سارترکیوں اٹھ گیا تھا؟ ہمارے شاعر و ادیب زمینی حالات سے اس قدر کٹے ہوئے کیوں ہیں؟

 

(یاسر چٹھہ)

یہ وفاقی دارالحکومت ہے۔ یہاں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے چوتھی سالانہ ادبی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ عنوان ہے: زبان، ادب اور معاشرہ۔ یہاں مختلف لوگوں نے اپنے راولپنڈی صدر کی دکان سے کسی وقت کے سلوائے ہوئے two piece سوٹوں کو اپنے محلے کے اچھے دھوبی سے اسٹیم پریس کروا لیا ہوا ہے۔ آج سوٹ بالکل نئے جیسے لگ رہے ہیں۔ لباس پر کوئی سلوٹ باقی نہیں بچی۔۔۔ واللہ دھوبی کا ماہر ہاتھ۔

آج وفاقی دارالحکومت میں ادیب سرشاری میں ہیں۔ ان جیسے میلوں پر ہر بار دلھے کا سا احساس ہوتا ہے۔ میلے پر ہر تھوڑی تھوڑی گھڑی کی سوئی کے نیچے رینگتی وقت کی اکائی میں آواز سننے کو ملتی ہے: ادیب معاشرے کا عکس ہوتے ہیں؛ معاشرے کے شعور کی صندلیں تبخیر ہوتے ہیں؛ حساس ترین طبقہ ہوتے ہیں؛ ملکی ثقافت کے سفیر ہوتے ہیں۔ انا سہلاتے شبد کس قدر بھلے لگتے ہیں۔ اور بھلے لگتے ہی جاتے ہیں۔ سرشاری کا احساس کیجئے، ادبی لطافت کے ذوق کے احساس کا مرغ باد نما بنئے۔ کہلوائیے، بلکہ بخشوائیے اور مانتے جائیے ک کہیں آپ میتھیو آرنلڈ کے وقتوں کے Philistines میں سے نا رہ جائیے۔

چوتھے سالانہ سرکاری ادبی میلے کا چوتھا تسلسل ہے۔ آج پہلا دن ہے۔ پاک چائنہ سینٹر میں ملک کے منتخب وزیر اعظم کو افتتاحی تقریب میں مدعو کیا گیا ہے۔ تقریریں ہوتی ہیں۔ ہونٹوں کی جبلی مشقیں ہوتی ہے۔ ادب، ادب ، ادب شاعری، شاعری، شاعری، آئینے، حساس طبقات کے لفظ بارش کے بعد کی ٹھنڈی اور مرطوب ہوا سے بوجھل اڑتے پھرتے ہیں۔

یاسر چٹھہ

افتتاحی تقریب میں وزیراعظم صاحب اپنی ہونٹوں کو تقریری مشق دے کر انتہائی عجلت میں پاک چائنہ سینٹر کو چھوڑتے ہیں۔ یہ اس طرف کا معاملہ ہے۔ ادھر انتہائی بلند مرتبہ چائے کا طبل بجتا ہے، اس عالی مرتبت چائے کو عرف عام میں high tea کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بڑے لوگ، اونچی چائے، ماشاللہ، ماشاللہ! بغیر سلوٹوں کے لباسوں کے ساتھ ادیب، شاعر اور بشمول باقی ماندہ حساس طبقات چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بہت مزے کی چائے ہے اور اس چائے کے ساتھ سرکیوں میں موسیقیت کی سنگت بھرنے کو خستہ خستہ اشیاء بھی موجود ہیں۔ زیادہ تفصیل سے منظر نگاری نہیں کروں گا کہ نازک ہیں آبگینے، کہیں اہل دل پہ گراں نا گزر جائے! جب چائے سے کچھ سیری ہوتے ہیں، شکم عالیہ میں سے دو چار حساس قسم کے ڈکار برآمد ہوجاتے ہیں تو نئی فکریں آن نازک جان کو پکڑتی ہیں۔

ملک کے سافٹ امیج کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ وزیراعظم بھی کیا ہی بھلا ہوتا کہ ادیبوں، شاعروں کے ساتھ چائے کی پیالی پر گھل مل جاتے۔ کتنا خوب لگتا کہ پاکستان کا وزیراعظم بڑا ادب اور ادیب نواز ہے۔ آسانی سے ریشم جیسا امیج ابھر کر زمین سے ثریا پر پہنچ جانا تھا ملک عزیز کا۔ لیکن نہیں ہو سکا۔ دیکھئے کتنا خیال خوب ہے۔ کسی قدر وطن سے محبت کے روشن خیال اور دل کے جھروکے سے مس کر کے آتے شعر جیسے موزوں کئے ہوئے آدرش ہیں۔ ان خیالات کا مول نہیں لگایا جا سکتا۔ کہیں شک پڑتا ہے کہ ادیب و شاعر اپنی زمین سے جڑا ہوا نہیں۔ واضح ہوتا ہے کہ اسے امیج اور شبیہ کا کس قدر دھڑکا لگا ہوا ہے۔

اسی شام کو ایک معلم، ادیب، ڈرامہ نگار، شاعر سلمان حیدر “غائب” ہو جاتا ہے۔ کیا اسے بھی ابھی ہی لاپتہ ہونا تھا؟ ملک کی نازک شبیہ کی تو ہوگئی نا خرابی۔ اوہ، خدایا! ابھی یہ خبر زیادہ نہیں نکلی۔ شک کا فائدہ دیتے ہیں۔ اور وہ فائدہ لینے میں تو یکتا ہیں بھی، بس ملے سہی۔

ہفتہ کا روز ہے۔ صبح سے ہی ٹی وی چینلوں نے شور مچایا ہوا ہے کہ پروفیسر سلمان حیدر کو اغواء کرلیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہاہاکاری مچی ہوئی ہے کہ شاعر و لکھاری لاپتہ ہوگیا ہے۔ لیکن! اسٹیم پریس کئے ہوئے لباسوں میں حساس طبقات آج اسلام آباد ہوٹل میں ہیں۔ مقالے پر مقالہ چل رہا ہے۔ چائے کی پیالی پر پیالی، کافی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ کتابوں کے سٹالوں والے بے چارے البتہ انتہائی بے روزگاری اور ٹھنڈ بازاری کا شکار ہیں؛ اوپر سے مصیبت یہ کہ ہوٹل تھوڑا صفائی کا بھرم رکھنے کے لئے مکھیوں کے داخلے کی بھی اجازت نہیں دیتا؛ لہٰذا ان کی ہلاکتوں سے مصروفیت کا حصول بھی ممکن نہیں رہا!
اندر سب کچھ چل رہا ہے۔ لیکن کچھ نہیں ہے تو گمشدگیوں اور لاپتہ ہوجانے والے کے باب میں کوئی بات نہیں ہو رہی۔ ہوٹل اور ادیب و شاعر باہر کی دنیا سے سربمہر اور ہوا بند ہیں۔ شام گھر پہنچتا ہوں۔ فیس بک پر پروفیسر قاسم یعقوب صاحب نے میری عامر ہاشم خاکوانی صاحب کے ساتھ کی تصویریں شائع کی ہوئی ہیں۔ نعیم بیگ صاحب اہل دل ہیں اور ضمیر بھی رکھتے ہیں۔ ایک مکالمی اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

نعیم بیگ: اچھی تصاویر ہیں ۔۔۔ کیا کانفرنس میں کسی نے سلمان حیدر کے بارے میں آوازاٹھائی ؟
راقم: افسوس کہ ہمارے ادیب زمین سے کٹے ہوئے ہیں۔ کوئی آواز نہیں سنی۔ اس کی تفصیل پھر سہی
عثمان جگت پوری: یہ تو نہایت افسوسناک امر ہے سارا پاکستانی میڈیا آواز اٹھا رہا ہے؛ چوہدری نثار یقین دہانی کروا رہے ہیں، مگر پھر بھی کسی نے اس حوالے سے بات نہیں کی!
نعیم بیگ: ہائے ہائے ۔۔۔۔ پھر یہ کہاں کے ادیب ٹھہرے؟ ۔۔۔
صرف ادب برائے ادب ۔۔۔
سارتر نے پاکستان سے گئے ایک معروف شاعر (نام یاد نہیں رہا ورنہ ضرور لکھتا) سے پیرس میں اپنے مخصوص کیفے میں جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، ملنے پر پہلا سوال کیا تھا کہ سنائیں پاکستان میں سیاست کیسی ہے؟
انہوں نے جواب دیا ۔۔۔۔ میں تو شاعر ہوں۔ میرا سیاست سے کیا تعلق؟
سارتر خاموش ہو گئے اور محفل اور ملاقات برخواست کر دی۔

آخری لفظوں کے طور پر برادر عزیز شکور رافع کے ان چند لفظوں کو نقل کرتے ہیں:

“مؤرخ اگر بچ گیا تو لکھے گا کہ جس دن سب سے مہذب شہر کے پنج ستارہ ہوٹل میں امن و ادب کے فروغ کیلئے پرتکلف سیمینار جاری تھا، جہاں سینکڑوں ادیب سراپا تقریر و “تصویر” بنے بیٹھے تھے، ٹھیک اسی دن، اسی شہر سے ایک ادیب، استاد اور مشہور شاعر وغیرہ کو اٹھا لیا گیا تھا۔
مؤرخ آخر میں ان بولتے چند شرپسند لکھاریوں کو یہ الوداعی شعر بھی سنا سکتا ہے:

قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو!

اس کے ساتھ ہی ہم بھی اس مضمون کے اوپر پردہ گرا دیتے ہیں۔ باقی سارے خیال اب آپ قارئین کے۔ البتہ دیکھئے گا آپ کہیں اس قدر معاشرے کے حساس طبقے نا بن جائیے گا کہ خود حساسییت ہی آپ کے درون پردہ کر جائے!

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔