تجربی تنقید کا تاریخی مطالعہ اوراس کی علمی صحت

حصہ دوم

author picture
پروفیسر محمد حسین چوہان

پروفیسر محمد حسین چوہان

جان لاک تجربی نظریہ علم کا علمبردار ہے ا سی حصول علم کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے . تجربی شہادت ایک ضرب المثل حقیقت ہے جس کے ظاہر کردہ نتا ئج پر انگلی اٹھا نے کی گنجائش نہیں یہ قابل مشا ہدہ علم اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ علم اعداد وشمار [یعنی ریا ضی کے اصولوں تحت] حاصل کیا گیا ہے نہ کہ مفروضے اور قیاس آرائی کے ذ ریعے۔ whatever empirical evidence is a provable fact that shows unquعstionable results . It is the observable proof that knowledge was gained by data, rather than hypothesis or conjecture. ۔ جان لاک نے انقلابی سطح پر تجربیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا،جسے برطانیہ میں تجربی بنیادوں پر صنعتی انقلاب کی داغ بیل پڑی۔تجارت کو فروغ ہوا۔نت نئی ایجادات و انکشافات کے سلسلوں کا آغاز ہوا۔ملکی دولت میں اضافہ ہوا اور اشرافیہ کے مقابل ایک نئی بورژوا کلاس نے جنم لیا،مگر جب چرچ،جاگیر داروں اور بورژوا طبقے کے درمیان کش مکش کا سلسلہ شروع ہوا تو جان لاک کی تھیوری مفاہمتی پالیسی کی ترجمان بن گئی۔

وہاں جان لاک ان سب کے درمیان سمجھوتہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے اور ورکنگ کلاس مکمل طور پر نظر انداز ہو جاتی ہے۔تجربیت اس کے نزدیک صرف تجربے کی سائنس کے طور پر متعارف ہوتے ہوئے نظر آنے لگی اور میکانکی عمل تک محدود ہو کر رہ گئی۔اس نے کہا کہ ہم جانتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کیا ہے یعنی مادے کے جوہر تک رسائی کے معاملے میں ااپنے عجز کا اظہار کیا۔ اس بنا پر تجربیت روز اول سے ہی تجارت پیشہ اور سرمایہ داروں کے ہتھے چڑ گئی اور یہ نظرےۂ علم مادی فوائد ایجاد و انکشاف اور دولت میں اضافہ کرنے تک محدود ہوگیا۔اور برٹش مزاج کا حصہ بن گیا۔ جان لاک سے قبل بیکن تجربیت کی مضبوط بنیادیں رکھ چکا تھا۔کلا سیکی فلسفے سے عوام الناس کو نجات دلانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ تھیوری وتجربے کی صحت وحقیقت کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتا

ہے۔]]what is most useful in practice is most correct in theory. یعنی۔ جتنی مفید کوئی چیز عمل میں ہوتی ہے اتنی ہی درست وہ تھیوری میں بھی ہو تی ہے۔ صداقت کا اظہار کام کی شہادت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔for truth is shown and proved by the evidence of works. جارج نو یک بیکن کے بارے میں رقمطراز ہیںِ ۔۔ اینگلو امریکن کلچر میں اس نے سوچنے اور عمل کرنے کی نئی طرح ڈالی۔ اس نے اپنے فلسفے کی بنیاد دینیاتی فلسفے کے برعکس نیچرل سائنس کے مطالعے پر رکھی اس نے پہلی بار فلسفہ اور سائنس کو مروجہ مبطقی ودینیاتی علوم سے الگ کیا۔اس نے فلسفہ کو مذ ہب ،علت کو اعتقاد سے الگ کر کے طبعیات کے مادی اصولوں پر فلسفہ کی بنیاد رکھی اس نے لوگوں کی توجہ مروجہ علوم سے ہٹائی اور بیرو نی دنیا کے مشاہدات و تجربات پر ان کو استوار کیا،بیکن نے مادی نقطہ نظر سے فطرت کے اصولوں کو پرکھا اور مادے کو غیر فانی، قابل تغیر اور متحرک پایا،گر چہ خدا نے دنیا بنائی مگر وہ اس کے علت و معلول کے چکروں میں نہیں پڑا۔حرکت کے عالمگیر اصولوں پر عمل پیرا ہوا،میکانیات کے فروغ کے لئے کام کیا۔لوگوں کی آرا کی پیروی کی اور نہ ہی عقل عامہ کی سنی بلکہ اپنے علم کی بنیاد تجربے بالخصوص عملیت پسندی پر رکھی اور صداقتوں کے چکر میں نہیں پڑا۔اس نے اعلان کیا کہ فطری سائنس کے ساتھ صداقت کی شادی نے نوع انسانیت پر ابر بہاراں برسائی ہے۔۔ اس نے مزید تجربی علم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔حسیات کے ذر یعے حاصل کردہ خارجی دنیا کی معلومات ہی واحد اور بہترین زریعہ علم ہے

۔،،اس نظریے کی بنیاد سترہویں اور اتھارہویں صدی میں پڑی جس کے علمبردار تین بڑے فلاسفر جان لاک ، ہیوم اور برکلے ہیں ۔انھوں نے علم کی طوالت کو اختصار اور قطعیت بخشی۔اس دور کو سائنسی اور میکانیات کی ترقی کا دور کہا جاتا ہے۔اس عہد میں مفروضے اور نظریے تجربات وانکشافات کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہوتے ہیں۔گلیلو،کوپر نکس اور نیوٹن کے سائنسی قوانین حرکت اور انکشافات کا ئنات کے سر بستہ رازوں کی پردہ کشائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔،دوسری طرف فلاسفر فلسفیانہ نظریات کو سائنس کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور تجریت یا تجربی تنقید سائنسی منہاج کی پشت پناہی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔قدیم کلا سیکی فلسفے کا نہ صرف ا بطال ہوتاہے بلکہ دو ہزار سال سے قائم راسخ العقیدگی کا بت بھی پاش پاش ہو جاتا ہے۔ علمی لحا ظ سے اس عہد کو میکا نیات یا میکا نکی سائنس کے عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے اور فلسفیانہ اعتبار سے اس کو تجربی تنقید کا دور کہا جاتا ہے۔میکانیات کو اب ایک مستند سائنسی علم کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے،جو مختلف اجسام ٹھوس ،مائع،گیسوں پر عملی تجربات کے ذریعے سائنسی ومعاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ نیوٹن کے قوانین حرکت سے اجسام پرقوتوں کے اثرات،حرکیات اور بلا لحاظ کمیت وقوت صرف حرکت، اورحرکیات مجردہ سے بحث کی جانے لگی۔

سکونیات اور گیسوں کی میکانیات نے حس ،خیال اور معروض کے درمیان ایک اٹل سائنسی تعلق قائم کر دیا۔ستاروں اور سیاروں کی گردش نے صدیوں سے قائم طلسماتی تصورات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔فلسفیانہ تجربیت اور سائنسی تجربے نے ایک نئے سائنسی مسلک کی بنیاد رکھی۔لوگوں کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی پیدا ہوئی ۔مذ ہب و اخلاق کے طور و طریقوں میں ہلچل پیدا ہوئی۔میکا نیات نہ صرف سائنس کا اصول رہا بلکہ فلسفے میں بھی اس اطلاق ہونے لگا کہ انسان اور دیگر جاندار بھی مکینیکل اصولوں پر قائم ہیں۔تجربی تنقید کے اس اولین دور پر بحث کرتے ہوئے جارج نو ویک اپنی کتاب  تجربی تنقید کا ارتقا،،میں رقم طراز ہیںتجربی تنقید کے دو مختلف مطلب ہیں یہ ایک خاص قسم کے سوچنے کے عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے،جو عہد حاضر کے جدید فلسفیا نہ نظریات میں اپنی جگہ بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔اور دوسراعمو می اور رواجی طورپر سوچنے کے طور وطریقوں کا نام ہے جسے عرف عام میں عقل عامہ کہا جاتا ہے۔غور وفکر کرنے کی ان دو سرگرمیوں کاآپس میں گہرا تعلق ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔ذہن کی سائنسی یا تجربی طور پر سوچنے کی عادت نے تجربی فلسفے کو اہمیت دی ہے اور اس کو ایک لمبے عرصے تک غیر دلچسپ بنا دیا ہے۔ان کا ظہور تاریخی طور پر بغیر مادی حقیقت سے پیدا ہونے والے غیر تنقیدی تجربات سے ہوا۔ان بنیادی طریقہ کار اور روز مرہ کے نتائج کو سادہ بنا کر پیش کرنے کے عمل نے سوچنے کی بنیا دیں فراہم کیں اور ارد وگرد کی دنیا کو سمجھنے کا آغاز ہوا۔اس بنیا دی اور وقتی مشینی علم سے اس عہد کے لوگ الگ نہیں رہ سکتے تھے،ایسے رجحانات و میلانات اس افسانوی معاشرے میں تجربے و تھیوری کے لئے سازگار ہو سکتے تھے۔،،

سترہویں اور اٹھارویں صدی میں تجربیت تمام علمی و سائنسی حلقوں میں اپنی جڑیں پکڑچکی تھی اور نیچرل سائنس مشاہدے و تجربے کے دائرہ کار میں آچکی تھی اور عینی وکلا سیکل فلسفے scholasticism کا مغرب میں خاتمہ ہو جاتا ہے۔لیکن علمی ترقی کے ارتقا کی تاریخ میں کلاسیکی عہد کی تجربی اور سائنسی کا ؤشوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔تجربی سوچ کے حامل فلسفیوں،طبیبوں اور سائنسدانوں کی انفرادی کا ؤشوں نے جو انفرادی طور پر سائنسی سوچ اور تجربے کی راہ ہموار کی اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
، سائنسی اور تجربی علوم کی داغ بیل تو سترہویں اور اٹھارویں صدی میں پڑتی ہے ،جس میں یورپ والوں نے سائنسی طرز فکر اور طرز عمل اپنایا،جس سے تمدنی زندگی کے ہر گوشے میں نہ صرف تبدیلی رونما ہوئی بلکہ ایک انقلاب پیدا ہوا۔اس کی بنیا دی وجہ غیر عقلی اور غیر تجربی علوم سے نجات حاصل کرنا اور اپنی زندگیوں کو عقل و فکر کی آنکھ سے دیکھنا تھا ۔ مگر سترہویں صدی کے علوم سے قبل جو علمی قضایا اور سوچنے و عمل کرنے کی صورتحال تھی اس پر بھی طائرانہ روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ کیونکہ تجربی علوم کے آغاز سے قبل کوپر نکس کی نظر یہ کائنات پر سائنس تھیو ری منظر عام پر آ چکی تھی ۔

نیوٹن کے قوانین حرکت سے دنیا آشنا ہو چکی تھی۔میکانیات کا دور دورہ تھا۔کلاسیکی فلسفہ اور دینیاتی علوم بھی اپنی ہٹ دھرمی میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔مگر بہ حیثیت مجموعی دینیات اور کلاسیکی فلسفہ کی چھاپ انسانی ذہنوں پر غالب تھی اسی بنا پر تجربیت کی تحریک سے قبل مثالی فلسفہ تمام علوم و فنون اور فلا سفہ کا مرکزی مو ضوع بحث تھا علم کی بنیاد تجربے و مشائدے سے زیادہ تعقلاتی و فلسفیا نہ بنیادوں پر قائم تھی۔ فلسفے کا آغاز یونان سے ہوا افلا طون اور ارسطو اس کے سر خیل تھے مسائل اور مظائر کا ئنات پر غور و فکر کرنے کی انھوں نے با قا عدہ داغ وبیل ڈالی افلاطون کے فلسفے [نظریہ امثال] کے مطابق یہ مادی دنیا حقیقی وابدی دنیا کا عکس ہے اور انسان مرکز کا ئنات و حاصل کائنات ہے۔ مادہ ذ ہن کی پیدا وار ہے۔ انسا نی ذہن سے باہر خارجی دنیا کوئی وجود نہیں رکھتی۔ جبکہ ارسطو نے قدیم کلا سیکی علوم ونظریات کی تشریح و تعبیر پیش کی مگر رو حانیت و ما دیت کے فرق میں واضح امتیاز قائم نہیں کر سکا۔ شاعری و خطابت، مجسمہ سازی، ما بعدا لطبعیات، موجو دات کی بحث، لا ادریت، فلسفہ و منطق، طب ،قانون، علم بشریات، زو الوجی، مقامی جغرافیہ، تعمیرات، زراعت، با غبانی ،جنگی اصول، دھاتیں بنانے کے بارے میں معلومات، ناپنے و تولنے کے اصول، راستے کی راہنمائی کے لئے قطب نما، منطق و فلسفہ کے اصول، روح و خدا کی تشر یح، مذ ہبی مناقشات، حساب و فزکس کے بنیادی اصولوں پر علوم و فنوں کی بنیادں استوار ہوئیں جو یورپ میں بارہویں صدی تک درسگاہوں میں پڑھایا جاتا رہا ۔ یورپی اقوام نے اپنے سے بر تر مشرقی تہذیب با لخصوص عربوں سے صلیبی جنگوں کے دوران بھی بہت کچھ سیکھا اور یہ تمامتر ہندی و یونانی علوم مسلمانوں کے ذریعے یورپ تک پہنچے ۔ مانفرید اپنی کتاب تاریخ و تہذیب عالم میں اس کا ذ کر کرتے ہوئے کہتے ہیں[[یورپیوں کا مشرق کی زیا دہ ترقی یا فتہ تہذیب سے قریبی تعلق پیدا ہوا اور انہوں نے زمین کاشت کرنے کے اور کا ریگری کے ذیادہ ترقی یافتہ طریقے سیکھ لئے جو اب تک دنیا کے اس حصے میں عام طور پر را ئج ہو چکے تھے ۔

وہ مشرق سے اپنے بہت سے نئے کا رآمد پودے ،دھان ،رسدار ، کھٹے پھلوں کے درخت ،گنا اور خوبانی،ریشم بنانے ، اور شیشے کے ظروف تیار کرنے کی دریافتوں سے واقفیت جو انھوں نے حاصل کی۔وہ اس کے علاوہ ہے]] اس معمولی تبدیلی و اضافے کا ساتھ یونانی فکر یورپ میں مرکزی کردار ادا کرتی رہی۔چرچ کی بالا دستی قائم رہی قبائلی و جاگیرداری نظام کے ساتھ ساتھ مثالیت پسندوں کی طاقت کا ڈنکا بجتا رہا۔ انسانی سوچ ہوا میں قلا بازیاں کھاتی رہی فلسفے کی زمینی مسائل سے عدم مطابقت معروض پر اثر انداز ہونے میں نا کام رہی فکری جمود و عینیت پسندی نے انسایت کو تاریک عہد میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ نویں سے تا بارہوں صدی میں فکر و فلسفہ کے بر عکس اطلاقی سائنسوں کا ظہور ہوا جسے مغربی دنیا میں سائنس آسمان سے اتر کر زمین پر قدم جماتی ہوئی نظر آتی ہے۔

 

(جاری ہے)