کے ناول نگاروں میں ایک منفرد مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ دنیا کے تمام بڑے نقادوں کی رائے میں دوستوئفیسکی عالمی سطح پر سب سے بڑا ناول نگار تسلیم کیا جاتاہے۔اس کے ناولوں اور تصوارات کا اثر عالمی فکشن کی روایت پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ نے لکھا ہے کہ، عظمت کے اعتبار سے دوستوئفیسکی،شکسپیئرسے چند قدم پیچھے ہے۔اسی طرح مشہور ماہر نفسیات ایڈلر نے بھی دوستوئفیسکی کی شخصیت کا گہرا نفسیاتی تجزیہ کیا۔

دوستوئفیسکی بطور فنکار، آرٹسٹ، نقادوں،مذہبی مفکروں اور سیاسی مفکروں کی توجہ کا مرکز رہا۔ کیونکہ اس کے ناولوں میں مذہب، سیاست، نفسیات اور تاریخ پر سیرحاصل گفتگو ہوئی ہے۔دوستوئفیسکی کا فن اور شخصیت آپس میں مربوط تھے۔اس کے ناولوں میں اُس نے اپنی زندگی کے بے شمار واقعات سائبریا میں اُس کی جلا وطنی اور سزا کا سیر حاصل بیان ملتا ہے۔

انیسویں صدی کے آ خری نصف میں اس کی شہرت روس سے نکل کر برلن،پیرس،لندن اور نیویارک تک جا پہنچی تھی۔دوستوئفیسکی دنیا کے ادب میں فلسفیانہ ناولوں کا باوا آدم اور نئے روس کا روحانی لیڈر کہلاتا ہے۔

دوستوئفیسکی نے عالمی ادب کو جرم و  سزا، ایڈیٹ،Devilisاور کرامازوف برادران جیسے شاہکار ناول دئیے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے انسان کے باطن اور روح میں گہری نفسیاتی بصیرت کے ساتھ جھانکا ہے۔اس کے ناولوں میں انسانی نفسیات، داخلی جذبات اور روحانی کش مکش کی تصویریں جھلکتی نظر آئی ہیں۔اس کے فن میں زندگی کا عکس اور تجربے کی آنچ موجود ہے۔اس کی تخلیقات میں مذہب،نفسیات اور وجودیت کو گہری معنویت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔دوستوئفیسکی نے فرد کے باطن،جرم کی نفسیات اور جبرواختیار پر کھل کر بحث کی۔ دانشوروں نے اسے فرائیڈ سے بڑا نفسیات دان قرار دیا۔

اس کے ناول تہہ خانے سے (Notes from the underground) سے ماڈرن وجودیت پسندی کا آغاز ہوا۔
دوستوئفیسکی ایک غیر معمولی ادیب اور ماہر نفسیات تھا۔نطشے جو اپنے علاوہ کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتا تھا لکھتا ہے کہ دوستوئفیسکی ایک ایسا ماہر نفسیات جس سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

“Dostoevshy……… the only psychologist from I have any thing to learn.”

دوستوئفیسکی ایک غیر معمولی تخلیقی نابغہ تھا۔ اس کے ناولوں کی صداقت آج بھی زندہ ہے اس کی تصانیف علم اخلاق، فلسفے اور مذہب کے نقطہ نظر سے بلند پایہ اور بیش بہا ہیں۔

:رینے فلپ ملر نے لکھا ہے کہ

“Dostoevshy’s work is a milestone in the history of Novel.”

1881ء میں ساٹھ برس کی عمر میں عظیم روسی مصنف اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کے جنازے میں چالیس ہزار افراد نے شرکت کی۔ روس کے تمام اطراف سے دانشوروں اکادمیوں، اُس کے مداحین کی بڑی تعداد اُس کے آخری دیدار کو آئی۔ اُس کو نفیسکیکے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔