ماحولیات کے عالمی دن پر اندھی بُلھن کا کتھارسز

ایک روزن لکھاری
ذولفقار علی

ماحولیات کے عالمی دن پر اندھی بُلھن کا کتھارسز

(ذولفقار ذلفی)

میں نے انسانوں سے اور اُس کے بچوں سے پیار کیا مگر مُجھے اُس کے بدلے میں کیا ملا۔ میری زبان پر شاید یہ لفظ نہ آتے مگر آج سُنا ہے انسان ماحولیات کا عالمی دن منا رہا ہے سوچا اپنا کتھارسز کر لوں۔
جیسا کہ ماحول سب کا سانجھا ہے اس کو صاف رکھنا، جانداروں کو اچھی زندگی گُزارنے کا حق دینا اور اُنہیں تحفظ دینا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مگر اے آدم زاد تو نے اپنے نام کی لاج نہیں رکھی بلکہ ہر چیز چاہے وہ زندہ ہے یا مُردہ اپنے ذاتی فائدے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔

اےعقل مند اور اشرف المخلوق کا ڈھول پیٹنے والے حیف ہے تیری سوچ پر تُجھے تو اتنا بھی نہیں معلوم کہ تو قدرت کے توازن کو بگاڑ کر اپنے لئے گہرا کنواں کھود رہا ہے۔ جب کُچھ نہیں رہے گا تو اپنی ذات کے کنویں میں ڈوب کر مر جانا۔
تیری ہی تیارکردہ رپورٹیں اور سروے بتا رہے ہیں کہ میری نسل کُشی ہو رہی ہے، میں دنیا کی ختم ہوتی ہوئی پرجاتیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں۔ میری بقا کو شدید خطرات لا حق ہیں۔ مگر تُجھے اس سے کیا تو نے تو میرے گھر، میری جنت، میرے ہم دم سندھو دیوتا کو اپنی سوچ کی طرح گندہ کر ڈالا، اُس کے پانی میں زہر، گندگی اور انڈسٹریل کوڑا پھینک پھینک کر گندہ نالا بنا ڈالا۔

تیری ترقی صرف تیری ترقی نہیں ہے، بلکہ ترقی ایک وسیع اصطلاح ہے جس کو تو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتا ہے جس کا خمیازہ تُجھے ماحولیاتی تبدیلیوں کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے اور اب یہ تبدیلیاں تیری تباہی پر ہی منتج ہونگی۔
اے آدم تو مُجھے اور میرے سنگیوں کو اس لئے مار رہا ہے کہ تُجھے کاغذ کا دھن ملے، کیا کرے گا کاغذ کا دھن جب ویران دُنیا میں تیری چیخوں اور آہوں کے سوا کُچھ نہیں ہوگا۔ جب پودے ، پرندے اور حشرات سب تیری ہوس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے تو پھر کاغذ کے دھن کو گٹھڑی میں باندھ کر اس کا بوجھ اپنے سر پر اُٹھائے آواز دینا؛ ہمیں پُکارنا مگر اُس وقت تیری ہی آواز تُجھے لوٹ کر کاٹے گی۔

تیری تنہائی ہی تُجھے ویران کر دے گی پھر کوئی نہیں ہو گا جو تُجھے یہ خوبصورت جہان پھر سے آباد کرکے دے۔
گرم ہواؤں کے جھکڑ تیرے بدن کے چمڑے کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔ نہ ختم ہونے والے طوفان تیری زندگی کی کشتی کو ٹھکانے لگائیں گے، ڈر اُس وقت سے جب یہ خوبصورت فطرت آفت کا روپ دھار لے گی تُجھے پھر بھسم ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔

وہ وقت شروع ہو چُکا اب ایک ایک کرکے بہت ساری پرجاتیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ کُرہ ارض کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ زمین بانجھ ہو رہی ہے۔ اوزون کی چادر کسی غریب کی ردا کی طرح پھٹی جا رہی ہے۔

انٹارکٹیکا کی برف پگھل کر سمندروں کے توازن کو بگاڑ رہی ہے جس کی وجہ سے سمندر خُشکی کو نگل رہے ہیں۔ ہوا میں زہریلی گیسوں کی مقدار سرمایہ دار کمپنیوں کے کاروبار کی طرح پھیل رہی ہے۔ تیری فیکٹریوں کے دھوئیں سے نیلا آسمان غائب ہو چُکا ہے۔

ستاروں کی ٹمٹماہٹ سے اگلی نسلیں لُطف لینے کے قابل نہیں رہیں گی، چاند کی دودھیا چاندنی صحراؤں کے ٹیلوں پر جادوئی حُسن طاری نہیں کر پائے گی۔ تیری مصنوعی روشنیوں میں جگنو کی ٹمٹماتی بتیاں گُل ہو چُکیں۔ تتلیوں نے اس ڈر سے پھولوں پر بیٹھنا چھوڑ دیا کہ کہیں وہ زہر سے نہ بھرے ہوں۔ پرندوں نے اس خوف سے گانا چھوڑ دیا کہ کہیں تیری بارود سے بھری بندوق اُن کے معصوم دلوں کو چھلنی نہ کر دے۔

اے عقل کُل تیرا اعتبار کون کرے، جبکہ تُجھے تو اپنی پرجاتی پر بھی اعتبار نہیں رہا۔ میں نے تو تیرے اعتبار میں اپنا اصلی مسکن چھوڑا اور پچاس لاکھ سال پہلے میٹھے پانی میں آ بسی تھی۔ مگر تُم نے میرے ساتھ ہر ظُلم روا رکھا، مُجھے مار کر میری چربی کو پگھلایا اور اپنی مردانہ قوت کیلئے استعمال کیا، تو نے مُجھے “پھٹی عورت ” سمجھ کر پہلے میرے کردار کو داغدار کیا پھر اپنی جنسی یوس کیلئے میرے جسم کو نوچا۔

اس عالمی ماحولیاتی دن کے منائے جانے کا کیا فائدہ جب اس دُنیا کے سب سے طاقتور مُلک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سارے قضیے کوڈھکوسلا قرار دیتے ہیں اور ماحول کی بہتری پر خرچ ہونے والے فنڈ کو بھی کسی جنگی سازوسامان پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔

مُجھے اب بھی بھروسہ ہے کُچھ فقیر اور عقل مند انسانوں پر جو دُنیا کو پھر سے آباد کرنا چاہتے ہیں، وہ عاشق صفت لوگ اس دور میں بھی نبھانے، بچانے، منانے اور بسانے کی بات کرتے ہیں، انہی کے قبیل کا ایک فرد سرائیکی وسوں کا فقیر شاعر اشو لال شاعری کی ذریعے میری کتھا کرتے ہوئے کہتا ہے:
1
تیکوں شوہ من کے سوہناں سندھ سائیں
سوھنا سندھ سائیں تیکوں ور من کے
نمہی دریس سکھی تیڈے پانیاں توں
تیڈے پانیاں توں مٹھے گیت سکھے
کوئی سُنے تاں اج وی آندے ہن
ساکوں لاہرے چندر کھیڈاون دے
اکھیں ڈے کے وی اساں اندھیاں کوں
افلاک تائیں سب ڈسدا ہے
ماء ڈسدی ہے تیڈی شکل وچوں
تیڈی شکل وچوں رب ڈسدا ہے
کوئی نور ہے قُطبی تارے دا
راہ اپنے وسرن ڈیندا نئیں
2
کتھاں اُڈدیں ہوئیں رلے کنیاں دے
رلے ہنساں دے کتھاں کھیڈدیں ہوئیں
وچوں ڈُس پئی ہے کتھاں اکھ اپنی
چولے پُس گئے ہن، کیا ڈھیدیاں ہیں
سر نال اپنے انہاں مغراں توں
کھنب کُھس گئے ہن، کیا ڈھیدیاں ہیں
موتی جھلکے نئیں وچوں سپیاں دے
ہاں ھُس گئے ہن، کیا ڈھیدیاں ہیں
اساں بُلھنیں توں سوھنا سندھ سائیں
مہینہ رُس گئے ہن، کیا ڈھیدیاں ہیں

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔