میڈیا میں خواتین کا کردار اوردرپیش چیلنجز

میڈیا میں خواتین کا کردار اوردرپیش چیلنجز

از، انعم حمید

 میڈیا میں خواتین کا کردار زیر بحث لایا جائے تو پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں میں خواتین مختلف کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔  مثلاًمیزبان، پروڈیوسر، رپورٹر، ایڈیٹر، فوٹوگرافر، کاپی رائٹر، فیچر رائٹر، کالم نگار اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے کاموں کے لئے خواتین میڈیا میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ ملک میں یا ملک سے باہر کوئی بھی بڑا واقعہ یا حادثہ پیش آجائے تو خواتین صحافی بغیر کسی خوف و خطر کےاپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیتی ہیں اور مرد صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا میڈیا میں کام کرنے والی ان خواتین کو میڈیا میں کام کرنے والے مردوں کے برابر اہمیت دی جاتی ہے یا نہیں؟ تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسا ناممکن ہے۔ بلکہ میڈیا ہی نہیں، دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی خواتین کو دفاتر میں کام کرنے والے مردوں کے برابر اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالی جاتی ہے۔جبکہ دوسرے ممالک میں خواتین کے ساتھ برابری سلوک کیا جاتا ہے۔

خواتین کو میڈیا میں کام کرنے کے لئے مردوں کی نسبت کہیں زیادہ چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو چینلز یا اخبارات کی کائنات میں رنگ اور مردوں کے لئے کشش بھرنے کےلئے استعمال کرنے کی نفسیات ہے۔

جبکہ مرد رپورٹرز کی ڈیوٹی سیاسی رپورٹنگ پر لگائی جاتی ہے۔ لیکن کچھ اداروں میں سینئر خواتین صحافیوں کو سیاسی رپورٹنگ کرنے کے مواقع باآسانی مل جاتے ہیں۔ اداروں کی جانب سے ایسے روئیے پر زیادہ تر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ چینلز یا اخبارات کے مطابق خواتین صحافیوں میں اتنی اہلیت نہیں ہوتی کے وہ کوئی اندر کی خبر لا سکیں، اور اگر کوئی خاتون صحافی کوئی اندر کی خبر لےہی  آئے تو ایسی صورتحال میں بھی اسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مرد حضرات سمجھتے ہیں کہ خاتون صحافی تعلقات کی بنا پر یا خاتون ہونے کی بنیاد پر اندر کی خبر نکال کر لائی ہے۔ ایسی صورتحال میں مردصحافی غیر محفوظ محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

میڈیا میں خواتین کے عہدے

میڈیا میں اعلیٰ عہدوں کی بات کی جائے، تو یہ بھی مردوں کو ہی نوازے جاتے ہیں۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں ڈائیریکٹر نیوز، کنٹرولز نیوز، بیورو چیف اور پروگرام مینیجرز وغیرہ کے عہدوں پر مرد حضرات ہی فائز ہیں۔ لیکن یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ٹی وی چینلز کے اس دور نے خواتین کو آگےبڑھنے کے مواقع فراہم کئے لیکن بڑے عہدوں پر خواتین کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ اور اگراتفاق سے ایسا ہے بھی تو ایسی خواتین کو ارد گرد کے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی باتیں نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی انسان کے لئے حوصلہ شکن واقع ہوتی ہیں۔

خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات

خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی کچھ کم نہیں۔ دھرنا سیاست کے تعارف کے بعد ان واقعات میں مزید اضافہ ہوا۔ جلسوں اور دھرنوں میں خواتین پر حملے ریکارڈ پر موجود ہیں

جلسوں میں خواتین صحافیوں پر نعرے لگائے جاتے ہیں، اورمختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات تو ٹیلیفون کالز اور پیغامات کے ذریعے دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

خواتین کے بارے میں عمومی تاثر

خواتین کے بارے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ  کمزور ہوتی ہیں،غیر پیشہ وارانہ ہوتی ہیں، صرف گھرداری کے لئے پیدا ہوئی ہیں، یا ایسا سوچا جاتا ہے کہ اگر کسی خاتون کو کوئی مشکل صورتحال درپیش آجائے تو یا تو وہ لڑے گی، یا :روپڑے گی۔ جیسا کہ میاں محمد بخش نے فرمایا:

کیا ہمارے معاشرے میں مردوں کی حکمرانی نہیں سمجھی جاتی ہے اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا  جس طرح  کہ میاں محمد بخش نے فرمایا۔

میڈیا کی ترقی میں خواتین کا کردار

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ میڈیا کی ترقی میں خواتین کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مرد صحافیوں کا۔ خواتین مثبت طریقے سے میڈیا کے ذریعے معاشرے کے مسائل دنیا کے سامنے لاتی ہیں۔ دیکھا جائے تو خواتین اپنی جنس کے مسائل بھی بہتر طریقے سے میڈیا پر اجاگر کرتی ہیں، مثلاً غیرت کے نام پر قتل، خواتین پر حملے، کم عمر کی شادیاں، گھریلو تشدد کے واقعات، اور جہیز کے مسائل وغیرہ۔ ان مسائل پر خواتین میں ہمدردی کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ سب ایسے واقعات ہیں جن پر خواتین ، مردوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے رپورٹ کر سکتی ہیں۔
ترقی کے اس دور میں خواتین کو معاشرتی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ میڈیا ہو یا کوئی بھی شعبہ، خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر ہر طوفان کا سامنا کرنا ہے۔ جب کام کی بات ہو تو مرد اور عورت، ہم سب کو ایک ہونا چاہئے اور کسی بھی تفریق کے بغیر کام کرنا چاہئے۔ یہی ایک پڑھے لکھے معاشرے کی پہچان ہے۔

1 Trackback / Pingback

  1. ورکنگ مدرز اور میڈیا - aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.