فلم منٹو کی منٹویت کا لطف لیجیے

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

فلم منٹو کی منٹویت کا لطف لیجیے

از، حسین جاوید افروز

’’جب میں نے منٹو کو پڑھنا شروع کیا تو ان کے بے شمار افسانے اور مضامین کھنگال ڈالے اور ان کی روح کو سمجھتے سمجھتے مجھ میں منٹویت آ گئی۔ منٹو جیسے پیچیدہ پراجیکٹ پر مجھے چھ سال ریسرچ کرنا پڑی۔ اس مقصد کے لیے میں لاہور بھی گئی اور منٹو صاحب کی بیٹیوں سے ملی۔ لکشمی مینشن سمیت ان سبھی گلیاروں اور چو راہوں کا چکر بھی لگایا جہاں منٹو صاحب کے شب و روز بسر ہوتے تھے یوں میں نے اس سکرپٹ پر تین برس تک کام کیا۔

“میں بر ملا اعتراف کرتی ہوں کہ منٹو کی تین سو کہانیاں، بے شمار مضامین اور اور ان کی زندگی کے ان گَنِت واقعات کو میں محض دو گھنٹوں میں پیش نہیں کر سکتی مگرمیں نے منٹو کو اپنی نظریے سے دکھانے کے لیے کوشش کی ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں اس فلم کو لاہور میں شوٹ کروں مگر جب سے ہندوستان میں پاکستانی فن کاروں کے کام کرنے پر پابندی لگی گئی تو مجھے مجبوراً لاہور کو ہندوستان میں ہی تلاش کرنا پڑا۔ لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ اس پراجیکٹ کے دوران میرے کئی پاکستانی دوستوں نے تحقیق کے حوالے سے مجھے بے پناہ مدد فراہم کی۔”

نندتا داس نے اپنی تازہ ترین فلم منٹو  کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ہم اس سے قبل اس کہنہ مشق ہدایت کارہ کی فلم فراق بھی دیکھ چکے ہیں کہ کیسے انہوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات کی حساسیت کو اجاگر کیا؟ جب کہ بہ طور ایک سنجیدہ پرفارمر وہ اپنی جان دار ادا کاری سے 1947 ارتھ، عکس، ہری بھری، واٹر، پتا اور رام چند پاکستانی میں اپنے فن کا لوہا بھی منوا چکی ہیں۔

فلم کی کہانی اپنے وقت کے بلند پایہ ادیب سعادت حسن منٹو کے درمیان گھومتی ہے جو اپنے زمانے کے سماجی معروض کا بے باک نقاد رہا جس نے کھل کر سماجی تضادات کو بیان کیا اور اردو افسانے میں حقیقت نگاری کی داغ بیل ڈالی۔ منٹو کا کمال یہ تھا کہ جو لوگ اسے جی بھر کر فحاشی کا علم بردار کہہ کر کوستے رہتے، وہی اس کی کہانیاں بھی مزے مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے۔

منٹو ایک انقلاب پسند ادیب تھا جس نے سماج کو ویسے ہی دکھایا جیسا کہ اس سماج کا اصل چہرہ تھا۔ منٹو جنسی مریض ہر گز نہیں تھا بَل کہ وہ تو ان جنسی بھوک کے شکار افراد کا علاج کرنا چاہتا تھا۔ مجموعی طور پرعورت کے جسمانی استحصال سے لے کر تقسیم سے جنم لینے والے انتشار کو منٹو نے اپنے شاہ کار افسانوں کے ذریعے معنویت سے بھر دیا۔


مزید دیکھیے:  منٹو نے ہمارے عہد کے لیے بھی لکھا  از، کامران کاظمی

منٹو پر کوئی فلم بنا ہی نہیں سکتا  از، زمرد مغل


فلم کہانی 1940 کی دھائی کے بمبئی سے شروع ہوتی ہے جہاں منٹو نہ صرف افسانہ نگاری کے میدان میں خود کو منوا چکا ہے بَل کہ اس کے بو لی وڈ میں بھی گہرے مراسم ہیں۔ سپر اسٹار اشوک کمار سے لے کر جد و جہد کرتا فن کار شیام بھی اس کی دوستی کا دم بھرتا تھا۔ جب کہ اس دور کی متنازع مگر نامور افسانہ نگار عصمت چغتائی کے ساتھ بھی اس کی دوستانہ چشمک چلتی رہتی تھی۔ جب کہ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی منٹو اکثر اختلاف کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ہم طوائف کو شجرِ ممنوع کیوں سمجھتے ہیں؟

میں اس لیے طوائف پر لکھتا ہوں کیوں کہ وہ بھی سماج کا حصہ ہیں۔ وہاں لوگ جاتے ہیں تو کیوں جاتے ہیں اب نماز تو پڑھنے نہیں جاتے ناں۔ اگر کوٹھے پر جانے کی اجازت ہے تو ان پر لکھنے کی کیوں نہیں؟ فلم کا وہ منظر بھی قابل دید ہے جب بمبئی فلمی صنعت کے مایہ ناز ہدایت کار کے آصف، منٹو کو اپنی نئی فلموں کے سکرپٹ پڑھنے کو دیتا تو منٹو ایک جملے میں اس کو بکواس کہہ کر کے آصف کو خوب ستایا کرتا۔

زندگی مزے سے گزر رہی تھی کہ منٹو کو تقسیم کا جبر سہنا پڑ گیا۔ بمبئی بھی ہندو مسلم فسادات کی زد میں آ گیا۔ منٹو کو اشوک کمار دلاسا دے کر بہلانے کی کوشش کرتا کہ فکر نہ کرو یہ پاگل پن ختم ہوجائے گا۔ مگر اصل جھٹکا منٹو کو تب لگا جب انہی فساد کی حدت سے متاثر ہو کر اس کا جگری یار شیام بھی اسے مارنے کی دھمکی دے ڈالتا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب منٹو لاہور جاتے ہوئے اداسی سے کہتا ہے کہ میں بمبئی کا عمر بھر مقروض رہنا چاہتا ہوں۔ میں بھی کبھی چلتا پھرتا بمبئی تھا۔ فلم کے اس حصے میں اس دور کے بمبئی کی عمدگی سے عکاسی گئی ہے۔ اب دوسرا دور لاہور میں شروع ہوتا ہے جہاں منٹو سکونت تو اختیار کر لیتا ہے مگر تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے آلام و مصائب اسے جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس کے ذہن میں فیض کی نظم گردش کرتی ہے کہ یہ وہ صبح تو نہیں۔

اسے کام تو مل جاتا ہے مگر اس کی حقیقی مگر تلخی سے بَھر پُور تحریریں اربابِ اختیار کو نا راض کرنے کا سبب بن جاتی ہیں اور یوں اس پر معاشی تنگ دستی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنی بیوی صفیہ سے منٹو کا مکالمہ بھی یاد گار ہے کہ فکر نہ کرو تم بھوکی نہیں رہو گی میں کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہوں گا، اس پر صفیہ جل کر کہتی ہے اسی بات کا تو ڈر ہے کہ آپ لکھتے رہیں گے۔

دونوں میاں بیوی میں جہاں محبت اور احترام کا گہرا رشتہ موجود ہوتا ہے وہاں اکلوتے بیٹے عارف کی موت اور معاشی مسائل اندر ہی اندر منٹو کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس کا متنازع افسانہ ٹھنڈا گوشت سامنے آتا ہے جو اس کے لیے زیادہ ہی گرم ثابت ہوتا ہے اور فحاشی کو فروغ دینے کی پاداش منٹو پر مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ اس کورٹ روم سیکوئنس کو نہایت ہی مہارت کے ساتھ فلم بند کیا گیا ہے۔ جہاں منٹو پر تنقید کے نَشتر برسائے جا رہے ہوتے ہیں وہاں ایک بار وکیل کی عدم دست یابی پر اسے خود بھی اپنی پیروی کرنا پڑ جاتی ہے۔ منٹو پُر زور الفاظ میں کہتا ہے کہ میرے افسانے میں ایشر سنگھ نے حیوانیت سے بھرا ہوا فعل انجام دیا مگر کلونت کور کے سامنے اس کی نگاہوں میں احساس گناہ بھی تو دیکھیے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حیوان میں بھی انسایت جاگ اٹھی تھی اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منٹو ابھی انسانیت سے مایوس نہیں ہوا۔ اور اس بات کو سمجھیے کہ نیم کڑوا تو ہوتا ہے مگر خون تو صاف کرتا ہے۔ مقدمے کا دل چسپ پہلو تب سامنا آتا ہے جب فیض احمد فیض بھی اپنا بیان درج کراتے ہیں کہ منٹو کا یہ افسانہ فحاشی کے زمرے میں تو نہیں آتا مگر یہ ادب کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔

یوں منٹو ٹوٹ سا جاتا ہے۔ اسے تین ماہ قید اور تین سو روپے جرمانے ادا کرنے کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ اس بے بسی کے دور میں اس کی ملاقات اپنے پرانے دوست شیام سے ہوتی ہے جو اب ایک سٹار بن جاتا ہے اور اسے اچانک ایک فنکشن کے سلسلے میں لاہور میں ملتا ہے۔

شیام اپنے دوست کی عُسرت سے دیکھ کر اسے کچھ پیسے دینا چاہتا ہے مگر منٹو کمال خود داری سے رقم لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ مسلسل شراب نوشی سے منٹو کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ اپنے خاندان کے سامنے بھی شرمندہ شرمندہ سا رہتا ہے۔ فلم میں منٹو کے شاہ کار افسانے، جن میں دس روپے کا نوٹ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چند مناظر شامل ہیں خاصی نفاست اور فراست سے پیش کیے گئے ہیں۔

ان میں پاریش راول، رنویر شورے، دیویا دتہ اور گرداس مان نے بہت ڈوب کر کام کیا ہے۔ جب کہ ایک شاطر فلم ڈائریکٹر کے کردار میں رشی کپور اور دیال سنگھ کالج کے پروفیسر کے رول میں جاوید اختر نے بھی مختصر مگر دل فریب ایکٹنگ کی ہے۔ جب کہ عصمت چغتائی کے کردار میں راج شری دیش پانڈے، شیام کے کردار میں طاہر راج اور خصوصاً صفیہ کے کردار میں راسیکا دگل نے لا جواب پرفارمنس دی۔

فلم میں نواز الدین صدیقی نے منٹو کے کرب، معاشی گھٹن، تخلیقی لگاؤ، تقسیم کے آزار اور اپنے افسانے پر کی گئی بے رحمانہ تنقید کو جھیلنے کے تاثرات کو کمال مہارت سے پردۂِ سِیمیں پر پیش کیا ہے۔ یہ نواز الدین کی زندگی کا سب سے جوکھم بھرا کردار تھا جس کو ہم یقینی طور پر نواز کے کیریئر میں ایک سنگِ میل قرار دے سکتے ہیں۔ جس طرح آج بھی مرزا غالب کو سوچتے ہوئے نصیر الدین شاہ کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے شاید اسی طرح اب ہم منٹو میں بھی نواز الدین صدیقی کو کھوج سکتے ہیں۔

نندتا داس نے اس انتہائی کٹھن پراجیکٹ کو جس جرات مندی اور ایمان دارانہ کوشش سے پیش کیا وہی میری نظر میں اصل داد کی مستحق ہیں، کیوں کہ جس طرح انہوں نے کمرشل ازم کے مصالحوں سے دور دھیمی آنچ پر ایک متوازن فلم تخلیق کی ہے اس کو سماج کے ہر فریق کو لازماً دیکھنا چاہیے۔

اسے محض اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ منٹو کی موت بھی 42 برس کی عمر میں ہوئی جب کہ نندتا داس نے بھی فلم کی شوٹنگ 42 روز میں ہی مکمل کر لی۔ آج بھی ہمارے اس بیمار سماج کو منٹو جیسا ہی نباض درکار ہے جو اس میں موجود مہلک بیماریوں کی تشخیص کر سکے اوراس میں پھیلی منافقت اور دوغلے چہرے کو بے نقاب کرے۔ فلم منٹو پر گفتگو اسی فلم میں موجود ایک اثر انگیز مکالمے پر ختم کرتا ہوں:

’’ہندوستان زندہ باد پاکستان زندہ باد۔ ان چیختے چلاتے نعروں کے بیچ میں کئی سوال ہیں۔ میں کسے اپنا ملک کہوں، لوگ دھڑا دھڑ کیوں مر رہے تھے؟ ان سب سوالات کے مختلف جواب تھے ایک ہندوستانی جواب ایک پاکستانی جواب۔ ایک ہندو جواب ایک مسلم جواب۔ کوئی اسے 1857 کے کھنڈر میں تلاش کرتا ہے تو کوئی اسے مغلیہ سلطنت کے ملبے میں۔ سب پیچھے دیکھ رہے ہیں لیکن آج کے قاتل لہو اور لوہے سے تاریخ بنا رہے ہیں۔ یہ مضمون سناتے سناتے میں آپ سب سے مار کھا لوں گا لیکن ہندو مسلم فساد میں کوئی میرا سر پھوڑ دے۔ تو میرے خون کی ہر بوند روتی رہے گی۔ میں آرٹسٹ ہوں۔ اوچھے زخم اور بھدے گھاؤ مجھے پسند نہیں۔‘‘

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔