موت کا خوف: دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کی سونے کی کان

یاسرچٹھہ

(تحریر و اخذ: یاسر چٹھہ)

نوٹ: اس مضمون کا بیشتر حصہ بوبی عضارئین(Bobby Azarian) کے aeon.com پر شائع شدہ مضمون، بعنوان:

How the fear of death makes people more right-wing

سے اخذ شدہ ہے۔ تاہم مصنف کے اصل متن کے دانشی حقوق محفوظ ہیں۔ مضمون کی موجودہ شکل ادارہ ‘ایک روزن’ کی ملک ہے۔

_____________________________

 

دنیا کے مختلف گوشوں میں دہشت گردانہ حملوں نے دنیا کی طاقتور ترین سمجھی جانے والی قوموں اور ملکوں کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان المیاتی واقعات، ان واقعات سے جنم لینے والے خوف، اس خوف کی کھیتیاں بونے والے، اور مناسب وقت کی آہٹ پانے پر اس خوف سے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے خواب دیکھنے والے چیلوں اور گدھوں جیسے سیاستدانوں کے گھناؤنے افعال و اقوال کے نتیجہ کے طور پر ایک ذہنی کیفیت پیدا ہوئی: اس کیفیت کے زیر اثر اب بہت سارے لوگ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ شاید ایک انتہائی دل دہلانے والا وجودی خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔

مشاہدے میں آنے والے ان معاملات و احوال کو مزید خوفناک نظری جامہ پہناتا ہوا، سماجی نفسیات کا ایک انتہائی اہم اور تجرباتی طور پر تصدیق شدہ نظریہ بھی تو موجود ہے۔ یہ نظریہ کسی تلخ حقیقت کو قیاس کے پردے میں نہیں رہنے دیتا۔ یہ نظریہ اس بات کی پیشین گوئی کرتا ہے کہ جب تک لوگوں کے سروں پر کسی وجودی خطرے کے سائے منڈلاتے رہیں گے، دنیا میں سماجی طور پر تقسیم در تقسیم ہوتے جانے کا عمل جاری رہے گا، اور لوگوں کی جانب سے ایک دوسرے سے معاندانہ رویے رکھنے کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ دہشت کے احساس کو جھیلنے کی تھیوری Terror Management Theory،اس بابت کی وضاحت کرتی ہے کہ کس طرح سے، اور آخر کیوں موت سے متعلق تصورات، ان تصورات سے ابھرنے والی شبیہیں، اور ان شبیہوں سے تشکیل پاتے واقعات لوگوں میں اپنے ثقافتی تصور کائنات و حیات سے سختی سے جڑے رہنے کے عمل کو مہمیز دیتے ہیں: مطلب یہ کہ ان شبیہوں کے زیر اثر لوگ ان افراد کا ساتھ دینے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے ان کی قومی، لسانی، اور سیاسی شناختیں مماثل ہوں (یاد رہے کہ شناخت کبھی بھی واحد نہیں ہوتی، بلکہ شناخت کا تصور، مختلف ذیلی شناختوں کی تکثیریت سے عبارت ہوتا ہے)؛ اس کے ساتھ ساتھ، ان افراد کی اپنی شناختوں سے مختلف شناختیں رکھنے والوں کی جانب شعوری طور پر اور پر زور مخالفت کرنے کا رویہ بھی سامنے آتا ہے۔ یعنی اگر آپ میرے جیسے عقیدے، رنگ، زبان، نسل کے حامل ہوں تو آپ میرے قریب ہیں، میرے دوست ہیں؛ بصورت دیگر آپ میرے دشمن ہیں۔ ایک دوسرے سے برتاؤ میں وہی منحوس ثنویت در آئی ہے، جس کا شکار شدت پسند طبقات و معاشرے اور مذاہب ہمیشہ سے رہے ہیں۔

سماجی حقیقت کو اس ثنویت کی آنکھ سے دیکھنے کے عمل کا ایک واضح نتیجہ سامنے آتا ہے۔ مہلک دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں روز افزوں اضافے سے ایک مرض جیسی نفسیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیت انتہائی درجے کی دائیں بازو کی تحریکوں کی نئی اور تازہ لہروں کے ابھرنے کے لئے بنیاد کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ لہریں ایسی قوم پرستانہ تحریکوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں، جو اپنے آپ سے ہر مختلف شناخت رکھنے والی شخصیت و فرد سے تعصب، عدم رواداری اور معاندانہ برتاؤ کرنے کے رویوں کی آبیاری کرتی ہیں۔

یورپ کے اندر افزائش پانے والی قوم پرستی کی لہر، برطانیہ میں بریکسٹ (برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کا معاملہ) کا وقوع پذیر ہوجانا، اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کرسئ صدارت کا انتخاب جیت لینے جیسے معاملات، دہشت کے احساس کو جھیلنے کے نظریے (TMT,Terror Management Theory) کی عملداری کی دو حالیہ مثالیں ہیں۔

TMT کی تھیوری پہلے پہل، 1980 کی دہائی میں سماجی نفسیات دانوں نے پیش کی تھی۔ یہ تھیوری ان سماجی نفسیات دانوں نے ثقافتی ماہر بشریات، ارنیسٹ بیکر (Earnest Becker) کی پولیٹزر انعام یافتہ، فلسفے اور نفسیات کی بین الکلیاتی مصنفہ کتاب، The Denial of Death جو 1973 میں شائع ہوئی، سے اخذ کی۔

جناب ارنیسٹ بیکر نے جو اہم بات بطور نکتہ پیش کی وہ یہ تھی کہ بندے بشر کے زیادہ تر اعمال موت کے خوف سے جلا پاتے ہیں۔ باقی جانوروں (جن میں شعور اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پست درجے کی ہوتی ہے) کے برعکس، انسانوں میں اپنی موت کے برحق ہونے اور کسی بھی لمحے اس کے آن موجود ہونے کا احساس بدرجہا زیادہ موجود ہے۔ اس احساس سے جو ذہن میں خلفشار پیدا ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی میں زیادہ سے زیادہ جینے کی امنگ سے ایک ایسا شعوری ہیجان ہیجان پیدا ہوتا ہے، جس سے بہت گہری وحشت کا احساس اور ذہنی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ محترم بیکر کے مطابق انسانوں نے کلچر کی ایجاد خوف اور دہشت کے اثر کو کم کرنے کے لئے کی۔ ان ثقافتی تصورات کائنات و حیات، جو زندگی میں قدر کا تصور اور معانی سموتے ہیں، کو اختیار کرنے لینے سے، انسانوں میں اپنے تحت الشعور میں تیرتے خوف سے نمٹنے میں آسانی ہوتی ہے؛ یہ خوف ہر وقت انسانی ذات کی پہنائیوں میں کہیں نا کہیں چھپا موجود رہتا ہے۔

جہاں مذاہب، بعد از موت حیات کے تصور کے ذریعے لغوی معنوں میں حیات ابدی کی صوری سبیل سامنے لا پیش کرتے ہیں، وہاں غیر مذہبی ثقافتی تصورات حیات (مثلا، سیاسی نظریات و قومی شناختیں)، علامتی ابدیت کی راہوں سے روشناس کراتے ہیں۔ علامتی ابدیت سے یہاں مراد، کسے ایسے عظیم تر تشخص اور معاشرتی طبقے یا گروہ سے منسلک ہونا ہے جس کا وجود کسی عام فرد کی نسبت طویل تر دورانیے کا حامل ہو؛ اس کی مثال مشترکہ شناخت اور اکٹھے جدوجہد سے عبارت عظیم قوم، یا بلند تر سر و کار کی حامل کوئی تحریک ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر انسانی مساعی ان کاموں کے سر انجام دینے سے متعلقہ ہوتے ہیں، جن کے بجا لانے سے انہیں اس بات کی بابت امید بندھتی ہو کہ ان کا اپنا قریبی گروہ، یا معاشرہ، ان کی ذات کو بعد از مرگ بھی یاد رکھے گا۔

لا ریب، بھلے جتنی بھی منطقی اور تجسس آفرین کوئی تھیوری دکھائی دے رہی ہو، اگر یہ کسی قسم کی تجربی اور پیمائشی کسوٹیوں کے زیر اثر تصدیق و تردید کے قابل پیشین گوئیاں فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے، تو یہ محض قیاس آرائیوں کا مجموعہ اور خیال بندیوں کی گٹھڑی کے تصور تک ہی محدود سمجھی جائے گی۔ TMT کی تھیوری کی بابت جو بات سب سے دلچسپ ہوسکتی ہے، وہ یہ جاننا ہے کہ اس کی تجربہ گاہوں میں کامیابی کی شرح کس قدر رہی ہے۔ اس متعلق ہم عرض کرتے ہیں کہ سینکڑوں تجرباتی مطالعات نے اس کے مفروضہ برائے اخلاقیاتی اہمیت، morality salience hypothesis، کی تصدیق کرکے اس تھیوری کو توانا بنیادوں پر کھڑا کیا ہے۔

اس مفروضے کے مطابق اگر ہم موت کے خوف کو رفع کرنے کے لئے اپنے ثقافتی تصورات حیات کو عین اسی طرح اختیار کرلیں (جس انداز سے دہشت کے اثر کو جھیلنے کا نظریہ، یعنی TMT باور کرتا ہے)، اس کے نتیجے میں ہمارے تصور اخلاقیات کی بار ہا کی یاد دہانیاں ہم سے ان اعمال کو سر زد کرائیں گی جن کے ضمنی اثر کے طور پر ہمارا پھر سے ان تصورات حیات میں اعتقاد مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اس کنویں سے جس قدر پانی پیو گے، اس قدر پیاس اور اس پر انحصار میں اضافہ ہوگا۔ مختصر طور پر ایسے کہہ سکتے ہیں کہ موت کی بار بار کی چتاؤنیاں، اپنی شناخت کے حامل گروہوں سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے عمل کو بڑھاوا دیتی ہیں؛ اس کو عکسی نظر سے دیکھا جائے تو یہ امواتی یاد دہانیاں یا خطرے کی گھنٹیاں اپنے سے مختلف ثقافتی تصورات حیات، اور قومی یا لسانی تشخص رکھنے والوں کی طرف زیادہ جارحانہ اور معاندانہ رویہ اپناتے جانے پر اکساتی ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ TMT تھیوری کو جگہ جگہ تجربے اور پیمائش کی بھٹی سے گزارا گیا ہے، اس سلسلے میں ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ مطالعہ ایرانی اور امریکی کالج کے طلباء کو زیر تحقیق لا کر جارحیت کے رویہ کی جانچ کے لئے کیا گیا۔ اس مطالعہ میں TMT کے اسی اخلاقیات کی اہمیت کے مفروضہ، morality salience hypothesis، سے مدد لی گئی؛ اس مطالعے سے جو نتائج سامنے آئے وہ پریشان کردینے والے تھے۔

اس تجربے میں شامل طلباء کے ایک گروہ سے کہا گیا کہ “آپ لوگ جسمانی طور پر مرنے کے بعد جب اگلی دنیا میں چلے جاؤ گے، تو تمہارے خیال میں تمہارے ساتھ عمومی طور پر کیا ہونے کی تمہیں توقع یا خدشہ ہے؟”، اور اس ہونی انہونی کے نتیجے میں آپ کے اندر جو جذبات و احساسات پیدا ہوسکتے ہیں، انہیں ضبط بیان و تحریر میں لائیں۔ ان زیر انتظام حالات کے حامل تجربے میں حصہ لینے والے مرد و خواتین سے ان کے فوری احساس کے قریب ترین، دانت کے درد کے متعلق بھی اسی طرح کے سوالات بھی دریافت کئے گئے۔ برآمدی نتائج سے بات سامنے آئی کہ ان ایرانی طالب علموں کو جنہیں موت کے متعلق سوچنے کی حالت کے متعلق فکر کرنے کی ترغیب دلائی گئی، ان کے اندر امریکہ کے خلاف حملہ کرکے شہادت کا درجہ پا لینے کی طرف زیادہ جھکاؤ کا رویہ تھا۔ جبکہ وہ طلباء جو زیر انتظام موجود حالات میں تھے، انہوں نے ان کی مخالفت کی۔ بالکل اسی طرح، ایسے امریکی طلباء جنہوں نے اپنی سیاسی شناخت بطور قدامت پرست کرائی، انہیں موت کی خطرے کی گھنٹیوں نے غیر ملکی اقوام پر زیادہ شدت سے فوجی حملے کرنے کی جانب اکسایا؛ ہر چند کہ ان حملوں میں ہزاروں سویلین ہلاکتیں ہونے کا امکان ہو۔

ان معلومات سے باآسانی باور کیا جاسکتا ہے کہ حملوں کے سایوں کے نیچے زندہ اقوام، کس قدر زیادہ تقسیم کا شکار ہوجاتی ہیں؛ بلکہ ان کے رویے خود سے مختلف اور بیرون سے تعلق والی ثقافتوں کی جانب کس قدر معاندانہ ذہنیت پال لینے والا ہو جاتا ہیں۔ درحقیقت اخلاقی اہمیت کے مفروضے morality salience hypothesis کی بنیاد پر ہونے والی تحقیق اور مطالعات نے باور کرایا ہے کہ اس کے زیر اثر قوم پرستی میں اضافہ ہوتا ہے، اور اپنے سے مختلف گروہوں کی بابت تعصب میں مزید شدت آتی ہے۔

شہادتیں موجود ہیں کہ موت کی چتاؤنیاں، انتخابات کے نتائج تک بھی اثر انداز ہو تی ہیں؛ یہ رائے دہندگان کو انتہائی دائیں بازو کے خیالات کے حامل امیدواروں کو ووٹ دینے پر اکساتی ہیں۔ 2004 کے امریکی صدارتی انتخابات سے پانچ ہفتے قبل کچھ ماہرین نے امریکی ریاست نیو جرسی کے رہائشی رائے دہندگان پر ایک تحقیقی مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کا مطمح نظر اس بات کی جانچ کرنا تھا کہ آیا موت کی چتاؤنیاں ان کی رائے دہندگی کے رویے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔

تحقیق کے شرکاء کو موت کے متعلق انہی سوالوں کا ایک مجموعہ دیا گیا جو ایرانی طالب علموں سے متعلق متذکرہ تحقیق میں دیئے گیا؛ جبکہ ان شرکاء میں سے جو زیر انتظام حالات میں موجود تھے، ان سے ٹیلی ویژن دیکھنے کے متعلق متوازی سوالات بھی کئے گئے۔ اس مطالعاتی تحقیق سے جو معلومات سامنے آئیں، وہ بڑی چشم کشا تھیں۔ تحقیقی مطالعے کے ان شرکاء، جنہیں اپنی موت کے متعلق سوچنے کی ترغیب دی گئی تھی، نے کہا کہ ان کی جانب سے جارج بش جیسے سخت گیر اور جنگجو ذہنیت کے امیدوار کو تین اور ایک کے فرق سے ووٹ دینے کا ارادہ ہے؛ البتہ وہ شرکاء جنہیں ٹیلی ویژن کے متعلق غور سے سوچنے کی رغبت دلائی گئی تھی انہوں نے بائیں بازو کے مقابل امیدوار، جان کیری کی زبردست حمایت کا عندیہ دیا۔ اس طرح کے نتائج ہمیں اس جیسی چیزوں کی تشریح و وضاحت میں کافی مدد دے سکتے ہیں کہ آخر کیوں جارج بش جیسے تاریخی طور پر انتہائی غیر مقبول رہنما کو 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس، ہر دو جانب سے، بہت زیادہ پذیرائی ملی۔

تو ان سب معاملات کا آج کل کی دنیا کے لئے کون سے معانی و مفاہیم ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انتہائی تباہ کن دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو TMT کے نظریے کی پیشین گوئی کے مطابق معاشرے بہت زیادہ تقسیم و خلفشار کا شکار ہو جائیں گے۔ اپنے سے مختلف دکھائی دینے والوں افراد و شخصیات کے خلاف بڑھا ہوا جارحانہ رویہ، امن کی نسبت جنگ کرنے کو فوقیت دینے کی نفسیات کو پروان چڑھاتا ہے۔ دائیں بازو کی قوم پرستی؟ تعصب اور عدم رواداری کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے گی۔ اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی حملوں کی تعداد کے بڑھنے سے مزید افزائش پائے گی۔ قوموں اور لسانی، نسلی اور سیاسی گروہوں کے درمیان بڑھتے تناؤ کی کیفیت مزید تنازعات کی طرف لے کر جائے گی۔ جس سے ایک تباہ کن قسم کا شکوک و شبہات اور تشدد سے عبارت فیڈ بیک ملنے کا خدشہ ہے۔

تاہم یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ان مشکل وقتوں میں بھی امید کا دامن نا چھوڑیں۔ اشتعال دلانے والے اور تقسیم در تقسیم پیدا کرتے ہوئے دکھائی دینے والے وجودی خطرات، اور موت کی چتاؤنیوں کے مخفی خطرات سے آگاہ ہونے کے باوصف ہم ان سے مامون و محفوظ رہنے کے لئے کسی حد تک اقدامات کر سکتے ہیں۔ پر دہشت گردی کے حملے کے بعد ہمیں سرعت و پھرتی سے مختلف ذیلی قومیتوں، لسانی و نسلی گروہوں اور ثقافتی تصورات حیات کے حاملین میں اتفاق کی فضا قائم کرنے میں لگ جانا چاہئے۔

ہم پر اختلافی نکتہ ہائے نظر کی حامل معاشرتی اکائیوں کے درمیان پلوں کا کردار ادا کرنے، اور مہاجرت کے امتناع جیسے خیالات کی حوصلہ شکنی کرنا فرض پے۔ ہمیں ان سیاستدانوں، جو خوف کی کھیتیاں بونے اور پروپیگنڈہ کا سہارا لے کر اپنے لئے ووٹوں کا انتظام کرتے ہیں، کے ہتھکنڈوں سے آگاہ اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پر سکون اور ٹھنڈے دل و دماغ سے بھرپور یہ کوششیں، مر جانے اور بے نام و نشان ہو جانے کی دہشت کے خلاف ان طریقوں سے ڈھال بن سکتی ہیں جن سے عقل و فہم، ہمدردی و انسیت اور امن کی راہیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔