شہریار کی غزلیہ شاعری : نئے تنقیدی مکالمت کے تناظر میں

ایک روزن لکھاری
معراج رعنا، صاحبِ مضمون

شہریار کی غزلیہ شاعری : نئے تنقیدی مکالمت کے تناظر میں

معراج رعنا                                             
 

اچھی شاعری کی ایک سچی تعریف یہ ہے کہ وہ انسانی تجربوں یا مشاہدوں کی عکاس ہو۔ شاعری ہی کیا ادب کی بنیاد ہی انسانی تجربو ں کے بیان سے عبارت ہے۔ لیکن تجربوں کے بیان کا معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی عہد یا ایک ہی روایت کے دو شاعروں کے اجتماعی تجربے معرض اظہار میں آکر مختلف معلوم ہوتے ہیں ۔ مثال کے لیے ’’عشق‘‘ کو لیاجاسکتا ہے۔ سولہویں صدی سے لے کر تاحال اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس نے اس موضوع پر شعر نہ کہا ہو۔ میرؔ سے قبل کی شعری روایت اگر منہا بھی کر دی جائے تو میرؔ سے سلیم ؔاحمد تک ایسے متعدد اشعار ضرور تلاش کیے جاسکتے ہیں جو عشقیہ تجربے کے حامل ہوں گے۔ لیکن یہاں فی الحال تین شعرو ں کی مثال مضمون کے مقدمے کے لیے لازم معلوم ہوتی ہے:

پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے (میر)

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے (غالب)

میں تم یہ رات ہائے کوئی جاویداں نہیں
جلدی سلیم پیار کرو لفظ مت گنواؤ (سلیم احمد)

میرؔ کے شعر میں عشق اور عشقیہ کیفیت ارتفاع کو چھوتی نظر آتی ہے۔ آنسو کی ضبطی معشوق کی تمام انسلاکاتی صفات (مثلاً ستم شعاری، کج ادائی، بے رخی، ہرجائی پن) اور تمام صورتِ حال (مثلاً ہجرو فراق، نقل مکانی،عدم تعلق ، تجاہل عارفانہ)وغیرہ کو بیان بھی کرتی ہے اور عاشق کی تہذیب کونمایاں بھی۔ وہ تہذیب جو عشق کے فیضان سے پیداہوتی ہے۔ یہاں عاشق کا گریہ زار نہ ہونامعشوق کو اسی منصب احترام پر فائز کرنا ہے جس پر وہ ہمیشہ فائز رہا ہے ۔ مطلب یہ کہ اگر عاشق اشکبار ہوجاتا تو اس کی اشکباری کے اسبا ب میں ایک یا شاید سب سے بڑا سبب معشوق سے اس کا تعلق یا عدم تعلق ثابت ہوتا۔ نتیجتاً معشوق نمایاں ہوتا اور اس کی رسوائی لازم ٹھہرتی، جو عاشق کو کبھی منظور نہ ہوتی۔

غالبؔ کے شعر میں عشق کے افسانوی دائرۂ اعتبار کو توڑنے کا رویہ نمایاں ہے اور اس شدت سے نمایاں ہے کہ شعر کے پڑھنے اور سننے والے دشتِ تحیرات میں گم ہوجاتے ہیں۔ ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ عشق صادق کی مشہور تلمیح ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں عرصۂ دراز سے عشق مجازی کی آدرش بنی ہوئی ہیں ۔لیلیٰ کی وفاداری ، مجنوں کے تئیں اس کی خودسپردگی، مجنوں کا اسے دیوانہ وار چاہا جانا، یہ ساری باتیں اتنی بار دہرائی گئیں کہ خواب وحقیقت کے درمیان کا فرق مٹ گیا۔ غالب کم ے کم اردو کی حدمیں پہلے شاعر ہیں جنھوں نے خواب و حقیقت کے درمیان خط تفریق کھینچا۔ لیلیٰ کامجنوں کو بر ا کہنا معشوق فریبی کے دعوے کی وہ دلالت ہے جو عاشق کے ایک بالکل نئے اور انوکھے کردار کو ظاہر کرتی ہے ۔اس طرح میرؔ کا مہذب عاشق ایک متعینہ زمانی فاصلہ طے کر کے غالب ؔ کے یہاں پہنچ کر ایک ذی ہوش قسم کا آدمی بن جاتا ہے ۔ غالبؔ کی یہی ہوش مندی میر کی دل سوزی کی تلافی ثابت ہوتی ہے۔

میرؔ کا معشوق اپنی تمام ستم شعاری کے باوجود اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اس کا عاشق کبھی گریہ زار نہ ہوگا۔کیوں کہ اسے اس کی رسوائی منظور نہیں۔ برعکس اس کے غالبؔ عشق کے متعینہ دال (لیلیٰ مجنوں/معشوق عا شق) کو اپنی ذہانت سے اتنا متاثر بلکہ گمراہ کرتے ہیں کہ پورا مدلولی نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ لیلیٰ کا گمراہ ہونا یعنی مجنوں کو برا کہنا صرف سخت قسم کے روایتی عشق کو ہی معرضِ سوال میں نہیں لاتا بلکہ عاشق ثانی (غالب) کی ذاتی برتری کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ اب ذرا سلیم احمد کے شعر پر غور کیا جائے تو عشق کے تجربے کا پورا سیاق و سباق ہی بدلا بدلا سا نظر آتا ہے ۔ سلیمؔ احمد کے یہاں عشق کا وہ تجربہ بیان ہوا ہے جس کی تحریک نصف بیسویں صدی کے صارفی نظام معاشرت سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں عشق کی جو بھی نوعیت ہو اس پر کوئی سوال قائم نہیں کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اسے اسفل و افضل کے خانوں منقسم۔ کہنا صرف یہ ہے کہ سلیمؔ کے شعر کا عاشق نہ تو میرؔ کے عاشق کی طرح حد درجہ مہذب ہے اور نہ ہی غالبؔ کے عاشق کی طرح ہوش مند بلکہ وہ میکانکی قسم کا ایک آدمی ہے جس کی ظاہری اور باطنی شخصیتوں کے درمیان کوئی حدِ فاضل موجود نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ جومحسوس کرتا ہے ،معشوق سے اس کا برملا اظہاربھی کرتا ہے۔ اسے وقت کی قوت کا اندازہ ہے ۔اس لیے وہ وجود (ذات) اور شے (رات) کی ناپائیداری کو یقان کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ آئندہ اس کے لیے مہمل اور موجود بامعنی ہے ۔لفظ کو نہ گنوانا معشوق کی بیجا تعریف سے اجتناب برتنا بھی ہے اور لفظوں کی مادی قدروقیمت کو ظاہر کرنا بھی۔صحافت کی دنیا میں الفاظ فروش (Words seller) کا محاورہ لفظوں کی اسی مادی قدروقیمت کا غماز ہے ۔ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک ہی تجربہ مختلف شعراء کے یہاں تشکیل و تجسیم کے مختلف مراحل طے کرتا ہے ،اس لیے وہ تجربہ اپنی معنوی خوبیوں میں ایک دوسرے سے خاصا مختلف واقع ہوا ہے۔مذکورہ اشعار میں تجربہ ایک ہے لیکن اس کی معنویت ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہے ۔ معنویت کی یہ تفریق شاعر کے انفرادی شعور اور اجتہادی تخیل سے قائم ہوتی ہے ۔ لہٰذا ایک شاعر کی فنی ہنر مندی اور اسلوبی شناخت کی بحث اسی نکتے سے سروکار رکھتی ہے۔ تاہم یہی نکتہ تخلیقی عمل کی بنیاد ہے جوسائنسی اور غیر ادبی بیانیوں کو نصیب نہیں۔ شہریار کی شاعری تخلیقی عمل کے اسی بنیادی نکتے سے عبارت ہے، اس لیے لازم ہے کہ ان کی شاعری اسی نکتے کے حوالے سے پڑھی جائے۔

شہر یار کی شاعری کا زمانہ تقریباً چالیس برسوں کے طول و عرض پر محیط ہے۔ ان چالیس برسوں میں ان کی شاعری کے متعلق متعدد آرا قائم کی گئی ہیں۔ لیکن ان تمام رایوں میں ’’نیم خوابی‘‘ یا “Dreamy Poetry”والی رائے نے جی کھول کر رخنہ اندازی کی جس کے نتیجے میں ان کا اور ان کی شاعری کا ایک Canonn تیار ہوگیا لیکن یہ Canon میر انیسؔ والے Canon کی طرح آہنی نہیں جس پر ضرب نہ لگائی جاسکے۔ ضرب کاری تو انیسؔ والے Canon پر بھی ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی شبلیؔ جیسا متبحر عالم بھی تو پیدا ہو۔
اردو کی مکتبی تنقید کا ایک بڑا مسئلہ رایوں کے اتباع میں رائے مرقوم کرنا رہا ہے۔ اگر کسی نقاد نے کسی شاعر کو قنوطی لکھ دیا تو دوسرے کی کیا مجال کہ اسے نشاطی کہہ دے۔ اس نو ع کے Maxim سے تنقید کا کام تو کھینچ تان کے چل جاتا ہے لیکن بیچارہ شاعر عظمت اور فنی ہنر مندی کے ایک مخصوص و محدود دائرے میں مقید کا مقید ہی رہتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی ان معدودے چند نقادوں میں ایک ہیں جنھوں نے اردو کے ایک ایسے شاعرکا  Canonمسمار کیا جس کی مسماری ’’شعر شور انگیز‘‘ کی اشاعت سے قبل ناممکن معلوم ہوتی تھی۔ میرؔ ایک زمانے سے خدائے سخن رہے اور اس لیے رہے کہ وہ درد وغم کے شاعر تھے۔ دعویٰ کتنا بڑا تھا اور دلیل کتنی چھوٹی ۔فاروقی ؔ صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے میرؔ کی عظمت والے دعوے پر کوئی سوال قائم کیا اور نہ ہی ا س کے جواب دیئے بلکہ میرؔ کے اردگرد عظمت کا جو Canon تھا اسی کے مد مقابل ایک ایسا جامع، وسیع اور استدلالی Canon تیار کر دیا کہ پہلا Canonبھی اسی میں ضم ہوگیا۔اردو غزل میں تجربے، خیال اور فکر کی ایک مخصوص صورت حال شروع سے قائم رہی ہے۔ اگر یہاں تجربے کو تھوڑی دیر کے لیے انگریزی لفظ Empirical کا نعم البدل تسلیم کر لیں تو یہ منطقی تجربیت اردو کے بڑے سے بڑے غزل گویوں کے یہاں مفقود نظر آئے گی۔ غالبؔ کی شاعری کی تمام خوبیاں سر آنکھوں پر لیکن اگر ہم کوشش کریں بھی تو ان کے یہاں منطقی اور اختراعی تجربیت تلاش نہیں کر سکتے۔ غالبؔ اس ا عتبار سے بھی اردو کے منفرد شاعر ہیں کہ انھوں نے ’علوم الانسان‘ کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا۔ کاغذی پیرہن ،آتش زیر پایا اس نوع کی متعدد شعری ترکیبیں ان تجربات کی غماز میں جو غالب سے بہت پہلے کیے جاچکے ہیں لیکن ان تجربات اورغالب کے تجربوں میں دور دور تک مماثلت نہیں۔ عدم یکسانیت کی وجہ تجربے کی تشکیلی ندرت ہے جو فرسودہ سے فرسودہ موضوع میں نئی معنویت کی تخم کاری کر دیتی ہے ۔ لہٰذا یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تجربہ الگ چیز ہے اور منطقی تجربیت الگ شئے ۔تجربے کا تعلق شعرو ادب سے ہے جب کہ منطقی تجربیت کا تعلق سائنس سے، جس طرح سائنس شعر نہیں بن سکتی ٹھیک اسی طرح شعر کبھی سائنس نہیں ہوسکتا۔ یہی دونوں کی شناخت ہے اور یہی دونوں کاامتیاز، اور اگر کوئی اس امتیاز کو نظر اندا ز کر کے شعر میں منطقی تجربیت ڈھونڈنا شروع کر دے تو اسے سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

شہر یار اسی ادبی روایت کے شاعر ہیں جس روایت نے سوداؔ ،دردؔ ،میرؔ ،ذوقؔ اور غالبؔ جیسے عظیم المرتبت شعرا کی تربیت کی ۔ چونکہ ان تمام شعرا کے یہاں تجربے یا خیال کی وہی صورت قائم ہے جو عربی و فارسی کی شاعری میں رائج رہی تھی۔ اس لیے شہریار کے یہاں بھی شعری تجربے یا خیال کی انجمادی شکل وہی ہے جو میرؔ و غالبؔ کے یہاں موجود ہے لیکن وہ بھی ہربڑے شاعر کی طرح خیال کی انجمادی سطح پر اپنی تجسیمی ہنر مندیوں سے معنی کا ایک ایسا حصار قائم کر دیتے ہیں جس کی جہات کشائی آسان نہیں ۔ شہر یار کے شعرسے قبل مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے :

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر (میر)

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی (غالب)

ہوش وحواس تاب وتواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا (داغ)

ان تمام اشعار میں موت کا تجربہ بحیثیت مضمون کے نمایاں ہے لیکن اس تجربے یا مشاہدے کی شعری تشکیل اشتراکی نہیں بلکہ افتراقی نوعیت کی حامل نظر آتی ہے ۔ میرؔ کے یہاں موت کے متعلق ایک بالکل روحانی نکتہ ذاتی رنگ میں بیان کیاگیا ہے ۔ یعنی ’حیات بعدالموت‘ کی فکری امیج کے مد مقابل ایک ایسا پیکر خلق کیاگیا ہے جس کی اندورنی سطح حد درجہ متغیر و متلاطم واقع ہوئی ہے ۔ ملک عدم کا تصور ،دنیا سے ہجرت کا خیال ،سفر در سفر کا احساس، عارضی قیام کے بعد پھر سے رخت سفر کا باندھنا، یہ تمام کیفیتیں مدلول (Signified) کے ایک بڑے کینوس کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ وہ مرحلے ہیں جو ایک آدمی کے دنیاوی زندگی میں بھی طے کرنے ہوتے ہیں اور عشقی معاملات میں بھی۔ یہا ں’دم‘اور ’وقفہ‘دو ایسے کنائے ہیں جن کے توسط سے موت کے روحانی فلسفے کو خاکی بصیرت سے ہمکنا کر دیا گیا ہے، جوصوفی کو بھی میسر ہے اور عاشق کو بھی۔ غالبؔ موت کو ایک شعری بیان کا درجہ عطا کرتے ہیں ۔ یہاں موت کا تصور خالص آفاقی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں موت کی حقیقت پر کبھی کوئی مشکوک بحث نہیں ملتی۔ البتہ موت کے بعد زندگی کا وہ تصور، جو قرآنی ہے ، ’بدھت مت ‘میں ایک بالکل متبدل شکل میں نظر آتا ہے ۔ غرض یہ کہ غالب موت کو رومانی نظر (Romantic Vision) سے دیکھتے اور قبول کرتے ہیں۔ اس لیے موت کے نہ آنے پر ’جس کا آنا یقینی ہے ‘اتنے بے چین یا متفکر نہیں جتنے بے چین اور متشکک نیند کے نہ آنے سے ہیں۔ نیند کا نہ آنا بھی ایک نوع کا خوف پیدا کرتا ہے جس کا ایک سرا شعوری یا لاشعوری طور پر موت کی صداقت ہی سے جاکر مربوط ہوتا ہے۔ اس طرح غالبؔ اپنی ذہانت سے موت کے آفاقی تجربے یاتصور کو ذاتی تصور سے ہم آہنگ کر کے موت سے پہلے کی فضا قائم کر دیتے ہیں۔ اس طرح دیکھیں تو ذوق اور داغؔ کے یہاں بھی موت کے تجربے یا خیال پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے لیکن یہاں بھی شعری تجسیم کا اختلاف معنی کی تفریق کا باعث بنا ہے ۔ اب شہریارؔ کا شعر ملاحظہ کیجیے:

ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے

شعر کی ایک نمایاں انفرادیت تو یہ ہے کہ اس میں لفظ ’موت‘ کا استعمال مفقود ہے بلکہ داغ ؔ کے مذکورہ شعر کی طرح ہی یہاں بھی ’لمبے سفر‘کا استعاراتی حوالہ موت کا منظر نامہ مرتب کرتا ہے ۔ مگر یہاں موت پر نہ تومیرؔ کی سی روحانیت غالب ہے اور نہ ہی غالبؔ کا سا رومانی نقطۂ نظر بلکہ جبرو استبداد کا وہ پس منظر ہے جو ’’گھر ‘‘کے حوالے سے موت کی تمنا کا محرک ثابت ہوتا ہے ۔ اوپر کے مصرع میں ’’گھر ‘‘اور مصرعِ ثانی میں ’سفر‘ کے الفاظ معنی خیزی کے منبع ہیں ۔یہاں گھر ،گھر کے تمام ، اثباتی تصور کا انکار یعنی Refusal ہے ،ورنہ گھر کے متعلق عام تصور تویہی ہے کہ وہ سکون کی آماجگاہ ہوتا ہے جس کی شعری سند یں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:

تو سکوں سے تھک گیا ہے اور بیتابی سے میں
شوق ہے تجھ کو سفر کا اور مجھ کو گھر کا ہے (سلیم احمد)

مرے خدا تو مجھے اتنا معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کر دے (افتخار عارف)

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا (افتخار عارف)

لیکن ان تمام اشعار کے برعکس شہر ؔ یار کے یہاں گھر سے دوری کا تمنائی لہجہ معنی کے ایک مروجہ مرکز کو تبدیل کرتا نظر آتا ہے ۔ یہاں اگر سلیمؔ احمد اور افتخار ؔ عارف کے شعر کی طرف ہی ’گھر ‘سکون کا استعارہ ہوتا تو اس سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا اور نہ ہی لمبے سفر پر روانہ ہونے یعنی موت کی آرزو کی جاتی۔ لہٰذا شعر مذکور میں گھر صرف ایک معروضی اظہار نہیں بلکہ اس معروض کا غیر مانوس بیان ہے جس کے متعلق روسی ہیئت پسند نقاد وکٹرViktor Shklovsky (۱۹۸۴۔۱۸۹۳)نے لکھا ہے :

 

The purpose of art is to impart the sensation of things as they perceived and not as they are known. The technique of art is to make objects ‘unfamiliar’ to make forms difficult, to increase the difficulty and length of perception because the process of perception is an aesthetic end in itself and must be prolonged. Art is a way of experiencing the artfulness of an object; the object is not important.” 1

شکلو وسکی نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ فن کامقصد اشیاء کی علمی آگہی نہیں بلکہ اس کا احساس یا اس کی حساسیت کا اقبال ہے۔ لہٰذا ایک فن کا ر کو چاہیے کہ وہ معروض کو معروض کی طرح نہیں بلکہ اسے حد درجہ غیرمانوس بنا کر پیش کرے کہ یہی عمل جمالیات کی انتہا ومنتہا ہے ۔ شایدیہی وجہ ہے کہ شکلووسکیؔ معروض برائے معروض کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ اہمیت دیتا ہے معروض کی فن کاریت کو ، جسے سچے فن کار کی ایک اہم تخلیقی ذمہ داری قراردی گئی ہے ۔ شہریارؔ اس تخلیقی ذمہ داری کو اس خوبی سے ادا کرتے ہیں کہ معروض اپنی عام سطح سے بلند ہوجاتا ہے یعنی یہ کہ اس میں ایک اجنبی پن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جیسا کہ شعر زیر بحث میں ’’گھر‘‘ کامعروض ’سکون‘ کے برعکس بیزاری کی ایک غیرمتوقع صورت حال کا مظہر بن گیا ہے ۔ رائج مفروضے کی تبدیلی یا استرداد کوئی آسان کام نہیں ۔یہ کام شہر یارؔ جیسے شاعر ہی سے ممکن ہے جوتجربے کو ذات سے منسلک کرنے کا ہنر بھی رکھتا ہو اور اسے ذات سے الگ کرنے کی جرات رندانہ بھی۔ پہلا مصرعہ بار بار پڑھنے کے بعد بھی متکلم کا صیغہ اور اس کی موجودہ حالت کا علم نہیں ہوتا۔ ’’ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو ہی سوچا‘‘ اس میں کہیں بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بات کس نے سوچی ۔

لہٰذا اس بیان میں شاعر کی ذات کے ساتھ ساتھ دوسری ذاتوں کی شرکت کا بھی اچھا خاصا امکان پیدا ہوجاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ یہ سوچ صرف شاعر ہی کی نہیں بلکہ اور لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے ۔اس طرح دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’لمبے سفر‘ کی آرزو (موت)کا تجربہ شاعر کی ذات سے ہم آہنگ بھی ہے اور اس سے ماورا بھی۔ اور یہ خوبی ایک معروض (گھر) کو اس کے رائج سیاق وسباق سے الگ کر دینے سے پیدا ہوئی۔ اس لیے شعر کا صوتی پیکر (Sound Image) بھی کئی سطحوں کا حامل ہوگیا ہے ۔ لیکن صوتی پیکرکا حوالہ جاتی تنوع یا اس کی معنوی جہات کشائی اسی وقت ممکن ہے جب ’’گھر ‘‘ کے استعارے کی متعینہ سمت تبدیل کر دی جائے ۔ اور یہ تبدیلی خلائی نہ ہو کر کلیتہً مماثلتی ہو۔مطلب یہ کہ ’گھر ‘کودنیاوی معاملات یا دنیا کا استعارہ کر لیں تو ایک نئے معنی کا انکشا ف ممکن ہوجاتا ہے ۔غور کیجئے تومعلوم ہوگا کہ ’گھر ‘اور ’دنیا‘ دونوں میں ’قیام ‘ کی مماثلت موجود ہے ۔ اس لیے دونوں میں عا رضیت، مسائل و مصائب، جبر و استبداد اور فرار وغیرہ کی دوسری مماثلتیں بھی قائم ہوجاتی ہیں ۔تاہم یہاں ’گھر ‘ کا استعارہ اس کے بنیادی معنی ’’سکون‘‘کے برعکس ’’انتشار‘‘ کا معنوی حوالہ بن گیا ہے ،جو شاعر کو ’لمبے سفر‘ یعنی موت کی طرف مائل کرتا ہے ۔ حالانکہ شہر یارؔ نے ایک شعر میں گھر کو بمعنی ’سکون‘ کے استعمال کیا ہے لیکن اسے اتنا Idealize کر دیا ہے کہ اس کا حصول عملی زندگی میں ممکن نہیں :

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

گھر بنانے کے لیے زمین مطلوب ہوتی ہے ،جو یہاں بھی موجود ہے لیکن اتنی نہیں جتنی نقشے کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہاں ’گھر‘سکون کا استعارہ، ’نقشہ‘خیال کا اشارہ اور ’زمین ‘ زرخیزی کی علامت ہے ۔ ان تینوں کے اشتراکی تناسب کو سکون کی اصل حالت قرا ردی گئی ہے ۔ یعنی ان تینوں کا ربط باہم ہی سکون کی تشکیل کا اہم ذریعہ ہے ۔ لیکن زمین کا کم ہونا گھر کی تعمیر میں مانع ہے۔ مطلب یہ کہ سکون کا وہ تصور جو شاعر کے ذہن میں ہے، معروضی حوالے سے متشکل ہوتا نظر نہیں آتا نتیجتاً وہ تصور میں پناہ لیتا ہے ۔تصور میں پناہ لینا یا تصور میں گھر بنانا ایک غیر مانوس عمل ہے جس سے بالواسطہ طور پر دیوانگی کو راہ ملتی ہے اور بقول فوکوؔ دیوانگی تہذیب کی تشکیل میں ایک عنصر کے ہمیشہ قائم و دائم رہی ہے ۔ اس طرح دیکھیں تومعلوم ہوگا کہ شہریار ؔ اپنے فنی کمالات سے شعر کے اثباتی کینوس پر نفی کا منظر نامہ اس آسانی مرتب کر دیتے ہیں کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ۔ترتیب کا یہ عمل تجربے کی تشکیل کے نئے پن کو نمایاں کرتا ہے جس کی معنویت کسی مخصوص حوالے کی متقاضی نہ ہو کر گونا گوں حوالوں کی متحمل ہوجاتی ہے ۔ سماجی اور تہذیبی سروکار کے تمام حوالوں کو Stanley Fish (1938)’ تعبیراتی گرہوں‘(Interpretive Communities) کی اصطلاح سے موسوم کرتا ہے ۲؂۔چونکہ گفتگو ’موت‘ کے شعری تجربے کی ہو رہی ہے ، اس لیے شہریارؔ کے مندرجہ ذیل اشعار بطور مثال کے پیش کیے

جارہے ہیں جوموت کے تجربے کے عکاس ہیں:
کشتی جاں سے اتر جانے کو جی چاہتا ہے
ان دنوں یوں ہے کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے

یہ دیکھو آگئی میرے زوال کی منزل
میں رک گیا مری پرچھائیں چلتی جاتی ہے

زندگی کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
میں نے سب تیاریاں کر لی ہیں مرنے کے لیے

مذکورہ ابیات کی بنیادی خوبی موت کا موضوعی تجربہ نہیں بلکہ اس کا معروضی تصور ہے ۔ وہ معروضی تصور جو دال کے برعکس مدلول کو متحرک کرتا ہے۔ اس لیے یہاں ’کشتی جاں ‘پرچھائیں اور زندگی کے صوتی پیکرات (Sound Images)تین مختلف قسم کے فعال قارئین ( Active Reader) کو پیدا کرتے ہیں جو فشؔ کے مطابق مختلف تعبیراتی گرہوں کے نمائندہ ہوں گے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ان کے تعبیراتی حوالے نہ تو کسی مخصوص تاریخی تناظر سے برآمد ہوں گے اور نہ ہی ان کی تعبیراتی آگہی (Interpretive Wisdom) کسی خاص سماجی نظام سے نمودار ہوگی۔ لیکن یہ تمام چیزیں شعری تہذیب کے انسلاکاتی ربط کے بغیر ممکن نہیں۔ تعبیراتی گرہوں کے ضمن میں Stanley fish شاید اسی لیے متن خواندگی کی ایک حد مقرر کرتا ہے جو براہِ راست تخلیقی تہذیب سے سروکار رکھتی ہے۔ مثلاً کشتی جاں سے اتر جانے کے ایک معنی ’خود فراموشی‘ کے ہیں ،دوسرے خود سے بیزار ہونے کے ، جو خود قربتی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ، اور تیسرے معنی ’خود کشی‘ کرنے کے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں مرجانے کا مستزاد محض اوپر کے بیان کی تصدیق ہی نہیں کرتا بلکہ شعر کا حسن بھی دوبالا کرتا ہے ۔اگر شاعر صرف’مرجاناکہتا‘تو بات شاید ایک شعری بیان سے آگے نہ جاتی۔ لیکن مرجانے کے بعد ’’جی چاہتا ہے ‘‘ کا اضافہ صرف ردیفی تقاضا ہی نہیں پورا کرتا بلکہ موت کے رائج معنی کو زندگی، عشق اور اعتراف جیسے معانی کا نگار خانہ بھی بنا دیتا ہے ۔ ’’مرجانے کو جی چاہتا ہے ‘‘ میں ایک لطیف ابہام موجود ہے ،اور اسی ابہام سے زندگی، عشق اور اعتراف کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے ۔مطلب یہ کہ شاعر جو خود پسند (نارسیسی ) ہے،اس کا سامنا اب ایک ایسی ذات (معشوق) سے ہے جو اس کی اپنی ذات سے کہیں زیادہ پرکشش اور جاذبِ نظر واقع ہوئی ہے ۔ لہٰذا اس پر عاشق کا مر مٹ جانا یقینی ہوگیا ہے ۔ اس کیفیت میں زندگی، عشق اور دوسری ذات کا اعتراف تینوں چیزیں مساوی طور پر شامل ہیں۔ جس طر میرؔ نے اپنے سر کی فیضلت اس شعر میں بیان کی ہے :

پھر بعد میرے آج تلک سر نہیں بکا
اک عمر سے کساد ہے بازار عشق میں

ٹھیک اسی طرح شہریارؔ کے شعر میں ایک پرو قار شخصیت کے بالمقابل دوسری پر کشش ذات کا اعتراف نمایاں ہے ۔ مطلب یہ کہ عاشق کو معشوق سے پہلے کوئی ایسا نہیں ملا جو کشتیِ جاں سے اتر جانے کا محرک ثابت ہوتا، یعنی اسے عشق کی طرف مائل کرتا ۔اسی طرح دوسرے شعر میں زندگی کو ’وقفۂ سکون‘ میں رکھنا اور تیسرے شعر میں ’خود کا ٹھہراؤ‘ اور ’پرچھائیں‘ کی تغیر پذیری ’موت‘ کے بالکل نئے صوتی پیکر خلق کرتی ہے، اور ہر پیکر (معنی ) اپنی نادرہ کاری کے باعث دوسرے پیکر سے مختلف واقع ہوا ہے ۔ معنی کی اس تفریق سے تعبیراتی حوالوں کا تنوع بھی ظاہر ہوتا ہے اور شعری تہذیب کی حد بندی بھی۔ ساتھ ہی یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایک متن کو ورائے متن دیکھنے کی آزادی وہیں تک ہے جہاں تک شعری تہذیب کا لفظیاتی حوالہ اسے دیکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔ لفظیاتی حوالے کی پہلی باقاعدہ بحث انیسویں صدی کے اواخراور بیسویں صدی کے بالکل اوائل میں سولیورؔ (۱۹۱۳۔۱۸۵۷) نے کی تھی ۳؂جو ہمارے زمانے میں Harold Bloom ۴؂(۱۹۳۰)کے یہاں “The Poet in a Poet” کے نظریے کے طور پر شعری تہذیب کا عکس پیش کرتا ہے ۔Graham Allenنے سولیورؔ کے انسلاکاتی الفاظ کے تصور سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :

 

A site of words and sentences showed by multiple potentialities of

meaning, the literary work can now be understood in a comparative

way ,the reader moving outwards from the works apparent structure

 into the relations  it possesses with other works.”5

ظاہر ہے کہ ہر لفظ اور جملے کا اپنا ایک صوتی منظر ہوتا ہے جس کی تعمیر زبان مخصوص کے بولنے، سمجھنے اور لکھنے والے کی تہذیب سے ممکن ہوتی ہے ۔ لفظ یا جملے کا یہی وصف بقول Allenکسی لفظ یا جملے کو گوناگوں معنوی امکانات کا متحمل بناتا ہے ۔لہٰذا یہیں ادب کے تقابلی مطالعے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ، جو متن کے بالمقابل قاری کو فعال و متحرک کرتی ہے کہ وہ ’مطالعہ انسلاک‘ کی بنیاد پر ادب پارے کی کثیر المعنویت زیادہ بہتر طریقے سے انگیز کر سکے:
رات کو دن سے ملانے کی ہوس تھی ہم کو
کام ا چھا نہ تھا انجام بھی اچھا نہ ہوا

گھر میں یاد آئی تھی کل دشت کی وسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو مری وحشت کا سبب
بوئے آوارہ سے پوچھو کہ بھٹکتی کیوں ہے

بڑا شور تھا جب سماعت گئی
بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے

شہر یار کے ان تمام اشعار میں انسلاکاتی الفاظ کا ایک طویل سلسلہ قائم ہے جو شعری تہذیب کے ابتدائی زمانوں سے برآمد ہوتا ہے۔ رات۔دن، دشت۔گھر، وحشت۔آوارگی، شور۔تنہائی وغیرہ بالکل سامنے کی الفاظ ہیں جو شعری بیان کا حصہ بنتے ہی استعاروں میں منقلب ہوگئے ہیں۔ ملحوظ خاطر رہے کہ شعر میں کسی عام لفظ کو استعارہ بنا دینا ایک سلیقہ تو ہے لیکن بہت بڑا ہنر اور کمال نہیں کہ یہ کام دوم اور سوم درجات کے شاعر بھی کر سکتے ہیں، اور کرتے بھی رہے ہیں۔ اس نوع کا سلیقہ رکھنے والے شاعر کے کلام میں ایک مضمون کی بنا پڑ جاتی ہے لیکن اس کے درون میں معنی کے سیال کی موجودگی سے اتفاق ممکن نہیں اگر محض لفظ کو استعارہ بنادینا ہی سب کچھ ہوتا تو آج شاہ نصیرؔ کی شاعری غالبؔ کی شاعری سے زیادہ بڑی ثابت ہوتی لیکن سچائی اس کے بالکل برعکس ہے تو اس لیے کہ استعارہ بالترسیل (Metaphor as a Communicative Process) کے مقابلے میں استعارہ بالتولید (Metaphor as Generative Process) کی اہمیت استاد نصیرؔ سے کہیں زیادہ غالبؔ کو معلوم تھی۔ کلاسیکی شعریات کی روشنی میں استعارے کی ماہیت نیز اس کی شعری کارکردگی پر بحث کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ہر اعتبار سے جامع، استدلالی اور حیرت انگیز ہے ۔ ان کے الفاظ ہیں:

 

“Metaphors do not represent facts; they are facts. Thus metaphor could be

treated as a fact, and another metaphor drawn from it. From that metaphor

again, another one oculd be derived and so on.”6

یہا ں اس بات کی پوری وضاحت کر دی گئی ہے کہ استعارے ’’حقیقت [برائے حقیقت]‘‘ کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ان کی انسلاکی حیثیت خود ایک حقیقت کے ہوتی ہے ، جس سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے استعارے کا ظہور ممکن ہوتا رہتا ہے ، اور یہ سلسلہ بہت دیر اور بہت دور تک چلتا رہتا ہے ۔شہریار کے شعر کے مذکورہ استعارے خارجی حقیقتوں کے ترجمان نہیں بلکہ داخلی کوائف کی زندہ حقیقتیں ہیں، جن کے بطون سے دوسرے استعاراتی حوالوں اور اشاروں کی شعاعیں پھوٹتی نظر آتی ہیں ۔گویا یہ کہ یہاں ایک استعارہ دوسرے استعارے کی تولید کا سبب بنتا ہے ۔ مثلاً پہلے شعر میں رات۔ دن، دوسرے میں گھر ۔ دشت، تیسرے میں وحشت۔ آوارگی اور چوتھے شعر میں شور۔تنہائی وغیرہ الفاظ پر غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں ہر استعارہ دوسرے استعارے کا حوالہ جاتی نکتہ یعنی Reference point ثابت ہوتا ہے ،اور یہ حوالہ جاتی نکتہ مماثلت کی بنیاد پر قائم نہیں بلکہ تضاد کی بناپر استوار ہے ۔ ’رات کو دن سے ملانا‘ دو متضاد چیزو ں کو یکجا کرنا ہے، اور یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جتناکافور سے عطر کشید کرنا۔ یہاں ’رات‘اور ’دن‘ عام سے الفاظ ہیں جو روز مرہ میں تشخص وقت یا Time personification کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن شعری بیان کا حصہ بنتے ہی ان کے صوتی پیکر اپنی اس ذمہ داری سے فوراً سبک دوش ہوجاتے ہیں۔

ان کی سبک دوشی معنی نما کی قائم مقام بن جاتی ہے جس کے بعد ’’رات‘‘ جوانی، معشوق،اسرار، بیکرانی، وغیرہ کا استعارہ بن جاتی ہے اور ’’دن‘‘ ضعیفی، عاشق، تمازت وغیرہ کا دلالتی استعارہ جو پہلے استعارے (رات) کے حوالہ جاتی نکتے کے طور پر برآمدہوتا ہے ۔اتنا طے ہوجانے کے بعد دونوں استعاروں کی نسبتی معنویت کا تعین بھی آسان ہوجاتا ہے اور دونوں کی مماثلتیں اور تضادات کی نشاندہی بھی قدرے سہل ہوجاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ’’رات‘‘ کے جتنے بھی مناسباتی معنی بیان کیے گئے ہیں وہ سب ’’دن‘‘ کے استعارے سے ہم آہنگ ہو کر نئے اور متخالف معنی کے ظہور کا وسیلہ بن گئے ہیں ۔ استعاروں کا یہ تبادلہ ہی دراصل شعر میں معنوی امکانات پیدا کرتا ہے جس میں اتحادو انتشار کی خوبی موجود ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہریارؔ کا یہ شعر گونا گوں معنوی دعوے کا دلالتی اظہار بن گیا ہے ۔ اگر ہم یہاں رات کو معشوق تسلیم کر لیں تو رات کی بنیادی صفت ’’ سیاہی‘‘ معشوق کی زلف میں موجود ہے بقول جگر مرادآبادی :

عارض با عارض صبحے تا صبحے
گیسو با گیسو شامے تا شامے

یعنی کہ ایک کی کلی صفت دوسرے کی جزوی صفت ہے ۔ اسی طرح اگر ’دن‘ کو عاشق کا استعارہ کر لیں تو اس کی تمازت ،جو سورج کی وجہ سے قائم ہوتی ہے ، عاشق میں نمایاں ہے ۔ مطلب یہ کہ معشوق سے عدم وصال کی وجہ سے عاشق ہمیشہ جلتا اور سلگتا رہتا ہے ۔لہٰذا معشوق کا وصال ہی عاشق کو متوازن رکھنے کی واحد سبیل ہے جو کسی طور پرممکن ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہاں ’ہوس‘ کا لفظ بھی کافی معنی خیز ہے، جو طلب یا خواہش کے برعکس ایک نوع کی انتہا پسندی کو ظاہرکرتا ہے ،اور جس میں مثبت سے زیادہ منفی عمل موجود ہے ۔ شعر کا تیسرا صیغہ (Third Person)اس منفی عمل کا نمائندہ ہے ۔ چنانچہ رات کو دن سے یعنی عاشق کو معشوق سے ملانا اور وہ بھی ہوس کی حد تک، کبھی مستحسن اور مثبت عمل ثابت نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اچھا نہیں تھا اس لیے اس کا نتیجہ بھی اچھا نہیں نکلا ۔ یعنی ہجر کی وہی صورت قائم رہی جو شروع سے عشق کی نمایاں خوبی رہی ہے ۔ اس شعر میں ایک شاعرانہ پیغام بھی موجود ہے ،اور وہ یہ کہ اگر عاشق ومعشوق یا جزو و کل کا اتصال ہوجاتا تو دونوں کی انفرادی شناخت معدوم ہوجاتی۔ نتیجتاً دونوں زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کی رمق سے محروم ہوتے۔ اسی طرح اگر ’’رات ‘ ‘ کو جوانی، اسرار اور بیکرانی کے معنی کا استعارہ سمجھ لیں تو ان کی بھی کوئی نہ کوئی نسبت ’’رات‘‘ سے ضرور قائم ہوجائے گی اور ’’دن ‘‘ کے استعارے سے ان کے رشتے کا کوئی نہ کوئی جواز بھی مہیا ہوجائے گا۔ جیسا کہ میرؔ و غالب کے ان اشعار میں یہ جواز مہیا ہے :

کاو کاوے سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

اسی طرح گھر اور دشت ،وحشت اور آوارگی،شور اور تنہائی کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان کی عمومیت و سادگی بھی اپنی عام معروضی سطح سے بلند ہو کر ’معنی نما‘کے ظہور کا وسیلہ بن جاتی ہے ۔ ’گھر میں دشت کی وسعت کا یاد آنا‘ بالواسطہ طور پر گھر کی تنگی کو ظاہر کرتا ہے ۔جس طرح غالب نے ایک شعر میں بیان کیا ہے :

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

لیکن شہریارؔ کے شعر کی معنویت غالب کے شعر کی معنویت سے قریب ہوتے ہوئے بھی اس کے جیسی نہیں ہے۔ دیکھیں تو قربت کا یہ جواز ویرانی اور وسعت کے الفاظ سے مہیا ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ جو چیز وسیع ہوتی ہے وہ ایک طرح سے ویرانی کا مظہر ہوتی ہے۔ جنگل اپنی تمام تر شادابی کے باوجود ویران سمجھاجاتا تو اس لیے کہ اس کی وسعت ’وسعت پیمائی ‘یا ’آمدورفت ‘سے محروم ہوتی ہے۔ غالب نے دشت کی ویرانی پر ایک متحیر استفسار قائم کر کے گھر کو اس سے زیادہ ویران قرا ردیا ہے ۔ جب کہ شہر یارؔ دشت کی وسعت سے آشنا ہونے کے بعد دوبارہ گھر جانے کی تمنا کرتے ہیں۔ مطلب صاف ہے کہ دشت کے متعلق جو بات متکلم کو معلوم تھی یعنی یہ کہ وہ بہت وسیع ہوتا ہے ۔بقول عرفان ؔ صدیقی :

ریت پہ تھک کے گرا ہوں توہوا پوچھتی ہے
آپ کیوں آئے تھے اس دشت میں وحشت کے بغیر

لیکن جب دشت سے شاعر کا سامنا ہوتا ہے تووہ اسے کم وسیع ہی نہیں بلکہ اتنا تنگ محسوس کرتا ہے کہ اسے گھر لوٹنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔گھر کی طرف مراجعت اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ گھر کم سے کم دشت سے زیادہ کشادہ ہے ۔ شہریارؔ کا یہی شعری رویہ دشت کے روایتی لفظ کو نئے استعاراتی معنی کا حامل بنا دیتا ہے ، جو شعری تہذیب کی انسلاکیت کا مظہر ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ رویہ میرؔ و غالبؔ کی اردو شاعری سے اپنے رشتے کی توثیق بھی کرتا ہے ۔ توثیق کا یہ عمل شہریار کے مندرجہ ذیل اشعا رمیں بھی باآسانی دیکھا اور محسوس کیاجاسکتا ہے :

دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان ساکیوں ہے

اس حادثے کو سن کے کرے گا یقین کوئی
سورج کو ایک جھونکا ہوا کا بجھا گیا

ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے

خوش فہمی رہی مجھ کو یہی کار جنوں میں
جو میں نہیں کر پایا کسی سے نہیں ہوگا

یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے

تمام خلق خدا اس جگہ رکی کیوں ہے
یہاں سے آگے کوئی راستہ نہیں ہے کیا

عمر کا باقی سفر کرنا ہے اس شرط کے ساتھ
دھوپ دیکھیں تو اسے سائے سے تعبیر کریں

ہر اک ا دا پسند ہے معشوق کی ہمیں
ظالم ہو، بد دماغ ہو، ہرجائی تو نہ ہو

ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہیے آنا وہیں نہیں آتا

ان تمام اشعار میں دل پتھر، معشوق ،خلق خدا، دھوپ،سورج، پیڑ، سایۂ دیوار،کار جنوں وغیرہ الفاظ سے نہ صرف یہ کہ شعری تہذیب کا دیرینہ انسلاک نمایاں ہوتا ہے بلکہ اس انسلاک کے توسط سے تجربے کی تشکیل کا نیا پن (Newness)اور معنوی ندرت کا خوب خوب اندازہ بھی ہوتا ہے ۔ شہریار کی غزلیہ شاعری میں یہ تمام خوبیاں الفاظ کو رائج سیاق وسباق سے الگ کرنے اور انھیں استعاروں میں منقلب کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ یعنی یہ کہ ان کے یہاں ایک استعارہ دوسرے استعارے کی افزائش کاذریعہ بنا ہے ،اس لیے اس کی معنویت بھی پہلے استعارے کی معنویت سے ایک حد تک مختلف واقع ہوئی ہے۔

مضمون کے شروع میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ شہریارؔ کی شاعری کاanon’cنیم خوابی‘ کے شعری عناصر سے کچھ اس طرح تیار کیاگیا جیسے وہ شاعری خواب کے دھندلکوں اور سایوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ اور یہ گمراہی ان کے چوتھے مجموعے ’’خواب کا در بند ہے ‘‘ کی اشاعت کے بعد پھیلائی گئی ۔کیونکہ حسن اتفاق سے اس کا نام خواب پر رکھا گیا تھا۔ تنقید کی تن آسانی یہ رہی ہے کہ اس نے شہریار کی شاعری سے دس بیس الفاظ ایسے منتخب کر لیے جوخواب آگئیں کیفیت کے ترجمان تھے ،اور پھر انھیں خط مستقیم پر اس طرح استعمال کیا کہ وہ شاعری واقعی خواب کی ترجمان بن گئی۔ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ’’خواب کا در بند ہے ‘‘مجموعے کی ایک نمائندہ اور پہلی نظم ہے جس کے نام پر مجموعے کا نام رکھاگیا ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک نظم کے عنوان سے شہریارؔ کی پوری شاعری اوروہ بھی غزلیہ شاعر جو ان کی بنیادی شناخت ہے ،کا Canonتیار کر دیا گیا ۔کالرجؔ کی مشہور نظم Kubla Khanکی خواب پرستی ایک حد تک اس لیے قابل یقین معلوم ہوتی ہے کہ اس کی تخلیق افیون کی غنودگی میں ممکن ہوئی تھی ۔لیکن شہریار کی شاعری کے سلسلے میں ایسا کوئی جوازفراہم نہیں ہوتا۔ ذرا سی کوشش کی جائے تو ان کے یہاں ایسے اشعار بکثرت تلاش کیے جاسکتے ہیں جو ’’خواب ‘‘ کے برعکس ’’دشت و صحرا‘‘ کے شاعرانہ بیانات کے حامل ٹھہرتے ہیں:

نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں
دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آگیا

عافیت آوارگی کا فرق مٹ جائے گا اب
سرحدیں صحراؤں کی ملنے لگی ہیں شہر سے

صحرا کی سلطنت ہے حدود نگاہ تک
بادل ہزار برسے زمینوں پہ ٹوٹ کے

کیا ہوا اہلِ جنوں کو کہ دعا مانگتے ہیں
شہر میں شور نہ ہو دشت میں ویرانی نہ ہو

رنگ وحشت سے سبھی رنگ بہت دھندلے تھے
شہر کا خاکہ تھا تصویر بنی صحرا کی

ریت دامن میں ہو یا دشت میں بس ریت ہی ہے
ریت میں فصلِ تمنا کوئی بوئے کیسے

چاہا بہت کہ دشت کو گلزار کر سکوں
میرے بدن میں خون تو تھا اتنا خوں نہ تھا

دشت خالی ہوئے زنجیر ہوئے دیوانے
تھی خطا اتنی کہ کیوں خاک اڑانے آئے

ترے دشت وسعت سے محروم تھے
میری وحشتوں کو نہ الزام دے

مٹھیاں ریت سے بھر لوں کہ سمندر میں تمھیں
اک نہ اک روز جزیروں کی ضرورت ہوگی

جہاں جائیے ریت کا سلسلہ
جدھر دیکھئے شہر اجڑے ہوئے

یہاں ایک نظم (خواب کا در بند ہے ) کے مقابلے میں دشت، صحرا اور ریت کے ا لفاظ کا تناسب خواب کے لفظ سے کہیں زیادہ ہے ۔ لہٰذا اس بنیاد پر تو یہ فیصلہ صادر کیا ہی جاسکتا ہے کہ شہریارؔ کی شاعری ’’دشت و صحرا‘‘ میں بھٹکنے والی مجنونانہ شخصیت کا اظہار ہے ۔ تنقید کی تن آسانی تو یہ فیصلہ کر سکتی ہے لیکن اقداری تنقید کو اس نوع کے کسی فیصلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ شعر میں مسئلہ خواب کی تکرار کاہو یادشت وصحرا کے کثرتِ استعمال کا ، تنقید کا کام اس نوع کی تکرار اور کثرت کی بناپر کوئی فیصلہ کرنا نہیں بلکہ اس کا اصل کام شعر کی اقداری معنویت کی تشکیل کا سراغ لگانا ہے جو قاری کو شعری بیان سے پرے مختلف ذہنی پیکرات (Mental Images)کی طرف لے جاتا ہے ،تشکیل کے اسی مرحلے کو ابوالقاہر جرجانی (۱۴۱۳م)معنی سے تعبیر کرتا ہے :

 

“When a speaker uses the name of a particular object in

reality, he is referring to the image established in his mind

of that reality not to an actual instance of it as he speakes.”7

شہریار کے مذکورہ اشعار میں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ دشت،صحرا اور ریت کے الفاظ کتنی بار استعمال ہوئے ہیں بلکہ اس حقیقت کی سراغ رسانی ناگزیر ہے کہ یہ الفاظ تجربے کی جہت کو کیسے اور کس طرح متشکل کرتے ہیں ۔جب یہ بات سمجھ میںِ آجائے گی تو ظاہر ہے کہ پھر اس حقیقت کی تفہیم بھی قدرے آسان ہوجائے گی کہ ’’دشت‘‘ یا غیر مزکورہ لفظ ’’خواب‘‘ الگ ا لگ تناظر میں جداگانہ ذہنی پیکرات ( جیسے جرجانیؔ معنی کہتا ہے )خلق کرتا ہے۔ اس لیے انھیں کسی ایک نکتے یا مرکز کے حوالے نہیں کیا جاسکتا ۔ کیوں کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ شعر میں ’’مضمون ‘‘ کی حیثیت ایک ٹھوس حقیقت کے ہوتی ہے لیکن معنی ایک تصور (tpConce)ہے جو سیال صفت ہوتا ہے ۔اس کی یہی سیالیت اسے مختلف معروض سے ہم آہنگ کرتی رہتی ہے۔ شہر یار کی غزلیہ شاعری کا ایک بڑا حصہ معنی کے اس تصور کا سیل رواں ہے ۔اس لیے اس کا کوئی خاص Canonنہیں بنایا جاسکتا ۔یعنی یہ کہ اس شاعری کو Canonizeکرنا اس کے سیل رواں کو منجمد کرنا ہے ۔ شہریار کی شاعری کے سلسلے میں اس آخری بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ وہ ہر بڑی اور اہم شاعری کی طرح ’بیان‘ سے عبارت ہے جس پر دال و مدلوں دونو ں کا انحصار مساوی طور پر ہوتا ہے ۔ ’بیان‘کی تعریف الجاظؔ (۸۶۹۔۷۷۶)کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:

 

“The word bayan comprises anything that reveals the sense and

brings out the inner meaning, so that the hearer may grasp the

reality of it ……The main object of both speaker and hearer is

simply to understand and be understood; and any means used to

make oneself clearly understood is ‘bayan’.8

 

شاید یہی وجہ ہے کہ شہریارؔ کی غزلیہ شاعری میں ’متکلم‘ اور ’قاری‘ کے درمیان فکشن کے راوی (Narrator)اور قاری (Reader)کی طرح کوئی معاہدہ نہیں ہوتا جس کی وقفے وقفے سے خلاف ورزی کی جائے۔ متکلم کا ’بیان‘ قاری تک مرسل ہوتا ہے ،اس لیے یہاں قاری کو کوئی الجھن ہوتی ہے اور نہ ہی پریشانی۔ تاہم قاری لفظوں کی انسلاکاتی قوت کی بنیاد پر مختلف ذہنی پیکرات تک رسائی حاصل کرتا رہتا ہے ۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ شہریارؔ کی شاعری غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، جو محض زندگی کو محسوسکرنے سے نہیں بلکہ اسے بھر پور انداز میں جینے سے پیدا ہوتی ہے ۔


حوالے

 

1.”Art as Technique” Viktor Shklovsky, P. 12, Mas Academy, 1970

2.”Is There a Text in This Class?: The Authority of Interpretive Communities” Stanley Fish, P.7, Harvard University Press, 1980

3.”Course in General Linguistics” Ferdinand de Saussure, P.75, Mc Graw-Hill Book Company, New York, 1915

4.”The Anxiety of Influence: A Theory of Poetry” Harold Bloom, P.18, Oxford University Press, 1997.

5.”Intertextuality”  Grahm Allen, P.12, Routledge, London, 2000

6.”Conventions of Love, Love of Conventions: Urdu Love Poetry in the Eighteen Century” Shamsur Rahman Faruqi, P.12, “The Annual of Urdu Studies”, Vol. 19, Madison, 2004

7.”The Theology of Meaning : Abdul -Qahiral Jurjani’s Theory of Discourse”, Gully Adrina, P.48, “The Journal of the American Oriental Society, 1997

8.”Al-Jahiz Translation of Selected Text by C. Pellat, P.32, Routledge and Paul Kegan, London, 1969