اقبال احمد: ایک عہد آفریں شخصیت

اقبال احمد: ایک عہد آفریں شخصیت

از، پرویز ہود بھائی

ڈاکٹر اقبال احمد سے پہلی ملاقات کو کوئی شخص نہیں بھول سکتا۔ ان سے پہلی بار ۱۹۷۱ء میں ملا تھا۔ اس وقت ایم آئی ٹی میں ویت نام جنگ کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ میں ان دنوں وہاں ایک طالب عم تھا، ایک عام سا طالب علم، بالکل غیر سیاسی،کراچی گرائمر اسکول کا پروردہ، ایک بے نیاز سا نوجوان لیکن اس قطعی نئے معاشرے میں ایک جھٹکا مجھے اس طرح لگا جیسے کسی نے برفیلے پانی کا ایک ڈول مجھ پر اُلٹ دیا ہو۔اچانک میری آنکھیں کھل گئیں،ہولناک حقائق سے بھری ہوئی دنیا میرے سامنے تھی۔امریکی اپنے B-52 بم بار طیاروں سے ویت نام پر دھواں دھار بم باری کر کے اسے پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کے در پہ تھے۔دوسری طرف مغربی پاکستانی جوش وخروش کے ساتھ مشرقی پاکستان کی نسل کشی پر تُلے ہوئے تھے۔کیمبرج میں کسی بھی پاکستانی طالب علم یا وہاں پر مقیم تارکِ وطن کو ویت نام کے مسئلے کی ذرا پرواہ نہ تھی۔وہاں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو پاکستانی فوج کی کاررواےؤں پر واہ واہ کر رہے تھے۔وہاں سے مصائب اور تباہیوں کی جو لرزہ خیز خبریں آرہی تھیں۔وہ انھیں سرے سے رَد کر دیتے اور دلیل یہ دیتے کہ اس بارے میں سارے فوٹوگراف اور ٹی وی کے نشریے یہودیوں کے بنائے ہوئے اور جعلی ہیں۔

اقبال احمد ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۳ء میں بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے، اُن کے والد ایک زمیں دار تھے۔ وہ اراضی کی اصلاحات کے حامی تھے۔ چناںچہ دوسرے زمیں داروں نے انتقامی کارروائی کے تحت انھیں قتل کروا دیا۔ اس وقت اقبال احمد چار سال کے تھے۔ یہ قتل ہوتے ہوئے انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔تشدد کا دوسرا سانحہ انھوں نے ابتدائی زندگی میں ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر دیکھا۔بہار سے لاہور آتے ہوئے خون میں نہایا ہوا ہندوستان انھیں دکھائی دیا۔زمانے کی ان ہولناکیوں نے اقتصادی اور سماجی انصاف کے سلسلے میں ان کے عہد کو اور بھی پختہ کر دیا گیا۔پاکستان آکر انھوں نے ۱۹۴۸ء میں کچھ عرصے کشمیر کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا لیکن ان کی زندگی کے اِس پہلو کے بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں۔چند سال بعد انھیں ایک سکولر شپ ملا تو وہ پاکستان سے نکلے اور پرنسٹن یونیورسٹی میں گریجیوایشن میں داخلہ حاصل کیا۔شمالی افریکہ میں مزدور جدوجہد اُن کے مطالعے کا مضمون تھا۔لیکن وہ بہت جلد فرانس کے خلاف ہونے والی الجرائر کی جنگِ آزادی میں شریک ہو گئے۔ابتداء میں وہ بِن بیلا کے گہرے معاون رہے اِس کے بعد الجرائر کی انقلابی کونسل میں شامل ہو گئے اور جب ایف ایل این (مجاہدینِ آزادی) کا وفد امن مذاکرات کے لیے پیرس گیا تو اقبال احمد بھی اُس وفد کے رکن تھے۔اقبال احمد کے ایک گہرے دوست ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ الجرائر اُن کی سیاسی زندگی کا نقطۂ آغاز تھا لکھتے ہیں:

’’یہ زندگی کی ایک رزمیہ ہے۔ شعریت سے بھرپور جہاں گردی سے بھری ہوئی جس سےآزادی کی تحریکوں سے اور ستم زدہ اور ستائے ہوئے لوگوں کی جدو جہد سے جبلی طور پر ایک کشش پائی جاتی ہے اور اِن لوگوں کے ساتھ قلبی لگاؤ، جنھیں ناجائز طور پر سزا دی گئی ہو۔ خواہ وہ یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے شہری مراکز میں رہنے والے ہوں یا مہاجر کمپوں کے پناہ گزیں، محصور شہروں کے مکین ہوں یا بم باری میں تباہ ہونے والی بستیوں کے لوگ ہوں اور بوسنیا،چیچنیا، جنوبی لبنان، ویت نام، عراق، ایران اور ہاں، خواہ وہ برصغیرِ ہند کے پاشندے ہوں۔‘‘

ویت نام میں امریکہ کی سامراجی دہشت گردی کے اولین مخالفوں میں اقبال احمد شامل تھے۔ اُن کو اپنی تحریروں میں ذہانت اور فراست کی بنا پر نہایت تیزی سے ملک گیر شہرت حاصل ہو گئی۔امریکی حکومت نے بوکھلاہٹ کے مارے اقبال احمد کو ۱۹۷۰ء میں ایک بڑے مقدمے میں پھانس دیا۔الزام لگایا کہ انھوں ہنری کسنجر کو اغوا کر لینے اور وہائٹ ہاؤس کے گرمانی نظام کو ایک دھماکے سے تباہ کر دینے کی سازش کی تھی۔اقبال احمد بین الاقوامیت کا جذبہ تھا ،اسے ایران ،فلسطین ،کیوبا اور چلّی کے انقلابی رہنماؤں نے بہت جلد بھانپ لیا۔چناں چہ وہ ان سے مشورے کرتے رہتے تھے۔اس طرح بہت سے بادشاہ،شہزادے،حکومتوں کے صدور اور وزرائے اعظم ،جنرل اور ایڈمرل بی ان سے مشورے مانگتے تھے۔اس کی دو وجوہات ہیں:پہلی وجہ یہ کہ تاریخ میں رونما ہونے والی سیاسی تحریکوں اور ان کے تہذیبی اور سماجی پہلوؤں پر ان کا علم انسائیکلوپیڈیا کی طرح بے پایاں تھا۔اوائلِ اسلام سے لے کر یورپ کے نشاۃِ ثانیہ تک اور سامراجی اور نَو آبادیاتی نظام کی نمود سے گلوبلائزیشن کے عہد حاضر تک پوری تاریخ پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔اگرچہ اقبال احمد عالمی رہنماؤں کے ساتھ روابط کو اہم سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ دوستی غیر مشروط نہیں تھی۔

اقبال احمد نے ایسی پالیسوں کی حمایت سے ہمیشہ انکار کیا جنھیں اپنی جدوجہد کے مقاصد کے خلاف پایا۔خاص طور پر ایسی پالیسیاں جن کا جھکاؤ تنگ دلانہ عصبیت کی طرف ہوتا تھا۔الجزائر کے انقلابی مقاصد میں انھیں آلودگی نظر آئی تو اقبال احمد نے اس سے دور ہونا شروع کیا اور بن بیلا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آگئی۔مجھے ان کے نیو یارک والے اپارٹمنٹ میں ’ہوانا‘کے نہایت نفیس سگار نظر آجاتے تھے۔وہ فیڈل کاسترو کا ان کے پاس تحفہ ہوتا تھا۔لیکن جب اقبال نے کاسترو سے اندرونِ ملک مخالفوں کے خلاف سختی برتنے کے معاملے پر اختلاف کیا تو سگار آنے بند ہو گئے۔یاسر عرفات کے ساتھ ان کے تعلقات کئی سال تک برقرار رہے جو اقبال کے مشوروں کے بے چینی سے منتظر رہتے تھے اور انھیں فلسطین کی قومی کونسل میں ایک نشست دینا چاہتے تھے۔لیکن یہ تعلقات اس وقت ایک دَم ختم ہو گئے جب اقبال کو یقین ہو گیا کہ امریکہ نے جس’’ اوسلو سمجھوتے ‘‘کوآگے بڑھایا ہے وہ فلسطینیوں کے لیے زبردست تباہی کا موجب ہوگا۔اپنے کردار کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے جو قربانی دینی ہوتی ہے اقبال نے کسی تاسف کے بغیر دی۔

خود ان کے ملک کی قیادت کو اقبال احمد کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان کی پہلی مارشل لا حکومت کے دور میں ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا۔ جب کہ دوسرے مارشل لا میں انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے انھیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا۔ برسوں بعد جب وہ پاکستان آئے تو دنیا بھر کے اخبارات میں، اداریوں اور کالموں کی توسط سے اقبال احمد کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔’’اکانومسٹ‘‘ نے لکھا کہ وہ ایک انقلابی اور دانش ور اور جدید زمانے کے ابنِ خلدون تھے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل ’کوفی عنان‘ نے ایک موزوں خراجِ عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا۔’’اقبال احمد نے اس امر کی نہایت روشن مثال پیش کی ہے کہ بین الاقوامیت کے حامل ایک سچے انسان کو کیسا ہونا چاہیے۔یہی وہ شخص تھا جس کے لیے ہر ملک اُس کا اپنا ملک تھا۔وہ ایک بین الاقوامی قبیلے کا سردار تھا۔اُس قبیلے میں کوئی خون کے رشتے نہیں تھے اور یہ جو مذہب اور نسل کے تفرقوں سے بلند تھا۔اس قبیلے کے ہزراوں افراد ویت نام سے غزہ کے ادبی کنارے اور مراکش تک اور پاک و ہند سے یورپ اور شمالی امریکہ تک۔۔۔تمام برِّ اعظموں پر پھیلے ہوئے ہیں۔انھیں انسان دوستی انصاف اور آزادی کے عقیدے نے جوڑ رکھا ہے۔

غالباً ایک جامع تعریف اگرچہ تمام تر درست وہ بھی نہیں،یہ ہو گی کہ اقبال عوامی دانش ور تھے۔اس طرح ان کو اپنے دور کے عظیم اور سرگرم دانش دروں کی صف میں رکھا جا سکتا ہے۔جیسے نوم چومسکی،ہاورڈن اور ایڈورڈ سعید۔۔۔اقبال ایک یہودی طالب علم’’ناتھن کرسٹول ‘‘کا واقعہ یوں بتاتے ہیں۔’’پانچ سال ہوئے وہ (کرسٹول) مشرقِ وسطیٰ کے مضمون کی خاطر میرے سیمینار میں داخلے کی درخواست لے کر آیا میں نے پوچھا تم یہ مضمون کیوں پڑھنا چاہتے ہو۔ اُس نے جواب دیا میں ایک یہودی اور صیہونی ہوں۔ میں نے مہاجرت کر کے اسرائل جانیب کا فیصلہ کر لیا ہے۔اب چوں کہ میں مشرقِ وسطیٰ میں رہنے جا رہا ہوں لیٰذامیں وہاں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ۔میں نے اُسے بتایا کہ میں سیاسی صیہونیت کو فرقہ پرستی پر مبنی نظریہ سمجھتا ہوں اور اسرائیل کو ایک تفرقہ باز ریاست جانتا ہوں۔میری رائے میں مشرقِ وسطیٰ کے اندر قیامِ امن کی لازمی شرائط یہ ہیں: کہ فلسطینیوں کو اُن کے حقوق واپس کیے جائیں اور اسرائیل میں جمہوریت قایم کی جائے۔کرسٹول نے جواب دیا وہ میں سن چکا ہوں میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں کرسٹول کلاس میں بہ مشکل کبھی بولتا تھا کبھی کوئی سوال کر دیتا ۔اور پڑھتا بہت تھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل ہجرت کر گیا کیوں کہ اب وہ وہاں کی جیل میں ہے۔یہ انتخاب اُس نے خود کیا۔

اقبال احمد کا پیغام عربوں کے لیے مختلف تھا۔ عربوں کو ایک جمہوری طرز کے اسرائیل میں رہنے کا چلن سیکھنا ہو گا۔ انھیں عرب قوم پرستی کے علاحدگی پسندانہ اور اسلامی انتہا پسندی تک کرنا ہو گی اور مشرقِ وسطیٰ کی تمام اقوام کے جہموری حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔اسرائیل کے دارلحکموت کی حیثیت سے یروشلم قبول نہیں۔لیکن اسی طرح تمام مقدس مقامات کا کسی ایک دعویدار کے قبضے مے دینا بھی قابلِ قبول نہیں۔اقبال کی رائے میں ایک قدیم ورثے جو عربوں اور یہودیوں دونوں کا مشترک ہے اُس کی حفاظت بھی ان کی مشترکہ ذمے داری ہونی چاہیے۔

وہ نوجوان جو کشمیر میں لڑ چکا تھا اُس نے آزادی کی اس جدو جہد کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ البتہ زندگی کے حالات نے اُس کو کہیں اور پہنچا دیا تھا۔۱۹۹۹۰ کی دہائی میں اقبال جوں جوں امریکہ سے پاکستان کی طرف مراجعت کرتے گئے کشمیر کے تنازعے میں ایک بار پھر شامل ہوگئے۔ اس لامتناہی اور خون آلود المیے کے اسباب معلوم کرنے میں انھوں نے خاصا وقت صرف کیا۔ اور اس کے لیے بہت کاوش کی۔ اس کے لیے انھوں نے دورے کیے۔ ان مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کی جو کشمیر کی آزادی کے حق میں تھے اور اِس امید کے سہارے کہ دنیا کے اس انتہائی پیچیدہ مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں سے بھی ملتے رہے۔ یہ سب کچھ آسان نہیں تھا بعض اوقات وہ جنجھلا کے کہتے تھے کہ دونوں ملک آخری کشمیری کے مرنے تک اپنی جنگ جاری رکھنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ اقبال کی رائے میں اس کی زیادہ ذمّے داری ہندوستان پر عاید ہوتی ہے۔

اقبال ہندوستان کے ایٹمی کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں کے بارے مے جس سے انھیں بہت محبت تھی خوفزدہ ہو گئے۔ ایسا تو نہیں ہو گا کہ یہ ایٹمی اسلحہ کا جنون ان ملکوں کے درمیان مفاہمت اور خیر سگالی کی اُمیدوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے؟ کیا ان ملکوں کا یہی مقصدر ہے کہ آئندہ دس سال کے اندر یا شاید چند ہی برسوں میں ایٹمی تابکاری سے آلود لق ودق ویرانے بن جائیں؟ سارا کیا دھرا ہندوستان کے کج فہم دائیں بازو کے لیڈروں کا تھا جنھوں نے اس کی ابتدا کی۔الزام انھی کے سر جاتا ہے جنھوں نے اپنی کم عقل کی بنا پر ایٹمی اسلحہ کو طاقت کا سکہ سمجھ لیا۔اقبال نے لکھا: (جلد ہی انھیں اندازہ ہو جائے گا کہ وہ سکہ جعلی ہے)انھوں نے دلیل دی کہ بی جے پی کی مذہبی عصبیت اور عدم رواداری نے ہندوستان کو اس سمت میں چلنے کے قابل نہیں چھوڑا کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک بڑی اور طاقت ور قوم بن جائے۔

اقبال نے ۱۷ مئی ۱۹۹۹ کو روزنامہ ڈان کے اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھا:

“میرا مشورہ ہے کہ ہمیں ہراساں نہیں ہو نا چاہیے ہمارا ردِّ عمل جوابی نہیں ہونا چاہیے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ قاضی حسین احمد اور بے نظیر بھٹو جیسے افراد کی بات نہیں سننا چاہیے جو یا تو اپنی لاعلمی کی بنا پر موقع پرستی کے تحت جس کا زیادہ اِمکان نظر آتا ہے ایٹمی تجربوں کا فوری مطالبہ کر رہے ہیں۔فوری ردِّ عمل میں تامل سے کام لینے کے حق میں بڑے محکم دلائل موجود ہیں۔اس اسباب کی بنا پر اور دوسری وجوہ کے پیشِ نظر بھی،اسلام آباد کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ سکون سے کام لے اور دہلی نے جو مواقع اسے بہم پہنچائے ہیں ان کا حساب لگائے اور انھیں اپنے حق میں استعمال کرے۔

اقبال ۱۹۹۷ء میں ہمپشائر کالج سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ اب تک وہ امریکہ میں درس و تدریس اور اخبار میں کالم نگاری کے درمیان تقسیم کرتے آئے تھے اور اسلام آباد میں خلدونیہ کے نام سے آرٹ اور سائنس کی ایک یونیورسٹی کے قیام پر کام کر رہے تھے۔ یہ منصوبہ تھا جس کے بارے میں بے نظیر اور نواز شریف دونوں تہیہ کئے بیٹھے تھے کہ چلنے نہیں دیں گے۔ لوگ اقبال سے پوچھتے کہ جب آپ اپنی تحریر کی کاٹ میں ذرا سی بھی کمی کے لیے تیار نہیں تو ان سے کسی مختلف فیصلے کی اُمید کیوں رکھتے ہیں؟ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا مگر وہ بہر طور پُر امید تھے۔

اور پھر یہ ہوا کہ موت پوری تیزی سے اپنا کام کرنے لگی ۔جب موت کا سر داور زَرد سایہ پہلی بارنمودار ہوا، تب سے لے کر اس وقت تک جب موت ان کے سینے میں اپنا ٹھکانہ بنا چکی تھی۔ بس چند ہی دنوں کی بات تھی۔۱۱ مئی ۱۹۹۹ء کی تاریخ تھی اور صبح کے ۵ بج کر ۲۵ منٹ ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا، ’’ مجھے نشست کی حالت میں اُٹھاؤ۔‘‘ پھر چند ہی لمحوں بعد ECG ایک سپاٹ سیدھی لکیر رہ گئی تھی۔ نرس کی آنکھوں سے میں نے آنسو بہتے دیکھے۔ وہ آخری بار ان پر چادر ڈال رہی تھی۔