ہم اشرف المخلوقات اور ہمارا ماحول

ایک روزن لکھاری
محمود حسن، صاحبِ مضمون

ہم اشرف المخلوقات اور ہمارا  ماحول

محمود حسن

اِختلاف پاکستانی معاشرے کا  طُرہ اِمتیا ز ہے۔ ہم ہر معاملے میں خواہ وہ  انفرادی ہو یا اجتماعی، ہردوسرے شخص سے اختلاف رکھنا اپنا بنیادی پیدائشی حق سمجھتے  ہیں۔ یہاں یوم آزادی سے لے کر یوم قرارداد پاکستان،   عیدالفطر، عیدالاضحی، عید میلادالنبی، شب معراج، شب برات،محرم ، عاشورہ، بیساکھی،بسنت، ہیلو وین، ویلنٹائن ڈے، مدر ڈے، فادر ڈے،  پینسٹھ  اور اکہتر کی جنگیں اور ان جنگوں میں کون جیتا اور کون ہارا، دہشت گرد تنظیمیں، مذہبی  مدارس، مسالک ، سیاست اور سیاسی رہنما بشمول قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال، غرضیکہ ہر  معاملے میں نہ صرف اختلاف رائے  ہے بلکہ  ان تمام معاملات میں لوگوں کی سوچ  میں بعدالمشرقین  پایا جاتا ہے۔

فریقین ایک دوسرے کی بات سننے، سمجھنے اور مکالمہ کرنے پر بھی مائل نظر نہیں آتے۔ میں نے کئی  دن سوچا کہ کیا کوئی ایسا بیانیہ  بھی ہے جس پر پوری پاکستانی قوم متفق  ہو؟ کافی سوچ بچار کے بعد  باالاخرمیں اس نقطہ پر پہنچا کہ  اور  کچھ ہو نہ  ہوپاکستان کےتما م شہری   کم از کم اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ وہ بطور انسان اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز ہیں۔

 اس وقت جبکہ رات کے ایک بجکر چالیس منٹ ہوئے ہیں اور پاکستان میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 120 میں پولنگ جاری ہے، میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ  کیوں نہ اس متفق علیہ بیانیے میں  بھی کسی قدر اختلاف کی گنجائش  پیدا کی جائے اور پہلے سے بٹی ہوی قوم کو مذید تقسیم کیا جائے ۔  تاکہ وہ اس  بیانیےمیں بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں  اور سوچنا  شروع کردیں کہ  وہ اشرف المخلوقات  ہیں بھی یا نہیں؟

یقین جانیے  میرا ایجنڈا  مثبت ہے۔ میں صرف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ جس طرح پاکستان کے پچاس سے زائد چینل اس وقت سیاسی بحث ومباحثے میں مشغول ہیں اور لوگوں کو لمحہ  با لمحہ پولنگ کی صورتحال کے متعلق بتا رہے کاش یہ بھی بتائیں کہ ہم کس قسم کے موسمیاتی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہمارے  کھیت بنجر کیوں ہو رہے ہیں؟ ہمارےزیرزمین پانیوں میں سنکھیا کی مقدار کیوں بڑھ چکی ہے؟ ہمارے بچے یہ زہریلا پانی پینے پر کیوں مجبور ہیں؟حکومتوں کی کیا  ذمہ داریاں ہیں اور عوام پر کونسے  فرائض لاگو ہیں؟  ہوسکتا ہے آج یا کل  کسی ٹی وی  مارکہ دانشور کو میرا نقطہ  پسند  آجائے اور ٹی وی چینلزماحول کے ایشو پر  بھی بحث کا  اہتمام کرنے لگیں تاکہ  لوگ  اپنے ماحول کے متعلق بھی اسی طرح متفکر ہوں  جس طرح قومی سیاست۔

ایک روز ہم  چنددوست چائے کی محفل جمائے  خوش گپیوں میں مصروف تھےکہ  ایک  دوست نے نہایت فخر سے اعلان کیا کہ ہم  بطور انسان اشرف المخلوقات ہیں اور ہم سے بہتر کوئی مخلوق کرہ ارض پر ہو ہی نہیں سکتی۔ اس پر  ہر دوست نے اپنی اپنی رائے کا  اظہار کیا اور  زیادہ  تر دوستوں نے ہاں میں ہاں  ملائی  لیکن راقم نے  اختلاف کیا  جس پر ایک گرما گرم بحث کا آغاز ہوگیا ۔ کیونکہ ہم تمام احباب   اعلی تعلیم  یافتہ ہیں  اورہر موضوع پر کھلی بحث کرتے ہیں لیکن دوستی اس قدر مضبوط ہے کہ مباحثے کے باوجود  دوستی میں کوئی دراڑ نہیں آتی  اس لیے  ہر ایک دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اب سب میری طرف  دیکھنے لگے  تاکہ میں ان کو قائل کرسکوں۔ اور یہی نقطہ میرا آج کا موضوع بھی ہے۔

اس زمیں پر اللہ  تعالی کی بنائی ہوئی لاتعداد مخلوقات موجود ہیں۔ اگر صرف جانوروں کا ہی ذکر کریں تو اس قدر شاندار جانور ہمیں اپنے گرد نظر آتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔  جسمانی قوت  اوراستعداد  میں انسان جانوروں کا پاسنگ  بھی نہیں ۔ میں اس نقطہ کی وضاحت چند عام فہم مثالوں سے کرنےکی کوشش کروں گا کہ ہم  انسان بھی دوسری تمام مخلوقات کی ہی طرح ایک مخلوق ہیں۔ ذرا سوچیے کہ بہت سے جانور اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ انسانوں میں یہ صلاحیت موجود  نہیں۔ بہت سے جانوروں میں سونگھنے کی صلاحیت  انسانوں سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ انسان کی قوت سماعت اور قوت بصارت محدود ہے۔ یہ الٹرا ساوٗنڈز، انفرا ساونڈز، الٹراوائلٹ اور انفرا ریڈ ویولینتھس کو نہ سن  پاتا ہے اور نہ دیکھ، جبکہ بہت سے جانور ان کو سن  اور دیکھ سکتے ہیں۔

پانی میں رہنے والے بعض جانور الیکٹرک سگنلز کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہیں  جبکہ انسانوں میں یہ صلاحیت موجود نہیں۔ اور پھر یہ کہ انسان فضاؤں میں پرندوں کی طرح پرواز نہیں کرسکتا  اور توازن کی انتہا یہ کہ پرندے رات کے وقت باریک سی ڈال پر سو جاتے ہیں لیکن کبھی زمین پر نہیں گرتے اور انساں باریک رسے پر چند قدم چل کر داد  طلب کرنے لگتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ  ایک انسان کا اپنے جیسے انسانوں میں بیٹھ کر خود کو اشرف المخلوقات قرار دینا  ایسے  ہی ہے جیسے پاکستان میں رہنے والا کوئی بھی گجر، جاٹ، راجپوت یا ارائیں اپنی ہی برادری کے دوسرے لوگوں کی محفل میں اپنی برادری کو  باقیوں سے افضل قرار ڈیکلیئر کردے۔

میرے یہ دلائل سننے کے بعدصورتحال  کچھ کچھ تبدیل ہونے لگی اور کچھ دوست کم از کم یہ ضرور تسلیم کرنے لگے  کہ  ہاں انسان   ایک حیوان ِناطق ہے۔ تو کیا باقی حیوان ناطق نہیں ؟ سبھی حیوان ناطق ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم ان کی زبان سمجھ نہیں سکتے۔ ذرا سوچیے کہ  اگر اس دنیا  میں آکر کوئی انسان  اپنی تمام  زندگی غذا کی تلاش ، عمل تولید اور پھر بچوں کی نگہداشت اور پرورش میں گزار کر اس دار فانی سے کوچ کر جائے تو اس میں اور ایک جانور میں کیا فرق ہے؟

جانور تو  پھر بھی تمام عمر  فطرت کے ودیعت کردہ مقصد کی تکمیل میں مصروف عمل رہتے ہے  لیکن انسان اپنے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ لانے کے علاوہ فطرت   کے کس فائدے میں حصہ دار بنتے ہے؟   آپ ایک کینچوے کی مثال لیجیے۔ کینچوا ناقابل استعمال مواد کو  کھا کر زمین  کی زرخیزی کا  باعث بنتا ہے اور ہم (پاکستانی انسان) زہریلے سپرے کرکے الٹا اسی کو  ختم  کردیتے ہیں۔ حشرات الارض پھولوں میں بارآوری  کرکے ہمارے لیے پھل  اور  دیگر اجناس  پیدا کرتے ہیں  اور ہم  انہی حشرات کو زہریلی ادویات سے تلف کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔ درخت اور پودے  ہمارے لیے اکسیجن پیدا  کرتے ہیں اور ہم جنگلات  کاٹ  کاٹ کر ان کا صفایا کر رہے ہیں ۔  یا خدا  یا یہ کیسا  اشرف المخلوقات ہے کہ تمام خلقت اس کا فائدہ کر رہی ہے اوریہ بذات خود  کسی بھی مخلوق کے لیے سودمند نہیں۔

آپ نے بچپن میں چڑیا کا گھونسلہ تو ضرور دیکھا ہوگا۔ اس میں کبھی بھی دو سے زیادہ انڈے  نہیں  ہوتے۔ کیا  چڑیاایک سیزن میں  صرف دو  ہی انڈے  ڈے سکتی ہے؟ جی  نہیں۔ ایک سائنسدان نے چڑیا پر عجیب و غریب  تجربہ کیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایک سیزن میں چڑیا زیادہ سے زیادہ  کتنے انڈے دے سکتی  ہے۔ چڑیا جب بھی دوسرا انڈا دیتی  تو وہ ایک انڈا  اٹھا لیتا اور یوں گھونسلے میں پھر سے ایک ہی انڈا رہ جاتا۔ اس نے دیکھا کہ اس سیزن میں چڑیا نے کم و بیش پچاس انڈے دیے۔ لا تعداد تجربات  کےبعد اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چڑیا  کے پاس ایک قدرتی  طاقت ہے جس سے وہ جانچ لیتی ہے کہ  جس ماحول میں وہ رہ رہی ہے اس میں  اس کو کتنے انڈے دینے چاہییں۔ اس لیے وہ  زیادہ تر دو ہی انڈے دیتی ہے کیونکہ دو  سے زیادہ  بچوں کی غذا کا بندوبست وہ نہیں کر سکتی ۔ ہم بحیثیت اشراف المخلوقات  یہ ادراک کیوں نہیں کرسکتے کہ بطور والدین ہم کتنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا  بندوبست کر سکیں  گے؟  تیزی سے بڑھتی ہوی ملکی  آبادی نہ صرف ماحول بلکہ بذات خود پاکستان  کی بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

ہم بطور شہری اگر اپنی مد د آپ کے تحت اپنے مسائل  حل نہیں  کریں گے تو کو ئ  بھی ہماری مد د نہیں کریگا ۔ہمارا کام صرف کچرے کے ڈھیر لگانا ہی نہیں بلکہ ان کو ٹھکانے لگانا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم کم سے کم ویسٹ پیدا کریں  اور زیادہ سے زیادہ میٹریل ری سایئکل کریں ۔ اپنے آبی ذخائر کو صاف شفاف رکھیں ۔ اپنی مدد آپ کے تحت نکاسیءآب کے منصوبے شروع کریں ۔ محلے میں گندگی پھیلانے والے لوگوں کا سماجی  بایئکاٹ کریں۔ اپنے اردگرد زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں  اور پہلے سے موجود اشجار کی اپنے بچوں کی طرح حفاظت کریں۔ توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کریں۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ نصب کرنے کی بجائے   متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کریں۔ کیونکہ  یہ انرجی  پلانٹس تیزابی بارشوں کا باعث بنتے ہیں۔

یاد رکھیے! اشرف المخلوقات کوئی  اعزاز (ٹایئٹل) نہیں  بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ اگر آپ اس ذمہ داری  پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو آپ اشرف المخلوقات نہیں محض دو پیروں والا جانور ہیں۔ اپ اس کو یوں سمجھ لیں کہ اپ ووٹ دے کر کسی کو وزیر اعظم بنوائیں اور وہ  لندن میں اپنی جائیدادیں بنا  ناشروع کردے۔ کیا آپ  اب بھی یہ ٹایئٹل اسی کے پاس رہنے دیں گے۔ انسان فطرت کی مشین میں ایک پرزہ ہے۔ یہ بھی  باقی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہی ہے ہاں البتہ اس میں ایک خوبی باقی تمام مخلوقات سے جدا ہے اور وہ یہ کہ سب کا مستقبل اسی کے ہاتھ میں ہے۔  ہم نے اپنی عقل سے وہ تمام فیصلے کرنے ہیں  جو نہ صرف ہماری بلکہ دیگر  مخلوقات کی بقا کی ضمانت  بن سکیں۔ اور پاکستان میں یہ فیصلے پاکستانیوں نے  ہی کرنے ہیں  کسی اور نے نہیں۔


محمو د حسن پی ایچ ڈی کیے ہوئے ہیں، اور پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ ان  انوائرمینٹل مینیجمنٹ، کینیڈا سے حاصل شدہ ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تدریس و تحقیق سے منسلک رہے ہیں۔ آپ اس وقت مسسی  ساگا، کینیڈا میں مقیم ہیں۔