مارکسی جمالیات

شکیل حسین سید

انیسویں صدی کے آتے آتے ہیگل اور اس کے جانشینوں نے نظریہ تصوریت اور ماورائیت کی بدولت ہماری مادی اور جسمانی دنیا کو ایک ایسا التباس بنا دیا جس کی نہ حرمت ہے اور نہ کوئی حقیقت۔ صدی کے وسط میں اس کے خلاف ردِ عمل شروع ہوا جس کے بانی کارل مارکس اور فرریدخ اینگلز تھے۔ ان دونوں نے مل کر نظامِ فکر کا ایک خاکہ مرتب کیا جو اشتراکیت کی بنیاد بنا اور آج جدلیاتی مادیت کہلاتا ہے:۔

’’اس نئے فلسفہ کے دو ارکان ہیں ’’جدلیات اور مادیت‘‘ انگریزی کے جس لفظ کا ترجمہ جدلیات کیا گیا ہے یعنی (Dialectics) وہ بہت پرانا لفظ ہے اور اس کی پیدائش قدیم یونان میں ہوئی (Dialectics) کے لغوی معنی دو آدمیوں کے درمیان گفتگو کے ہیں۔ دورانِ گفتگو عام طور پر اس بات کا امکان رہتا ہے کہ ایک شخص ایک بات کہے دوسرا اس میں کوئی تناقص پاکر اس کی تردید کرے اور اس کے برعکس کوئی دوسری بات کرے یعنی گفتگو اکثر مناظرہ اور مباحثہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اس میں مقابلہ اور مجادلہ کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔‘‘(۱)

ہیگل کے فلسفے کی بنیاد بھی یونان کے ان دو خیالات پر ہے۔ پہلی یہ کہ کوئی شے ساکن نہیں ہے ہر شے متحرک ہے۔ دوسری ہر شے نہ صرف بدلتی ہے بلکہ اس کے بدلنے میں اپنی پہلی ہیئت کی تردید کرکے اس سے بہتر اور برتر اختیار کرتی ہے۔ حقیقت کوئی جامد چیز نہیں ہے بلکہ ایک نامیاتی حرکت ہے اور نامیاتی حرکت فطرتاً جدلیاتی ہوتی ہے۔ حقیقت مائل بہ ارتقاء ہے اور اس ارتقاء کی لازمی اور مسلسل منزلیں تناقص، تردید اور تخلیقِ جدید ہیں۔

ہیگل حقیقت کو تصور مانتا ہے جو وجود سے پہلے اور اس کا باعث ہے، شعور مادے سے، روح جسم سے، فکر عمل سے مقدم ہے۔ مارکس ہیگل کے فلسفے کے نفس مضمون سے کم اس کے طریقہ کار سے زیادہ متاثر تھا۔ مارکس بھی حقیقت کو جدلیاتی مانتا ہے یعنی حقیقت متحرک اور مائل بہ ارتقاء ہے ۔ ایک ہیئت اپنی تردید کرتی ہے اور اس تردید سے پھر نئی ہیئت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی بھی ایک پیہم اور بے پایاں تکوین ہے۔ جس کے لیے تحریک لازمی ہے۔ ایک نئی صورت کے وجود میں آنے کے لے لازمی ہے کہ پرانی صورت مٹے لیکن مارکس حقیقت کو مادہ بتاتا ہے۔ مادہ جامد نہیں۔ ہیگل نے جدلیات کو وجودِ مطلق یا روح مطلق تک محدود کردیا۔ مگر مارکس نے اس کا رشتہ مادیت سے جوڑ کر اس میں نئے انقلابی معنی پیدا کردیے۔
’’جدلیات مارکسی فلسفہ میں (Methodology) کے اعتبار سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جدلیات کے اجزائے ترکیبی یوں ہیں:۔

دعوی (Thesis)
ردِ عوی (Anti-thesis)

ترکیب (Synthesis)

جدلیاتی طریقہ اور طریقوں کے مقابلے میں اس لیے برتر قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ ہر مسئلے یا دعویٰ کو کلی تناظر میں دیکھتا ہے ہر (Thesis) دعوی کے ساتھ اس کا ردِ دعوی (Anti-thesis) ہوتا ہے اور ان کا امتزاج ایک نئی اور کلی (Synthesis) کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔۔۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ جو موجود ہے اس سے ماورا بہتر وجود کا امکان ہے جو حقیقت اور آدرش کا امتزاج ہوگا اس نئے امتزاج کی نفی بھی ضروری ہے تاکہ ایک اور نیا بہتر امتزاج پیدا ہوسکے اسے مارکس نفی کی نفی Negation of Negation کہتا ہے۔ جدلیات اس طرح حرکی نظام پیدا کرتا ہے جو موجود کے جمود کو توڑتا ہے۔‘‘(۲)

مارکسزم ایک نظریہ ہے اور ایک سماجی و معاشی نظام بھی اس نظریے کا بنیادی عنصر محض سائنس نہیں چند اہم قدریں بھی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب یا جمالیات یا دوسرے تخلیقی فنون سے کیا رشتہ ہے کیا تخلیقی عمل بعض نقادوں کے مطابق محض تجریدی، وجدانی اور روحانی عمل ہے یا اس کا تعلق سماج اور فنکار کے ماحول سے بھی ہوتا ہے۔ اگر تخلیقی عمل محض وجدانی اور روحانی عمل سے نہیں ہے بلکہ سماج اور ماحول سے بھی ہے تو مارکسزم اور ادب کا رشتہ با معنی بات ہے۔ اس طرح مارکسزم ہمارے طبقاتی معاشرے کی تنقید ہے اور ایک نئے طبقاتی سماج کا عکس بھی۔

ہر ادیب یا شاعر اپنے موجودات سے متاثر ہوتا ہے اور مستقبل کا ایک وژن یا شعور رکھتا ہے۔ اس مارکسی نظریے کا حامی شاعر، نقاد، تخلیق کار اپنی تخلیقات کو اپنے سماجی شعور، مستقبل کے وژن کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرے گا اور یہیں سے ادب اور فن کا رشتہ مارکسزم سے جڑتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ادب اور مارکسزم یا کسی اور نظریے میں میکانکی رشتہ نہیں ہوتا یہ رشتہ زندگی اور اس کی بدلتی ہوئی حقیقتوں کے توسط سے ہوتا ہے۔

’’دراصل ادب اور شاعری، ماحول اور سماج کی پیداواری قوتوں میں تبدیلی کے ساتھ نئی انسانی رشتوں اور نئی قدروں کی نشاندہی کرتے ہیں اور نئے سماجی وژن سے ذہنی غذا حاصل کرتے ہیں اس وژن یا نئے فلسفہ حیات (جو پیچھے مڑ کر دیکھنے والا نہ ہو) کے بغیر تخلیقی ادب میں عظمت کا عنصر پیدا نہیں ہوتا۔ تخلیق اس کے بغیر خوبصورت تو ہوسکتی ہے اس میں انسانی نفسیات کے اندر جھانکنے کی کوشش ہوسکتی ہے کرب یا روحانی انبساط کا اظہار ہوسکتی ہے لیکن عظیم ہرگز نہیں ہوسکتی۔‘‘(۳)

مارکس کے یہاں جمالیات اپنے اطلاق میں جدلیاتی ہے :۔
’’مارکس کہتا ہے کہ ____انسان______ برخلاف حیوان۔۔۔۔۔۔ جمالیاتی قوانین کو مد نظر رکھ کر تخلیق کرتا ہے یا ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حیوانات کا عمل جبلی ہوتا ہے اور انہیں یہ جبلی خصوصیات فطرت کی طرف سے عطا ہوتی ہے لیکن انسان کا تخلیقی عمل محض جبلی دائرے میں محدود نہیں۔ انسان مختلف مادوں کو جمالیاتی قوانین جو خارجی معروضی ہوتے ہیں کہ مطابق تخلیقی روپ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ یہ جمالیاتی تصورات سماجی زندگی اوراس کی ساخت، تاریخی حالات اور سماجی جدوجہد کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ محض مجرد تصورات نہیں ہوتے۔‘‘(۴)

ٹین اور ایجابی مفکرین بھی فنکار اور فن کو سماج کے مختلف پہلوؤں کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز کے بعد مارکسی مفکرین نے معاشی اور اقتصادی پہلو کو دوسرے پہلوؤں کے مقابلے میں زیادہ اہم قرار دیا۔ اُن کے لحاظ سے تاریخ میں فعال عوامل اقتصادی قوتیں ہیں اور فنکار محض اپنے طبقے اور زمانے کی عکاسی کرتا ہے اور انہیں عوامل کے پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ طریقہ ہائے پیداوار تعلقاتِ پیداوار کو تبدیل کرتے ہیں۔ معاشی نظام کے بدل جانے کی بنا پر زندگی کے تمام دوسرے نظامات مثلاًتمدنی، معاشرتی، سیاسی، ادبی، مذہبی کو تبدیل کرکے اپنے موافق بنالیتے ہیں۔

ہر دور کے معاشی نظام اس کے تصورات تخیلات اور نظریات کی صورت گری کرتے ہیں۔ نئی اخلاقی قدریں، نئے سیاسی قوانین، اس معاشی نظام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وضع کیے جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ معاشی نظام ہی تاریخ کی تشکیل کرتاہے۔ ’’بیکن، مارکس اور اینگلز اسقدر انتہا پسندانہ نظریات کے حامی نہ تھے اینگلز کے مطابق اگرکوئی اس (تاریخ کی مادی تعبیر) کے نظریے کو مسخ کرکے یہ بیان کریں کہ صرف اقتصادی عوامل ہی تاریخ کی صورت گری کرتے ہیں تو وہ خلافِ عقل نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اقتصادی عوامل یعنی آلاتِ پیداوار تاریخ کی صورت گری کے بنیادی محرکات ضرور ہیں واحد محرک نہیں۔ فلسفیانہ نظریات مذہبی تصورات اور سیاسی میلانات کو بھی تاریخی کشمکش میں بہت دخل ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ تاریخی جدوجہد کی ہیئت متعین کرتے ہیں۔‘‘(۵)

بعض مارکسی مفکرین نے فنکاری، پروپیگنڈہ اور اجتماعی ہونے کا نعرہ بھی لگایا۔ اس سے انکار ممکن نہیں کیونکہ ہر فنکار کوئی نہ کوئی خیال اور نقطہ نظر رکھتا ہے جس کو وہ اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے مگر فنکاری ابلاغ ہے تبلیغ نہیں۔ یہ ابلاغ اخباری پروپیگنڈا نہیں ہوتا۔ فنکاری اپنے عہد اور اپنے اجتماعی نظام کا عکس بھی ہوتی ے اور ان سے ماورا بھی۔ فنکاری بیک وقت ماضی کی یادگار، حال کا آئینہ اور مستقبل کا اشاریہ ہوتی ہے۔ فنکار اجتماعی شعور کی پیداوار ہوتا ہے اس کے ساتھ افراد کے انفرادی کردار کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
’’مارکس کے یہاں ایک عام سطح پر جمالیات کے تصور کی جڑیں گہری ہیں دوسری خاص سطح پر فن ہے جمالیات خود اپنی فطرت میں زندگی کے حیات آفریں تعلق پر بنائے کار رکھنے کانام ہے اور فنی تجربہ بھی زندگی کے اسی تناظر سے نموپاتا ہے۔‘‘(۶)

اسی طرح:۔
’’لینن زندگی کو حُسن کے مترادف سمجھتا ہے‘‘۔
تاریخ کے ساتھ عہد حاضر سے آگاہی زندگی کا حقیقت پسندانہ مشاہدے اور سماجی بہتری کے لیے کوشش پیہم مارکسی فکر و جمالیات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘(۷)

حوالہ جات

۱۔ احمد صدیق، مجنوں، ’’تاریخ جمالیات‘‘، انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ، ۱۹۵۹ء، ص۷۱
۲۔ اصغر علی، انجینئر، ’’مارکسی جمالیات‘‘، نصرت پبلشرز، لکھنو، ۱۹۸۴ء، ص۱۶
۳۔ ایضاً،ص ۴۰
۴۔ ایضاً، ص۴۶
۵۔ سعد احمد رفیق، ’’تاریخ جمالیات‘‘، زمرد پبلی کیشنز، کوئٹہ، ۲۰۰۰ء، ص۱۹۶۔۱۹۴
۶۔ عتیق اللہ، ’’وازکیز اور مارکسی جمالیات، ترقی پسند، جدیدیت، مابعدجدیدیت‘‘، ترتیب ڈاکٹر ندیم احمد، جامعہ نگر، نئی دہلی، ۲۰۰۲ء، ص۱۷۹
۷۔ ثریا حسین، ڈاکٹر، ’’جمالیات ادب‘‘، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۷۹ء، ص۳۳

2 Comments

Comments are closed.