مشترک یورپی کلچرکا تصور محض اختراع کردہ روایت ہی ہے!

یورپی کلچر کی نمائندہ تصویر
واٹر کلرز میں بنی کیفے گرینسٹیڈل، ویانا کی یہ پینٹنگ رینولڈ ویکل کی بنائی ہوئی، کاپی رائٹ گیٹی Getty امیجز کے ہیں۔

مترجم: یاسر چٹھہ ؛ از بینجیمن جی مارٹن

بینجیمن جی مارٹن اپسالہ یونیورسٹی Uppsala University، سویڈن میں یورپی کلچر کے ایم اے پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ آپ The Nazi-Fascist New Order for European Culture (2016) کے مصنف بھی ہیں۔
یہ مضمون aeon.co پر ہارورڈ یونیورسٹی پریس کے اشتراک باہمی کے تحت اصلا انگریزی زبان میں شائع ہوا۔ ادارہ “ایک روزن” اسے اپنے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کرکے پیش کر رہا ہے۔
———————–

کلچر کے متعلق سوچئے، ادب عالیہ کی بابت نظر دوڑائیے، موسیقی پر توجہ کیجئے، فنون لطیفہ کے جس رخ پر نظر ڈالئے ایسا لگتا ہے کہ آپ یورپ کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ فرانسیسی شاعر و انشائیہ نگار پال ویلیری Paul Valéry نے سنہ 1919 میں ایک جگہ لکھا کہ:

“کلچر، ذہانت اور عمدہ ترین نگارشات ادب و فنون کا حسن خیال قدیم وقتوں سے ہی ہمارے یورپ کے متعلق خیال سے نسبت و جڑت رکھتا ہے۔”

علم بشریات anthropology کے بنیاد گزار اصولوں کی روشنی میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر قوم اور قبیلے کا اپنا ایک کلچر ہوتا ہے۔ لیکن وہ جسے ہم معروف و مقبول معانی میں ثقافت عالیہ high culture کہتے ہیں، وہ تو کہیں اور کا نہیں، فقط یورپی ہی ہے۔ یہ بیان و ایقان کہ کلچر صرف یورپ ہی کا ہے، اور یہ کہ اس کا کلچر یورپ کو باقی کی دنیا کے تمام گوشوں سے ممتاز کرتا ہے، آج بھی سانس لیتا اور زندہ خیال ہے۔ یہ خیال جسے پال ویلیری Paul Valéry محترم نے 1919 کے سال میں بھی “بہت قدیم” جیسے لفظوں سے موسوم کیا تھا، آج بھی یورپ کے مختلف گوشوں میں سیاسی بحث و مکالمہ کے جسم و تن میں روانی خون اور تلاطم کے ایک عنوان کے طور پر موجود ہے۔

لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا کہ ایک مربوط و مبسوط یورپی کلچر کی تصوریت فی الحقیقت ایک بہت ہی نیا آئیڈیا ہے۔ کہیں کہیں اس لفظی ترکیب کے استعمال کی مثالیں انیسویں صدی میں تو میسر ہوئیں، لیکن 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں اس تصوریت کے، یوں کہئے، جوانی کے دن آئے۔ ان برسوں میں یورپ کے آئیڈیا کی ترکیب پر توجہ بھری نگاہیں امڈ آئیں۔ یہ وہ ماہ و سال تھے جب اس عہد کے لبرل دانشوروں نے یورپ کی متخیلہ مشترکہ ثقافتی شناخت کا ایک موثر تصورترتیب دینے پر توجہ مرکوز کردی۔

پال ویلیری Paul Valéry نے بڑی گہری اثرپذیری کے ساتھ تصور “یورپ” کی تعمیر و بنت کاری ایک ایسی تجریدی وراثت کے طور پر پیش کی جس کی جڑیں بقول ان کے یورپی قوموں کے ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی تبادلے کرنے کی خواہش کے احساس سے جڑی ہوئی تھیں۔ ان کا خیال تھا اس مشترکہ خواہش نے ہی یورپی روح کو جنم دیا تھا۔ آسٹریا کے ڈرامہ نویس و غنائیہ نگار اسٹیفن زویگ Stefan Zweig کی دانست میں غیرمادی اقدار یورپ کا تشخص ترتیب دیتی ہیں۔ زویگ کا خیال تھا کہ یورپ اپنی تعارفی خصائص کا اظہار ان ثقافتی تبادلہ جات میں کرتا جو ریاست و اقوام کے تصور سے بالا بالا انسان دوستی کے علائق سے تھیں۔

سنہ 1932 میں پورے مغربی یورپ کے بورژوائی دانشوروں نے عظیم جرمن شاعر اور ہمہ دان، گوئٹے کی وفات کے سو سال پورے ہونے پر ان کی شخصیت کو یورپ کے کلچر کی ایک بہترین مثال کے طور پر منایا۔ گوئٹے ان دانشوروں کے لئے یورپ کی مثالیت کا مجسم تھے: یعنی آفاقیت پسند، نفاست کا نمونہ، تجسس سے بھرے، تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور، عالی انسانی، عیسوی اور تحریک تنویریت کی قدروں سے آراستہ!

بھلے جو مرضی کہتے پھریں، یہ ایک خوف ہی تھا جس نے یورپی کلچر کی اس تصوریت کی بناء ڈالی۔ جنگ عظیم اول اور اس کی ذیل میں جس اقتصادی و سیاسی بدحالی اور افرا تفری نے جنم لیا اس سے یورپی اتفاق و اتحاد کے لئے کچھ نئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ان آوازوں کے اٹھانے والے بھرپور اصرار سے یہ کہتے تھے کہ اس اتفاق و اتحاد سے ہی یورپی اقوام کسی نئی جنگ کی تباہ کاریوں سے ممنون رہ سکتے ہیں اور باہر کی دیگر دنیا اور اقوام پر اپنا غلبہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یورپ کے بورژوائی دانشوروں کے نزدیک یورپی اتحاد و اتفاق ایک اخلاقی و روحانی مسئلہ تھا۔

جنگ عظیم اول کی کوکھ سے ایک جھلسا دینے والی پروپیگنڈہ مہم جوئی نے بھی جنم لیا۔ اس دوسری لفظوں کے محاذ کی جنگ میں فرانسیسی اور برطانوی دانشوروں نے جرمنی کو مہذب ممالک کی فہرست سے نکال باہر کیا اور ایک وحشی ملک کے طور پر پیش کیا۔ جرمنی کی ثقافتی اشرافیہ نے بھی بھرپور جواب دیا اور جرمنی کے کلچر کو نمائندہ خیر کے طور پر پیش کیا؛ ساتھ ہی انہوں نے مغربی یورپ کے کلچر کو زنگ آلود، سڑاند کا شکار اور ایک تہی دامن کلچر کے طور پر تعبیراور پیش کیا۔ جرمنی کے ایک ماہر سماجیات جارج سیمل George Simmel کی سنہ 1917 میں کہی گئی اس بات کو بطور مثال دیکھئے:

“وہ روحانی جسد و عمارت جسے ہم یورپ کہتے تھے وہ تباہ حال ہو چکی ہے، جس کی آزادی سر نو تعمیر کے امکانات نا ہونے کے برابر ہیں۔”
وسیع تر عالمی تناظر میں غیر یورپی طاقتوں کے منصئہ شہود پر آن موجود ہون نے بھی مشترکہ یورپی شناخت کی ترویج میں مصروف کار اشرافیہ کے اعتبار کو گہرا گھاو لگایا۔ ان کا یہ شناخت کا اعتبار ایک گہرے اور بغیر کسی خطرے کے اعتماد سے عبارت تھا کہ یورپ عالمی بساط پر بہر طور برتریں ہے۔ جنگ عظیم اول کے مابعد کی دنیا میں وہ پہلے وقتوں والا اعتماد کہیں کھو گیا تھا؛ اب اس کا احساس و ادراک کرنا مشکل تر امر بن گیا تھا۔ جنگ عظیم اول کو ختم کرانے میں امریکہ کا مرکزی و فیصلہ کن کردار، اور اس کے بعد ہالی وڈ کی بنائی فلموں اور جاز موسیقی کے بڑھتے اثر و نفوذ نے عالمی بساط پر ایک نئے ثقافتی ریلے کی تصویر پیش کی۔

مشرق کی جانب روس میں آنے والے انقلاب نے بورژوا یورپی کلچر کو ایک اور ایسے انتہائی مضبوط نظریاتی چیلنج سے دوچار کردیا جس میں یورپی عوام کے لئے ایک پرخطر کشش بھی تھی۔ کچھ اس طور پرحالات دکھائی دینے لگے تھے کہ جنہوں نے یورپ کی پہلے سے ہی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ثقافتی اشرافیہ کے ہاتھوں سے یورپی عوام کے مقاصد حیات کے تعین کرنے کے اختیار کو پھسلا دیا تھا؛ اب وہ یورپی عوام کے ذوق ہائے سلیم کا سامان بھی کرنے سےقاصر ہو گئے تھے۔

مغرب میں امریکہ اور ہالی وڈ، جبکہ مشرق میں روسی اشتراکیت سے چٹکی بھروائے ہوئے کچھ دانشوروں نے یورپی شناخت کے بال و پر نکھارنے اور انہیں منفرد مقام دینے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے اسی پرانے مشترک یورپی کلچر کی تصوریت کے نئے اور خطرے سے دوچارکرنے والے بدلے ہوئے حالات میں تجدید کرنا شروع کی۔ مرکزی یورپی ممالک کے دانشوروں نے بہت سارے “غیروں” کے پیش منظرمیں یورپ کی لمبے عرصے تک تعبیرکرتے رہنے کا کام کیا۔ لیکن یورپ کی اس نئے تناظر میں شناخت استوار کرنے کے عمل سے یورپ کی شناخت کی تشکیل میں ایک بالکل نیا موڑ ضرور آگیا۔ اب یورپی شناخت کے اپنے خاص رنگ و آہنگ کو نئے جامے پہنانے کے لئے اور ان کی عکاسی کے لئے، امریکہ اور روس کی شکل میں یورپ کے نئے ارضیاتی و سیاسی حریفوں نے متوازی “غیروں” کی جگہ سنبھالی۔

پہلے پہل کی نسلوں نے یورپ کی ممتازخصوصیت اس کی عیسائیت میں ایمان تلاشی اور ڈالی تھی۔ صدیوں تک تو جسے خطے کو آج ہم یورپ کہتے ہیں اسے عیسوی سلطنت Christendom کہا جاتا رہا۔ لفظ “یورپ” بہت شاذ ہی استعمال ہوتا تھا۔ عیسوی سلطنت Christendom کو ایک روحانی اور جغرافیائی مقام و جگہ کے طور پر مسلمان ترکی سے متوازی دیکھا سمجھا جاتا رہا۔

اٹھارہویں صدی کی تحریک تنویریت میں یورپی اشرافیہ نے یورپ کے امتیاز کو تہذیب civilisation کے تصور کے طور پر نشان زد کرنے کا آغاز کردیا۔ مغربی علوم، منطق، اور تکنیکوں میں رچے احساس تفاخر کی بناء پر، یورپ کے اس تصور، جس میں یہ تہذیب کا مرجع اور انسانی ترقی کی ممکنہ معراج تھا، پوری انیسویں صدی میں بھی ترویج پاتا رہا۔ تصور”یورپ” کو ہمہ گیر انسانی اقدار، جن کا مظہر سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی، قانون و نظم اجتماعی میں ہونے کا دعوٰی تھا، کے مترادف لفظ کے طور پر سمجھا جانے لگا تھا۔ یورپی طاقتوں کی بین الاقوام سیاسی منظر نامے میں غلبے اور ان کی وسیع ترعلاقوں میں نوآبادیات کے قیام کے اندر ان اقدارکی برتری کی تصدیق باورکی جاتی تھی۔

تاہم 1920 اور 1930 کی دہائیوں کے بعد وہ یورپی جو ابھی تک کھلے بندوں نسل پرستانہ سوچ کے حامل تھے وہ بھی یہ دعوٰی کرنے سے قاصر ہو گئے تھے کہ تہذیب کا تصور صرف یورپ کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ جنگ عظیم اول نے انہیں یہ باور کرا دیا تھا کہ ہرچند جدید تہذیب، بمعنی تکنیکی ترقی، یورپ ہی میں پیدا ہوئی ہوگی، لیکن امریکہ اور سوویت یونین بھی ان میدانوں میں کم از کم یورپ جتنی ہی ترقی کے حاملین ہو چکے تھے۔

یورپی دانشوروں کی صرف یورپ کی ہی تکنیکی ترقی کی خوش فہمی بہرطور جنگ عظیم اول نے ہلا کر رکھ دی تھی۔ اس خوفناک انتقال طاقت کا واضح مطلب یہ تھا کہ محض تکنیکی ترقی کی بالادستی کا تصور یورپ کے لئے دنیا میں خاص مقام و مرتبہ کا ضامن کسی طور پر بھی نہیں رہا تھا۔

اس سب کے باوجود یورپی خطے کے دانشور یورپ کے
منفرد پن کے خیال کو ترک کرنے کو کسی طور تیارنہیں تھے۔ ان دانشوروں کی یورپ کے امتیازی خصائص سے جڑت نے انہیں ایک ایسی چیز کو سینے سے لگائے رکھنے اور اسی کی ترویج کرتے رہنے کی راہ پر لگائے رکھا جس کے نقش محو کرنے پر بھی محو نہیں ہوتے تھے؛ یہ ایسے تاثرات تھے جن کے بارے نا تو روس اور نا ہی امریکہ جیسی معاشرتوں کی کوئی دعویداری ہو سکتی تھی: اس دعویداری کا صرف “یورپی کلچر” ہی مجاز ہوسکتا تھا!

یورپی کلچر، امریکہ کے کھردرے اور سوویت یونین کے مادہ پرست کلچروں کے برخلاف آدرشی اور مادیت مخالف تھا۔ یورپی کلچر اپنی استواریت ادب عالیہ اور فنون سے متعین کرتا تھا۔ انیسویں صدی کے یورپی بورژوائی دانشوروں کے ذوق میں فنون لطیفہ کا درجہ کسی طور پر نیم مذہبی توقیروعظمت سے کم کا نا تھا؛ یہی بات انہیں یورپی کلچر کے ارفع و اعلٰی ہونے کی امتیازی حیثیت باور کرنے کے متعلق سوچنے اور مطمئن ہونے دیتی تھی۔ اس یورپی کلچر کی یہ بات ان دانشوروں کو امریکی اور سوویت نووارد معاشرتوں سے الگ اور ممتاز کہنے پر ابھارتی تھی؛ اوریہ بورژوائی دانشور اپنا تاریخی ناتہ یونان و روما کی قدیمی ثقافت ہائے عالیہ سے جوڑتے تھے۔

یونان و روما سے ایسا تعلق تعمیر کرتے اور سمجھتے وقت، یورپ کی عکاسی انہیں ایک ایسے عہد قدیم میں لے جا پہنچتی تھی جب ابھی لفظ کا استعمال شاذ ہی ہوتا تھا اور لفظ سے کوئی خاص مطلب براری بھی نہیں کی جاتی تھی۔ تو یہ تھا وہ طریق جس سے یورپ نے اپنے آپ کو معنوی و صوری طور پر استوار کرنا چاہا اور اسی کا دعوٰی بھی کیا، خاص طورپرجمالیاتی نفاست اور ثقافت عالیہ کی ذیل میں توایسا ضرور تھا۔

ایسا کرنا ہمیشہ سے ہی بہت ابہام کا شکار رہا ہے۔ اگر تو یورپ کا کوئی ایک ہی کلچر ہے، تو کیا یورپ ایک ہی قوم ہے؟ کیا فن لینڈ اور پولینڈ کی ثقافتیں بھی اسی قدر یورپی ہیں جس قدرفرانس یا جرمنی جیسے یا دیگر ممالک کی ثقافتیں ہیں؟ کس کے ہاتھ میں اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہوسکتا ہے کون سا آرٹ کا نمونہ، یورپ کلچر کا نمائندہ ہے؟ کیا پورے یورپی خطے میں یکساں کاری کا عمل چلانا چاہئے تاکہ ایک جیسا یورپی کلچر ترتیب دیا جاسکے؟ کیا یورپ کی فنون لطیفہ اور ثقافت عالیہ کی تصوریت سماجی طور پر اشرافی اور سیاسی طور پر قدامت پرست تو نہیں؟

ان سوالات میں سے کچھ آج بھی مرکزی اہمیت کے حامل سوالات ہیں؛ خاص کران حالات میں جب یورپ میں یورپ مرکزیت Europeanist اور، قوم پرست nationalists ان تصورات کے مابین ایک شدید تناؤ کا منظرنامہ موجود ہے؛ ان سوالات میں سے چند یہ ہیں کہ یورپ فی نفسہ کیا ہے؟ یورپ کی ثقافت واحدہ کیا ہے؟ یا، یورپ کی ثقافتیں کیا ہیں؟ کیا یورپ کی کوئی ثقافت واحدہ ہے، یا یورپ کی کئی ایک ثقافتیں ہیں؟ ان سولات کا جواب دیتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنے سے کافی مدد مل سکتی ہے کہ اس بابت قدیم سچائیاں بھی بہت ہی کمیاب ہیں: پرانی دنیا بھی قدرے نئے تصورات سے ہی تعارف و مشخص ہو رہی ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔