اخلاقیات مشرق و مغرب : تقابل کیوں؟

Fida ur Rehman aik Rozan writer
فداءالرحمٰن، صاحبِ نگارش

اخلاقیات مشرق و مغرب : تقابل کیوں؟

از، فداء الرحمٰن

دین کے بنیادی تقاضوں اورصحیح فہم کے حوالے سے برپا ہونے والے حالیہ چند حادثات اور واقعات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ مغز کے بجائے چھلکےکا استعمال اصل ہنر ہے۔ موجودہ تناظر اور عوامی رخ کے پیشِ نظر یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی لگتی ہے کیونکہ ایک ظاہر پرست معاشرے میں مغز سے زیادہ اہمیت چھلکے کی ہوتی ہے۔ بے صبرہ پن ، بصیرت  اور دُور اندیشی کے فقدان کی نشانی ہے۔ یہی حال معاصر معاشرے میں روا رکھے جانے والے دینی اعمال کا بھی ہے کہ یہاں دین کے ‘مغز’ یعنی اصل روح کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا ہے کیونکہ ڈنکا ظاہر کا بجتا ہے۔

علاقائی کلچر اور ایک مخصوص مذہبی گروہ کے اپنے دینی مزاج کے زیر اثر ترتیب دئیے گئے چند خودساختہ ظاہری اعمال اور مخصوص حلیے کو دین پر مکمل عمل سمجھ لیا گیا ہے۔ دین کی اصل روح، ایمانیات اور اخلاقیات، جو کہ ایک مومن کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی ناکامی اور کامیابی کے معیارات ہیں، کی تعلیم وتربیت اور اس پر عمل کرنے کا درس اب غیر متعلق اور غیر ضروری محسوس کیا جانے لگا ہے۔

معاشرتی اقدار پر عمل میں، چند استثنائی معاملات میں افراط و تفریط سے قطع نظر، یقیناً آج کا مغربی معاشرہ مشرقی معاشرے سے کئی حوالوں سے ایک بہتر مقام اور قابلِ تقلید مقام  پر فائز ہے۔ المیہ مزید شدید صورت اختیار کر لیتا ہے جب معاصر مسلمان معاشرے  میں موجودایمانی کمزوری اور اخلاقی زوال کا سامنا کرنے اور اس کی بہتری کی خاطر کوئی قابل عمل اور دوررس اثرات کی حامل کوئی سبیل نکالنے کی بجائے  یہ مشاہدہ کرنا پڑتا ہے کہ عوام و خواص کی ایک کثیر تعداد ایک عجیب قسم کے زعم اور خوش فہمی  میں مبتلا ہے۔

معاصر مغربی معاشرے کی انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود، جو اصلاً وہاں کے تخلیقی ذہن کا کرشمہ ہے، کو بطورِ مثال پیش کیا جائے تو مشرقی اہلِ مذہب و دانش (جو اپنی سیاسی اسلام کے نظریے کی وجہ سے) رٹا رٹایا جواب دیتے ہیں کہ وہاں جو ارضی جنت کا سماں اور ظاہری چکا چوند ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ “یہ دنیا کافر کے لیے جنت اور مومن کےلئے قید خانہ ہے۔”

جو حال ہم نے قرآنی تعلیمات کا کیا ہے اس سے احادیثِ مبارکہ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں اور ان کی من مانی تشریحات سے جی بہلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیاوی عیش و عشرت کی نفی کا اخروی زندگی سے بیگانگی کے حوالے سے ایک خاص پسِ منظر ہے جس کو سمجھے بغیر جدید ذہن کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔

یہ جو الحاد کی لہر روز بروز طاقتور ہوتی جا رہی ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک اہم اور بنیادی وجہ ہمارے اہلِ مذہب و دانش کا وہ فہم اور تشریحِ دین ہے جو معاصر معاشرے، ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے نمٹنے کے لیے ضروری تقاضوں سے یا تو بالکل نابلد ہے یا پھر ان کی تشخیص اور حل کا طریقہ کار غلط ہے۔

ایک “دینی و دنیاوی” پڑھے لکھے صاحب سے بات ہورہی تھی کہ معاصر مغربی اور مشرقی معاشروں کے اخلاقی طرزِ عمل کا اخروی نتیجہ کیا ہو گا۔ جھٹ سے “غیبی علم” کی زنبیل نکالی اور “اپنوں” کے علاوہ  “باقیوں”  کو جہنم واصل فرمایا۔ ایک دوسرے دانشور صاحب کو فرماتے ہوئے سنا کہ معاصر مغربی معاشرے میں روا رکھا جانے اعلیٰ اخلاقی برتاؤ اصلاً وہاں قائم کردہ  فری مارکیٹ اکانومی کی بنیادی ضرورت ہے نیز وہاں اخلاقی رویوں کے پیچھے اصل وجہ “انفرادی افادیت” کا شاخسانہ ہے۔

لیکن دل و دماغ مطمئن نہیں ہوئے کیونکہ اگر اعلیٰ اخلاقی رویوں کے پیچھے اصل محرک محض “انفرادی افادیت” کو قرار دیا جائے تو قرآن میں بیان کردہ اس حقیقت کی کیا توجیح کریں گے جس میں بیان کیا جاتا ہے کہ “خیر و شر کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت ہر باشعور انسان کی فطرت میں  ابتداء ہی سے ودیعت کر دی گئی ہے”؟

اور اگر مشرقی معاشرہ واقعی دینی تعلیمات پر مطلوب  انداز میں عمل پیرا ہے تو پھر بچوں کے دودھ سے لے کر زندگی بچانے والے ادویات تک آخر کیوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آگے مجبور ہیں اور کیوں “مومنین” کی قائم کردہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کرنے کے روادار نہیں ہیں؟ یہ عجیب دورنگی اور دوغلا پن ہے کہ ایک طرف نظری طور پر ایمان و اخلاق کا درس دیتے ہیں لیکن عملی طور پر ہمارا عمل اس بھاشن سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔

دوسری طرف اگر معاصر مغربی معاشرے میں موجود نیک اور اعلیٰ اخلاقی رویوں کی نشاندہی اور تحسین کر کے اپنا عمل ٹھیک کرنے کی نصیحت کی جائے تو پھر بھی ہماری نازک طبیعت پر گراں گزرتی ہے حالانکہ “حکمت مومن کی گمشدہ میراث” کہلاتی ہے جو جہاں سے ملے، لینے میں دیر  اور حرج محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

ویسے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے گا کہ مغربی  “ملحد “سائنسدانوں کے ایجاد و دریافت کردہ سامانِ عیش و آرام سے ہم خود کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں؟ کیا انسانیت کی بھلائی کے خیال کے بغیر محض مادی  فوائد سمیٹنے کے لئے کوئی اتنی شاندار ایجادات کر سکتا ہے؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ انفس و آفاق میں خالق و فاطر کی نشانیوں پر غور کرنے کی بابت  دی ہوئی تعلیمات کو مغربی سائنسدان نے، انفرادی افادیت کی تسکین کے لئے ہی سہی، اپنا لیا ہے اور ہم ان چیزوں اور حقائق کی معرفت سے نا آشنا رہے؟

ہمارے معاشرے میں اصلاح کی کوششوں کی ناکامی و نا مرادی کی  بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہلِ فکر و دانش  کے سامنے جب بھی معاصر مسلمان معاشرے میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ فوراً مغربی معاشرے میں پائی جانے والیےچند منفی رویوں کا تذکرہ شروع کر دیا جاتا ہے۔

مغرب کے نامناسب طرزِ عمل کی اصلاح سے پہلے ہمیں اپنے معاشرے کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ کیونکہ معاصر مغربی ذہن کو فکری لحاظ سے لاجواب کرنا اور اپنا گرویدہ بنانا ویسے بھی ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ کیوں نہ ہم اپنے معاشرے کی حالت سدھارنے پر توجہ مرکوز کریں کہ جس سے نہ صرف موجودہ گھٹن زدہ فضا کی اصلاح ممکن ہو سکے بلکہ ایک محفوظ و فلاحی معاشرے کے قیام کا دیرینہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

ایک آخری سوال یہ بھی ہے کہ آخر ہمارے اربابِ علم و دانش اخلاقیات کے باب میں مشرق و مغرب کے درمیان امتیازی لکیر  کھینچنا  کیوں ضروری سمجھتے ہیں؟ اگر مشرق میں کوئی غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل انجام دیا جار ہا ہے تو اس سے صرفِ نظر محض اس بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا کہ کرنے والا “اپنا ہے” اور مغرب میں اخلاقی  لحاظ سے کوئی مستحسن کام کو محض اس تعصب کی بناء  پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ کرنے والا “پرایا ہے۔”

ہم تو سنتے چلے آ رہے ہیں کہ مومن فہم و فراست، صبر و تحمل اور وسعتِ قلبی و نظری کا نمونہ ہوتا ہے، لیکن حیرت ہے کہ مشترکہ انسانی صفات کو بھی ہم مغرب و مشرق کے درمیان کشمکش کے تناظر میں دیکھتے اوران کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ اخلاقیات تمام انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ جو بھی اعلیٰ اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرے گا اس کی تعریف و تحسین کی جائے  اور جو بھی غیر اخلاقی افعال سر انجام دے گا  اس کی مذمت میں دیر نہیں کی جائے گی خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطے، مذہب، نسل اور قومیت سے ہو۔

معاصر مغربی معاشرہ بنیادی طور پر انسانی فطرت میں پیوست اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی آئیڈیل معاشرہ ہے (ماسوائے چند استثنائی معاملات کے) جہاں عام انسان کی اخلاقی حس مطلوب شکل میں زندہ و بیدار ہے۔ اور  فطرت  میں ودیعت کردہ انہی تصورات کی بنیاد پر  انھیں  مدعو سمجھ کر اپنا مخاطب بنا یا جا سکتا ہے۔

اگر اسلام کا مطلب دین کے پیغام کا ابلاغ ہی ہے تو یہ کام ہمارے لیے مشکلات اور گمنامی سے عبارت ہوگا، لیکن اُخروی کامیابی اور رضائے الٰہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ لیکن اگر اسلام کا مقصد ” ڈنڈا بردار صالحین کے ذریعے نفاذ” ہے تو معاف کیجیے یہ سعادت پھر ہمارے لیے موجودہ دنیا میں حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ ‘دعوت’ کے لیے حلیف ہونا اور ‘نفاذ’ کے لئے حریف ہونا ضروری ہے۔