تجربی تنقید کا تا ریخی مطالعہ اور اس کی علمی صحت

(پہلا حصہ)

author picture
پروفیسر محمد حسین چوہان

 

(پروفیسر محمد حسین چوہان)

تجربیت وہ نظریہ علم ہے جس کی بنیاد حسی ادراک، معطیات حس اورتجربے و مشاہدے پر قائم ہے، مگر بدیہیت اور تجربیت ہی کو علم کا معیا ر سمجھا جاتا ہے۔اس کو خارجی دنیا کے مطالعے کا نام بھی دیا جا تاہے انسانی حسیات کا علم بھی کہا جاتا ہے۔افادی علوم میں دوسرے تمام علو م پر اس کو دسترس حاصل ہے قوت اور طاقت کا سرچشمہ بھی ہے ۔تحقیق و تنقید کے مراحل سے گزر کر ترکیبی تصدیقات میں داخل ہوتا ہے ۔ مظاہر فطرت سے لے کر نظریہء مقادیر اور نیوٹرینو تک علمی امور کو زیر بحث لاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد علوم و فنون کو قطعیت بخشنا اور تجربے کے قالب میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ تھیوری اور تجربے میں کامل یکسانیت پیدا کر کے تضادات اور تناقصات کو ختم بھی کرنا ہوتا ہے۔ اسی بنا پر تجربیت پسند اس کے سوا کسی دوسرے علم کو ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ان کے نزدیک جو چیز سائنسی وتجربی شہادت کی حامل نہیں وہ کیونکر علم کے دائرہ کار میں آسکتی ہے ،اسی بنا پرکوئی خبر ،معلو مات یا اعداد وشمار حسیا ت کی فراہم کردہ تصدیقات کے بر عکس ہو ، اس کو علم کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔مشا ہدہ و تجربہ ہی اول وآخر علم کے حقیقی معیار کو پرکھنے کا پیمانہ ہیں ۔تجربے ومشاہدے میں قطعیت و معروضیت کو قائم رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کے فوق تجربی عمل، عقلیت فہم وادراک،مفرو ضے،قیاس آرائی ۔عقلیت پسندی۔وہبی علم،وجدان ،غیر علمی انداز،استقرائی واستخراجی طریقہ کار کو اہمیت نہیں دی جا تی ، لیکن کسی بھی مفروضے،عقیدے،خیال یا قضیے کو علمی و تجربی کسوٹی پر پرکھنے کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ تجربی معیار پر پورا اترنے کے لے اس کی منطقی و استدلالی طور پر تصدیق ہونا ضروری ہے،دوسرا اس کے لئے صداقت یا بدیہیت کا حامل ہونا بھی ضروری ہے،قبل تجربی علم کے دائرے میں اس کا شمار نہ ہوتا ہو کیونکہ قبل تجربی علم تجزیاتی ہوتا ہے اور تجزئیے کے بعد ہی اس کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، تجربی معیار پر اترنے کے لئے رجعت قہقری کا شکار نہ ہو اور صداقت کا نظریہ مطابقت اس کی تائید کرتا ہو لیکن صداقت کا نظریہ مطابقت کو بھی علم کے درجے پر پہنچنے کے لئے بہت سی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔صداقت کا اطلاق مطلق معیار پر ہوتا ہے جبکہ مطابقت عمومٗا ظاہری ہوتی ہے۔علیت سے اس کا سروکار نہیں ہوتا لیکن تجربی علم میں مطابقت ایک معاون کے طور پر کام کرتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ تجربیت کا ایک دوسرا نظریہ انسجام the coherence theory of truth کو بھی علم و قضیہ کی علمی صحت کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن اس کو آپنی mega justification مطلق تائید کے لئے بھول بھلیوں اور پچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔مگر نظریہ انسجام کو نظریہء مطابقت کی طرح تجربیت کا ہم سفر ہونا پڑتا ہے۔اس کے لئے قدرت کے کلی نظام فکر میں تناقصات و تضادات کے درمیان جو ایک ظرح کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے ،اگر یہ کلی نظام فکر کے ساتھ اپنی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکے تو علمی تائید حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے ،عمومی طور پر آپنی ماہیت میں سائنس سے زیادہ فلسفیانہ مزاج کا حامل دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح علمی صداقت کو جلا بخشنے میں نتائجیت پسند بھی کسی طرح کسی سے پیچھے نہیں ان کے نزدیک علم و قضیے کی صداقت کا معیار یہ ہے کہ وہ انسان کی بلا کم وکاست درست راہنمائی کرتا ہو اور اس میں قدر اور افادیت کا حصول ممکن ہو۔اس میں قضیہ کاذب کو بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔در اصل نتائجیت پسند نظریہء علم خالصتٗا سرمایہ دارانہ سیاسی نظام فکر کی پیداوار ہے جس میں اپنے فائدے کے لئے کسی اخلاقی اصول کی پابندی ضر وری نہیں اور یہ نظریہ علم تجربیت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر سرمایہ دارانہ نظام فکر کی رگ و پے میں پیوست ہو چکا ہے۔ لا متناہیت میں بھی علم کو اثبات حاصل نہیں ہوتا اور علم کی صحت مشکوک ٹھرتی ہے یا معرض التوا میں رہتی ہے۔ اسی طرح قضیہ بعض اوقات ایک دائرے میں گردش کرنے لگتا ہے جسے معنی آفرینی کا عمل رک جاتا ہے۔اس بنا پر اساس علمی سے باقاعدہ قضیے کی صداقت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔بقول ڈیکارٹ ۔۔میں ہوں اس لئے میں سوچتا ہوں۔اس بنا پر لازمی ہے کہ حسیات اس کی تجربی شہادت کی تصدیق کرتی ہوں،ورنہ جو نظریہ دوسرے نظریات کے ذریعے اپنی تصدیق کراتا ہو وہ بھی تجربیت کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے مگر یہ عمل بار بار نہ دہرایا جائے ورنہ وہ بھی رجعت قہقری کا شکار ہو کر اپنی علمی و تجربی اہمیت کھو بیٹھے گا۔ قضیے کے لئے ضروری ہے کہ ہر جگہ ایک ہی مفہوم اور افادیت کا حامل ہو۔ تھیوری اور مشق میں کامل یکسانیت اور مطابقت پائی جاتی ہو ۔اپنی آخری شکل میں تجربیت فہم و وقوف کا حصہ بن جائے ۔تجربیت قطعیت کے سوا کسی دوسرے علم کو شمار میں نہیں لاتی ۔اس کے نزدیک [جو کچھ ذ ہن میں مو جود نہیں وہ پہلے حسیات میں بھی موجود نہیں ہوتا۔] یہ نظریہ علم ایسے عقیدے کا علمبردار ہے جس کے مطابق کوئی بھی انسان پیدا ئش سے پہلے علم لے کر دنیا میں تشریف نہیں لا تا۔پیدا ئش کے وقت اس کا ذ ہن بقول ارسطو tabula rasa یعنی ایک صاف سلیٹ کی ما نند ہو تا ہے وہ اپنے گردو پیش کے حالات سے آموزش کے ذ ریعے سیکھتا ہے جس میں تجربے و مشاہدے کا عمل و دخل ہو تا ہے۔حسی ادراک کے ذ ریعے معلو مات ومعروضات کے نقوش و تمثالی پیکر اس کے ذ ہن پر مرتسم ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)