کراچی کے المیے اور کوٹہ سسٹم

لکھاری کا نام
صاحب تحریر: سید محمد اشتیاق

(سیّد محمّد اشتیاق)

قیام پاکستان کے بعد، ہندو مسلم فسادات اور تناؤ کے باعث اردوبولنے والے ا فراد کی اکثریت نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ اس کے علاوہ، دیگر زبان بولنے والے مسلمانوں نے بھی بھارت کی مختلف ریاستوں سے کراچی ہجرت کی۔ جو افراد ہجرت کرکے کراچی آئے ان کو مہاجر کہاگیا اور ہجرت کرنے والے اب تک اس شناخت سے اپنا پیچھا نہیں چھڑاسکے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد، بنگلہ دیش سے بھی بڑی تعداد میں متاثرین نے کراچی میں سکونت اختیار کی ہجر ت کی۔ افغان جنگ کے دوران بھی بڑی تعداد میں افغانی بھی، کراچی کی آبادی کا حصّہ بنے۔ کراچی ہمیشہ سے پاکستان کی معاشی شہہ رگ رہا ہے۔ اس لئے ملک کے دیگر حصّوں سے بھی لوگ بہتر مستقبل کے لئے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔1958 ء تک کراچی ملک کا دارالخلافہ رہا۔ دارالخلافہ، جب اسلام آباد منتقل ہوا تو جہاں کراچی کے شہریوں کو اس کا ملال ہوا۔ وہیں اعلی حکام کی، کراچی سے دلچسپی، صرف کراچی کے معاشی شہہ رگ ہونے کے حوالے سے رہ گئی۔

کراچی کی آبادی میں بے ہنگم طور پر اضافے کی وجہ سے شہریوں کی سوچ، رہن سہن میں واضح فرق محسوس کیا جانے لگا۔ اس سوچ کے فرق کا سب سے پہلا اظہار، ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیاں صدارتی انتخاب کے دوران ہوا۔ جب شہری واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹے نظر آئے اور پہلے لسانی فسادات کراچی میں وقوع پذیر ہوئے۔ گو کہ ان فسادات پر فوری قابو پالیا گیا۔ لیکن دلوں میں جو رنجش پیدا ہوئی۔ اس کے اثرات اب تک محسوس کئے جاتے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد، زمام اقتدار ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کراچی میں باقاعدہ، اردو زبان کے حوالے سے فسادات ہوئے۔ ان فسادات کا اثر، اندرون سندھ بھی محسوس کیا گیا۔ 1972ء میں، دس سال کے لئے کوٹہ سسٹم نافذ کردیا گیا۔ اس طرح، سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نے، سندھ کو دو حصّوں، سندھ شہری اور سندھ دیہی میں، تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے تقسیم کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے زمانے میں، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان، کراچی میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعتیں تھیں۔ دونوں جماعتوں نے کوٹہ سسٹم کی مخالفت کی۔1977کے عام انتخابات کے وقت 9 جماعتی، انتخابی اتحاد قائم کیا گیا۔ جس کو پاکستان قومی اتحاد کانام دیا گیا۔

جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان و اسلام، اے این پی، تحریک استقلال اور پیر صاحب پگاڑا، پاکستان قومی اتحاد کا نمایاں حصّہ تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کے منشور میں بھی کوٹہ سسٹم کو ختم کرکے، میرٹ پرطلباء کے داخلوں اورروزگار کی فراہمی کا وعدہ شامل تھا۔1977 ء کے عام انتخابات کے نتائج کو پاکستان قومی اتحاد نے تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پردھاندلی ہوئی ہے۔ اس لئے ازسر نو عام انتخابات کرائے جائیں۔ اس کے لئے ملک گیر تحریک چلائی گئی۔

حکومت نے پاکستان قومی اتحاد کو مذاکرات کی دعوت دی۔ مذاکرات شروع ہوئے لیکن اسی دوران ملک گیر احتجاج کی وجہ سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے۔ ان پر ایک پرانے قتل کے مقدمے میں FIRمیں نام درج ہونے کی وجہ سے مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی
سزا سنا دی گئی۔ جس پر 04 اپریل 1979 عمل درآمد بھی ہوگیا۔ جماعت اسلامی سمیت، پاکستان قومی اتحاد میں شامل کچھ جماعتوں نے جنرل ضیاء کی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی، ان جماعتوں نے، کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔

کراچی کے عوام کو امید تھی کہ 1982میں کوٹہ سسٹم کی دس سالہ میعاد ختم ہوجائے گی تو ہم تعلیم اورروزگا ر میں پھنسے بھنور سے نکل آئیں گے۔ ایسانہ ہوا۔ بلکہ کوٹہ سسٹم کی میعاد مزید دس سال کے لئے بڑھادی گئی۔ یہ خبر کراچی کے عوام پر بم بن کر گری اور احساس محرومی میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ اردو زباں کے حوالے سے فسادات رونما ہونے کے اور کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد، کراچی صوبہ کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔

اس فضا میں ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا۔ احساس محرومی سے دوچار نوجوانوں میں، ایم کیوایم نے فوری مقبولیت حاصل کی کیونکہ ایم کیو ایم کا بنیادی مطالبہ بھی کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کراچی کے وہ شہری، جو دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ایم کیو ایم کے وجود سے خائف دکھائی دیئے اور نوبت لسانی فسادات تک پہنچ گئی۔ سانحہ علی گڑھ، سانحہ سہراب گوٹھ اور سانحہ پکا قلعہ کے بعد، شہر کی فضا میں خوف کا راج قائم ہوگیا۔

1988 کے عام انتخابات اور اس کے بعد سے اب تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے۔ کراچی کے شہریوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ اسی بنیاد پر دیاکہ یہی ہماری نمائندہ جماعت ہے اور کراچی کے مسائل کا حل بھی ان ہی کے پاس ہے۔ ایم کیو ایم کئی دفعہ اقتدار کا بھی حصّہ بھی رہی لیکن امن و امان کے ساتھ ساتھ کراچی کے مسائل بڑھتے ہی گئے اور کوٹہ سسٹم بھی ختم نہ ہوا۔ شہر میں بگڑی ہوئی امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے 1992سے لے کر اب تک کئی آپریشن ہوئے لیکن امن امان کی صورتحال قابو میں نہ آئی۔

پرویز مشرف کے اقتدار کے آخری برسوں میں، کراچی کو مصطفی کمال کی صورت میں ا یک بااختیار ناظم ملا۔ جس کی وجہ سے کچھ ترقیاتی کام ہوئے لیکن12مئی،27دسمبر اور09اپریل کو کراچی میں جو کچھ ہوا۔ وہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے۔ 2008 ء کے عام انتخابات میں اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی اور شہروں سے ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا کہ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے مسائل کو حل کریں۔ دونوں جماعتوں نے مل کر مخلوط حکومت بھی بنائی۔ جو کہ ہمیشہ اختلافات کا ہی شکار رہی اور کراچی سمیت پورے سندھ میں نہ کوئی ترقیاتی کام ہوئے اورنہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی۔ بلکہ لیاری میں پیپلز امن کمیٹی کے وجود سے شہر کی امن وامان کی صورتحال مزید بگڑگئی اور روزانہ شہر کراچی کو کئی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔

یہ صورتحال 2013 کے عام انتخابات کے بعد بھی جاری تھی۔ عوام کے ساتھ تمام سیاسی،دینی ومذہبی جماعتیں پریشان تھیں کہ ا ب کیا کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال کا از خود نوٹس لیا اورذمّہ داروں کا تعیّن کرکے حکومت کو ہدایت کی کہ شہر میں امن و امان کی قائم کرے۔ ستمبر2013 سے تمام جماعتوں کے اتفاق سے، ایک دفعہ پھر کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا۔ اس دفعہ رینجرز کو خصوصی اختیارات کے ساتھ، شہر میں امن و امان قائم کرنے کی ذمّہ داری سونپی گئی۔

رینجرز نے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے شہر میں امن و امان کے قیام کے لئے قابل ذکر اقدامات کئے۔ جس سے شہر میں امن و امان کی فضا قائم ہوئی۔ لیکن کراچی کے شہریوں احساس محرومی ابھی بھی برقرار ہے کیونکہ کراچی، جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا۔ اپنی وہ حیثیت کئی عشروں قبل کھوچکا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ذرائع آمد و رفت کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ساتھ، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ، ا بھی بھی کراچی کے عوام کا مطالبہ ہے۔ کوٹہ سسٹم کی میعاد 2013 ء میں ختم ہو چکی ہے لیکن عمل درآمد، ابھی بھی کوٹہ سسٹم پر ہورہا ہے۔

سابق ڈی جی رینجرز نے حکومت سندھ کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ میعاد ختم ہونے کے بعد اس پر عمل ناجائز ہے جو کہ ڈی جی رینجرز کی طرف سے ایک اچھا اقدام تھا۔ اب شہر کراچی کو نیا میئر بھی مل گیا ہے۔ اگرکوٹہ سسٹم کا خاتمہ یقینی ہوجائے اورمیئر کراچی تمام اختیارات کے ساتھ کراچی کی بہتری کے لئے کام کریں تو جہاں کراچی کے شہریوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ وہیں کراچی شہر بھی اپنی کھوئی ہوئی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔