اخلاقیات ، رسوم و رواج اور مذہب ؛سب’ درمیان والوں‘ کا مسئلہ ہے

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

اخلاقیات، رسوم و رواج اور مذہب : سب’ درمیان والوں‘ کا مسئلہ ہے

از، منزہ احتشام گوندل

میں زمین و آسماں کے درمیان کہیں خلا میں معلق ہوں۔ اور اس ہونی اور انہونی کے بین میں کس حالت میں ہوں یہ صرف میں ہی  جانتی ہوں یا پھر وہ لوگ جانتے ہیں جو میری طرح درمیانے درجے یا درمیانے طبقے کے ہیں، یعنی مڈیاکر ہیں۔ جو دو کناروں کے درمیان پُل کی طرح معلق ہوکے اِدھر اور اُدھر کی تہذیبوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ اب اس پُل کی کتھا اور دُکھ کیا ہیں یہ میں سمجھ سکتی ہوں یا پھر وہ جو مجھ جیسے ہیں۔

یہ درمیان کی حالت جہاں بھی ہے وہیں اذیت کی ہے۔ پہلی مثال میں گھر سے (رہائش گاہ) سے  شروع کرتی ہوں۔ میرے گھر کی چھت لوہے کی ہے۔ دیواریں اینٹ اور گارے سے بنی ہیں جن کی دونوں طرف سیمنٹ کا پلستر ہے۔ کمروں کے اندر پختہ فرش ہیں۔ صحن میں اینٹیں لگی ہیں۔ گرمی کا موسم آیا چاہتا ہے۔ جب گرمی آتی ہے تو یہ درمیانے درجے کا گھر کسی تنور کی طرح تپ جاتا ہے۔ اُوپر سے چھت تپتی ہے نیچے سے فرش لِپٹیں نکالتا ہے۔

ایئر کنڈیشن کی سہولت بھی میسر نہیں کہ اتنے لمبے چوڑے بِل دینے کی اوقات نہیں، ملک کی حالت بھی ایسی ہے کہ بجلی میسر نہیں ہوتی،کولر پنکھا بھی مہنگا پڑتا ہے۔ اب تھوڑی دیر اس منظر سے نکل کے اگلے منظر میں چلیے۔ ہمارے گھر کے مشرق میں کچی بستی ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کو ہم ، مسّلی، کہتے ہیں۔ان کے گھر کچی مٹی کی دیواروں اور لکڑی یا سرکنڈوں کی چھتوں والے ہیں۔صحن بھی ان کے کچے ہوتے ہیں۔ایک دن میں کسی کام سے اپنی منہ بولی بہن منظوراں کے گھر جاتی ہوں۔ جولائی کا مہینہ ہے پسینہ سر سے پاؤں تک بہہ رہا ہے۔

منظوراں مجھے اپنی کچی کوٹھری میں بٹھاتی ہے۔ کچی مٹی کی موٹی دیواروں اور سرکنڈوں کی نیچی چھت والی کوٹھری میں اتنی ٹھنڈ ہے کہ مجھے نیند آجاتی ہے میں جاگتی ہوں تو خود کو منظوراں کی کوٹھری میں پاتی ہوں۔ یہ گھر گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے ہیں۔ اُوپر والے  طبقے کے بارے میں بتانے کی مجھے ضرورت نہیں، سارے جہاں کی بجلی،جنریٹر،اے سی،پہاڑی اور پُر فضا مقامات انہیں کے لیے ہیں۔ اُن کا ہر موسم بہار کا ہے۔ اُن کے لیے گرمی ہے نہ سردی۔

گھر ہوں یا رسم و رواج یہ سب درمیانہ طبقہ بھگتتا ہے۔ جنت کا لالچ ہو یا جہنم کا ڈراوا اسی طبقے کے لیے ہے۔ گرمی کا عذاب اور لوڈ شیڈنگ کی اذیت اسی طبقے کو سہنی ہے۔ ذات پات کے مسائل اور رشتوں کی مشکلات اس طبقے کے لیے ہیں۔ اور تو اور محبت میں افلاطونی عشق کی اصطلاح بھی اسی طبقے کے لیے ایجاد کی گئی ہے۔

اُوپر والے طبقے کے لڑکے لڑکی کو ملنے ملانے کا کوئی مسئلہ نہیں، نہ اخلاقی، نہ سماجی اور نہ معاشی، سارے بڑے بڑے کلب، ہوٹل اور سیاحتی ادارے انہی عشاق کے فیض سے چل رہے ہیں۔ نچلے طبقے کو بھی کوئی ایسا ایشو نہیں،کماد کے کھیت،مالٹے کے باغ،اور ایسی بہت سی جگہیں ان کی سہولت گاہ ہیں، کیونکہ افلاطونی عشق، خاندانی پن، نانی دادی کا کردار، شرافت اور نیک نامی، ان تمام نام نہاد اصطلاحات سے ان کی اخلاقیات کو کوئی علاقہ نہیں۔

وفا کا لفظ بھی درمیانے طبقے کے  ساتھ مخصوص ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں اس ایک لفظ کے چکر میں مار کھا جاتے ہیں۔ شیعہ،سّنی ،وہابی؛ زمیندار ،کمی، مزارعہ یہ سب قیدیں اور قاعدے بھی اسی طبقے کے ساتھ مخصوص ہیں، تاکہ کہیں ان کو اس درمیان کے جہنم سے نکلنے کا موقع نہ مل جائے۔ شادی بیاہ کی رسمیں، کوئی کیا کہے گا؟ اس طرح کے خوف بھی اسی درمیان والے طبقے کا نصیب ہیں۔ چلیں انہیں چھوڑتے ہیں، آپ اداروں کو لے  لیں۔ اسکول اور یونیورسٹی کے بین ایک ادارہ ،کالج، کہلاتا ہے۔ جسے عربی میں کلیہ کہتے ہیں۔ اِس ادارے کی حالتِ زار کچھ مجھ ہی سے پوچھیے یا میرے جیسے کسی اور سے۔

اس وقت ملک میں جتنے بھی ادارے ہیں جہاں گریڈ سترہ سے لوگ اپنی ملازمت کا آغاز کرتے ہیں، ان تمام اداروں میں سب سے آخری درجے پہ کالج ہے۔ سب سے کم تنخواہ کالج کے اساتذہ کی ہے (گریڈ سترہ کے حساب سے باقی اداروں کے گزٹیڈ کی نسبت) فنڈز کی بات ہو تو جامعات کا اپنا ریوینیو ہے۔ اسکول میں جو ماہانہ فیس لی جاتی ہے وہ اسکول خود پہ خرچ کرنے کا مجاز ہے۔ اور یہ فیس  جو اسکولوں میں لی جاتی ہے ماہانہ لاکھوں کے حساب سے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ فنڈز الگ ملتے ہیں سکولز کو،اس کے بالمقابل جو فیس کالج میں لی جاتی ہے وہ سالانہ ہے۔ اور یہ سالانہ فیس حکومت کے اکاؤنٹ میں جاتی ہے۔ کالج کے حصے میں ایک سو روپیہ سالانہ  فی طالب علم سٹوڈنٹ ویلفیئر فنڈ کا آتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے کالج میں اس سال بیس بچوں کا داخلہ ہوا ہے تو آپ کے پاس دو ہزار روپیہ سالانہ ویلفیئر فنڈ آ گیا ہے۔ اب اس دو ہزار روپے کو پورا سال استعمال کیجیے اور مزے اڑائیے۔

دوسری طرف عام لوگ  یہ سمجھتے ہیں کہ کالجز میں بڑا پیسہ آتا ہے۔ اور وہاں بیٹھے پرنسپل بہت بڑی کرپشن کر رہے ہیں، کھا کھا کے ڈکارتے جارہے ہیں، سو وہ کبھی  سرکاری کالجز کی فنڈنگ کی طرف مائل نہیں ہوتے،جبکہ یہی لوگ اٹانمس باڈیز کی لاکھوں میں مدد کرتے ہیں۔ اب اگر کالج حکومت سے  رجوع کریں تو ٹکا سا جواب آتا ہے کہ گورنمنٹ کو اور بہت خرچے ہیں،آپ لوگوں کو مانگتا بھی نہیں آتا کیا؟ ننھے بچوں کی طرح ماں کی چھاتی کی طرف ہی ہمکتے رہتے ہو، جاو اور جا کے کمیونٹی کو شامل کرو۔ لوگوں سے چیریٹی مانگو۔ لوگ خیرات دیتے نہیں کہ وہ حصہ بقدرِ جثہ دیکھتے ہیں، کہ اگر سکولز میں اتنے فنڈز ہیں تو کالج تو سکولز  سے بڑے ہوتے ہیں۔ ان میں اور بھی زیادہ ہوں گے۔ یہاں پر بھی یہ درمیانہ طبقہ مار کھا رہا ہے۔

آتے ہیں مذہب کی طرف، اخلاقیات اور رسوم و رواج کی طرح مذہب بھی درمیان والوں کا مسئلہ ہے۔ تصوف اور بابے بھی اسی طبقے کی روحانی افزائش کے حیلے ہیں۔ نچلا طبقہ بھی فری تھنکر ہے اور اوپرلا طبقہ بھی۔ کسی کو گناہ ثواب سے کوئی غرض نہیں، وہ اپنی زندگی اپنے آج کے لیے جیتے ہیں، جبکہ درمیان والوں کو ماضی اور مستقبل کا رولا ہر وقت پڑا ہوا ہے۔

ماضی اس لیے کہ باپ دادا کا حوالہ اور ماں نانی  کا حوالہ،مستقبل اس لیے کہ جنت کی خواہش اور دوزخ کا ڈراوا۔ اور اسی چکر میں اس درمیانے طبقے کا حال خراب ہو چکا ہے بلکہ میں یہ کہوں کہ یہ طبقہ ہمیشہ سے بدحال ہے تو بے جا نہ ہوگا،جبکہ ان کے حال کو دوسرے دونوں کنارے بسر کرتے ہیں جو ریل کی پٹری کی ان دو متوازی لائنوں کی طرح ہیں جو ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر کبھی ایک دوسری کو قطع نہیں کرتیں۔ تو یہ جو درمیان کی حالت ہے  یہ بڑی خراب حالت ہے اور یہ جو بیچ کے لوگ ہیں یہ شاید وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو جنت اور دوزخ کے درمیان جو دیوار ہے اس کے سوراخوں میں رکھے جائیں گے۔

ایک لہر جنت سے ٹھنڈی ہوا کی آئے گی تو دوسری جہنم سے گرم لو کی آئے گی، اور گرم سرد ہو کے ان کے اعضا ہمیشہ درد اور اینٹھن میں مبتلا رہیں گے، جیسا کہ اس زندگی میں بھی اِن کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ سچ مگر یہ ہے کہ کائنات میں توازن انہی دکھیاروں کے دم سے ہے۔ یہ نہ ہوتے تو آپ کی یہ زمین اِدھر سے اُدھر ہچکولے ہی کھاتی رہتی۔ کبھی ایک کنارہ دوسرے سے جڑ نہ پاتا اور کبھی میکڈونلڈ کا برگر کھانے کا مزا بھی نہ آتا۔