تہذیب بولتی ہے: دریا اور انسان کا مُکالمہ

انسان اور ثقافت

(ذوالفقار علی)

دریا: آئے آدم کی اولاد مجھ پر رحم کر۔
انسان: رحم جذباتی نعرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا میں سرمایہ دار ہوں میرا جذبات سے کیا لینا دینا۔
دریا: مگر جو تو کر رہا ہے وہ جذبات سے ہٹ کر عقل کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔
انسان: مجھے میرے مفادات عزیز ہیں اور میں اپنے نفع و نقصان کو اچھی طرح جانتا ہوں۔
دریا: کاش تو جانتا ہوتا۔ ہر چیز کو مفاد کی عینک سے نہ دیکھو کچھ چیزیں مفادات سے مبرا بھی ہوتی ہیں۔
انسان: ایسا تو سوچتا ہے میں نہیں سوچ سکتا۔
دریا: تو اس کا انجام بھی جانتا ہے؟
انسان: تُم کس حیثیت سے مجھے انجام سے خبر دار کر رہے ہو؟
دریا: میں اپنا پُرانا تعلق نبھا رہا ہوں۔ تیرے پُرکھوں سے میری روح کا ناتا رہا ہے ۔لاکھوں سالوں سے تیری نسل میرے کناروں پے بسی ہے۔ میں بہت سی تہذیبوں کا امین ہوں۔ میری آنکھوں نے وہ سب دیکھا ہے جو تونے نہیں دیکھا۔
انسان: میں ماضی میں زندہ نہیں رہتا میں جدید دنیا کا باسی ہوں مجھے اپنے حال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے تاکہ مستقبل کے خوابوں کو عملی جامہ پہنا سکوں۔
دریا: یہ تو اچھی بات ہے مگر تیرے عمل میں حکمت نہیں ہے۔
انسان: ہاہاہا۔۔اپنی حکمت سے میں نے تجھے قابو کیا ہے، تیرے سینے میں چھپے خزانوں کو نکالا ہے، تیرے پانیوں پہ کشتیاں اور جہاز دوڑائے ہیں۔ اپنی مرضی سے تجھے سدھایا ہے۔ اس سے بڑی دانائی اور کیا ہوگی؟
دریا: تُم میری بات کو یوں نہیں سمجھو گے جب تک تو تہی دامن نہیں ہو گا۔اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہیں جب تیرے پاس خوشی نہیں رہے گی، تو فریاد کریگا مگر تجھے تیری آواز لوٹا دی جائیگی، تیری آنکھیں وہ منظر ڈھونڈیں گی جن کا ذکر تیرے شاعروں نے کیا مگر تیرے چار سو ویرانی کے سوا کچھ نہیں ہوگا، تو اپنے اندر کے صحرا میں ہانپ ہانپ کےاوندھے منہ گرے گا اور پھر اُٹھ نہیں پائیگا۔
انسان: یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟
دریا: آئے انسان مجھے پتا ہے میں چشم دید گواہ ہوں تیرے جنم جنم کا، قدرت کا سادہ سا اصول ہے جو قدرت کا آدر نہیں کرتا قدرت بھی اسے نیست و نابود کر دیتی ہے۔ اس کائنات کے رنگوں میں جو ست رنگی ہے یہ ایسے تو نہیں ہے ان رنگوں کو اپنے اندر اتارنا سیکھو ان کو اوڑھنا سیکھو ورنہ جب کوئی ایک رنگ پھیکا پڑتا ہے تو پوری کائنات ہل جاتی ہے۔ جب ہستی وجود میں آئی تو اس میں منطق،جذبات، روح، خوشی، دھرتا، احترام، پیار، سمبھال، جُڑت ، ردھم اور توازن کے رنگ بھرے گئے تبھی یہ رہنے کے قابل ہوئی ورنہ یہاں زندگی پیدا ہی نہ ہوتی۔ اور تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا فطرت کی کروڑوں سالوں کی اس “ویتر سوتر” کو اپنے معاشی مفادات کی خاطر تہہ و بالا کرتا پھرے۔ یہ ظلم ہے، حوس ہے اور مُجرمانہ فعل ہے۔
انسان: کس حوس کی بات کر رہے ہو میں تو ترقی کرنا چاہتا ہوں۔

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

دریا: تیری ترقی نے فطرت کے رنگوں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ جذبات، روح، خوشی، دھرتا، احترام، پیار، سنبھال، جُڑت، ردھم اور توازن سب رنگ ماند پڑ چُکے مگر تیری حوس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے، جب دریا مرتا ہے تو پوری “وسوں” مر جاتی ہے۔
انسان: وسوں سے کیا مُراد ہے؟
دریا: بیٹ، بیلے، چرندے، پرندے، جانور، درخت، پودے، میل ملاپ کے ضابطے، گیت، موسیقی، لوک کہانیاں، لوری، رشتے، حکمت، دانش، تجربے، تاریخ، رُت، موسم، جذبے، زبان، ثقافت، کھیل، ہیروز، منظر، لینڈ سکیپ، درگاہیں ، مسجد، مندر اور تاریخ سب وسوں سے وابستہ ہیں۔
انسان: وسوں کہاں مرتی ہے یہ سب تو ابھی باقی ہے
دریا: ہاں کُچھ مر گئی کُچھ باقی ہے۔ دریائے ہاکڑہ نہیں رہا تو اُس کی وسوں بھی نہیں رہی۔ راوی کے “راشکوں” کے بدلے بُرج ملے مگر بُرج کا کیا کروگے، ستلج کے بدلے ریت کے ٹیلے اور چناب کے “عاشقوں” کے بدلے مطلب پرست شہر۔اسی طرح سندھ دریا کو بھی تُم اپنے ہاتھوں سے قتل کر رہے ہو۔ اپنے لوگوں کو سمجھاو ایسا نہ کریں ورنہ “مُردہ خاموشی” (negative quietism ) کے ہاتھوں فنا ہو جاوگے۔
انسان: ابھی بہت کُچھ باقی ہے ۔ تیرے جنگل، مچھلی، پرندے، پانی، کچھوے، بُلھن، سارس، کینجر، ہنس، کونج، کچھی، شہد، ہرن، جتامے اور پاڑھے مُجھے میرا حصہ وصول کرنا ہے۔
دریا: تیرا حصہ ۔۔کسی پُرانے ریڈ انڈینز بزرگ کی کہاوت تو نے شاید نہیں سُنی کہ “جب آخری درخت کاٹا جائیگا، آخری مچھلی کو پکا کے کھا لیا جائیگا، آخری ندی کو زہر آلود کر دیا جائیگا تب تمہیں احساس ہو گا کہ رقم کو کھا کے جیا نہیں جا سکتا”۔
(When the last tree has been cut down, the last fish caught, the last river poisoned, only then will we realize that one cannot eat money)
انسان: رقم سے تو سب ملتا ہے میں اپنا انتظام کر لونگا۔
دریا: یہ تیری سوچ کا فتور ہے۔تو رقم خرچ کر کے معصومیت تو نہیں خرید سکتا، نہ ہی جو خوبصورت جی ناپید ہو چُکے اں کو لا سکتا ہے، نہ ہی ہوا کی تازگی کو تو خرید کر ماحول میں چھوڑ سکتا ہے، نہ ہی ساون کی جھڑی، بدرا کے سفید بادل، دسمبر کی بارش، مارچ کی باد صبا، چڑیوں کی چہکار، زمین میں دفن ذائقے کے خزانے، نیلا آسمان، ٹمٹاتے ستارے، ہرے بھرے پودوں کا رقص، صحرا کی وسعت، پہاڑوں کی اونچائیاں، پانیوں کا موسیقیت بھرا شور، تتلیوں کے رنگ، شیر کی دھاڑ، تیتر کی بولیاں یہ سب تو تیری منڈی میں نہیں بکتے۔ اس سے باہر نکل ورنہ خود کُشی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔
انسان: ہاہاہاہاہاہا!
دریا: تیری ہنسی سے میں سمجھ گیا تو اپنے آپ کو برباد کر کے ہی چھوڑے گا۔۔سسکیوں اور آہوں کے ساتھ الودا!

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔