ٹرمپ کے خبائثِ اربعین برما کی بدلی سُو چِی کی مذیبی و ثقافتی فاشزم کی دکان داری 

Naseer Ahmed
نصیر احمد

ٹرمپ کے خبائثِ اربعین برما کی بدلی سُو چِی کی مذیبی و ثقافتی فاشزم کی دکان داری 

از، نصیر احمد

یوں تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنا اہم ہونا ہی نہیں چاہیے تھا کہ ان کے عالمی سطح پر نفسیاتی تجزیے ہوتے۔ ایک رائے یہ ہے کہ معاشرے اپنے بد ترین لوگوں کی تفہیم میں غلطی کر دیتے ہیں اور بد ترین لوگ دھوکے دے کر معاشروں پر قابض ہو جاتے ہیں۔

شاید یوں بھی ہوتا ہو۔

لیکن ہمارے خیال میں زیادہ تر تو معاشرے اپنے اہم آدمیوں کو جانتے ہوتے ہیں اور لوگوں میں ایک ہم آہنگی، اتفاقِ رائے اور یک ذہنی کا رجحان ہوتا ہے اور معاشرے کے اہم لوگ اہم ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کو دیکھ کر معاشرے میں موجود بہت سارے لوگوں کو ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اہم شخصیات میں اپنا آپ بھی دکھائی دیتا ہے اور اپنی آرزوئیں بھی۔

شاید دھوکے سے زیادہ اس اپنائیت کا کردار اہم لوگوں کے اہم بننے میں زیادہ ہوتا ہے۔ جب انھی مقبول و مشہور شخصیات کی وجہ سے کام بگڑتے ہیں تو معاشرے ان سے ایک دوری کا اظہار کرتے ہوئے فریب اور دھوکے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور درگھٹنا میں اپنے کردار کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مائیکل کروز نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پینتالیس فاش حقائق گنوائے ہیں۔ ان میں سے کچھ یوں ہیں کہ ٹرمپ توجہ سے طاقت کشیدتے ہیں۔ ان کے لیے بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے ہاں سب کچھ بناوٹ ہے۔ لوگ بس اوزار ہی ہوتے ہیں۔ جھگڑا بازی معاملات میں شامل رہنے کی کنجی ہے۔ خوف کار انگیز ہے۔

پھوٹ ڈلوانے سے کام بنتے ہیں۔ جیون یُدھ ہے۔ انتشار ایندھن ہے۔ حد کوئی نہیں ہوتی۔ بڑا بہتر ہوتا ہے۔ دشمن کو تھکا دینا چاہیے۔ خود غرضی اچھی بات ہوتی ہے۔ دوسروں کی بھلائی نا کام لوگوں کی پسندیدہ ہے۔ بھروسا نا مرادوں کے لیے ہے۔

وفا اور اپنی غلطی ماننا بھی ہار کی نشانیاں ہیں۔ ہارتے وہی ہیں جو ہارنا چاہتے ہیں۔ حقائق کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ماضی کی بھی غیر اہم ہوتا ہے۔ اپنی دنیا خود بنائی جا سکتی ہے۔ (ان اوصاف اور خصائل کے ساتھ جو اپنی دنیا بنتی ہے اس میں صرف اپنی سہولت اور اپنی اناء کی تسکین ہی تسلی دے سکتی ہے)۔ ہر معاملہ بس سودا ہی ہے۔ اگر کوئی آپ کو روکے نہیں تو رکنا نہیں چاہیے۔ لوگ بنیادی طور پر اچھے نہیں ہوتے۔

لوگ بدلتے بھی نہیں اور آپ جو ہو وہ ہو۔ کسی قسم کی بد سلوکی غیر اہم نہیں ہوتی۔ درگزر نہیں کرنا چاہیے اور نا توانی سے بد تر کچھ نہیں ہوتا۔ اور تنہائی کی کوئی تہہ نہیں ہوتی۔

اب ٹرمپ ان اوصاف کے معاملے میں تنہا نہیں ہیں۔ ان کے حق میں دیے جانے ووٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ ٹرمپ میں موجود ان خصوصیات کی پسندیدگی بہت عام ہے۔ اور ٹرمپ کے مخالفین رہ نما اور ان کے حامی بھی ان خصوصیات کو فروغ دیتے رہے ہیں۔اور ٹرمپ کی کام یابی ان خصوصیات کا کام یابی کے مثالیوں سے بھی ناتا باندھ دیتی ہے۔

معاشرے میں ان خصوصیات کا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ خِرد، ضمیر، قانون کی عمل داری، اخلاقیات کا پاس اور کام کا معیار سب متاثر ہوں گے۔

ان خصوصیات کو فاشزم کی طرف بڑھنے سے بھی روکا نہیں جا سکتا، اگر معاشرے میں یہ اس قدر عام ہو جائیں کہ طاقت، دولت اور شہرت کا راستہ بن جائیں۔

جنوبی ایشیاء میں ثقافتی فاشزم کا بنیادی ڈھانچہ انسانی فطرت کے انھی منفی پہلووں پر استوار ہے جس کی فکری اور عملی حمایت جنوبی ایشیائی معاشروں میں بہت زیادہ ہے۔ اور اس حمایت کی وجہ سے جمہوریت کا فروغ ان معاشروں میں ابھی تک نا ممکن ہی ہے۔

امریکہ میں کاروبار کا معاشرے پر تصرف ان خصوصیات کی مسلسل بڑھتی مقبولیت کی وجہ بنا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ کے معاشروں کو خود احتسابی سے گزرنا ہو گا اور کاروبار، businesses کو جمہوریت اور معاشرت سے ہم آہنگ کرنا ہو گا تب انسانی فطرت کے ان منفی پہلووں کی مقبولیت کم ہو گی۔ اور لبرل اور جمہوری لوگوں کو بھی اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ جمہوریت کو مذہبی قسم کی پارسائی اور اس منسلک جعلی جذباتیت کی آڑ میں جتھے بنا کر محض شکار کرنے سے امریکہ میں جمہوریت نا تواں ہی ہوئی ہے۔

کاروبار نے لبرلز کی مدد سے مسلسل یہ پیغامات دیے ہیں کہ حق اور استحقاق چنداں اہم نہیں ہوتے۔ اور لبرل حکومتوں نے برسوں حق اور استحقاق مجروح کیے ہیں۔ اتنے مجروح کیے ہیں کہ خود کے لیے اقتدار تک رسائی بھی مشکل ہو گئی ہے کہ ان کے مخالفوں کے لیے بھی حق اور استحقاق اتنے اہم نہیں رہے۔

پھر انسانی فطرت کے ان پہلووں کے فروغ سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیاں بڑھی ہیں۔ معاشروں میں عدم برداشت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اس سب کا کچھ جمہوریت سے منسلک جعلی پارسائی کی جذباتیت سے رشتہ کچھ کم کرنا ہو گا۔

فی الحال ٹرمپ کو زیادہ بھاری تعداد سے مسترد نہ کرتے ہوئے امریکی معاشروں میں موجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے انسانی فطرت کے ان منفی پہلووں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت میں ذرا بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں ان کی حمایت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

اور ڈیموکریٹس اقتدار تک پہنچنے کی صورت میں (فی الحال تو انسانی فطرت کے ان منفی پہلووں کی وجہ سے وہ بھی کافی مشکوک دکھائی دیتا ہے) اگر اس معاملے میں خود احتسابی سے نہیں گزرتے تو فاشزم کو ریاستوں میں اور زیادہ تقویت ملے گی۔

***

ثقافتی اور مذہبی فاشزم کی جنوبی ایشیا میں حمایت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ سادھو کی تہذیب دشمنی ہی حیات بن گئی ہے۔

ابھی برما کی سُو چِی کو جو مذہبی فاشزم میں پیوست ہونے کے صلے میں جو مینڈیٹ ملا ہے وہ نسل کشی کرتی بدی کی عوامی پسندیدگی ہے۔ بدی کی اس بھر پُور پسندیدگی کے سامنے انسانیت بے بس ہو جاتی ہے۔

اس پسندیدگی کے نتیجے میں معیشت بھی برباد ہوتی ہے اور معاشرت بھی تباہ ہوتی ہے لیکن برما کے لوگ اگر یہی کچھ چاہتے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔

بربادیاں تو بہت ہوئی ہیں؟ سُو چِی کی بَہ طور فرد، انسان، شہری اور جمہوری رہ نما بربادی۔ جمہوری حقوق اور انسانی آزادیوں کی بربادی۔ وہ اگر جمہوری اصولوں اور جمہوری قوانین پر ڈٹی رہتیں تو شاید مذہبی فاشزم کی حمایت کچھ کم ہو جاتی لیکن اس طرح وہ کبھی بھی اقتدار تک نہ پہنچ پاتیں۔

اتنی طویل جد و جہد کے بعد انھوں نے انسانیت قربان کرتے ہوئے اقتدار حاصل کر لیا۔ لیکن اس عمل کے نتیجے میں وہ برما کے لوگوں کی اپنی ہی تو ہوئی ہیں۔ اتنی بھر پُور حمایت کے بعد جمہوریت، انسانیت اور شہریت سے وابستہ رہنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ انھوں نے اقوام عالم کے سامنے نسل کشی کا دفاع کیا تو اپنے لوگوں میں پہلے سے کہیں زیادہ معتبر ہو گئیں۔

برما کے لوگوں کی زندگی میں بھی جمہوریت، انسانیت، شہریت اور اخلاقیات کی اتنی کمی ہو گئی کہ ان کا ہونا بس ایک خواب جیسا ہو گیا جس کے زندگی پر کچھ اثرات نہیں ہیں اور زندگی پر اس کے اثرات کے امکانات اور محدود ہو گئے۔

برما میں روہنگیا اور دوسری اقلیتوں کے لیے زندگی اور مشکل ہو جائے گی۔ ٹرمپ کی صدارت میں جمہوری دنیا اپنے بحرانوں کا شکار ہو گئی تو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برما میں مذہبی، قومی اور ثقافتی فاشزم نے روہنگیا کی نسل کشی شروع کر دی۔ وہ بحران ابھی تک موجود ہیں اور بدھم دھمھم سنگھم کی نقاب اوڑھے مذہبی فاشزم روہنگیا اور دوسری اقلیتوں پر ستم ڈھاتا رہے گا۔ پھر ظلم کی معاشرے میں اتنی زیادہ پسندیدگی ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟

یہ پسندیدگی ایک دو جنریشنز کی جمہوریت، شہریت اور انسانیت میں تربیت کے بَہ غیر کم نہیں ہو سکتی لیکن جب جمہوریت سے وابستگی کے صلے میں نوبیل پیس پرائز پانے والے بھی بنیادی طور پر سادھو ہی ہوں تو اس طرح کی تربیت کے امکانات اور کم ہو جاتے ہیں۔

برما اب ایک نام نہاد جمہوریت ہے جو برما کی گزشتہ فوجی آمریت سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کہ فوجی آمریت کے دوران یہ گمان تو رہتا ہے کہ اقلیتوں سے امتیاز شاید عوام نہیں پسند کرتے۔

لیکن اس نام نہاد جمہوریت کی اس قدر مقبولیت نے یہ بات تو واضح کر دی ہے کہ برما کے ووٹروں کی ایک کثیر تعداد کے لیے جمہوریت، شہریت اور انسانیت ذرا بھی اہمیت نہیں رکھتے بل کہ روہنگیا کی نسل کشی کرنے کے سلسلے میں وہ اپنی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

جنوبی ایشیاء میں یہ بار بار ہوتا ہے۔ جسے آپ انسان سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ انسان ہوتا نہیں۔ اس کے بھیانک نتائج ہوتے ہیں لیکن لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس لا انسانیت کی حمایت کر رہی ہو تو اصلاح دور افتادہ فردا کا سپنا ہی بن جاتی ہے۔

برما میں بھی چین کی سرمایہ کاری جاری ہے اور چین کے سرمایے کا انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں سے کوئی ناتا نہیں ہے۔ وہ تو بس ایشیائی اقدار کے چیمپئین ہیں۔ اور ایشیائی اقدار بُلوہ، فساد، قتل و غارت اور نسل کشی کی راہ میں حائل ہونے سے صدیوں سے انکاری ہیں۔

پڑھے لکھے لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ بار بار جذباتی شاعری اور تیز و تند خطبات کے زیرِ اثر بدی کی نگاہوں میں معتبر ہونے کی آرزو لیے وہ فردا مِسمار کر رہے ہیں۔

شاید سوچتے بھی ہوں لیکن بس ایک نعرہ سا لگتا ہے تو دوڑتے بھاگتے پیچھے چل پڑتے ہیں، انجام کچھ بھی ہو۔ بس ہر دفعہ انجام اچھا نہیں ہوتا۔