غلامی کب ختم ہوئی ہے: گلیڈییٹر کا میدان اور تماشائی

غلامی کی تصویر

( فارینہ الماس )

غلامی کا تذکرہ ہو تو روم کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔جہاں چار صدیوں تک انسانیت غلامی کا طوق پہنے سسکتی اور لرزتی رہی ۔ان چار صدیوں تک تقریباً آبادی کا ایک تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل رہا۔ کروڑوں عورتیں،بچے اور مرد ہر طرح کے انسانی حقوق سے یکسر عاری دکھائی دیتے ہیں، جنہیں انسان تو کیا جانور کا درجہ دیا جانا بھی محال تھا۔ انہیں انتہائی وحشیانہ اور سفاکانہ سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ۔جب جنگوں میں پکڑے جانے والے یا اپنا قرض نہ اتار پانے والے غلاموں کو بادشاہوں کی تفریح طبع کی خاطر وحشی درندوں کے آگے ڈال دیا جاتا۔

غلامی کا تذکرہ تو یونان کے ذکر کے بغیر بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ جہاں ہیلوٹس طبقہ غلاموں پر مشتمل ہوتا تھا وہ طبقہ جس کے پاس اپنی غربت و مفلسی میں لئے گئے قرضوں کے عوض اپنی جان اور عزت رہن رکھوانے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تھا ۔تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب محض ایتھنز میں دوہزار شہری اور تقریباً پانچ لاکھ غلام پائے جاتے تھے۔دنیا غلامی کی طویل تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ اہرام مصر کی تعمیر میں ہزاروں غلاموں کے حصہ لئے جانے کی کہانی بھی درد اور کرب سے بھری ہوئی ہے۔یوں تو تمام اہل مصر ہی فرعون کے غلام سمجھے جاتے تھے لیکن جبری مشقت کے زمرے میں آنے والے یہ غلام وہ تھے جو روزانہ کئی کئی ٹن وزنی پتھر اٹھا تے اور ان میں سے کئی غلام مذدوران کے بوجھ تلے دب کر ہی مر جاتے۔

قدیم ہندوستان میں غلامی کو نچلی ذات کے ہندوؤں کے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔آواگون کے عقیدے کے مطابق غلام ہونا دراصل انسان کے پچھلے جنم کے گناہوں کا نتیجہ تھا۔عرب میں غلام کا مطلب ایک جانور سے بھی بدتر تھا۔ان کی خرید وفروخت کے لئے باقاعدہ منڈیاں سجائی جاتیں۔یہاں روم،عراق اور شام سے غلام لائے جاتے۔لونڈیوں کا جنسی استحصال ایک معمول کی بات تھی ۔آقا نہ صرف لونڈی کو جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتا بلکہ یہ بھی اس کی ہی صوابدید پر تھا کہ چاہے تو ان سے عصمت فروشی کا کام لے کر آمدنی بھی حاصل کرلے۔

بعدازاں اسلام کی آمد کے بعد وہ غلامی جو عربوں کی معاشرت کا ایک اہم حصہ تھی اس کے تصور کو بدلا گیا ۔اب غلام صرف جنگی قیدیوں کو بنایا جاتا تاکہ ان کو معاشی و معاشرتی تحفظ حاصل ہو سکے۔ان سے اچھے سلوک کی تلقین کی گئی اور غلاموں کو آزاد کرنا سب سے بڑی نیکی گردانی گئی۔مسلمانوں کو مختلف گناہوں کے کفارے کے طور پر غلام آذاد کرنے کی ترغیب دی گئی۔ لیکن غلامی کا رواج دنیا سے کبھی ناپید نہ ہو سکا ۔

1619 ء میں شمالی امریکہ کی ریاست ورجینیا میں افریقی غلام لائے گئے اور انہیں تمباکو کی فصل کی کاشت پر لگایا گیا ۔تاکہ امریکہ کی معیشت کو مضبوط بنانے میں ان غلاموں کی محنت سے فائدہ اٹھایا جائے۔نو آبادیاتی نظام میں غلاموں سے جبری مشقت اٹھانے کے لئے انہیں حکمران ملکوں میں لے جایا گیا۔آج بھی غلامی انسانی تجارت کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔

ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ تقریباً پوری دنیا میں تقریباً تین کروڑ سے زائد افراد باقاعدہ جسمانی طور پرغلام ہیں۔غریب لوگوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے اچھی ملازمتوں کا لالچ دے کر یورپ لے جایا جاتا ہے اور وہاں جبری مشقت میں ڈال دیا جاتا ہے۔اس طریقے سے تقریباً بیس ملین لوگ ٹریپ ہو رہے ہیں ۔جرمنی بھی ایک ایسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں جنسی کاروبار ،تعمیراتی صنعت اور گھریلو ملازمت کے لئے غلاموں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔دراصل یہ وہ غلام ہیں جو غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے ہیں اور غلام بنا دئے گئے ہیں۔ جو اپنے استحصال کے خلاف اس ڈر سے آواز نہیں اٹھاتے کہ وہ قانون کے نرغے میں آجائیں گے ۔اس طرح کی غلامی کو اب slave trade industry کا نام دیا جاتا ہے۔

انڈیا جبری مشقت لئے جانے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد جبری غلامی پر مجبور ہیں ،چین تیس لاکھ افراد کے ساتھ دوسرے اور پاکستان اکیس لاکھ غلاموں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔پاکستان جیسے ملکوں کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں آقا بھی اپنے ہیں اور غلام بھی اپنے۔یہاں زراعت اورقالین سازی کے شعبوں کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں بچوں سے جبری مشقت لینے کے علاوہ جس شعبے میں سب سے زیادہ انسانی استحصال کیا جا رہا ہے وہ ہے جلتی بلتی دھوپ تلے ،آگ کے سلگتے انگاروں میں مٹی کی گندھی اینٹوں کو اپنے کھردرے،اور آبلوں سے ڈھکے ہاتھوں سے کھنکتے ،چمکتے رنگدار وجود دینے والے لوگ۔مٹی کے اس بے رنگ ڈھیلوں کو سنوارنے ،سجانے اور ان کا رنگ بدلنے کے اس عمل میں ان کے وجود کے اپنے رنگ تو کہیں کھو ہی جاتے ہیں۔

یہ ایسے دہکان ہیں جو جاں کاہی کے عزاب سے چپ چاپ دن رات نپٹتے چلے جاتے ہیں بنا یہ جانے کہ ان کے ہاتھ کی بنی یہ اینٹ کہاں جا کر کس درز کو بھرے گی،وہ مسجد میں لگے گی یا کسی چرچ کی عمارت میں ،وہ کسی مزار پہ جڑے گی یا کسی قبر پر،وہ کسی نائیکہ کے کوٹھے کی زینت بنے گی یاکسی غریب کی چھت کو ڈھکے گی ۔ اسے تو بس یہ پتا ہے کہ یہ بنے گی تو اس کے اور اس کے بچوں کے پیٹ میں روٹی جائے گی۔ شہروں سے دور دراز اجاڑ رستوں پر کھلے آسمان تلے انگارے اگلتے سورج کی جان لیواتپش کی پروا کئے بغیر یہ خاندان کے خاندان اپنے بچوں ،بوڑھوں،جوانوں اور عورتوں سمیت بنا کسی آرام کے دن کے 16,16گھنٹے اس مشقت کو سہتے ہیں وہ جھلستی گرمی میں بھی دھوپ اور گرمی کی ہی دعا کرتے ہیں کیونکہ اسی سے ان کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے ۔پھر بھی دن میں ایک ہزار بننے والی اینٹ جسے مالک چھ ہزار یا سات ہزار روپوں کے عوض بیچتا اور سرمایہ بناتا ہے اسی ایک ہزار اینٹ کا ایک مزدور کو صرف تین سو یا چار سو روپیہ اور بہت سے بھٹوں پر محض دو سو روپیہ ملتا ہے ۔بیماری ،بچے کی شادی ،یا خاندان میں ہونے والی مرگ کے اخراجات اٹھانے کے لئے ان مزدوروں کو مالکان سے بھاری سود پر قرض اٹھانا پڑتا ہے ۔وہ قرض جس کی عموماً کوئی لکھت پڑھت بھی نہیں ہوتی کیونکہ تمام مزدور نسل در نسل جہالت کے اندھیرے چاٹتے چلے آئے ہیں ۔اس رقم پر سود کتنا طے ہوا ہے اور یہ کب ،کس مہینے ،کس حساب سے چکتا ہو گا یہ انہیں معلوم ہی نہیں۔ان کا تمام تر حساب کتاب ٹھیکیدار کے بہی کھاتوں میں درج ہے جو کبھی بھی چکتا نہ ہو گا بلکہ ہر مہینے سود کی رقم بڑھتی ہی جائے گی ۔اور اس طرح چند روپوں کا قرض کئی لاکھوں پر چلا جائے گا۔

اب ایک مزدور جو دیہاڑی کے چار سو یا دو سو روپے وصول کر رہا ہے اس کا دو سو یا ایک سو روپیہ تو سود میں کٹ جائے گا تو وہ کیسے گزارہ کرے گا ۔ابھی کہانی کا درد یہیں ختم نہیں ہوتا ۔اسے اپنے گھرانے کو زندہ رکھنے کے لئے سب کو ہی دیہاڑی پہ لگانا ہو گا ،اس کی بیوی،اس کی بیٹی ،اس کے بیٹے اور کبھی کبھی تو ماں باپ بھی ۔اس کی نسلیں ختم ہو جائیں گی لیکن اس کا قرض کبھی نہ اترے گا ۔یہ ہے وہ جبری مشقت جو اس کا نصیب بنا دی جاتی ہے ۔وہ غلام ہے ۔۔اس کی پوری نسل غلام ہے ۔وہ غلام ہی مر جائیں گے ایسے حالات میں جب گٹر کے گارے یا پانی میں مٹی کو گوندھنا پڑتا ہے۔جہاں کسی بیماری میں آرام کا کوئی تصور ہی نہیں ،جہاں علاج معالجے کی کوئی سبیل ہی نہیں کوئی کتنی زندگی جی لے گا ،بمشکل پینتیس سال یا حد ہے کہ چالیس یا پینتالیس سال ۔اگر ان سے مل کر انہیں دیکھا جائے تو پینتالیس سال کا شخص بھی ساٹھ یا ستر سال کا دکھائی دیتا ہے۔ایسی جھلسی ہوئی اور رگیدے کھاتی ہوئی زندگی لمبی ہونی بھی نہیں چاہئیے۔کیا کرے گا وہ اس زندگی کا جس میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم بھی نہیں دے پائے گا ،جس میں وہ اپنے ماں باپ کی کوئی آرزو بھی پوری نہ کر سکے گا ،جس میں جب چاہے مالکان اس کی بیٹی کو یا بیوی کو اٹھا کر لے جائیں اور وہ قانون کا دروازہ بھی کھٹکٹا نہ سکے گا کیا کرے گا اس زندگی کا۔ یہ کہانی اس ملک کے تقریباً پندرہ ہزار بھٹوں پر کام کرنے والے اٹھارہ ہزار مزدوروں کی ہے ۔وہ مزدور جو بھٹے کے گردا گرد ان کی مفلسی اوربے بسی کا منظر پیش کرتی جھگیوں کے مکین ہیں جو تمام نسل قربان کر کے بھی اپنا ایک گھر نہیں بنا سکتے۔وہ اپنی مرضی سے کام چھوڑ بھی نہیں سکتے اور کب مالکان انہیں کسی دوسرے بھٹے پر فروخت کر دیں وہ اس سے بھی نابلد ہیں۔

گو کہ پاکستان کے آئین میں جبری مشقت کے کلاف قوانین موجود ہیں لیکن یہ قوانین طاقتور سرمایہ داروں کی طاقت کے آگے ہیچ ہیں۔ یہاں قانون کو نافذ کرنے والے بھی ان طاقتوروں کے زر خرید غلام ہیں۔خود حکومت اور این ۔جی۔اوز بھی ان قوانین پر عمل درآمد کروانے میں بے بس ہیں۔یہ جبری مذدور جن کا ستر فیصد حصہ مسیحی برادری سے تعلق رکھتا ہے ، وہ جنہیں ہمارا معاشرہ ویسے بھی انسان تک سمجھنا گوارہ نہیں کرتا ۔حکومت ان بھٹوں اور بھٹہ مزدوروں کو رجسٹر کروانے میں بھی بے بس ہے۔ بہت کم بھٹے ایسے ہیں جنہوں نے خود کو رجسٹرڈ کروارکھا ہے۔ اور اگر وہ رجسٹرد ہیں تو ان کے ملازمین رجسٹرڈ نہیں ۔

ایک بھٹے پر اندازاً ایک سو پچاس مذدور کا م کرتے ہیں جن کی بہت کم تعداد رجسٹرڈ ہوتی ہے ۔باقی لوگ ٹھیکیدار کے زریعے کام کرتے ہیں ۔اس طرح ان کی رجسٹریشن نہ کر کے انہیں ضروری قانونی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ان کی رجسٹریشن کے لئے ان کا شناختی کارڈ بھی ضروری ہے اور شناختی کارڈ کے لئے ان کے پاس نہ تو ان کی پیدائش کی کوئی سند موجود ہے اور نہ ہی کوئی دوسری ضروری دستاویز۔انہیں تو خود بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کب اور کس مقصد کے لئے اس سنگدل دنیا پر آئے۔بس اتنا یاد ہے کہ وہ غلام ہیں ۔۔۔غلام ابن غلام ۔

ایسے بھٹہ مالکان بھی ہیں جو جبری مشقت کرنے والوں کے بھاگ جانے کے ڈر سے انہیں بھاری بھرکم زنجیروں میں جکڑ کر رکھتے ہیں ۔ان کے ایسے باغی غلاموں کے لئے نجی عقوبت خانے بھی ہیں جہاں انہیں انتہائی سفاک طریقوں سے سزا دی جاتی ہے ۔ایسے وحشی درندوں کا اس ظلم کا یہ سارا نظام چلانے کے لئے ان کے ذاتی غنڈوں کا ایک جتھہ بھی ہر وقت موجود رہتا ہے جو ان غلاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ ابھی دنیا کو ایسے ہی ایک بھٹے پر نوجوان عیسائی جوڑے کے زندہ جلائے جانے کا واقعہ بھی بھولا تو نہیں جو محض اس وجہ سے اس عبرتناک انجام سے دوچار کیا گیا کہ اس نے مالکان سے کچھ رقم ایڈوانس پکڑ رکھی تھی ۔اس دوران مالک کی کوشش تھی کہ اس جوان لڑکی کو اس کے شوہر سے طلاق دلوا کر اسے مسلمان کر کے خود اس سے بیاہ رچائے۔ اسی خوف سے وہ جوڑا اس بھٹے کو چھوڑنا چاہتا تھا لیکن ان کی اس کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر توہین کا الزام لگا کر انہیں زندہ اسی بھٹے کے انگاروں میں دھکیل دیا گیا۔یہ اور ایسی کئی کہانیاں ہیں جن پر انسان کی وحشت اور بربریت کی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

ان کہانیوں کے کچھ ایسے بھی کردار ہیں جو ایسی بھیانک زندگی کا خود اپنے ہاتھوں خاتمہ کر لینے ہی کو اپنی نجات بنا لیتے ہیں ۔ اکثر کسی دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہوئے گاڑی کی کھڑکی سے کوئی دور کے چلتے ہوئے منظر میں دکھائی دینے والا بھٹہ نظر کے سامنے آجائے تو روم کا وہ میدان نظروں کے آگے گھوم جاتا ہے جس میں غلاموں کو وحشی درندوں کے آگے ڈال دیا جاتا تھا ۔۔۔میدان کے چاروں طرف مفت کا یہ تماشہ دیکھنے والے تماش بین ڈھیروں تالیاں بجا کر اس تماشے کو مذید دلچسپ بناتے دکھائی دیتے ہیں وہ تماشائی جن کا کردار آج ہم پڑھے لکھے ،اپنے تئیں باشعور لوگ ، انسانیت کا نام لیتے نہ تھکنے والے لوگ نبھا رہے ہیں ۔اور بادشاہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے جاہ و جلال کو قائم و دائم رکھے ان نوچے جانے والوں اور ان کے لوتھڑے اڑاتے سفاک درندوں کے تماشے کو مسکرا مسکرا کر ، ایک فاتحانہ انداز سے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔اس سے بڑی تفریح بھلا کیا دے سکے گا وہ اپنی پرجا کو۔