عبداللہ شاہ المعروف ’بلھے شاہ‘: صوفیانہ زندگی کا ایک روشن باب

سیدہ عابدہ شہباز)

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کا سوال سامنے آتے ہی ذہن ان لا تعداد اولیائے کرام اور فقرائے عظام کی طرف از خود منتقل ہو جاتا ہے جنھوں نے شب و روز فقر و فاقہ کے مصائب برداشت کر کے اس وسیع و عریض بتکدہ میں شمع وحدانیت روشن کی اور تیل کی جگہ اپنا خون جگر جلا جلا کر اسے روشن کیے رکھا۔ ان میں بابابلھے شاہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، جن کی شاعری کسی بھی قوم کے لیے مشعل راہ ہے۔
ہمارا معاشرہ، گناہ کی جس دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے پرکھوں کے خیالات، احکامات کو پس پشت ڈال کر نفسِ امارہ کے حصول میں اندھا دھند دوڑ لگا رکھی ہے۔ جس کا انجام افسوس ناک بھی ہے اور ہولناک بھی۔
حضرت عبداللہ شاہ المعروف بلھے شاہؒ جو پیدا تو اُچ میں ہوئے لیکن قصوری کہلائے، سید تھے لیکن آرائیں کہلوانا پسند فرماتے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سید درویش محمد صاحب جو کہ علوم عربی اور فارسی کے عالم تھے، سے حاصل کی۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ قصور میں حافظ غلام مرتضیٰ کے پاس تشریف لے گئے، قصور اس زمانے میں پٹھانوں کی راجدھانی اور اسلامی علوم کا مرکز تھا۔ جامع مسجد کے خطیب مولانا حافظ غلام مرتضیٰ کے درس کا بڑا چرچا تھا۔ چنانچہ آپ وہاں سے مروجہ علوم حاصل کرنے کے بعد کسی کامل مرشد کی تلاش میں لگ گئے تاکہ باطنی علوم اور روحانی تعلیم حاصل کر سکیں۔
ایک دن اسی جستجو میں ایک درخت کے سایہ میں سستانے کے لیے بیٹھے تھے کہ اونگھ آ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کی پانچویں پشت سے آپ کے جدامجد حضرت سید عبدالحکیم رحمتہ اللہ علیہ کا تخت مبارک ہوا میں سے نیچے اُترا۔ انھوں نے آپ سے پوچھا، تم کون ہو؟ کہا میں سید ہوں، پھر ان کے دریافت کرنے پر آپ نے اپنے والد صاحب کا نام بتایا۔ انھوں نے کہا بیٹا ہمیں پیاس لگی ہے۔ آپ نے دودھ کا پیالہ پیش کیا۔ انھوں نے کچھ پیا اور کچھ بچا کر آپ کو عنایت فرمایا کہ لو بیٹا یہ تم پی لو۔ دودھ کا پینا تھا کہ بے خود ہو کر سرمست ہو گئے اور نور معرفت سے قلب منور ہو گیا۔ تب انھوں نے فرمایا کہ بیٹا ہمارے پاس یہ تمہاری امانت تھی جو تمہیں عنایت کر دی۔ اب مرشد کی تلاش کرو، جو تمہیں معرفت اور ملوک کے مقامات طے کرائے۔ اتنے میں آپ کی آنکھ کھل گئی اور آپ واپس گھر چلے آئے۔ تمام ماجرا اپنے والد کے گوش گزار کیا۔ انھوں نے فرمایا، بیٹا تم سے بھول ہو گئی ہے ایسے بزرگ سے ملاقات ہوئی تھی تو انہی سے کہنا تھا کہ آپ کو چھوڑ کر اور کون سا مرشد تلاش کروں۔ آپ نے والد صاحب سے عرض کی کہ آپ فرمائیے وہ کہاں مل سکتے ہیں۔ آپ کے والد صاحب نے مراقبہ میں معلوم کر کے آپ کو بتایا کہ وہ بزرگ اس وقت موضع ساندھ میں تشریف فرما ہیں۔ چنانچہ حضرت بلھے شاہ اسی وقت گھر سے روانہ ہوئے اور ساندھ پہنچ گئے اور ایک مسجد میں آ کر لیٹ گئے،وہیں ان کی ملاقات سید عبدالحکیمؒ صاحب سے ہوئی۔ آپ نے عرض کی کہ حضور آپ کے بغیر، مرشد کی تلاش کیسے کروں؟ انھوں نے فرمایا ، بیٹا تمہارا حصہ مولوی محمد عنایت قادری کے پاس ہے۔ آپ نے گھر واپس جا کر اپنے والد صاحب سے اس بات کا ذکر کیا اور محمد عنایت قادری صاحب کے ہاتھ بیعت کرنے کی اجازت طلب کی۔ والد صاحب نے اجازت دی اور کچھ روپے اور ایک دستار مرشد کی خدمت میں نذر کرنے کے لیے بھی دی اور کہا بیٹا نہایت عجز و انکساری و عقیدت کے ساتھ مرشد کی خدمت میں یہ چیزیں پیش کرنا اور جو تعلیمات وہ دیں، انھیں غور سے سن کر عمل پیرا ہونا۔ ان دنوں مولوی شاہ عنایت قادری لاہور بھاٹی دروازے میں اونچی مسجد کے پیش امام تھے۔ وہیں پر درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری کیا ہوا تھا۔ آپ ان کے پاس پہنچے، اپنا مدعا بیان کیا، مولوی صاحب نے بلھے شاہ صاحب کو چند امتحانات سے گزار کر، بیعت کرنے کی اجازت دی اور اپنا مرید بنا لیا۔ بلھے شاہ کو اپنے مرشد سے والہانہ عشق تھا۔ اس عشق نے انھیں عشق حقیقی تک پہنچایا، جہاں پہنچ کر پھر کسی مجازی عشق کی ضرورت نہ رہی۔ اپنی شاعری میں فرماتے ہیں:
بلھا سب مجاز ی پوڑیاں تو محل حقیقت ویکھ
جو کوئی اوتھے پہنچیا، چاہے بھل گئی سلام علیک
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
وحدت دے دریارسیندے میری وحدت کتول دھائی
مرشد کامل پار لنگھایاں، باہجھ تلے سُرنائی
ترجمہ: توحید انہی کا ناپیدا کنار سمندر لہریں مارتا ہوا نظر آ رہا تھا جسے دیکھ کر میرے ہوش و ہواس کھو گئے لیکن مرشد کامل نے بغیر کسی ریاضت و مجاہدہ کے، مجھے اس سمندر سے پار کرا دیا پھر کرامات کے سلسلے میں چل نکلے۔
ایک مرتبہ بلھے شاہ کو اپنے استاد محترم غلام مرتضیٰ کی صاحبزادی کی شادی میں کھانے کے انتظام میں منتظم مقرر کیا گیا۔ جس اثناء میں آپ مہمانوں کو کھانا کھلانے کے انتظام میں مشغول تھے، عین اس وقت مولوی ظہور محمد جو کہ شاہ عنایت قادری صاحب کے داماد، بھتیجے اور مرید خاص بھی تھے، قصور میں بلھے شاہ سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے درویش کے ذریعے اپنے آنے کی اطلاع بلھے شاہ کو دی۔ آپ نے درویش سے کہا، مولوی صاحب کی بھرپور خاطر مدارت کرو اور ان سے کہو میں شادی کے مدعوین کو کھانا کھلانے میں مصروف ہوں، اس لیے یہاں سے فارغ ہو کر حاضر ہو ں گا۔ اتفاق ایسا ہوا مہمانوں کی کثرت سے رات بھر وہیں مصروف رہے اور ملاقات نہ کر سکے۔ مولوی ظہور محمد علی الصبح غصے میں آ کر سیدھے لاہور پہنچے اور شاہ عنایت قادری صاحب سے بلھے شاہ کی شکایت کر دی۔ آپ جلال میں آ گئے اور اسی وقت بلھے شاہ سے ولایت سلب کر لی۔
جیسے ہی اس بات کا علم بلھے شاہ کو ہوا تو انھوں نے شادی کے تمام انتظامات معذرت کے ساتھ غلام مرتضیٰ کے حوالے کیے اور واپس لاہور کی راہ لی اور سیدھا مجرا کرنے والوں کے پاس پہنچے، یہ لوگ شاہ عنایت قادری رحمتہ اللہ علیہ اور بلھے شاہ کے تعلق سے واقف تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو شاہ عنایت صاحب کو قوالیاں سنایا کرتے تھے۔ آپ نے انھیں سارا واقعہ سنایا اور افشائے راز سے منع کیا۔ ایک مرتبہ جمعہ کے روز انھوں نے شاہ صاحب کے حضور قوالی کرنے کو جانا تھا، آپ نے انھیں ہدایت کی کہ جب وہ قوالی ختم کر چکیں تو حضور سے کہیں کہ ہندوستان سے ایک مغنیہ آئی ہے۔ اگر اجازت ہو اگلے جمعہ کو مجرا کے لیے حاضر کی جائے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا، شاہ عنایت صاحب نے فرمایا، ہم اس مغنیہ کو جانتے ہیں۔ خیر اسے بھی اگلے جمعہ ساتھ لے آنا۔ اجازت کی خبر پا کر آپ باغ باغ ہو گئے۔ اللہ کا شکر بجا لائے۔ جوں جوں جمعہ قریب آ رہا تھا، آپ کی آتش عشق اور بھڑک رہی تھی۔ الغرض جمعہ آ گیا۔ آپ نے غسل کیا، نماز تہجد ادا کی، اللہ کے حضور منظوری کے لیے گڑگڑا کے دعا کی، صبح کی نماز سے فارغ ہو کر اپنا سابقہ لباس اتار کر مغنیہ کا لباس پہنا۔ پائوں میں گھنگرو باندھے، چہرے پر نقاب ڈالا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے، جیسے ہی محفل سماع منعقدہوئی، آپ نے ایسا پرسوز کلام سنایا کہ تمام حاضرین محفل وجد میں آگئے، خود گانے والے اور سازندے حیران رہ گئے۔ تب آپ نے یہ کافی گانا شرو ع کر دی۔
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا

ایس عشق دی جھنگی وچ مور بولیندا
ساتوں قبلہ تے کعبہ سوھنا یار دسیندا
سانوں گھائل کر کے پھر خبر نہ لیا

تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
جب آپ کافی گا چکے تو شاہ عنایت قادری صاحب نے فرمایا تو بلھا ہے؟ آپ نے عرض کی حضور بلھا نہیں بھولا ہوں۔ مرشد اٹھے اور انھیں گلے سے لگا لیا۔