میاں محمد بخش کی “سیف الملوک”: عشق کی داستانِ لازوال

(شیخ عبدالرشید)

میں معمول کے مطابق روزن ریسرچ سنٹر گجرات گیا تو برادرم افضل رازؔ فخر و انبساط اور بے قراری کا مجسمہ بنے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔انہوں نے بڑے تپاک سے خیر مقدم کیا اور فوراًمبارکباد دی کہ گجرات کے درویش منش ،ادب دوست چودھری محمد اسمٰعیل چیچی کی سالہا سال پر مبنی تحقیق، تجزیے، شعر دوستی اور میاں محمد بخشؒسے عشق کی کرامت”سفر العشق: سیف الملوک کا تصحیح شدہ نسخہ ”شائع ہو گیا ہے۔میری خوش بختی کہ انہوں نے ایک کتاب مجھے بھی عنایت کی ۔ افضل راز ؔورلڈ پنجابی فورم کے چیئر مین اور پنجابی زبان کے فروغ کے علمبردار بھی ہیں اور باقاعدگی سے سہ ماہی”کانگاں” نکال رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ راز ؔصاحب سیف الملوک کے نسخے تو بازار میں عام مل جاتے ہیں پھر چیچی صاحب نے یہ نسخہ کیوں ترتیب دیا ؟ افضل راز ؔنے مشورہ دیا کہ اس تصحیح شدہ نسخے کی ضرورت کیوں تھی اور کیا یہ نسخہ واقعتاً اس ضرورت کو پورا کرتا ہے اس کے لیے چودھری محمد اسمٰعیل چیچی کی تحقیق و تدوین پر مبنی ”سفر العشق سیف الملوک تصحیح شدہ نسخہ” کامطالعہ ضروری ہے ۔میں نے کتاب بصد شکریہ وصول پائی اور ورق گردانی شروع کر دی۔
پنجابی زبان کے ممتاز صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ اپنے آفاقی پیغام، لافانی کلام اور اعلیٰ فنی محاسن کے سبب عالمی مرتبے کے شعراء میں شامل ہیں۔ ان کے کلام کو عوامی مقبولیت کی لازوال سند حاصل ہے۔ انہوں نے پنجابی زبان و ادب کو گراں بہا ادبی خزانے عطا کر کے اسے بے حد ثروت مند بنایا۔ بلا شبہ ان کی کتاب سفر العشق سیف الملوک ایک شعری و ادبی ‘شاہکار ‘ہے ۔ چنانچہ ڈیڑھ صدی سے سیف الملوک کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ میاں صاحب ایک فطری اور آفاقی شاعر تھے۔ وہ حُرمتِ الفاظ کے پاسبان اور شعری زبان کی حقیقت سے گہری واقفیت رکھتے تھے بلکہ ڈاکٹر لیئق بابری کے بقول ایک بڑے فنی نقاد بھی تھے۔ سیف الملوک کے آخر میں پچاس سے زیادہ پنجابی شعراء کے بارے میں انہوں نے رائے دی ہے ۔ یہی تاثرات پنجابی ادب میں عملی تنقید کی اساس تصور کیے جاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے شعروں کے اوزان کے حوالے سے خود کئی شعر کہے …مثلاً
وزن برابر بیت بنائے، کنڈھے چاہڑ عقل دے
ردے ردیفاں قافیاں سنگ جاسن ملدے رلدے
یعنی میں نے یہ اشعار ہر لحاظ سے مناسب و موزوں اور عقل و فکر کے ترازو میں تول کر کہے ہیں ۔میاں صاحب کو اپنے اشعار ایسے ہی عزیز تھے جیسے اولاد۔ وہ کہہ گئے کہ :
جیونکر بیٹے تساں پیارے تیونکر بیت اساںنوں
بیٹے نوں کوئی انگل لائے، لگدے بیت تسانوں
دشمن وانگ دسے اوہ سانوں جے کوئی بیت تروڑے
بیٹے نازک لال سندر دے ایونکر کن مروڑے
سیر کرو خوشبوئیں مانو پھل مباح تسانوں
شاخ رکھ تروڑ ناہیں بھلی صلاح تسانوں
یعنی جیسے تمہیں بیٹے پیار ہیں ویسے ہی ہمیں اپنے اشعار عزیز ہیں ۔ جیسے بیٹے کو کوئی ذرا سی چوٹ لگا دے تو تمہیں خود کو بید لگتے محسوس ہوتے ہیں ایسے ہی ہمیں تکلیف ہوتی ہے ۔ ہمیں وہ شخص دشمن کی طرح لگتا ہے جو بیت میں تبدیلی کرے ۔ شعر میں یہ تبدیلی اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنا کوئی بے وجہ پیارے بیٹے کے کان مروڑے۔
چودھری اسمٰعیل چیچی کی شب و روز محنت کا یہ ثمر محض ایک کتاب نہیں بلکہ میاں محمد بخش ؒکی بے چین روح کے لیے قرار ہے، ان کے عقیدتمندوں کے لیے تحفہ ہے ۔ مگر اصل میں پنجابی زبان و ادب کے محققین ، اساتذہ اور نقادوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی کہ ایک صدی میں اس لافانی شعری شاہکار کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ کیا کچھ نہیں ہوا… کہ رائج الوقت سیف الملوک میں چالیس فیصد سے زیادہ تصرف، اشعار کی تبدیلی یا کتابت کی غلطیوں نے جمع ہو کر اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے ۔بغیر تحقیق کے جب کوئی بات رقم ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ غلطی آنے والی نسلیں دہراتی ہیں بلکہ ایک غلطی سے لاتعداد غلطیاں بھی پیدا ہوتی ہیںیہی وجہ ہے کہ محض ڈگریوں کے حصول کے لیے سیف الملوک پڑھنے والے طالبعلموں یا پروموشن کے لیے اس ‘شاہکار’ پر مقالے لکھ کر ترقیاں پانے والے محققین و اساتذہ کو تو گراں نہ گزرا کہ یہ تصرف، یہ غلطیاں، یہ بگاڑ درحقیقت میاں محمد بخش ؒ کو دشمن کی طرح کھٹکتا ہے ،تاہم جب بھی کوئی صاحب ذوق، محبت اور تفکر سے اسے پڑھتا ہے تو چونک جاتا ہے ، جیسے چودھری محمد اسمٰعیل چیچی ”گلستان رموز” مرتب کرتے وقت چونک گئے اور اپنے علمی و ادبی حلقے میں سیف الملوک میں در آنے والی خرابیوں کا تذکرہ کرنے لگے تو دوستوں نے اصرار کیا کہ چیچی صاحب ان خرابیوں کی نشاندہی کرنے کی بجائے ان کو سامنے لا کر درستگی کریں۔ اسمٰعیل چیچی سیف الملوک سنتے اور پڑھتے پروان چڑھے تھے اس لیے میاں صاحب کا کلام ان کی روح میں خون کی طرح گردش کرتا ہے ،ویسے بھی میاں صاحب کے کلام میں پنجابی کے علاوہ پہاڑی سمیت دیگر زبانوں اور لہجوں کے الفاظ بھی بہت استعمال ہوئے ہیں اور اسمٰعیل چیچی کا خاندان بھی پہاڑی لہجے کے علاقے سے ہجرت کر کے آیا تھا لہٰذا انہیں سیف الملوک میں در آنے والی خرابیوں کا علم آسانی سے ہوجاتا رہا۔ مثلاً ایک شعر جو عام ہے ۔
میرے نالوں ہر کوئی بہتر مہیں نیچ ایاناں
تھوڑا بہتا شعر سخن تھا گھاٹا وادا جاناں
حالانکہ یہ شعر اصل میں کچھ یوں ہے
میرے نالوں ہر کوئی بہتر میں ہاں پُج ایاناں
تھوڑا بہتا شعر سخن دا گھاٹا وادھا جاناں
چیچی صاحب کا کہنا ہے کہ میاں صاحب میں انکساری تھی اس لیے انہوں نے کہا کہ ہر سخن ور مجھ سے بہتر ہے میں تو شعر کی کمیوں بیشیوں سے کم ہی واقف ہوں ، بلکہ کم فہم ہوں ۔ پنجابی میں ”پُج” کا لفظ افراط کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً فلاں بندہ پج کے کنجوس اے ، جبکہ بدلتے بدلتے یہ پرمغز فصیح لفظ ”نیچ” میں بدل کر شعر کا مفہوم ہی بدل گیا ۔
مروجہ سیف الملوک کے مرتبین کی بد ذوقی کی ایک اور مثال دیکھیے۔ میاں صاحب کا ایک شعر ہے …
ہک اوہناں دا لال پیارا سُتا وچ قبر دے
لال دوجا ہے کھاندا پھردا دھکے ہر اک در دے
یعنی میرے والدین کا ایک لال یعنی بیٹا (میاں بہاول بخش) تو رب کو پیارا ہو گیا اور دوسرا (محمد بخش) در در کے دھکے کھا رہا ہے ۔ مگر یہ شعر اس طرح رائج ہے کہ :
ہک اوہناں دا لال پیارا خاک اندر رل سُتا
دوجا کنبدا لکدا پھردا جیونکر پانول کتا
‘پانول کُتا’ خارش زدہ کتے کوکہتے ہیں ۔ میاں صاحب کے اسلوب شعر سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کا اپنے لیے اس کراہت آمیز تشبیہہ کااستعمال ممکن نہیںاس طرح کے درجنوں اشعار چیچی صاحب اپنے دوستوں پروفیسر خالد ہمایوں، محمد افضل راز، رانا منصور امین ،پروفیسر وسیم بیگ مرزا و دیگر کو سناتے اور درستگی بھی کرتے تو سب نے انہیں تحریک اور حوصلہ دیا کہ وہ اپنے روحانی مرشد کی روح کے قرار کے لیے انہیں ان دشمنوں جیسے محقق دوستوں سے نجات دلائیں اور متن پر نظر ڈال کر درستگی کریں ۔ چنانچہ انہوں نے ۲۱رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ یعنی ۲۰۱۰ میں کام کا آغازکیا اور پھر مکمل دیانتداری سے تمام تر صلاحیتیں، شعری ذوق اور وسائل اس تحقیق و تدوین کی نذر کر دیئے ۔ اپنے بڑھاپے اور صحت تک کی پروا نہ کی۔ اس کے لیے انہوں نے پہلے مرحلے میں سیف الملوک کے مختلف ایڈیشنز جمع کیے ۔ میاں صاحب نے ۱۸۶۳ء میں سیف الملوک کی تسوید مکمل کی اور کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے پہل۱۸۷۰ء میں لاہورسے شائع ہوئی۔ خود میاں صاحب سیف الملوک کے اشعار۹۱۹۱ اور۹۲۵۱ میں فرماتے ہیں کہ وہ خود لاہور تشریف لے گئے اور مولوی عبداﷲ کے ہاں تین ماہ قیام کر کے پروف دیکھا ۔ میاں صاحبؒ لکھتے ہیں:
شہر لاہور مبارک اندر صحت کیتی بہ کے
مولوی عبداﷲ جیو دے خانے اندر رہ کے
لیتھو پرنٹنگ کے اپنے مسائل تھے چنانچہ نسخہ میں کچھ غلطیاں رہ گئیں ،با ر بار ایڈیشن چھپنے سے مسائل اور بڑھتے گئے۔ پھر۲۸ سال بعد نیا نسخہ مولوی غلام نبی مالک یونیورسل پریس جہلم نے۱۸۹۸ میں شائع کیا ۔ انہوں نے بڑے خلوص سے یہ کام کیا مگر صرف کتابت کی اغلاط درست کرنے کی بجائے کئی اشعار کے متن میں بھی از خود تبدیلی یا درستگی کر دی اس سے بہت سے اشعار کا متن اور پھر معانی ہی بدل گئے ۔ بعد میں مرتب ہونے والی سیف الملوک میں بھی دانستہ یا نادانستہ تبدیلیاں ہوتی رہیں اور بقول چودھری اسمٰعیل چیچی چالیس فیصد تصرف ہو گیا ۔ کافی عرصے سے ذوق شعر رکھنے والے جب جب سیف الملوک پڑھتے تو کئی مقامات پر رک جاتے کہ شعر کی بنتر، الفاظ کا انتخاب اور معنی و مفہوم میاں محمد بخشؒ کی سخن شناسی اور فکر و اسلوب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تاہم ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے ۱۹۶۳ئ، اقبال صلاح الدین کے ۱۹۸۴، سید سبط الحسن ضیغم کے ۱۹۹۳ اور شریف صابر کے ۲۰۰۲ء کے نسخے بھی سیف الملوک کے چاہنے والوں کی تشنگی ختم نہ کر سکے کیونکہ ایسے پائے کے محققین کی تحقیق و تدوین کے باوجود رائج الوقت نسخوں میں اغلاط کی کثرت رہی اور کسی سنجیدہ عملی کام کے لیے یہ نسخے غیر معتبر سمجھے جانے لگے ۔
مذکورہ نسخوں سمیت سال۲۰۰۹ء میں محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کے مع انور مسعود کے اردو نثری ترجمے کے ساتھ شائع ہونے والے سیف الملوک تک کے اٹھارہ نسخے چیچی صاحب نے جمع کیے اور پھر تقابلی مطالعہ کیا ، تجزیہ کیا ، کھوج لگائی، اہل علم و قلم سے مشاورت کی اور تین سال کی شب و روز محنت بلکہ تصوف کی زبان میں چلہ کشی کی اور کامیابی سے محبت و عقیدت اور تحقیق و تدوین کے امتزاج کا خوبصورت تصحیح شدہ نسخہ تیار کر لیا ۔ اس تصحیح شدہ نسخہ میں ۹۲۵۲اشعار ہیں یعنی اس نسخے میں دیگر تبدیلیوں کے علاوہ رائج نسخے سے تین اشعار شعر نمبر ۱۲۰۷، ۱۶۲۶ اور ۱۸۰۴ زیادہ ہیں۔ صفحہ ۱۵سے صفحہ ۳۰ تک سولہ صفحات کا بھرپور مقدمہ چودھری محمد اسمٰعیل چیچی کے محققانہ مزاج اور شعر فہمی کا عکاس ہے ۔ پھر صفحہ ۳۱ سے۵۸ تک اصلی اور جعلی اشعار کا تقابل کیا گیا ہے اور نمونے کے طور پر۱۰۹ شعروں میں موازنہ کر کے صحیح اور غلط کی مدلل تشریح کی گئی ہے ۔ کتاب کا انتساب میاں محمد بخش ؒکے برادر بزرگ میاں بہاول بخش ؒکے نام کیا گیا ہے کہ ان ہی کی فرمائش پر میاں محمد بخش ؒنے سیف الملوک جیسا فن پارہ تخلیق کیا ۔ اور پھر ممتاز ادب دوست ڈاکٹر راجہ محمد عارف کی علم دوستی کی بدولت اس نسخے کو ڈاکٹر محمد رفیع الدین ریسرچ سنٹر گورنمنٹ کالج میر پور آزاد کشمیر نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کروایا ہے ۔۵۱۲ صفحات کی اس کتاب کا ہدیہ صرف ۵۵۰ روپے ہے ۔اسے میری کم علمی کے علاوہ کیا کہیے کہ کمال محنت کے اس شاہکار نسخے کو دیکھ کر تشنگی اور بڑھ گئی ہے ۔ مجھ جیسے کم علم اور پنجابی زبان سے کم آشنا شخص نے ورق گردانی کی تو ذہن تقاضا کرنے لگا کہ اگر اس کے ساتھ فرہنگ بھی ہوتی تو سونے پر سہاگہ والا معاملہ ہو جاتا کیونکہ ایک صدی میں کئی لفظ عام استعمال میں نہیں رہے اور لفظوں کے مفہوم و معنی بھی بدلنے لگے ہیں ۔ اگر محترم چودھری محمد اسمٰعیل چیچی اس نسخے کے ساتھ فرہنگ والا نسخہ بھی تیار کریں اور الفاظ کے معنی و مفہوم بھی دیں تو زیادہ بڑی تعداد میں لوگ مستفید ہو سکیں گے ۔ گجرات میں بیٹھ کر پنجابی زبان کے فروغ کے لیے جہاد کرنے والے محمد افضل راز ؔاور ان کا اشاعتی ادارہ اس نسخے کو فرہنگ کے ساتھ شائع کرنے کی توفیق، حوصلہ اور کمٹمنٹ رکھتا ہے ۔ روزن ریسرچ سنٹر پر واجب ہے کہ وہ چودھری صاحب جیسے سخن شناس سے اس حوالے سے کام کروائیں، یہ میاں صاحب سے عقیدت ہی نہیں پنجابی زبان کی حقیقی خدمت بھی ہو گی۔
گذشتہ صدی میں سیف الملوک کی تدوین و ترتیب کے نام پر جو کچھ ہوا ، اسے سامنے رکھ کر اس تصحیح شدہ نسخے کو دیکھیں تو یہ بھی ولی شاعر کی کرامت ہی نظر آتی ہے ۔
زیر نظر نسخہ حرف آخر نہیں بلکہ اس حوالے سے سو سال سے جمود کا شکار تحقیق کے جوہڑ میں نیا پتھر ہے ۔جس سے علمی و ادبی حلقوں میں ارتعاش ضرور محسوس ہو گا۔ چودھری محمد اسمٰعیل چیچی کی تحقیق و تدوین پر مبنی تصحیح شدہ نسخہ اصحاب علم و دانش ، محققین اور لسانیات کے ماہرین کے سامنے ہے ۔ اب اس کا علمی ، ادبی اور تحقیقی تجزیہ کرنا ماہر محققین، زبان و ادب کے اساتذہ اور متن کے مطالعے میں مہارت رکھنے والے ماہرین کافریضہ ہے کہ وہ اس کا بے لاگ جائزہ لے کر اس کام کو آگے بڑھائیں۔
اس نسخے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں میا ں محمد بخشؒ کے کلام سیف الملوک پر کسی نئی تحقیق کا بڑا ذریعہ ثابت ہو گا۔ لسانی محققین کے لیے صرف متن کی سادہ لسانی ساختیت ہی اہم نہیں ہوتی انہیں متن کے نظریاتی، فلسفیانہ، تہذیبی اور تاریخی تناظر کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ۔ نئی تنقید متن کے گہرے مطالعے سے عبارت ہے جس میں ایک طرف لسانی محاسن کو مد نظر رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف نفسیاتی، سماجی اور جمالیاتی رویوں سے استفادہ کرتے ہوئے تخلیق میں چھپے معانی تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ زبان کی صوتی، حرفی اور نحوی خوبیوں کے ساتھ ساتھ الفاظ کے درمیان عمل پذیر ہونے والے تال میل پر بھی زور دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے چودھری اسمٰعیل چیچی نے تقابلی جائزہ میں لیوس سٹراس کے ‘مشابہت ‘ اور ‘قربت’ کے اصولوں کو پیش نظر رکھ کر شعری زبان کے سٹرکچر کی وضاحت کی ہے۔ لیوس سٹراس زبانوں کے معیناتی نظام کی تفہیم کے لیے کوشاں رہا ۔
متن کے مطالعہ کے جدید ادبی و تحقیقی نظریات و تصورات کے تناظر میں یہ کاوش بحث و تحقیق کے نئے در و ا کر رہی ہے ۔ پیشہ وارانہ مہارتوں کے حامل اساتذہ، دانشوروں ، نقادوں اور محققین کا خوشگوار فریضہ ہے کہ وہ چودھری اسمعٰیل چیچی کی کاوش کا علمی محاکمہ چیلنج سمجھ کر کریں ۔
چودھری اسمٰعیل چیچی کی ریاضت و کاوش قابل تحسین او رمبارکباد کی مستحق ہے ۔ انہوں نے اپنے روحانی مرشد کی روح کے چین کے لیے انہیںان کے شعری دشمنوں سے نجات دلائی ہے ۔ وہ ہر وقت سیف الملوک کے ساتھ جیتے ہیں۔ سیف الملوک ان کا اوڑھنا بچھونا ہے انہیں دیکھ کر مشہور مغربی نقاد جیوفری (Geofury )کی بات یاد آتی ہے کہ ”نقاد ایک ادبی متن کی قرأت کرتے کرتے اس کا خالق بن جاتا ہے”
یہ امر لائق اطمینان اور قابل ستائش ہے کہ چودھری محمد اسمٰعیل چیچی نے بطور فرد وہ کام کر دکھایا ہے جو سرکار، اداروں اور جامعات کا فرض تھا ، اگر یہ کام معیاری ہے ، تحقیق و متن کے مطالعے کے جدید اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے تو پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے ایک بڑی خدمت ہے اور یونیورسٹیوں میں بیٹھے ادب پروروں سے تقاضا کرتی ہے کہ چودھری محمد اسمٰعیل چیچی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے۔طویل عرصے بعد پنجابی میں ایک اچھا کام ہوا ہے ،اسے سراہنا، اسکی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنا ہمارا اجتماعی فریضہ ہے ۔ چودھری محمد اسمٰعیل چیچی نے جس دل لگی اور دلجمعی سے کام کیا ہے وہ ہمارے نوجوان محققین کے لیے قابل تقلید ہے ۔ یاد رہے ادب کی خدمت کا سچا اور سُچا کام مضافات میں ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔ مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ ہمارے ہاں تحسین و انعام کی ثقافت ناپید اور حسد و عداوت کی روایت مضبوط ہے ۔ میاں محمد بخشؒ نے اسی لیے کہا تھا کہ:
مر مر اک بناون شیشہ، مار وٹا اک بھن دے
دنیا اتے تھوڑے رہندے، قدر شناس سخن دے