130, 1122 اور موٹر وے پولیس: ہمارا اصل چہرہ

فیاض ندیم

تربیت کے exchange پروگرامز میں اگر آپ کو حصہ لینے کا اتفاق ہوا ہے تو یقیناََ آپ کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ یہ پروگرامز مختصر دورانئے کے ہوتے ہیں اور آپ کو نہ صرف اپنی پیشہ وارانہ فیلڈ میں اپنا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے، بلکہ آپ کومختلف لوگوں، ثقافتوں ، رویوں اور تہذیبوں کے درمیان رہ کر ایک دوسرے کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں یا خوش فہمیوں وغیرہ کا ازالہ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ان پروگرامز کو اس طور پر ترتیب دیا جاتا ہے کہ آپ مختصر وقت میں میزبان ملک کی کچھ اہم بنیادی اقدار کے بارے کافی حد تک جان لیتے ہیں، جو دوسرے حالات میں شاید وہاں برسوں رہ کر بھی نہیں جان سکتے۔ مجھے خوش قسمتی سے چند ایک ایسے پروگرامز میں شرکت کا موقع ملا ہی جن کی وجہ سے مجھے اپنے میعارات کو مہذب دنیا کے اندر سمجھنے میں مدد ملی۔ چند برس پہلے ایک ایسے ہی پروگرام میں مجھے اساتذہ کے ایک گروپ کے ساتھ جاپان جانے کا موقع ملا۔ جاپان ایک نہایت خوبصورت ، صاف ستھرا اور مہذب ملک ہے۔ جاپانی ملنساری اور ادب و آداب کے لحاظ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اس پروگرام کے دوران مجھے ایک جاپانی فیملی کے ساتھ اُن کے گھر میں تین دن تک قیام کرنا تھا۔ اس کا مقصد وہاں کی خاندانی زندگی، ان کی معاشرتی اقدار اور آپسیں تعلقات کے بارے عملی تجربہ حاصل کرنا تھا۔ یہ قیام نہایت ہی مفید اور تحیرات سے مزیّن تھا۔ اس میں شادیوں سے لے کر چھوٹے بچوں سے متعلق تقریبات کا اہتمام اور ویک اینڈز پر سیرو تفریح کے معمولات اور تفصیلات کا احاطہ بھی تھا۔ اسی فیملی کے ساتھ قیام کے دوران ایک دن ہمیں یاماگوچی سے میاجیما جانا تھا۔ میاجیما ایک انتہائی خوبصورت جزیرہ ہے ۔ یہاں کی خاص بات ہرن اور شنتو مذہب کے ماننے والوں کی درگاہ ہے جس کی عمارت قابلِ دید ہے۔ miyajimaیاماگوچی اور میاجیما کا فاصلہ 120 کلومیٹر ہے اور ہیروشیما جانے والی ہائی وے اس کا راستہ ہے۔ میاجیما سے واپسی غروبِ آفتاب سے کچھ دیر بعد ہوئی۔ یہاں سردیوں کی راتیں نہایت یخ ہوتی ہیں اور سڑکوں پر رات کے پہلے پہروں میں کافی رش رہتا ہے۔ بد قسمتی سے ایک گھنٹہ سفر کے بعد ہماری گاڑی کا انجن گرم ہوکر بند ہوگیا اور ہم سفر جاری رکھنے کے قابل نہ رہے۔ میرے میز بانوں نے ایمرجنسی سروس کو فون کیا، اپنے مقام سے آگاہ کیا اور صورتِ حال کی تفصیل بتائی۔ ایمر جنسی سروس کی طرف سے گاڑی کو انتہائی بائیں جانب روک کر انتظار کرنے کا کہا گیا اور یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ گاڑی کے اندر ہرگز نہ بیٹھیں، کیونکہ ہائی وے پر تیز رفتار ٹریفک کی وجہ سے کوئی بھی نا گہانی صورتِ حال پیش آ سکتی ہے۔ لہٰذا ہم سرد رات میں سڑک کے کنارے کھلے آسمان تلے انتظار کرنے لگے۔ میرے میزبانوں میں میاں ، بیوی اور ان کے دو بچے جن کی عمریں 5 اور 7 سال تھیں شامل تھے۔ سردی کے باعث بچے شدید تکلیف میں تھے اور دونوں میاں بیوی نے اپنی جیکٹس اتار کر بچوں کو اوڑھا دی تھیں اور میں بصد اصرار کے بھی اپنی جیکٹ اُن کو دینے میں ناکام رہا، کیونکہ میں مہمان تھا۔ کوئی 40 منٹ گزرنے کے بعد میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ آپ دوبارہ فون کریں، ہو سکتا ہے رات کے وقت  وہ بھول گئے ہوں۔ لیکن میرے میزبانوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہمارے ہاں ایمرجنسی کافی زمہ داری سے کام کرتی ہے، ہوسکتا ہے کسی اور جگہ پہنچناہم سے زیادہ ضروری ہو۔ ہمیں انتظار کرنا ہے، ہماری درخواست نوٹ ہو چکی ہے، مدد لازماََ پہنچے گی۔ دیر ہو سکتی ہے لیکن لاپرواہی ہرگز نہیں ہوگی۔ تقریباََ 55 منٹ کے بعد ایمر جنسی والوں کا گروپ آیا۔ وہ ہر قسم کے ٹریفک کے دوران پیش آنے والی ایمرجنسی اورمشکلات کے حل کے سامان سے لیس تھے۔ جس میں مختصر سی ورکشاپ، لوڈر ٹرالر اور مستری وغیرہ شامل تھے۔ انہوں نے سڑک پر تمام گاڑیوں کے گرد ایمرجنسی روشنی کے الاؤ روشن کئے اور ہماری گاڑی کا معائنہ کرنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ گاڑی اب چلنے کے قابل نہیں رہی۔ لہٰذا اسے نزدیکی ورکشاپ میں منتقل کیا جائے گااور ہمارے لئے قریبی اسٹیشن سے ایک ٹیکسی کا انتظام کر کے ہمیں روانہ کر دیا گیا۔ میرے میزبانوں نے بتایا کہ اب گاڑی بے کا ر ہوچکی ہے اور انہوں نے اگلے دن ہی نئی گاڑی خرید نے کا پروگرام بنا لیا۔ ہم کوئی رات  ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچے۔ بچے اور دونوں میزبان سردی سے ٹھٹھر چکے تھے اور میری حالت بھی ناقابلِ بیان حد تک سرد ہو چکی تھی۔

اُس وقت میں اس طرح کی ایمرجنسی سروسز کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ کیونکہ ہمارے یہاں نہ تو ویسا پروفیشنل عملہ مہیا تھا، نہ سہولیات اور نہ ہی ویسا جزبہ موجود تھا۔ اس طرح کی سروسز بھی دیگر اداروں کی طرح کام چور ملازمین، بددیانت افسروں اور مہارتوں سے بے بہرہ ورکرز پر مشتمل تھیں۔ کسی بھی ایمرجینسی کی صورت میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی کام کر لیا کرتے تھے یا زیادہ تر ایمر جنسیسز المیوں کی صورت اختیار کر لیتی تھیں۔ میرا اس سارے واقعے کی تفصیل بتانے کا مقصد اس خوشی کا اظہار کرنا ہے کہ اب ہمارے ہاں بھی سست رفتاری سے ہی سہی، لیکن بہترین قسم کی پیشہ وارانہ سروسز اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہیں۔ اور میں اپنے زاتی تجربات کی روشنی میں بڑے وثوق سے دعویٰ کر سکتا ہوں کہ ہمارے ہاں ان سروسز کا میعار اور پیشہ وارانہ صلاحیت، جاپانی مذکورہ سروسز سے کہیں بہتر ہے۔ اور ہمارے ہاں پروفیشنلزم کے ساتھ ساتھ انسانوں سے محبت اور لگاؤ کا جذبہ مہذب ممالک کی محض پیشہ وارانہ وابستگیوں سے بہت موثر اور تکلیفوں کے ازالے کی کہیں بہتر صلاحیت کا حامل ہے۔

گذشتہ ماہ ایمر جنسی میں مجھے اسلام آباد سے شورکوٹ کا سفر درپیش ہوا۔ میں اپنے ایک دوست اور بھانجے کے ہمراہ براستہ موٹر وے عازمِ سفر ہوا۔ میرا دوست کار چلا رہا تھاکہ فیصل آباد اور گوجرہ کے درمیان ہماری گاڑی کا پچھلا ٹائر برسٹ ہوا، گاڑی بے قابو ہوکر موٹر وے سے نیچے کود گئی۔ موٹر وے کا مذکورہ حصہ اپنے ڈیزائن میں کافی بلند سطح بنایا گیا گیا۔ تیز رفتاری اور سڑک کی بلندی کی وجہ سے مو ٹروے سے اترتے ہی گاڑی دو تین کلا بازیاں کھا گئی اور موٹروے سے نیچے کافی دور تک گئی۔ گاڑی بالکل تباہ ہوگئی اور خوش قسمتی سے ہم تینوں خطرناک چوٹوں سے محفوظ رہے۔ لیکن اتنی چوٹیں ضرور آئیں کہ ہم بمشکل گاڑی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ موٹر وے پر مہیا کیے گئے ایمرجنسی نمبر 130 پر فون کیا اور مدد کا انتظار کرنے لگے۔ بمشکل 5 سے 7 منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک بہترین ایمبولینس کے ساتھ مستعد جوان موٹر وے پولیس کے ہمراہ حاضر تھے۔ پولیس کے مختصراََ کوائف کے اندراج کے بعد انہوں نے ابتدائی ضروری طبی امداد دے کر ایمبولینس کے زریعے سرعت کے ساتھ گوجرہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں منتقل کیا۔ یہ ایمبولینس فرسٹ ایڈ کی بہترین ایکویپمنٹ سے لیس تھی اور راستے میں بھی ان جوانوں نے ہمیں کسی بھی تکلیف سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا کر انہوں نے بغیر کسی دیر کے ڈاکٹرز کو engage کیااوراس وقت تک ہمارے ساتھ رہے جب تک کہ میرے بڑے بھائی وہاں نہیں پہنچ گئے اور ہم نے انہیں اجازت نہیں دے دی۔ ambolanceموٹر وے پولیس نے ہماری گاڑی کو اپنے سینٹر پر پہنچا کر ہمیں فون کیا کہ آپ کی گاڑی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اس میں آپ کی فلاں فلاں چیزیں موجود ہیں۔ جب بھی آپ لوگوں کو آسانی ہو ہم سے اپنی گاڑی اور اشیاء وصول کر لینا۔ یہ مدد اس قدر بروقت، مناسب اور پر خلوص تھی کہ ہماری تکلیف ان کے رویے سے ہی آدھی رہ گئی۔

اسی طرح گزشتہ دنوں اسلام آباد میں میرے ایک دوست کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ سیکٹر F-6میں ایک ٹیکسی والے نے ان کے موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی۔ میرا دوست شدید زخمی ہوگیا۔ وہاں موجود کچھ لوگوں نے 1122 سروس کو کال کی۔ اس سروس کی گاڑی 10 منٹ کے اندر اندر جائے وقوعہ میں آن موجود ہوئی۔ دوست کو ایمبولینس میں ڈال کر پمز ہسپتال منتقل کیا اور وہاں پوری زمہ داری کے ساتھ اس وقت تک ساتھ رہے جب تک کہ تسلی نہیں ہو گئی کہ بات خطرے سے باہر آ گئی ہے۔ اگر دوست کو یہ مدد بر وقت نہ ملتی تو حالات خطرناک بھی ہو سکتے تھے۔

میرے یہ سب لکھنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ بتانا کہ اگر نیتیں صاف ہوں تو ہمارے پیشہ وارانہ رویے اور صلاحیتیں بین الاقوامی میعارات سے بھی بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے یہاں فیملی سسٹم مضبوط ہونے کی وجہ سے لوگوں میں ایک دوسرے سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ دوسری قوموں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے جو اپنائیت ہے وہ کہیں دِ کھنے میں نہیں ملتی۔ لہٰذا اگر یہاں پر مناسب ٹریننگ ہو، پیشہ وارانہ رویوں کی اہمیت کا پتہ ہو اور دیانتداری ہو تو ہم کاروبار میں، خدمات میں، تعلقات میں ایک بہترین قوم ہیں۔ ایک دوسرے سے بہت انس رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم اپنے بھائی کے دکھ میں اگر شریک ہو جائیں تو اسے اپنا دکھ سمجھ کر اس کا ساتھ نبھاتے ہیں، دفتروں میں دوسروں کی مشکلات میں مدد کرنے کو نیکی سمجھتے ہیں اور نہایت خلوص کے ساتھ سائل کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن اگر ٹریننگ کا فقدان ہو، نیتوں میں بددیانتی ہو تو ہم اپنے پیشے سے غدداری کرتے ہیں۔ دوسروں کی مشکلات کا فائدہ اُٹھاکر ان کی جیبوں پر ڈاکہ زنی کرنے سے بھی بعض نہیں آتے بلکہ اسی ڈاکہ زنی میں آسانی پیدا کرنے کے لئے سائلوں کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

اس مضمون کا دوسرا مقصد 130 اور 1122 ایمرجینسی سروسز اور موٹر وے پولیس کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔ یہ سروسز اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ اس معاشرے کے اندھیروں میں روشنی کے منارے ہیں اور صبح کی امیدیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ آپ ہیں۔ آپ ہمارے لئے دنیا میں فخر کی علامت ہیں۔ جب دنیا میں اچھی قوموں کی لسٹ بنائی جائے گی تو آپ لوگوں کی وجہ سے ہمیں بھی عزت کا مقام ملنے کی توقع ہے۔

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔