موسیقی اور شاعری کے باہمی روابط

(تبصرہ نگار: یاسر اقبال)

موسیقی اور شاعری کے باہمی روابط

از، یاسر اقبال

شاعری موسیقیت کے بغیر بے اثر گردانی جاتی ہے بل کہ شاعری کی تشکیل میں موسیقیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ موسیقیت لفظوں کی صوت، بحر اور وزن سے تشکیل پانے والا وہ خاص صوتی آہنگ ہوتا ہے جس سے شاعر شعر سے معنوی تاثیر برآمد کرتا ہے۔ اس عمل میں شعر میں لفظوں کی نشت و برخاست کا التزم ان کی صوتیات کےپیش نظر کیا جاتا ہے۔ لفظ کی موسیقی دو صورتوں میں موجود ہوتی ہے۔ ایک لفظ کی خارجی موسیقیت جس کا تعلق لفظ کی صوت سے ہوتا ہے اور دوسرا لفظ کی داخلی موسیقیت جس کا تعلق لفظ کی معنوی تاثیر سے ہوتا ہے۔ لفظ کی اس داخلی اور خارجی موسیقیت کے امتزاج سے ہی وہ شعری آہنگ پیدا کیا جاتا ہے جو شعر کی موسیقیت کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر بابا بلھے شاہ کی کافی کا شعر:

تیرے عش نچایا کرکے تھیا تھیا
چھیتی بونڑی وے طبیبا نیں تے میں مر گیاں

پہلے مصرعے میں تھیا تھیا کا التزام تال کی ضرورت کے پیش نظر رکھا گیا اور تال کا ناچ کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح کئی الفاظ اپنی معنوی تاثیر سے سامع کے ذہن میں موسیقیت پیدا کردیتے ہیں جس سے کسی نہ کسی جذبے یا احساس کی ترجمانی ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات شعر پڑھ کر قاری اس سے اتنی تاثیر نہیں حاصل کر پاتا جتنی اس شعر کو اس کے مخصوص شعری آہنگ کے ساتھ سُن کر حاصل کرتا ہے۔

اس طرح وہ نہ صرف شعر کے شعری آہنگ سے لطف اُٹھاتا ہے بل کہ شعر کی تفہیم بھی اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی کلاسیکی شعراء کی مشکل سے مشکل غزلیں جب ہم ترنم کے ساتھ سنتے ہیں تو سامعین ان کی معنویت پہ سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ شاعری اور موسیقی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے ہر دور میں شعری اصناف فن موسیقی کا حصہ بنتی رہیں۔

زمانۂِ قدیم میں دیکھا جائے تو دھرپد، خیال، تروٹ، ترانہ، ٹھمری جیسی غنائی تراکیب اپنی ہیئت کے لحاظ سے شاعری کی مکمل اصناف کا درجہ رکھتی تھیں اور ان شعری اصناف کو تخلیق کرنے والے شعراء ہی ہوا کرتے تھے۔ جو موسیقی کے لوازمات کے پیش نظر ان اصناف کو تخلیق کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں شعری اصناف کو تحت اللفظ پڑھنے کے بجائے اسے ترنم اور آلات موسیقی کے ساتھ محافل میں پیش کیا جاتا تھا۔ شعر و سخن کو پیش کرنے کا یہ رجحان عام تھا۔ یہ تو شاعری اور موسیقی کا بنیادی تعلق ہے۔ جو آج بھی کسی نہ کسی طرح قائم ہے۔ ذیل میں موسیقی اور شاعری کے فنی تعلق کے حوالے سے چند بنیادی امور کا ذکر کیا جائے گا۔

ہر شاعر بنیادی طور پر ایک موسیقار ہوتا ہے جو لفظوں سے موسیقیت برآمد کرنے کا فن جانتا ہے۔ اس ہنر مندی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ موسیقار پہلے اورشاعر بعد میں ہوتا ہے۔ شاعر اپنے اس خاص جذبۂِ آہنگ سے موسیقار کے درجے پر پہنچ جاتا ہے اور جب وہ اس جذبۂِ آہنگ کو لفظوں میں ڈھال کے شعری جامہ پہناتاہے تو وہ شاعر کہلواتا ہے۔ شاعر اپنے جذبۂِ آہنگ کو شعری جامہ پہنانے کے لیے ایک موسیقار کی طرح اپنے فنی مراحل طے کرتا ہے۔ اس کے لیے اپنے جذبہ آہنگ کو الفاظ کے صوتی وزن کی مناسبت سے ان کی نشست بدل کے ان کو تال اور ہم آہنگی سے آشنا کرکے ایک شعر کا رنگ وروپ دیتا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر شعوری طور پر اس جذبہ آہنگ سے آگاہ ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا ہر شعر اس جذبہ آہنگ کے ذریعے وزن کے پیمانے میں ڈھل کر ہی اپنی تخلیق مکمل کرتا ہے۔ عنایت الٰہی ملک مصنف (بر صغیر کی موسیقی) میں لکھتے ہیں:

“جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں صاحب نے موزوں طبیعت پائی ہے تو کہنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان الفاظ کےصوتی اثرات، ان کے وزن اور زیر و بَم سے آگاہ ہے۔”

فنون لطیفہ میں دیکھا جائے تو شاعر ی فن موسیقی کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔ بَل کہ شاعری اور موسیقی میں صرف زبان کا فرق ہے شاعرلفظوں کےذریعے مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے جب کہ موسیقار سروں کے ذریعے ان خفیف جذبات و احساسات کا ابلاغ کرتا ہے جو لفظوں کے ذریعے ممکن نہیں ہو پاتا۔

موسیقی کی آرٹ فارم کے ذریعے میری اس بات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک مُغنی کس طرح راگ کے آلاپ سے جذبے یا احساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ راگ کا بصری تصور اس پہلو کی بخوبی وضاحت کرتاہے۔ اس کے علاوہ موسیقی میں جن امور کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے شاعری میں بھی ان امور کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ لفظ ،وزن، بحر، اور خیال شعر کی تخلیق کے بنیادی ترکیبی عناصر ہیں اور یہی عناصر موسیقی میں سر، تال اور لے کے ذریعے کسی دھن کی تشکیل و ترتیب کا سبب بنتے ہیں۔

شعر کے لیے موزوں وزن کا انتخا ب کرنے لیے علم عروض کی مدد لی جاتی ہے جس میں لفظ کی صوت کو کسی بحر کے ارکان پر باندھا جاتا ہے۔ اور موسیقی میں یہی عمل تال کے ذریعے دُہرایا جاتا ہے۔ لفظ کی صوت کو تال کے ماتروں پر باندھ کر موسیقیت پیدا کی جاتی ہے۔ شاعری اور موسیقی کا آپس میں یہ رشتہ کئی صدیوں سے ہے۔ ابتدا میں مذہبی صحائف، شعر اور نظمیں گانے کی شکل میں پیش کی جاتی تھیں۔ شاعری پڑھ کر سنانے کی بجائے گا کر پیش کرنے کی چیز سمجھی جاتی تھی۔ اور جملہ شاعری اسی مقصد کے لیے تصنیف ہوتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تعلیم کے محدود ہونے کی بنا پرعوام تک شعری تصنیفات پہنچانے کے لیے ذریعۂِ ابلاغ موسیقی ہی تھا۔ چُناں چہ شعر کی ساخت، وزن اور نفس مضمون کا انتخاب ہر دور میں موسیقی کی فارم، تال اور نفس مضمون کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا رہا۔ راگ درپن کا مصنف کہتا ہے کہ “ہندی عروض اور موسیقی کی تالوں کی اصطلاحات بھی مشترک ہیں اور فارمز میں بھی بڑی یکسانیت ہے۔”

بحر اور تال دونوں کا مقصد وزن کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ ہر بحر اپنے وزن کے لحاظ سے دوسری بحر سے مختلف ہوتی ہے اسی طرح ہر تال اپنے وزن کے لحاظ سے دیگر تالوں سے منفرد ہوتی ہے۔ بحر اور تال میں وزن کا تعین ارکان یا ماتروں سے کیا جاتا ہے۔ قدیم شُعراء کے ہاں شاعری اور موسیقی کے باہمی روابط کا واضح پتا چلتا ہے۔ کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر شعراء موسیقار پہلے اور شاعر بعد میں ہوا کرتے تھے۔ امیر خسروؒ، ابراھیم عادل شاہ، قلی قطب شاہ، شاہ عبد الطیف ؒ، بابا بلھے شاہ، کے علاوہ دورِ زریں کے بھی کئی شعرا سنگیت شناس تھے۔ ذیل میں ان شعرا کی سنگیت شناسی کا مختصر سا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

ابراھیم عادل شاہ جو نہ صرف دکنی اور فارسی زبان کا شاعر تھا بَل کہ منجھا ہوا موسیقار بھی تھا۔ ان کی کتاب “نورس” میں راگ اور راگنیوں کی تشریح نظموں اور گیت کے ذریعے کی گئی ہے۔ راگ راگنیوں کو عنوان دے کر نظمیں اور گیت لکھے گئے ہیں۔ ہر نظم یا گیت جس راگ کے عنوان سے لکھا گیا اس نظم اور گیت میں اسی راگ کے بصری تصور کو ابھارا گیا ہے۔ یعنی ایک مغنی جس طرح راگ کا آلاپ کر کے اس راگ کا تعارف اور اس کی کیفیات کو سامنے لاتا ہے، نو رس میں شاعر نے نظموں اور گیتوں کے ذریعے راگوں کی شکل و صورت کو ہمارے تخیل میں واضح کیا ہے۔ مثال کے طور پردیسی راگنی کے بارے میں وہ کہتے ہیں:

اک نار دیکھیا کھڑی سامنے
پونم رات کی مکر چاندنی
یا جھمکے میگھ رت کی سودامنی

اس گیت میں راگ میگھ ملہار کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ برسات خوب صورت عورت کی طرح ہے جس کا رنگ روپ سانولا ہے اور ہنستے ہوئے دانتوں کی چمک روشنی کرنے والی بجلی کی مانند رنگ برنگ کے لباس کالی گھٹا کی طرح ہیں۔

اس کتاب میں شاہ نے راگوں کی لفظی تصاویر بنائی ہیں، مثلاً راگ کیدارا کی تصویر کشی اس طرح کی ہے کہ ایک بے حد خوب صورت عورت ہے جو ہاتھ سے رخسار کو تھامے بیٹھی ہے۔ وہ دبلی پتلی ہے اور چہرے کا رنگ سفید اور چاند کی طرح روشن ہے۔ اسی طرح ایک دوہڑے میں آتی جاتی سانس کو آروہی امروہی کے سروں سے تشبیہ دی ہے۔

ابراہیم عادل شاہ کے بعد جس شاعر کا نام آتا ہے وہ شاہ عبد الطیف بھٹائی ہیں۔یہ سندھی زبان کے نہ صرف شاعر تھے بل کہ بہت بڑے موسیقار بھی تھے۔ بِھٹ شاہ میں موسیقی کے احیاء کے لیے انھوں نے ایک مکتب فکر کی بنیاد ڈالی اور ایک باقاعدہ ادارہ قائم کیا۔ ایک ساز بھی ایجاد کیا اور اس کے ساتھ ہندی راگ اور راگنیوں کی طرزوں پر اپنی نظمیں تخلیق کیں۔ جنھیں وہ سر سوہنی، سر کانہڑا، سر ملہار وغیرہ کہتے تھے۔ امیر خسرو ؒ  کےعلمی اور فنی کمالات سے کون واقف نہیں، ایرانی اور ہندی راگوں کی آمیزش سے نئی نئی اختراعات کیں۔

اس کے علاوہ خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور مادھو لعل حسین جسے صوفی شعراء کے ہاں بھی کئی کافیوں کے عنوانات راگ راگنیوں کے ناموں پر دیے گئے ہیں۔ خواجہ فرید ؒ کے ہاں ایک ملتانی راگنی کی کیفیت کا یوں ہلکا سا عکس ملتا ہے:

سب صورت وچ وسدا ڈھولا ماہی
رنگ برنگے اس دے ڈیرے
آپے رانجھن آپے ہیر تے آپے کھیڑے
لک چھپ بھید نہ ڈسدا ڈھولا ماہی
آپےے ہجر تے آپے میلہ
آپے قیس تے آپے لیلٰے

“اس کافی میں ہر صورت میں محبوب سامنے رہتا ہے اس کے رنگ برنگے ٹھکانے ہیں۔ اس کافی میں اضطراب اور فراق کی کسک ہے جو ملتانی راگنی کا ایک خاص پہلو ہے۔”

بلھے شاہ جب تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا کہتا ہے تو ایک طرف وہ عشق میں بے خود ہونے کی کیفیت کا اظہار کرتا ہے تو دوسری طرف تھیا تھیا کا شعوری طور پر التزام کر کے تال کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔

مادھو لعل حسین کے ہاں راگوں کا انتخاب عمدہ ہے۔ مثال کے طور پر سری راگ، جھنجھوٹی، جے جے ونتی ایسے راگوں کی طرز پر کافیاں مرتب کی ہیں جو خالصتاً علاقائی راگ ہیں اور شمالی اور مشرقی ہندوستان میں گائے جاتے ہیں۔ ایک کافی میں راگ آساوری کے بنیادی جذبے یا کیفیت کو دیکھیے:

اک دن تینو سپنا تھیسن بابل دالیاں گلیاں دو
اُڈ گئے بھور پھلاں تے آکے سن پتراں سن ڈالیاں دو
جت تن لاگے سوئی تن جانے ہور گلاں کرن سکھا لیاں دو

راگ اور راگنیوں کے عنوانات سے نظمیں تخلیق کرنا، نظموں اور گیتوں کے تخیلاتی نظام کو راگوں کے بصری تصور کے ساتھ مربوط کر کے پیش کرنے کا رجحان مختار صدیقی جیسے شاعر کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ جس سے ان کی سنگیت شناسی کا پتا چلتا ہے۔ شاعری اور موسیقی اپنے فنی عناصر ترکیبی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ بَل کہ شاعری بھی موسیقی کی ایک شکل ہے جو لفظ اور خیال کی آمیزش سے تشکیل پاتی ہے۔