ڈونلڈ ٹرمپ کی کسیلی مسکراہٹ میں دُنیا کا منظر نامہ

ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر
ڈونلڈ ٹرمپ

(ذوالفقار علی)

امریکہ میں حالیہ انتخابات کو مُشکل ترین اور اخلاقی محاذ پر بہت سارے کڑوے کسیلے سوالات کا سامنا رہا ہے۔ آنے والے چار سال امریکہ اور باقی دُنیا کیلئے کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں اس پر سوچنا کافی اہم ہو گا۔ مگر یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی جیت کے

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

پیچھے کونسے مُحرکات کارفرما رہے اور یہ محرکات باقی دُنیا کو کس طرح متاثر کریں گے اس معمے کو سُلجھانے کیلئے ہمیں الیکشن کمپین کے دوران دونوں فریقین کی پالیسیوں کا تقابلی جائیزہ لینا پڑیگا۔
ہیلری کلنٹن انکم ٹیکس کو آمدنی کے حساب سے لاگو کروانا چاہتی تھیں جبکہ ٹرمپ کاپوریٹ سیکٹر کو ٹیکس سے چھوٹ دینا چاہتے ہیں۔ ہیلری نے اگلے دس سل میں 10 ملین ملازمتیں پیدا کرنے کا وعدہ کیا جبکہ ٹرمپ نے 25 ملین نوکریاں پیدا کرنے کے وعدے پے الیکشن لڑا۔ اسی طرح امیگریشن پالیسی پر دونوں میں بہت لے دے ہوئی۔ ہیلری جامع امیگریشن پالیسی مُرتب کرنے پر زور دیتی رہیں جبکہ ٹرمپ لیگل امیگریشن کو بھی کم کرنا اور میکسیکو کے بارڈر پر 2000 میل لمبی دیوار تعمیرکرنے پر بضد ہیں اور وہ امریکا کو باہر سے آنے والوں کو ہر قیمت پے روکنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح عراق وار پے ہیلری کو کافی دفاعی پوزیشن لینی پڑی اور اُس کا رویہ اس معاملے میں معزرت خواہانہ تھا کیونکہ عراق وار کے دوران وہ پالیسی سازی کا حصہ رہی ہیں اور اب رقہ پر دولت اسلامیہ سے لڑنے کیلئے پیش مرگہ کُرد جنگجووں کی مدد کی حامی تھیں جبکہ ٹرمب عراق وار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات کم کرے اور دوسرے مُلکوں کی سیکیورٹی کی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ اس معاملے میں اُسے روس کے صدر ولادمیر پیوٹن کا حامی ہونے کے الزام کا سامنا بھی رہا ہے۔ جبکہ ہیلری چاہتی تھیں کہ افغانستان میں امریکی افواج ایک حد تک موجود رہیں اس کے مُقابلے میں ٹرمپ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی بجائے مشرق وسطی کی بدلتی ہوئی صورتحال میں امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے خاص کر وہ سعودی نواز اتحاد کی جنگی حکمت عملی سے کافی نالاں نظر آتے ہیں۔ ہیلری چاہتی تھیں کہ دولت اسلامیہ کے ساتھ امریکہ کی زمینی فوج نہ بھیجی جائے جبکہ اُس کے صدارتی حریف زمینی دستے بھیجنے کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ ہیلری یہ بھی چاہتی تھیں کہ نیٹو میں امریکہ اپنا بھر پور کردار ادا کرے تاکہ یورپی ممالک میں اُس کا کردار نُمایاں رہے جبکہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ نیٹو میں موجود ممالک جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات کا زیادہ تر حصہ خود برداشت کریں۔ اسی طرح ہیلری کا جُھکاو آزادانہ تجارت کی طرف تھا اور وہ “فری ٹرید ایگریمنٹ ” کو جاری رکھنا چاہتی ہیں مگر ٹرمپ NAFTA سے ہاتھ کھینچنا چاہتے ہیں اور وہ چین اور میکسیکو کو اس تناظر میں شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ وہ چین کی کرنسی پر اجارہ داری کے بھی سخت خلاف ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی کے حوالے سے بھی ٹرمپ کا موقف ہیلری کے مُقابلے میں کافی سخت ہے اور وہ ماحول کے بچاو کے نام پر امریکہ کے مالی مفادات کو زیادہ مُقدم جانتے ہیں۔ حتی کہ وہ پیرس ایگریمنٹ کو بھی منسوخ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہیلری ماحولیاتی تبدیلی کو امریکہ کی سیکیورٹی کیلئے خطرہ سمجھتی رہیں۔ وہ الاسکا سے ڈرلنگ کے ذریعے معدنی وسائل نکالنے کے حق میں بھی نہیں تھیں۔
اسی طرح دونوں پارٹیوں کے امریکہ کے اندرونی مسائل پر بھی اختلافات بہت گہرے ہیں۔ ٹرمپ اسقاط حمل کے سخت خلاف ہیں۔ جبکہ ہیلری 20 ہفتے سے پہلے پہلے اسقاط حمل کو جائز سمجھتی ہیں۔ دونوں امریکہ کی داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی الگ الگ موقف کے حامی ہیں ۔ ٹرمپ پولیس کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کے حامی ہیں جبکہ ہیلری پولیس کے اندر محکمہ جاتی اصلاحات کی حامی نظر آتی تھیں۔ وہ پولیس کے اندر پائے جانے والے نسل پرستانہ رُجحان سے سخت پریشان ہیں۔ اسی طرح پچوں کی دیکھ بھال اور صحت پر اُٹھنے وال خرچ کے حوالے سے بھی دونوں کی پالیسیوں میں اختلافات تھے ہیلری چاہتی تھیں کہ ہر خاندان کم از کم 10 فیصد آمدنی اپنے بچوں کی دیکھ بھال پے خرچ کرے جبکہ ٹرمپ زچگی کے پہلے 6 ہفتے کی تنخواہ سمیت والد کی چھٹیوں کے بھی خلاف ہیں۔
اگر ہم ان پالیسیوں کی بُنیاد پر لڑے جانے والے انتخابات کا جائیزہ لیں اور آنے والے وقت میں دُنیا کی سمت کا تعین کریں تو دو، تین رُجحانات واضح طور پے نظر آتے ہیں۔
اول امریکہ شروع شروع میں باہر کی دُنیا میں مُداخلت کرنے کی بجائے اپنے اندرونی معاملات خاص طور پر معیشت اور امیگریشن پالیسی کو نئے سرے سے مرتب کرنے پر زیادہ توجہ دے گا۔
دوم: پھرجنگی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا۔ آنے والے سالوں میں اسکا فوکس مشرق وسطیٰ پر زیادہ ہوگا اور وہ نیٹو اتحاد کی بجائے روس سے تعلقات بہتر کر کے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے نہیں دے گا۔ اس سارے تناظر میں مشرق وسطی پر بہت گہرے اثرات پڑیں گے جن کا اثر پاکستان پر بالواسطہ طور پر پڑیگا۔
سوم: امریکہ کے اندر پُرانی اسٹیبلشمنٹ نئی اسٹیبلشمنٹ کو نیچا دکھانے کیلئے سر توڑ کوشش کریگی جس کی وجہ سے امریکہ کے اندر پُر تشدد تحریکیں چلنے کے امکانات کافی حد تک بڑھ گئے ہیں۔
چہارم: امریکہ کو چین کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں کیونکہ چین جنگی حکمت عملی اور معاشی پالیسیسوں کی وجہ سے کافی جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور یہ کسی حد تک چین کے نئے عالمی کردار کو ثابت کرنے کیلئے ضروری بھی ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی تنازعات کو دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مزید ابھار سکتے ہیں جن کے دوررس نتائج پوری دنیا پر پڑیں گے۔
پنجم: یہ بات طے ہے کہ آنے والے دو،تین سال مختلف ممالک کی تزویراتی گہرائی کو برقرار رکھنے کیلئے خاصے پُرتشدد ہونگے۔ چین، روس، امریکہ، یورپی یونین، شمالی کوریا، ترکی اور انڈیا خاصے سرگرم کارکن ہونگے جو اپنے اپنے حریفوں کو شکست دینے کیلئے چھوٹی بڑی جنگیں کریں گے۔
اس لئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ہمیں بہت محتاط رہنا پڑیگا کیونکہ آنے والا وقت پاکستان کیلئےسیاسی طور پر بہت مُشکل ہو گا۔ ہمارے چین، ایران اور سعودی عرب سے تعلقات دو دھاری تلوار کی طرح ہونگے۔لہذا ہمیں ابھی سے اپنے حریفوں اور حلیفوں کا تعین کرنا پڑیگا۔ خاص کر نئے جنگی تھیٹر سے بچنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری کمزور معیشت آنے والی سیاسی حکومت کیلئے درد سر بن جائیگی جسکا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اُٹھا کر اقتدار پر قابض ہونے کا جواز پیدا کر سکتی ہیں۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔