تین گولے” (منٹو کے ایک خاکے یا مضمون کے پانچ پیرا گرافس کا مطالعہ)

(قاضی طا ہر)

·میرا جی کا “خاکہ” جو منٹو نے “تین گولے” کے عنوان سے لکھا کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ ” حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے-میں غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا – اور میرا جی کی باتیں سن رہا تھا – اس شخص کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا غالبا سن چالیس تھا- بمبئے چھوڑ کر مجھے دہلی آئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا – مجھے یاد نہیں کہ وہ فلیٹ نمبر ایک والوں کا دوست تھا یا ایسے ہی چلا آیا تھا – لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ اس نے یہ کہا تھا کہ اس کو ریڈیو سٹیشن سے پتا چلا کہ میں نکلسن روڈ پر سعادت حسن بلڈنگز میں رہتا ہوں- ١

خاکہ کا آغاز ہی منٹو ایسے کرتا ہے کہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ آگے پڑھنے کو ملے گا اس میں منٹو کا مشاہدہ شامل ہو گا – کوئی ہوائی بات نہیں ہو گی — منٹو میرا جی کی باتیں سنتے ہوۓ سامنے میز پر رکھے تین گولوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی گواہی دے رہا ہے – اب اگلی لائن میں سن چالیس بتایا گیا اور چونکہ منٹو کو درست درست یاد نہیں تھا اس لئے لفظ “غالبا” کا اضافہ کر دیا— لیکن قصہ جو وہ بیان کر رہا ہے درست ہے اس لئے اس نے فلیٹ نمبر، بلڈنگ کے نام اور ریڈیو سٹیشن سے پتا معلوم کرنے کا حوالہ بھی دے دیا تا کہ اگر کوئی صاحب تحقیق ان باتوں کی تصدیق کرنا چاہے تو کم از کم جتنی آسانی مہیا کی جا سکتی ہے کر دی جائے- ١

دوسرا پیرا گراف

“اس ملاقات سے قبل میرے اور اس کے درمیان معمولی سی خط و کتابت ہو چکی تھی – میں بمبئی میں تھا جب اس نے ادبی دنیا کے لئے مجھ سے ایک افسانہ طلب کیا تھا میں نے اس کی خواہش کے مطابق افسانہ بھیج دیا – لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ اس کا معاوضہ مجھے ضرور ملنا چاہیے- اس کے جواب میں اس نے ایک خط لکھا کہ میں افسانہ واپس بھیج رہا ہوں – اس لئے کہ ” ادبی دنیا” کے مالک مفت خور قسم کے آدمی ہیں – افسانے کا نام “موسم کی شرارت” تھا – اس پر اس نے اعتراض کیا تھا کہ اس شرارت کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں – اس لئے اسے تبدیل کر دیا جائے میں نے اس کے جواب میں اس کو لکھا کہ موسم کی شرارت ہی اس افسانے کا موضوع ہے مجھے حیرت ہے کہ یہ تمہیں کیوں نظر نہ آئی ؟ میرا جی کا دوسرا خط آیا- جس میں اس نے اپنی غلطی تسلیم کر لی- اور اپنی حیرت کی اظہار کیا کہ موسم کی شرارت وہ “موسم کی شرارت” میں کیوں دیکھ نہ سکا-٢

دوسرے پیرا گراف میں منٹو چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن یہ تاثر وقتی ہے کیوں کہ منٹو یہاں اپنی افسانہ نگاری کی تعریف نہیں کر رہا اور نہ ہی میرا جی کے غلطی تسلیم کرنے کو اپنی افسانہ نگاری کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے — گو کہ بادی النظر میں یہی لگتا ہے — خیر ابھی اس پر بات کرنے کی بجائے اس پیرا گراف میں لکھی گئی اہم باتوں پر توجہ مبذول کرتے ہیں– پہلی بات تو یہ کہ پہلی ملاقات جو پہلے پیراگراف میں بیان کی کی گئی اس سے پہلے بھی کچھ تعلق تھا خط و کتابت کی حد تک- یعنی رو برو ملاقات سے ہٹ کر منٹو نے یہ بھی بتا دیا کہ پہلے بھی ایسے لوازمات موجود تھے جن کی بنیاد پر وہ میرا جی کے بارے میں کوئی تاثر قائم کر سکتا تھا – اور خط و کتابت کے دوران میں کیا لوازمات مہیا ہو سکتے ہیں ؟ چلئے اگلے پیرا گراف کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ دوسرا پیرا گراف منٹو نے کیوں لکھا ؟ ٢

تیسرا پیرا گراف

میرا جی کی لکھائی بہت صاف اور واضح تھی – موٹے خط کے نب سے نکلے ہوۓ بڑے صحیح نشست کےحروف، تکون کی سی آسانی سے بنے ہوۓ ہر جوڑ نمایاں، میں اس سے بہت متاثر ہوا تھا- لیکن عجیب بات ہے کہ مجھے اس میں مولانا حامد الی خان مدیر ہمایوں کی خطاطی کی جھلک نظر آئی- اس کے متعلق میں اب بھی غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا کوئی شوشہ یا نقطہ سمجھائی نہیں دیتا – جس پر میں کسی مفروضے کی بنیادیں کھڑی کر سکوں – ٣

میرے خیال سے اب یہ بات صاف ہو گئی ہو گی کہ منٹو نے کیوں دوسرے پیرا گراف میں میرا جی کے ساتھ خط و کتابت کا ذکر کیا ؟ منٹو کڑی سے کڑی ملانے کا ہنر جانتا تھا — لیکن جہاں کڑی نہیں ملی وہیں اس نے خود کو کسی مفروضے کی بنیاد کھڑی کرنے سے قاصر قرار دیا- یہ منٹو کے مشاہدے اور مجاہدے کی ابتدا ہے اور سب کچھ سمجھ اتا ہے ، سب کچھ مزہ دیتا ہے –٣

چوتھا پیرا گراف

حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے پڑے تھے اور میرا جی لم تڑنگے اور گول مٹول شعر کہنے والا شاعر مجھ سے بڑے صحیح قد و قامت اور بڑی صحیح نوک پلک کی باتیں کر رہا تھا- جو میرے افسانوں کے متعلق تھیں وہ تعریف کر رہا تھا نہ تنقیص- ایک مختصر سا تبصرہ تھا- ایک سرسری سی تنقید تھی- مگر اس سے پتا چلتا تھا کہ میرا جی کے دماغ میں مکڑی کے جالے نہیں — اس کی باتوں میں الجھاؤ نہیں تھا- اور یہ چیز میرے لئے باعث حیرت تھی – اس لئے کہ اس کی اکثر نظمیں ابہام اور الجھاؤ کی وجہ سے ہمیشہ میری فہم سے بالا تر رہی تھیں- لیکن شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے وہ بلکل ایسا ہی تھا جیسا اس کا بے قافیہ مبہم کلام- اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لئے اور بھی پیچیدہ ہو گئی–٤لیجئے اس چوتھے پیرا گراف میں منٹو واپس آ رہا ہے اس ملاقات کی طرف جس کے بیان سے اس نے آغاز کیا تھا اور مزید روشنی ڈال رہا ہے میرا جی کی شخصیت پر جیسے جیسے وہ سمجھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ ایسا کیوں سمجھ رہا ہے —- یہاں ہر ایک سطر میں منٹو وہی کچھ بیان کر رہا ہے جو اس نے محسوس کیا اس ایک مخصوص لمحے میں جس کا ذکر وہ کر رہا ہے —- اور کیوں محسوس کیا اس کی وضاحت بھی موجود ہے -٤

پانچواں پیرا گراف

ن،میم راشد بے قافیہ شاعری کا امام مانا جاتا ہے – اس کو دیکھنے کا اتفاق بھی دہلی ہی میں ہوا تھا – اس کا کلام میری سمجھ میں آ جاتا تھا- اور اس کو ایک نظر دیکھنے سے اس کی شکل و صورت بھی میری سمجھ میں آ گئی- چنانچہ ایک بار میں نے ریڈیو اسٹیشن کے برآمدے میں پڑی ہوئی بغیر مڈ گارڈوں کی سائیکل دیکھ کر از راہ مذاق کہ تھا” لو- یہ تم ہو اور تمہاری شاعری” لیکن میرا جی کو دیکھ کر میرے زحم میں سوائے اس کی مبہم نظموں کے اور کوئی شکل نہیں بنتی تھی”٥

چوتھے پیرا گراف کو اگر منٹو نے شاعری پر ختم کیا تو پانچویں پیرا گراف میں وہ جس شاعری کا ذکر کر رہا تھا اس حوالے سے دیگر شاعروں کا ذکر بھی کر رہا ہے اور پھر اپنی مخصوص سمجھ بوجھ کے نتیجے میں جنم لینے والے تصورات کو بھی بیان کر رہا ہے- یہاں ن، میم راشد کی بات اس وجہ سے کی گئی کہ کہیں قاری یہ نہ سمجھ لے کہ منٹو نے میرا جی کے بارے میں جو لکھا وہ جدید شاعری کے ردعمل میں لکھا— منٹو نے یہاں اپنا نکتہ نظر واضح کر دیا- اور خود کو اس بحث سے الگ بھی کر لیا- شاعری بھر حال منٹو کا مسلہ نہیں تھا لیکن شاعر کا خاکہ لکھتے ہوۓ یہ ابہام دور کرنا ضروری بھی تھا-٥

(اچھا برا ایک طرف رہا کیا ان پانچ پیرا گرافس کو پڑھنے کے بعد “خاکہ نگاری” کے محاسن و عیوب کے حوالے سے کوئی نیا در کھلتا نظر آتا ہے )