تانیثیت کیا ہے

Munazza Ehtisham Gondal

تانیثیت کیا ہے

از، منزہ احتشام گوندل

گزشتہ دنوں ایک دوست نے جب یہ سوال کیا کہ آیا تانیثیت کے حوالے سے میں مغربی نکتہ نظر کی حامی ہوں یا اشتراکی نکتہ نظر کی تو مجھے سوچنے کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ میرا جواب تیار شدہ تھا کہ نہیں میرا جو بھی نکتہ نظر ہے وہ ذاتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں کی عورت کے مسائل اور ہیں۔ مغرب کی عورت کے مسائل اور ہیں، پوری دنیا میں جہاں بھی مختلف تہذیبیں ہیں وہاں ہی انسانوں کے مسائل مختلف اور جدا ہیں۔

مغرب کا جو نسائیت کا بیانیہ ہے وہ نزاعی ہے اور تقریبا پچھلی ایک صدی سے ٹکراؤ کی وجہ بنا ہوا ہے، جبکہ انسانی معاشروں کو جنگ کی نہیں امن اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اپنے نظریات میں کبھی بھی ابہام کی شکار نہیں رہی بلکہ اس حوالے سے مکمل طور پر فہیم و دراک ہوں کہ تانیثیت کے حامی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ عورت کرخت ہوجائے اور اپنی فطری نرمی اور گداز کو خدا حافظ کہہ دے۔ ہمارا مطالبہ معاشرے کے سماجی، معاشی، دفاعی اور اخلاقی نظام کے اندرعورت مرد کے درمیان عدم توازن کو توازن میں لانا ہے، نہ کہ جو نچلا پلڑا ہے اسے اوپر اٹھادینا اور اوپر والے پلڑے کو نیچے گرانا، تاکہ ایک عدم توازن دوسرے عدم توازن میں بدل جائے۔

بنیادی طور پر دیکھا جائے تو تانیثیت کا مطلب ہے دنیا کو عورت کی آنکھ سے دیکھنا۔ عورت زندگی اور اس کے متعلقات کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کے نزدیک خیر اور شر کے پیمانے کون سے ہیں۔ وہ کائنات کا مفہوم کیا لیتی ہے۔ اس کے نزدیک کامیابیاں اور ناکامیاں کیا ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت کم تانیثی مباحث کو اس حیثیت میں دیکھا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈا الٹ رُخ پہ کیا جا رہا ہے۔ میں اپنی بات کی وضاحت کچھ مثالوں سے کروں گی۔

پہلی بات یہ کہ ہمارے ہاں بالخصوص پاکستان میں ہر اچھی بات (جسے ہم آئیڈیل سمجھتے ہیں) کو یورپ کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی نظام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ کوئی بھی معاملہ ہو فورا وہاں کی مثال دی جاتی ہے۔ کہ وہاں تو ایسا ہوتا ہے، ویسا ہوتا ہے۔ میں نے کچھ ہفتے پہلے ایک ویڈیو دیکھی جس میں دکھایا جارہا تھا کہ جرمنی میں ایک ٹرین میں ہر ڈبے کے اندر ایک ایسی نشست بنائی گئی ہے جس کے اوپر مردانہ عضوِ خاص کو اُبھارا گیا ہے۔ اور اس کا مقصد مرد حضرات کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ان کے اس عضو سے عورت کتنی ہراساں ہوتی ہے۔ اور یہ جرمنی میں ہورہا ہے اور دو ہزار سترہ میں ہورہا ہے۔

یہاں صرف ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ وہ معاشرہ جو اخلاقی طور پہ اتنا بلند ہو چکا ہے وہاں ابھی بھی آخر ایسے اقدامات کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ ہماری تو خیر بات ہی چھوڑیے ہم تو اخلاقی طور پہ پست ہی بہت ہیں۔ اس ویڈیو کے جلد بعد ہی ایک اور ویڈیو دیکھنے کو ملی، فرانس میں ایک زنانہ جنسی روبوٹ اپنی پہلی رونمائی میں ہی مردانہ بربریت کا شکار ہوگیا، ویڈیو کے آخر میں روبوٹ کا مالک اس کی کٹی پھٹی لاش کو بازوؤں میں اٹھا کے جاتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔یہ واقعہ بھی دو ہزار سترہ میں فرانس میں پیش آیا، ہمارے ہاں تو خیر اس روبوٹ کی کٹی پھٹی لاش بھی نہ ملتی۔

واقعہ یہ ہے کہ پچھلے پچاس سال میں دنیا میں جو تہذیبی ارتقاء ہوا ہے وہ کسی دوسری طرف جا کر ابتذال میں بدل گیا ہے۔ نسائیت کی جب بھی بات ہوتی ہے میرا نکتہ نظر واضح ہوتا ہے کہ عورت کی ذہنی صحت کو تسلیم کیا جائے۔ ذہنی صحت کو تسلیم کرنے میں بہت باتیں آتی ہیں۔ متذکرہ بالا مثالیں میں نے اس لیے دیں کہ نسائیت کو سب سے پہلے جنسی آزادی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے۔

ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اس حوالے سے کبھی کسی عورت سے بھی پوچھا گیا ہو کہ جنسی آزادی کے متعلق اس کا کیا خیال ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے عورت سے زیادہ مرد کو اس کی جنسی ضروریات کی خبر ہے۔ بعض صورتوں میں تو مرد کی طرف عورت کی جنسی آزادی کا اصرار بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس بات کو میں ایک مکالمے کی شکل میں بیان کرسکتی ہوں، اس مکالمے کا مجھے خود سامنا رہا ہے۔

عورت ۔۔۔ مجھے ضرورت نہیں۔

مرد ۔۔۔ میں وہ مرد ہوں جو تمہارے اندر یہ ضرورت جگا سکتا ہوں۔

عورت ۔۔۔ ایسی بات نہیں مجھے بہت پیشکشیں رہی ہیں

مرد ۔۔۔ وہ مرد ہی نہیں تھے سالے ۔۔۔ بلا بلا بلا

یہ کیسا فیمنزم اور لبرلزم ہے کہ آپ عورت کی آزادی کی بات کرتے ہوئے اس زبردستی تھوپ رہے ہیں۔ وہ گھر داری پسند کرتی ہے، آپ اسے گھر سے باہر بھیجتے ہیں۔ وہ ملازمت کرنا چاہتی ہے آپ اسے روک دیتے ہیں۔ اس کی جنسی زندگی کے حوالے سے اپنی الگ چوائس ہے مگر آپ اسے مجبور کررہے ہیں کہ وہ لازمی جنس کو ہی اپنی تفریح بنائے۔ ممکن ہے اس کی تفریح کوئی اور ہو۔ اسے کتاب پڑھ کے، یا اچھا کھانا بنا کے، یا اچھا میوزک سن کے فرحت کا احساس ہوتا ہو۔ جنسی تسکین انسانی زندگی کا بنیادی لازمہ ہے۔ مگر ایسا بھی کیا ہے کہ ثانوی تلازمات تک بھی جنس ہی کو پھیلایا جائے۔ یورپ میں عورت نے جنسی آزادی کے حقوق حاصل کر لیے ہیں، مگر اس سے نتائج کیا برآمد ہوئے ہیں۔ ممکن ہے بہت سے کر لیے ہوں پھر بھی ٹرین کی سیٹ اور روبوٹ جیسے واقعات کے امکانات موجود ہیں۔

بات آتی ہے عورت کے شعور کی اور اس کی شعوری سطح کی۔ ایک پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ عورت کا اپنا ایک الگ سماجی مقام ہوتا ہے۔ اس کا گھر سے نکلنا، اور لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا رہتا ہے۔ وہ بہت سی چیزوں کو مرد کے ساتھ برابری بلکہ بعض اوقات بہتر سطح پہ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس سے مشورہ نہیں لیا جاتا، یہیں سے اس کی نفسیاتی کمزوری ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم لباس اور جنسی آزادی کے نعروں پہ تو بہت خوش ہے۔ اسے لگ رہا ہے یہی اس کا عروج ہے؟

مگر اسے یہ نہیں سمجھ آتی کہ اس کے ساتھ کون سا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کیا آپ نے آج تک عورت کو یہ مشورہ دیا کہ وہ جس مرد کو پسند کرنے لگتی ہے جائے اسے گریبان سے پکڑے اور کہے چلو اٹھو! میرے ساتھ شادی کرو تاکہ ہم ایک طریقے سے ایک گھر کی بنیاد رکھیں۔ اور اس گھر میں ایک خاندان کی پرورش کریں۔ نہیں۔ کبھی بھی نہیں۔ بلکہ آپ ہمیشہ یہ کہتے ہیں دفعہ کرو اس شادی کو، یہ ایک فضول بندھن ہے۔ اپنی زندگی کو انجوائے کرو (کنڈوم کے ساتھ)۔ ایک اکتا گیا ہے تو دوسرا ڈھونڈو۔ معذرت کے ساتھ! یہ نسائیت کی اصل تعبیر نہیں ہے۔

عورت مادر سری سماج میں بھی ماں رہی ہے۔ بچہ پیدا کرنا، اسے پالنا اور خاندان بنانا اس کی بنیادی فطرت ہے۔ چاہے وہ اس کے لیے ایک مرد کے ساتھ شادی کرے، یا متعدد مردوں کے ساتھ رہے، اس کا اصل جوہر بچہ ہے اور اس کے اندر کی ممتا ہے۔ رہ گیا ثقافتی، سماجی اور معاشی فرق، تو ان تینوں دائروں میں بھی عورت کو نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ رسم و رواج ہوں، طور طریقے ہوں، گھر کا بجٹ ہو وہ ہر معاملے میں باریک بیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کو ذہنی طور پہ کچل کے رکھا گیا ہے۔ اور اس نفسیاتی بحران میں نام نہاد فیمنزم نے بڑا حصہ ڈالا ہے۔ ہم ابھی تک، غیرت کے نام پہ قتل، ونی، کاروکاری جیسے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ عورت کے حقوق کے ضمن میں بات کرتے وقت فیصلے کا اختیار بھی عورت کو دیا جائے۔

کم سے کم ہمیں ایسے فیمنسٹ حضرات کی ضرورت نہیں جو بات تو عورت کے مساوی حقوق کی کرتے ہیں مگر فیصلوں کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ جنہیں عورت کا اپنی بات سے اختلاف کرنا بھی برداشت نہیں ہوتا۔