برصغیر کی اقلیت جب بنی اکثریت: ہمارا کمزوروں سے رویہ

اقلیتیں

(یاسرچٹھہ)

پاکستان، متحدہ ہندوستان کے بطن سے ایک سیاسی حقیقت کے طور پر نمودار ہوا۔ اسے الگ ملک کے طور پر کیوں معرض تخیل میں لایا گیا۔ آخر کیا مسئلہ تھا کہ ہمارے آباء و اجداد کو ایک الگ ملک بنانے کی سوچ نے آن گھیرا؟ قائداعظم محمد علی جناح آخر کیوں کچھ خاص آئینی و قانونی ضمانتوں کو ہر صورت مہیا کرنا چاہتے تھے۔

1936-37 میں منعقد ہونے والے متحدہ ہندوستان کے انتخابات کو ذہن میں لائیے۔ نتائج آئے، اور غور کیجئے۔ مسلم لیگ کوئی خاص قابل ذکر کامیابی حاصل نا کر پائی۔ یہ کہیں بھی وزارت نا بنا پائی۔ متحدہ ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے 8 میں کانگرسی وزارتیں قائم ہوئیں۔ ان کانگرسی وزارتوں کے دور میں اسکولوں اور دیگر مقامات پر اس وقت کی اکثریت نے جو رویہ رکھا اس کی تفصیلات ہمارے آج کے سرکاری اسکولوں کے طلباء کو مقام عبرت کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بندے ماترم کا ورد و وظیفہ کرنا زبردستی لاگو کر دیا گیا۔ گائے کے ذبیحہ کی کسی خواہش کو چھرے تلے رکھا گیا۔ الغرض، اکثریت نے احساس دلایا کہ اکثریت کیا کر سکنے کے امکانات سے بھرپور ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے کچھ محسوس کیا۔ احساس یہ تھا کہ وقت اب بدلے بدلے ہیں۔ مغل بادشاہت لوٹ کر آنے کے خواب دیکھنا عبث تھا۔ پدرم سلطان بود کی مالا جپنے سے اب گزارہ کرنا محال تھا۔ عددی اکثریت کی بنیاد پر نسق حکومت چلنا تھا۔ مسلمان کسی طور پر آبادی کے تناسب میں ہندو مکتبئہ فکر کے پاسنگ بھی نا تھے۔

تو پھر میدان سیاست میں پیش بینی اور نگاہ دور رکھنے والوں نے سوچا کہ حالات ایسے تو وارے میں نا تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کچھ ایسی کم بھی نا تھی کہ اس سے کلی طور پر صرف نظر کیا جا سکتا۔ گننے چننے میں تو تھے ہی نا۔ لیکن اتنے تھے کہ انہیں اقلیت ہی کہا جانا تھا۔ ایک حاشیہ کے باسی ہونا مقدر بننے والا منظر تھا!

یاسرچٹھہ
یاسرچٹھہ

پیش بین سیاسی رہنماؤں نے سوچا کہ صدیوں محکوم رکھی گئی اکثریت اپنے ماضی کے بل ضرور نکالے گی۔ جیسا کہ ایک نمونہ سنہ 1937 کی کانگرسی وزارتوں نے دکھایا دیا تھا۔ اب پرکھئے دیکھئے تو معلوم یہی پڑتا ہے ڈاکٹر عائشہ جلال جیسے ذمہ دار مورخین تو یہی کہتے ہیں کہ قائداعظم متحدہ ہندوستان کی مسلمان اقلیت کے لیے زیادہ سے زیادہ آئینی و قانونی اختیارات اور تحفظات چاہتے تھے۔ جب انہیں مسلمانان ہند کے حقوق کے لئے آئینی و قانونی حفاظتی ڈھالیں نظر آئیں تو وہ کیبنٹ مشن پلان کی قبولیت میں متحدہ بھارتی یونین میں بھی رہنے کی شرط قبول کر چکے تھے۔

لیکن چند روز گزرنے کے بعد جب جواہر لعل نہرو نے 10 جولائی 1946 کی پریس کانفرنس کی تو دوبارہ کانگریس کی آٹھ نو سال پرانی جھلک پھر سے آ جانے کا خطرہ محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ اب قائد اعظم کو پورا احساس ہو گیا کہ ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کو عزت سے سانس لینے اور جینے نہیں دے گی۔

اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا گیا۔ صرف اکثریت کے جبر سے بچنے کے لئے ایک الگ اور خود مختار ریاست کی جد و جہد ہی مطمح نظر بند گئی۔ اس پس منظر کا دہرانے سے تاریخ کی پھرکی کو واپس گھمانا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ ایک چیز کی یاد تازہ کرنا تھی کی اقلیتوں کو جب انصاف ملنے کی آس باقی نا رہے تو کس قدر آخری حدوں کے فیصلے لینا مجبوری بن جاتا ہے۔

ہم پاکستان کے رہنے والے تو اقلیت ہونے کے درد کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری یاداشتوں کے روئیں روئیں میں اور دماغ کے ہر خلیے میں محفوظ ہونا چاہئے۔ تو کیا ان سب چیزوں کے بارے ہمیں آج کسی قدر احساس ہے کہ ہمارا تعلق اور چلن ہمارے سے مختلف زبان، یا عقیدہ والوں کے ساتھ آج کیسا ہے؟ کیا ہم کانگرسی وزارتوں کے قیام کے دنوں میں ان کے طریقہ ہائے کار کی نقالی کرکے ایک عظیم ملک و معاشرہ بن سکتے ہیں؛ یا کہ کوئی اور صورت ہے جسے ہم اپنے عمل سے شکل پذیر کر رہے ہیں؟

کیا کل چکوال کا واقعہ کہ جس میں پیغمبر رحمت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دنیا میں ظہور پذیر ہونے کے دن کو ایسے داغدار کرنا درست اقدام ہے؟ کیا ہماری اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وصلم) سے محبت و وابستگی ہمیں اپنے سے کمزوروں اور کم تعداد والوں سے رواداری کا درس نہیں دے سکتی؟ ہم چکوال جیسے واقعات برپا کر کے اپنے آپ کو کون سا رستم و سہراب ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ آخر ہمارے وہ کون سے خوف ہیں جو ہم اپنے سے کم تعداد والوں اور اقلیت کو اپنے آس پاس سہمی ہوئی حالت میں بھی دیکھنے پر قادر نہیں؟

ہم میں سے ہر ایک کو ان سوالوں کا جواب اپنے ضمیر اور انسانی و قومی ذمہ داری کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ڈھونڈنا ہوگا۔ آئیے ہم سب دیانت داری سے ان سوالوں کے جواب سوچیں۔ شاید ہم اپنے اندر سے کسی خالص انسان کو اجال سکنے میں کامیاب ہو جائیں۔

پس تحریر

میں برأت کا اعلان کرتا ہوں!

(پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق، چیئرمین لاء ڈیپارٹمنٹ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے سیف اللہ کا لقب دیا تھا لیکن جب ایک غلط فہمی کے نتیجے میں بنو جذیمہ کے بے گناہ لوگ آپ کی تلوار کا نشانہ بنے تو رسول اللہ ﷺ نے بڑے ہی شدید الفاظ کہے:
ؒ
اللھم انی ابرؤ الیک مما صنع خالد (اے اللہ! میں تیری طرف براءت کا اعلان کرتا ہوں اس کام سے جو خالد نے کیا!)

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان مقتولین کی دیت بھی ادا کی اور یوں اجتماعی ذمہ داری کا اصول بھی واضح فرمایا۔

چکوال میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کو شریعت، قانون اور اخلاق کے کسی ضابطے کی رو سے جواز نہیں دیا جاسکتا ۔ اے اللہ! میں اس فعل سے تیری طرف برأت کا اعلان کرتا ہوں!

علمائے کرام کو نہ صرف اس نہایت ہی افسوس ناک واقعے کی صریح الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے بلکہ اس کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے تحت سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ اس مسلم اکثریتی خطے میں آئندہ کسی کو بھی کسی غیر مسلم کے کسی حق پر چڑھائی کی جرأت نہ ہوسکے۔

ذمہ داروں کا تعین تو عدالت ہی کرے گی۔ اتنا البتہ واضح ہے کہ ایک جگہ جو احمدی عبادت گاہ کے طور پر مستعمل تھی اور جہاں سے عدالت نے انھیں نہیں نکالا تھا، اس پر حملہ ہوا ہے۔ جو بھی ذمہ دار ہے، مسلمان ہو یا احمدی، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اس حملے کی مذمت بغیر چوں چرا کے ہونی چاہیے۔

بعض دوست کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی جس پر احمدیوں نے قبضہ کیا تھا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب تک عدالت انھیں قابض نہ قرار دے، وہ قابض نہیں ہیں۔ پھر عدالت ہی قبضہ چھڑا سکتی ہے، افراد نجی طور پر یہ حق نہیں رکھتے۔ پھر فائرنگ جس نے بھی کی ہو، اور حملہ جس نے بھی کیا ہو، پوری تحقیق کے بعد اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ محض اس وجہ سے کہ ایک فریق احمدی ہے، ہمدردی دوسری طرف نہیں ہونی چاہیے۔ یہی حق و انصاف کا تقاضا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

“اے ایمان والو، حق پر جمے رہو اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے۔ اگرچہ یہ شہادت خود تمھاری اپنی ذات، تمھارے والدین اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا سب سے زیادہ حق دار ہے تو تم خواہش کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ اور اگر کج کرو گے یا اعراض کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔”

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔