ماحولیات و موسمیاتی تغیرات: امیتاو گھوش کا انٹرویو

(مترجم: جنیدالدین )

معروف لکھاری امیتاو گھوش Amitav Ghosh کو اپنی نئی کتاب “ایک بڑی تبدیلی” (The Great Derangment) کے ساتھ منظرعام پر آنے کیلئے زیادہ وقت نہیں لگا۔ امیتاو  گھوش کا تعارف یہاں کلک کرنے پر میسر ہے۔ ابھی پچھلے سال ہی انہوں نے”ایبس ٹرائیلوجی” (Ibis Trilogy) کا آخری حصہ مکمل کیا تھا۔ گھوش کا ماننا ہے کہ ایک آنے والی تباہی جو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں ہمارے گھر کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے اور اس سے نمنٹنے کیلئے درکار وقت ہماری سوچ سے بھی کم بچا ہے۔

مصنف ایسا “ٹاٹا اسٹیل ادبی محفل ” کے دوران کہہ رہے تھے، جب وہ بھنبھور میں موجود تھے۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے متعلق عام لاابالی رویے کے متعلق بھی بات کی۔ یہ سب پراگتیوادی (pragtivadi.com)نامی ویب  سائٹ کیساتھ انٹرویو کے دوران بولا گیا۔ یہ انٹرویو نمیتا پانڈا نے انگریزی میں کیا جس کا یہاں ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال : افیون کے خلاف جنگ جیسے رزمیہ موضوع سے ماحولیاتی تبدیلی جیسے نان فکشن کی طرح کے خشک موضوع کی طرف آنے میں زیادہ وقت تو نہیں لگا؟
گھوش : ہاں! ” ایک بڑی تبدیلی” کو مکمل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ میں جب ” آگ کا طوفان” پر کام کر رہا تھا تب میرا اچانک اس طرف دھیان گیا. ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق میں نے تب سوچا جب میرا سندربن جانا ہوتا تھا. ” بھوکی لہروں ” (The Flood of Fire) کے دوران میں زیادہ دھیان نہیں دے سکا تھا. میں نے جتنا اس کے متعلق سوچا، یہ اتنا پختہ ہوتا گیا کہ یہ کتنا شدید اور خطرناک ہے۔ سچ پوچھیں تو اس سے خطرناک کچھ بھی نہیں ہے۔ آج تو بالکل بھی نہیں۔
سوال: آپ اکثر ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے فکشن نگاروں پر زور دیتے ہیں کہ اس کی کمیابی اور ضرورت کے بارے کچھ تحریر کریں لیکن کیا ادب میں اس کے متعلق بات نہیں ہو رہی. باقی محافل میں بھی ماحولیاتی اثرانگیزی کے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔

گھوش : سب سے پہلے تو میں واضح کرتا چلوں کہ ماحولیاتی اور فضائی تبدیلیاں ایک نہیں ہیں۔ ماحول ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فضائی تبدیلیاں ایک بین الاقوامی مسئلہ ہیں۔ جب موسم ایک بڑے عرصہ میں تبدیل ہوتا ہے اسی طرح ہمارے اور فطرت کے درمیان بھی زیادہ فرق نہیں ہے. ہم اکٹھے ماحول تشکیل دیتے ہیں۔

جب ہم فکشن میں فضائی تبیلیوں کی بات کرتے ہیں تو شاید بطور ایک مصنف ہم اس سے پیٹھ نہیں موڑ سکتے. بہرحال فکشن ہماری دنیا کو زیادہ وضاحت سے بیان کرتا ہے. یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔
سوال : یہ دیکھا گیا ہے کہ آپکی کتاب ” ایک بڑی تبدیلی ” میں اینتھروپوسین(anthropocene) کے متعلق پریشان کن اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں . کیا آپ اسکی ضاحت کریں گے؟
گھوش : شاید محققین کے بیان کردہ اعدادوشمار واقع ہی پریشان کن ہیں۔ مثال کے طور پر ” خلیج بنگال ” جس پر بیس کروڑ انسانوں کا انحصار ہے، جس میں اوڑیسہ اور بنگال کے علاقہ جات بھی شامل ہیں جہاں دنیا کا چار میں سے ایک شخص رہتا ہے. سائنسدانوں نے یہاں ایک ایسا “موت کا کنواں ” دریافت کیا ہے جو اگرچہ 60000 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ہے، پھر بھی ایک چیونٹی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کے باوجود کہ مائیکروآرگنزمز موجود ہیں یہ خطہ مچھلیوں کے بھی قابل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ مرگوئی بحرالجزائر بھی ڈائنامائیٹ اور سائیا نائیڈ کی وجہ سے مچھلیاں پکڑنے کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔

سوال : قدرتی تبدیلیاں اور تباہیاں ازل سے ہی دیکھی گئی ہیں۔ اس کے متعلق اب ہی کیوں اتنی سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے؟
گھوش : آپ نے درست کہا کہ قدرتی آفات بہت سی اجناس کے اختتام کی وجہ بنی ہیں، لیکن ایسا آخری بار دس ہزار سال قبل برف کے دور میں ہوا تھا۔ لیکن تب سے اب تک زمین کی آب و ہوا مستحکم رہی۔ ہم انسان اس پس منظر میں ایک جدید تہذیب ہیں لیکن اب یہی تباہی حد سے بڑھ سکتی ہے۔

سوال : اپ بنگال اور اوڑیسہ جیسی ساحلی ریاستوں کے متعلق کس قسم کی پیش بینی کر سکتے ہیں؟
گھوش: ہم سمدری لوگ ہیں اور یقینناً سمندری تبدیلیاں ہمارے لحاظ سے خطرناک ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی تیار شدہ آب و ہوا کی تبدیلی صنعت کی وجہ سے ہے، جیسے کان کنی۔ درحقیقت کان کنی کی بہت سی اقسام یکسر ختم ہو جانی چاہئیں، جیسے باکسائیٹ کان کنی جس کیلئے کثیر پانی درکار ہوتا ہے اور یہی پہاڑوں کے کٹنے کا باعث بنتی ہیں. اس سے بہت سے جنگلات کے نیچے کا پانی کٹ جاتا ہے. مزید خطرناک فضلہ جات جو ان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کافی زیادہ ہیں اور انہیں ٹھکانے بھی صیح طرح سے نہیں لگایا جاتا۔ اندرون اوڈیشہ میں یہ اور بھی مختلف ہےبہ نسبت  ساحلی علاقوں کے. لیکن کان کنی مزید نقصان پیدا کرتی ہے۔
سوال : کیا پیرس معاہدہ کافی ہے ؟ آپ کونسا حل تجویز کرتے ہیں؟
گھوش : شاید ایسا کوئی بھی حل فضائی تبدیلیوں کے لحاظ سے ناکافی ہو۔ لیکن حکومت کو بھی لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ سمندر کنارے آباد افراد کیلئے کسی محفوظ جگہ ہجرت ہی بہترین حل ہے۔ مثال کے طور پر ممبئی کے رہائشی اس کے شدید خطرات میں پھنسے ہوئے ہیں جب سے سمندری سطح بڑھی ہے۔ قرین قیاس ہے کہ شہر کا بہت سا حصہ دوبارہ سمندر میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس کے پورے بھارت پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
نہیں، پیرس معاہدہ ہرگز کافی نہیں ہے۔ چین کے مقابل ہمیں کاربن سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔ جو ہمیں یہاں تک لے کر آئی ہے۔ ہمیں توانائی کے روائتی طور طریقوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ہم پہلے ہی بہت کچھ کھو چکے ہیں۔