منٹو نے ہمارے عہد کے لیے بھی لکھا

منٹو نے ہمارے عہد کے لیے بھی لکھا

از، کامران کاظمی

منٹوکا عہد سیاسی انتشار اور معاشی کشمکش کا عہد ہے۔ معاشی کشمکش اور سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کو انقلاب روس نے مہمیز لگائی۔ منٹو نے اپنے عہد کی اس سب سے بڑی سیاسی، سماجی اور اقتصادی تحریک یعنی مارکسزم کا مطالعہ بغور کیا اور اُ ن نظریات کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ مخصوص ہندوستانی حالات میں بھی لیا ہے۔منٹو حالات میں کسی

Author: Kamran Kazmi

بھی قسم کی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے اخلاص کی موجودگی پر زور دیتے ہیں۔ہندوستانی سیاست میں جلیانوالہ باغ کے سانحہ نے ایک باغیانہ فضاپیدا کر دی تھی۔منٹو نے ایک بچے کی آنکھ سے اس سانحہ کو دیکھا تھا۔ سیاسی موضوعات پر اُن کی کہانیوں میں’’نیا قانون‘‘اور’’سوراج کے لیے‘‘ اہم ہیں۔ منٹو نے اپنے عہد کے سیاسی منظر نامے کو اپنے مضامین میں وضاحت سے پیش کیا ہے۔یہاں بھی اُن کی باریک بین اور دوراندیش نگاہ اُن معاملات کا کھوج لگاتی ہے جو ہندوستانی معاشرت میں سیاست کے نام پر ناسور بن چکے ہیں۔ آزادی سے قبل کے موضوعات میں ہندوستانی سیاست اور مذہبی تقسیم کی منٹونے سخت مخالفت کی ہے۔ اُنہیں سیاستدانوں سے نفرت ہے کیونکہ وہ اُن میں منافقت، جھوٹ اور اخلاص کی کمی دیکھتے ہیں۔ان کا یہ خیال درست ہے کہ سماج جو پہلے طبقات میں تقسیم ہے اُس کی مزید تقسیم ہندوستانی سیاستدان مذہب کی بنیاد پر کر رہے ہیں اورایساکرناانسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔’’ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ‘‘ ہندوستانی سیاست میں موجود سیاسی رہنماؤں کی واضح تصویر ہے۔منٹوکا خیال ہے کہ ہندوستانی سیاستدانوں میں اُس قابلیت اور خلوص کا شدید فقدان ہے جو ہندوستان کو حقیقی آزادی کی طرف لے جائے اورجس کی وجہ سے یہاں امن و آشتی کا معاشرہ پیدا ہوسکے۔ہندوستان میں پھوٹ پڑنے والے مذہبی فسادات کے پیچھے بھی منٹو کو انہی سیاسی رہنماؤں کی ذاتی مفاد پرستی کا عنصر نظر آتا ہے۔’’ایک اشک آلود اپیل‘‘میں منٹو ایسے عناصر کی نشاند ہی کرتے ہیں:
یہ وہ لوگ ہیں جو جنگلی لوگوں کی بربریت کو ازسرِ نو ہندوستان کی فضا میں تازہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے ہر عضو کو مفلوج دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو اپنی مادرِ وطن کو آزاد دیکھنے کے خواہشمند نہیں۔جو مکار ہیں،غدار ہیں،جن کی رگ رگ اور نس نس میں بدی کا خون موجزن ہے۔
تقسیم ہند کے بعد منٹو نے اپنی پوری توجہ پاکستان کے سیاسی حالات پر مرکوز کرلی اور پاکستانی معاملات میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت پر اپنی تشویش کو مختلف طریقوں سے ظاہر کیا۔منٹو کی دور اندیشی نے پاکستان میں امریکی مداخلت کے اثرات کا بغور جائزہ لیا اور ان مشکلات کا بھی اظہار کیا جو اس مداخلت کا منطقی نتیجہ تھے۔منٹو نے پاکستانی سیاست اور سماجی شعبے پر ایک خاص قسم کی ملائیت کے بڑھتے ہوئے اثرات کا بھی جائزہ لیا اور چچا سام کے نام خطوط میں اس کاکھل کر اظہار بھی کیاہے۔سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی اقدار کو جس تیزی سے بدلا اور ہر اک شے کو مارکیٹ اکانومی میں بدل دیا ہے منٹو نے چچا سام کے نام خطوط میں اُس کابیباک اظہار کیا ہے۔اسی طرح منٹو دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ دنیا میں امن قائم نہ ہو سکنے کی وجہ بھی مخصوص امریکی حکمتِ عملی ہے۔ان خطوط میں منٹو نئے آزاد ملک پاکستان کی معاشی زبوں حالی کا بار بار ذکر کرتے ہیں اور اس کا موازنہ امریکہ کی خوشحالی اور بے پناہ دولت سے کرتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ منٹو سرمایہ دارانہ نظام پر بھی شدیدتنقید کرتے ہیں۔تقسیم سے قبل کے حالات میں کانگریس اور مسلم لیگ کے سیاسی کردار کو بھی منٹو نے طنز کا نشانہ بنایا۔اُنہیں اِن دونوں جماعتوں کے قول و فعل کے تضاد پر اعتراض تھا۔جس کا اظہار اُنہوں نے اپنے مضامین کے علاوہ اپنے افسانوں میں بھی کیا ہے:
مسلم لیگ مسجد ہے، کانگریس مندر ہے۔لوگوں کا یہی خیال ہے۔اخبار بھی یہی کہتے ہیں، کانگریس سوراج چاہتی ہے،مسلم لیگ بھی۔لیکن دونوں کے راستے جدا جدا ہیں۔ دونوں مل جُل کر کام نہیں کرتے ۔اس لیے کہ مندر اور مسجد ساخت کے اعتبار سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ میرا خیال تھا کہ یہ جو فساد ہو رہا ہے اس میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے اور اِن دونوں کے خون کا ملاپ جو مندروں اور مسجدوں میں نہیں ہوتا موریوں اور بدرؤں میں ہوگا۔مگر تعجب ہوا،جب میرا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا۔
پاکستان بننے کے بعد بھی منٹو مسلم لیگ کے سیاسی کردار پہ طنز کرتے رہے ہیں۔چونکہ اُس وقت کے مسلم لیگی زعماء آمرانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کررہے تھے اور پاکستانی سیاست میں ہر طرح کے سیاہ و سفید کے مختار ہو چکے تھے اور پاکستانی سیاست پر مسلم لیگ کے لیڈروں کا قبضہ ہو چکا تھا:
یہ جتنے ادیب اور شاعر بنے پھرتے ہیں اب ان کو چاہیے کہ ہوش میں آئیں اور کوئی شریفانہ پیشہ اختیار کریں۔۔۔ لیڈر بن جائیں۔۔۔ صرف مسلم لیگ کے۔۔۔ جی ہاں،میرا مطلب یہی تھا کہ کسی اور لیگ کا لیڈر بننا فحش ہے بے حد فحش۔
تقسیم ہند اور پاکستان بن جانے کے بعد اس نئے ملک پاکستان میں لوٹ مار کا جو بازار گرم ہوا منٹو جیسا حساس فنکار اُس پر بھی بہت دلبرداشتہ ہوا:
پچھلے برس یوم استقلال پرایک صاحب سوکھا ہوا درخت کاٹ کر گھر لے جانے کی کوشش فرمارہے تھے میں نے ان سے کہا،یہ آپ کیا کر رہے ہیں،یہ درخت کاٹنے کا آپ کو کوئی حق نہیں، آپ نے فرمایا۔’’یہ پاکستان ہے،یہ ہمارا مال ہے‘‘میں خاموش ہوگیا۔
ظاہر ہے اس بے حسی کا سوائے خاموشی کے اور کیا جواب ہو سکتا تھا ۔منٹو سماج میں پائی جانے والی رجعت پسندی کے خلاف تھے۔پاکستان میں ہمیشہ مذہب کے نام پر لوگوں کے حقوق سلب کیے گئے ہیں اور جبرو تشدد اور استحصال کو فروغ دیا گیا۔منٹو نے مذہب کے نام پر کیے گئے حکومتی اقدامات پہ تیزوتند لہجہ میں نکتہ چینی کی ہے جس کا اظہار ’’چچاسام کے نام خطوط‘‘اور’’اللہ کا بڑا فضل ہے‘‘ مضامین میں خاص طور پر اور دیگر مضامین میں عمومی طور پر کیا ہے۔ منٹو اپنی نجی زندگی میں بھی رجعت پسندی، اوہام پرستی، کورانہ تقلید، ناانصافی، تنگ نظری،تنگ خیالی،بے لچک کٹر پن اور تعصب پسند نہیں کرتے تھے۔ منٹو وسیع الخیال، روشن دماغ اور انسان دوست شخص تھے جو مذہبی عقائد اُن کی عقل کی کسوٹی پر پورے نہیں اُترتے تھے اُنھیں وہ بآسانی رد کر دیتے تھے۔ البتہ بیشتر ترقی پسندوں کی طرح منٹو نے مذہب کی کبھی بھی توہین و تحقیرنہیں کی وہ ذاتی طور پر مذہبی مفاہمت اور رواداری کے قائل تھے۔
کشمیر کا ذکر منٹو کی کہانیوں کے علاوہ اُن کے مضامین میں بھی اکثر جگہ پر آیا ہے۔اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ منٹو خود کشمیری ہیں۔ انگریز ہندوستان کی تقسیم کرتے وقت کشمیر کے مسئلہ کو متنازع چھوڑ کر چلے گئے۔جس سے کشمیر کے عوام کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوگیااور اب کشمیر کے مستقل کا فیصلہ کرنے میں’’یو این او‘‘کی عدم دلچسپی اسے مزید الجھا رہی ہے۔ منٹواس کا اظہار یوں کرتے ہیں:
یو۔این۔او فیصلہ کرے گی۔
کس کا؟
ہماری قسمت کا
پہلے تو ایسے فیصلے خدا کیا کرتا تھا
اب ارضی جنت کا فیصلہ ارضی’’دیوتا‘‘کرے گا
دوسری جنگ عظیم کے بعددنیا بھر کے معاملات میں امریکی اثر رسوخ میں اضافہ ہوا۔تقسیم ہند کے بعد تو پاکستان کے داخلی وخارجی معاملات میں واضح امریکی مداخلت ہونے لگی۔ دراصل امریکی اوریورپی اقوام نے پاکستان کوانقلاب روس کے دیگر ممالک تک پھیلاؤ کوروکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور ان سرمایہ دار اقوام کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں تھی ۔ اس طرح پاکستان میں اس امر کا خیال کیے بغیر کہ یہاں کاسماجی و معاشرتی ڈھانچہ جو ابھی کمزور تھا مزید خستہ حالی کا شکار ہو جائے گا، مغربی ممالک نے ایسے اقدامات کرنے شروع کر دیے جن کے نتا ئج میں پاکستانی معاشرے میں بے چینی ،تعصب، گھٹن اورسماجی تفریق کی قباحتیں فروغ پا گئیں۔ اس کاایک سبب تومنٹو خود یہاں کے لوگوں کوہی سمجھتے ہیں۔مثلاًچچا سام کے نام پہلے خط میں جہاں وہ امریکی طرز معاشرت اور سرمایہ دارانہ نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہیں وہ اپنے ملک کے لوگوں کی بے حسی کا احوال بھی لکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ہم نے خود اپنی صورتوں کو بگاڑ رکھا ہے۔ اتنا مسخ کر رکھاہے کہ اب وہ پہچانی بھی نہیں جاتیں ہیں۔ منٹو کو اس بات کا احساس تھا کہ مغربی اقوام پاکستان کو مذہب کے نام پر روس کے خلاف استعمال کریں گی اور ایسے افراد کو بڑھاوا دیں گی جوان کے مقاصد تو بخوبی پورا کریں گے مگر ان کے ہاتھوں پورا پاکستانی سماج یرغمال بن کررہ جائے گا:
ہندوستان لاکھ ٹاپاکرے ۔آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرور کریں گے۔ اس لیے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلا می سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے۔ اور کیوں نہ ہو اس لیے کہ یہاں کا مُلا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو آپ سب سے پہلے ان ملاؤں کا مسلح کیجئے گا۔
اس طرح منٹو امریکی فوجی امداد کی فراغ دلانہ پیشکش کے اصل محرک کا پردہ فاش کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چھپی امریکی نیت کو سامنے لے آتے ہیں۔پاکستانی معاشرے اور اقتصادیات میں امریکی مداخلت کو ناپسند کرنے والوں میں منٹو بھی شامل تھے ۔ سلطانئ جمہور کی داعی مسلم لیگ جلد ہی آمرانہ ہتھکنڈوں پر اتر آئی اور سرکاری پالیسیوں کے مخالفین کو سرخا قرار دے کر آزادئ اظہار کے تمام ذرائع پر قدغن لگانے لگی۔منٹو بھی سرکار کی ان بندشوں کا شکار ہوئے جس کا اظہار اُن کے مضامین میں اکثر جگہ پر ہوا ہے۔تقسیم ہندوستان ایک ایسا جذباتی فیصلہ تھا جس نے ہر حساس اور باشعور فنکار کے قلب و ذہن پر گہرے اثرات مرتسم کیے۔ منٹو کبھی بھی کسی سیاسی جماعت سے نہ تو وابستہ رہے تھے اور نہ اُنہوں نے خود کو کسی سیاسی مسلک کا پابند بنایا تھا۔ تقسیم سے قبل منٹو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کو چند افراد کا ذاتی مفادات کے حصول کا گروہ خیال کرتے تھے جنھوں نے پورے ملک میں جذباتی فضا قائم کر رکھی تھی۔منٹو تقسیم ہند کے عمل کو ہی غیر فطری قرار دیتے ہیں:
برطانوی سامراج کی حکمت عملی نے وہ شاطرانہ چال چلی کہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دماغوں کو بھی سوچنے کا موقع نہ ملا۔ہندوستان کو اس چابک دست جراح نے پتھر کی سرد سلوں پر لٹا کر چیرا پھاڑاایک سنگین سکون و اطمینان کے ساتھ اس کے حصے بخرے کیے اور یہ جا وہ جا۔ اور وہ جن کے تدبر ،وہ جن کی دقیقہ رسی،وہ جن کی شاہیں نگاہی کی سارے عالم میں دھوم تھی، آنکھیں جھپکتے رہ گئے۔
خود منٹو بدیشی حکمرانوں سے نجات تو چاہتے تھے مگر اُن کے گمان میں بھی نہ تھا کہ انگریزی تسلط ہندوستان کی تقسیم پر منتج ہوگا۔منٹو جیسے تخلیقی فنکار کے ہاں انگریزی تسلط سے آزادی کی خواہش تو اکثر تحریروں میں نظر آتی ہے لیکن تحریک پاکستان سے وہ لاتعلق نظر آتے ہیں۔منٹو کی پاکستانیت کے ایک بہت بڑے مداح بھی ان کی اس لاتعلقی کے قائل نظر آتے ہیں:
سعادت حسن منٹو بھی اپنے معاصرین کی طرح سیکولر اندازِ نظر کو وسیع النظری،انسان دوستی اور آفاقیت کی ماں تصور کرتے تھے۔اس لیے مسلمان قوم کی اس تہذیبی اور سیاسی جدوجہد سے وہ بھی سراسر لاتعلق رہے جسے تحریک پاکستان کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔وہ بھی اپنے نظریہ اور عمل سے یہی ثابت کرنے میں کوشاں رہے کہ برصغیر میں جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر ایک علیحدہ مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ رجعت پسندانہ مطالبہ ہے۔
درج بالا اقتباس میں جسے فاضل نقاد’’مسلمان قوم کی تہذیبی اور سیاسی جدوجہد‘‘قرار دیتے ہیں منٹو اُسے اپنا اُلو سیدھا کرنے کاعمل کہتے ہیں۔ انہی کے الفاظ میں دیکھیے:
یہ لیڈر جب آنسو بہا بہاکر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔مذہب ایسی چیز نہیں کہ خطرے میں پڑسکے۔اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ ان لیڈروں کا ہے جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مذہب کوخطرے میں ڈالتے ہیں۔
اسی مضمون میں منٹو مزید ایسے لیڈروں کے کردار کو واضح کرتے ہیں جو ذاتی مفادات کے حصول میں کسی بھی قسم کی اخلاقی اقدار کو خاطر میں نہیں لائے۔اسی طرح منٹو پاکستان قائم ہونے کے چار سال بعد بھی اسے’’پر کاٹے ہوئے پرندے کی آزادی‘‘قرار دیتے ہیں۔چچا سام کے نام پہلے خط کا آغاز ہی یوں کرتے ہیں:
میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا،کیسے آزاد ہوا؟یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے یہی وجہ ہے کہ میں خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں،کیونکہ جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اسی طرح میں کٹ کر آزاد ہوا ہوں اور چچا جان یہ بات تو آپ جیسے ہمدردان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چاہیے کہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے گا اس کی آزادی کیسی ہوگی۔
تقسیم کے اس عمل کو جذباتی قرار دیتے ہوئے منٹو اس تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں۔فسادات میں منٹو کا رویہ اپنے بہت سے ہم عصروں کے برعکس انسان دوستی کا مظہر تھا۔منٹو ہندویا مسلمان کے قتل کو محض انسان کا قتل خیال کرتے تھے:
خود کو حیوانوں سے کچھ اونچا رکھنے کے لیے انسان نے قتل و غارت گری کے لیے بھی کچھ آداب و قواعد بنا رکھے ہیں۔لیکن جس قتل و غارت گری کا ہم ذکر کرتے ہیں ان آداب و قواعد سے بے نیاز تھی بلکہ یوں کہیے کہ حیوانیت سے بھی یکسر مبرا تھی جس کی تصویر شاید یہ قتل و غارت گری خود بھی نہ کھینچ سکے۔
فسادات کے موضوع پر منٹو نے کئی افسانے لکھے۔ان میں’’کھول دو‘‘کو لافانی شہرت حاصل ہوئی۔منٹو نے اپنے بعض مضامین میں فسادات کے بعد کی صورتحال کا تجزیہ بھی کیا ہے۔مثلاًفسادات میں اغواہوجانے والی پچاس ہزار سے زائد عورتوں کی بازیابی کے مسائل اور بازیاب ہوجانے والی عورتوں کے نفسیاتی علاج معالجے پر حکومتی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اسی طرح منٹو نے اُن افراد کے نفسیاتی علاج پر بھی زور دیا ہے جو فسادات کے زمانے میں ہر طرح کی لوٹ مار میں شامل رہے اور بے دریغ انسانوں کا خون بہاتے رہے۔منٹو ایسے حساس معاملات پر نظر رکھتے تھے جنھیں حکومت یا مقتدر حلقے قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔
منٹو اپنے عہد کے سیاسی،سماجی،معاشی اور معاشرتی مسائل پراپنے نظریات کا اظہار بڑے بے لاگ طریقے سے کرتے ہیں۔منٹوکی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے ذرائع ابلاغ سے مکمل آگاہی رکھتے تھے۔ اخبارات و رسائل تو عام ہوچکے تھے۔اسی طرح ریڈیو بھی شہری زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔مگر فلم کا میڈیا ابھی ہندوستان میں نیا نیا آیا تھا۔منٹو جلد ہی اس میڈیا سے منسلک ہوگئے اور فلمی کہانیاں اور مکالمے لکھتے رہے۔ایک طویل عرصہ تک فلم ہی سے منٹو کا روزگار وابستہ رہا اور یہ سلسلہ پاکستان آکر ٹوٹ گیا۔ اس جدیدمیڈیا کے مؤثر استعمال اور فلم کی تکنیک اور ضروریات کے بارے میں منٹو نے ہی اہم مضامین قلمبند کیے۔منٹو نے فلم بننے کے تمام مراحل کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا اور اپنے تجربات کو اپنے احباب تک پہنچانے میں فراخ دلی کا مظاہر ہ کیا۔ منٹو کی اس خوبی کا اظہار ڈاکٹر برج پریمی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
منٹو فلمی دنیا میں داخل ہو کر صرف اپنی تقدیر سنوارنے میں مصروف نہیں رہے بلکہ اُنہوں نے ایک نظر پیدا کرلی۔وہ بار بار اپنے احباب کو فلمی دنیا کے تمام داؤ پیچ سمجھاتے رہے۔ انہوں نے دوسرے لوگوں کی طرح اس معاملے کو پیشہ ورانہ راز(Trade Secret) نہیں سمجھا۔ بلکہ اسے صلائے عام بنادیا۔وہ اپنے احباب کو مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فلم کی تکنیک کے بارے میں باریک رموز سمجھاتے ہیں۔اس سے اُن کے مشاہدے اور مطالعے کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔
منٹو ہندوستانی فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے خودکو بطور ایک ماہر نقاد کے تسلیم کرواتے ہیں۔فلمی زندگی سے متعارف تو منٹو ہفتہ وار فلمی رسالے ’’مصور‘‘ کی ادارت کی وجہ سے ہوئے تاہم جلد ہی وہ اس صنعت کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ ہوگئے۔منٹو نے فلمی دنیا سے جو تجربہ و مشاہدہ حاصل کیا اسے انہوں نے اپنی کئی کہانیوں میں بھی برتا۔مثلاًلتیکارانی، بسم اللہ،مس مالا،میرٹھ کی قینچی وغیرہ ان فلموں کے واقعات،کردار اور پلاٹ فلمی دنیا سے اخذ کردہ ہیں بلکہ منٹو نے بعض فلمی شخصیات کے بہت دلچسپ خاکے بھی لکھے ہیں۔فلمی صنعت پر لکھے گئے مضامین میں منٹو ایک منجھے ہوئے فلمی نقاد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور۱۹۱۳ء میں جب ڈی جی پھالکے نے ہندوستان میں پہلی فلم بنائی تھی،سے لے کر منٹو نے اپنے عہد تک بننے والی فلموں اورفلمی دنیا کے نشیب و فراز سے متعلق بھر پور آگاہی دی ہے۔منٹو ہندوستانی فلم کے کہانی نویسوں کو دوسروں کی چچوڑی ہوئی ہڈیاں کھانے والا سمجھتے ہیں۔منٹو کا خیال درست ہے کہ ہندوستانی فلم کو شروع سے ہی ایسے لوگوں نے سنبھالا جنھیں نہ تو اس کام کا تجربہ تھا اور نہ مطلوبہ ہنر حاصل تھا۔یہی حال فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں کا تھا ۔اسی طرح فلم سازی کی صنعت کے زوال میں فلمی صحافیوں کا بھی نمایاں کردار ہے۔چونکہ منٹو فلم کو ہی ایسا ذریعہ سمجھتے تھے جو خوابیدہ ہندوستانی ذہنیت کو جگانے کا کام کرسکتا ہے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے جب تیسرے درجے کی فلموں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور فلم کو محض تفریح نہ خیال کیا جائے۔ بقول منٹو:
عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کے مختلف طریقے ہیں۔ان سب میں سے فلم کو متفقہ طور پر بہت بااثر تسلیم کیا گیا ہے۔سیلو لائڈ کے فیتے کے ذریعے سے ہم پبلک تک اپنا پیغام بطریق احسن پہنچا سکتے ہیں۔۔۔ جو بات مہینوں خشک تقریروں سے نہیں سمجھائی جاسکتی، چٹکیوں میں ایک فلم کے ذریعے سے ذہن نشین کرائی جاسکتی ہے۔
ہندوستان کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر منٹو کا خیال ہے کہ فلم کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ فلم بینوں کے دماغوں میں غور وفکر کے جراثیم بھی پیدا کرنے چاہئیں۔انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ یہ سب تب ہی ممکن ہے کہ جب فلمی صنعت پر سرمایہ لگانے والے تاجر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر اپنی تجوریاں بھرنا چھوڑ دیں گے۔ منٹو نے فلم کی تکنیک سے بھی بحث کی ہے ۔اس وقت تک چند اہم سنگِ میل ہندوستانی فلمی صنعت عبور کر چکی تھی مگراس میں کچھ ایسے طریقے رائج ہوگئے تھے جو اس صنعت کے لیے نقصان دہ تھے۔مثلاً کہانی میں بے جا طوالت،واقعات و حادثات میں بے ربطی، موقع بے موقع ناچ گانا،بعض غیر متعلق واقعات وغیرہ۔بقول منٹو فلم میں ’’لنگڑا پن‘‘ پیداکرنے کا باعث بنتے ہیں۔فلم کی تکنیک کے علاوہ منٹو فلم بنانے میں دیگر افراد کے کردار کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔مثلاًوہ فلم کی تشکیل میں ہدایت کاروں کے کردار پر خاص زور دیتے ہیں۔منٹو کے بقول ہدایت کار کے لیے صاحب اسلوب ہونا بھی ضروری ہوتا ہے ۔منٹومغربی ہدایت کاروں اور ان کے کام کے معترف ہیں۔ منٹوفلم میں اداکاری کے فن پر بھی توجہ دینے کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں اور اداکاری کو بھی اتنا ہی اہم فن گردانتے ہیں جتنا کہ مصوری،سنگ تراشی، شاعری، افسانہ نگاری اور موسیقی وغیرہ کو سمجھاجاتا ہے۔فلمی صنعت کی ضرورت اور مؤثر ہونے کے اسباب اور فلم کی تکنیک اور دیگر ضروریات کے حوالے سے منٹو نے چند اہم مضامین قلمبند کیے ہیں۔ جن میں’’شریف عورتیں اور فلمی دنیا‘‘،’’ہندوستانی صنعت فلم سازی پر ایک نظر‘‘ اور ’’زندگی‘‘فلم پر ریویو اہم ہیں۔ البتہ فلموں کی یکسانیت اور فلموں کی مصنوعی زندگی سے جلد ہی منٹو کا جی اُوب گیا اور ’’میں فلم کیوں نہیں دیکھتا‘‘ میں اس سب کا اظہار خوب کیا ہے۔ڈاکٹر برج پریمی کا خیال ہے :
منٹو نے فلم کو ادب سے کمتر درجے کی چیز نہیں سمجھا تھا۔اُنھوں نے بہت خلوص سے اس وسیلے کے ذریعے خدمت کرنا چاہی تھی اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ ’’مصور‘‘ اور’’کارواں‘‘کی ادارت کے دوران انہوں نے ایسا مواد شائع کیا جس سے فلموں میں صفائی اور سلیقہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔لیکن ہمیشہ فلمسازوں اور ار بابِ اختیار کی نااہلیت کے باعث مسخ ہوئیں۔
تقسیم سے قبل کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل ہوں یا تقسیم کا پیدا کردہ المیہ منٹو کی تنقیدی بصیرت اور حالات کو سمجھنے کا شعور ہمیشہ درست تجزیئے میں اُن کے معاون رہے ہیں اور منٹو کبھی بھی اپنی بے لاگ رائے دینے سے نہیں ہچکچائے۔منٹو نے اپنے عہد کے اہم اور سلگتے مسائل پر قلم اُٹھایا ہے اور اُن مسائل کو ہر طرح سے اُبھارنے اور اُن کے تمام گوشوں کو سامنے لانے میں اپنی پوری بصیرت سے کام لیا ہے۔سیاسی موضوعات ہوں یا سماجی مسائل منٹو کے مضامین سے اُن کا عہدواضح طورپر جھلکتا ہے۔