انتہا پسندی اور اعتدال پسندی کا بنیادی فرق:ایک اسلامی نقطۂ نظر

(محمد مبشر نذیر)

کمیونزم کی تحریک ایک رد عمل کی تحریک تھی۔ انیسویں صدی میں یورپ اور روس کاسرمایہ دارانہ نظام جبر اور ظلم پر مبنی نظام تھا۔ اس نظام کے ظلم و جبر کے خلاف کارل مارکس نے آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں کمیونسٹ تحریک نے جنم لیا۔ اگرچہ اس تحریک میں اچھا اور مثبت ذہن رکھنے والے افراد بھی شریک ہوئے لیکن اس تحریک کی قیادت انتہا پسند طبقے کے پاس چلی گئی۔ یہ طبقہ اپنے نظریات کے مطابق نظام کو طاقت اور جبر کےبل بوتے پر قائم کرنے کا قائل تھا۔

1917 میں روس میں ایک بڑی سول وار کے بعد انقلاب آیا۔ اس انقلاب کی بھینٹ ہزاروں انسانوں کو چڑھایا گیا۔ اس انقلاب کے بعد دنیا کے تمام ممالک میں کمیونسٹ سرگرم عمل ہو گئے۔ چین میں بھی ایک طویل خانہ جنگی کے بعد انقلاب آیا۔ اس خانہ جنگی میں بلا مبالغہ لاکھوں افراد مارے گئے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کمیونسٹوں کی بڑی تعداد نے مسلح بغاوت کا طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں دنیا کے بہت سے ممالک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور انسانوں کی بہت بڑی تعداد موت اور معذوری سے ہم کنار ہوئی۔ جہاں جہاں کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہوئی وہاں ذرہ برابر بھی اختلاف رکھنے والوں کو موت کی سزا دی گئی۔ جوزف اسٹالن کے دور میں بہت سے اختلاف رائے رکھنے والوں کو سائبیریا کے برف زاروں میں بھیج دیا گیا۔ ان سے طویل مشقت لی جاتی اور مناسب خوراک نہ دی جاتی جس کے باعث یہ قیدی موت سے ہم کنار ہو جاتے۔

مسلم انتہا پسندی کی لہر بھی ایک رد عمل کی تحریک تھی۔ مسلم دنیا پر پہلے یورپی اقوام کے قبضے اور اس کے بعد امریکہ اور روس کی ریشہ دوانیوں کے باعث مسلمانوں کے ہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی واضح تعلیمات کے بالکل برعکس دشمن افواج کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے قتل کو بھی جائز قرار دیا گیا اور دنیا بھر میں دہشت گردی کا طوفان برپا کر دیا گیا۔

اگر کمیونسٹ انتہا پسندوں اور مسلم انتہا پسندوں کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بہت سے باتیں مشترک ہیں۔ انتہا پسندی اور اعتدال پسندی کا تعلق کسی ایک مذہب، فلسفے یا نقطہ نظر کے ساتھ نہیں۔ یہ انسانی رویوں کا نام ہے جنہیں باقاعدہ تربیت کے ذریعے کسی بھی مذہب کے ماننے والے فرد کی شخصیت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

انتہا پسند کو شروع ہی سے یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اسے دوسروں کو مارنا ہے خواہ اس کے لئے اسے خود کو ختم کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسے دوسروں کو غلام بنانا ہے خواہ اس کے لئے اس کی اپنی زندگی، اپنے لیڈروں کی غلامی میں ہی بسر کیوں نہ ہو۔ اسے دوسروں کو بے عزت کرنا ہے خواہ اس کے لئے اسے اپنی عزت ہی داؤ پر کیوں نہ لگانی پڑے۔ اسے دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے خواہ اس کے لئے اسے اپنی بیوی، اولاد، کاروبار یا زندگی کا نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ انتہا پسند کی پوری زندگی Do or die کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔

انتہا پسندوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اجتماعیت پر بہت زور دیتے ہیں۔ اجتماعیت سے ان کی مراد پورا معاشرہ اور اس کا نظم حکومت نہیں ہوتا بلکہ صرف اپنی تنظیم یا جماعت ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان ہاں تنظیمی قائد کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور قائد کے کسی حکم سے انحراف کو بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیڈر کے حکم پر جان بھی قربان کر دی جاتی ہے جبکہ والدین کے حکم سے سرتابی کی جاتی ہے۔

سب سے بڑا گناہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے۔ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کسی ایسے شخص کو قتل کرنا ہے جسے قتل کرنے سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔ اور اس کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کے ساتھ برا سلوک کرنا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، “کیا میں تمہیں بڑے گناہوں میں سے ایک بہت بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ ہے جھوٹی گواہی دینا۔”

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (بخاری)

اس کے برعکس اعتدال پسند کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے لئے دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ اپنی آزادی کے لئے ہمیں دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔ خود کو نقصان سے بچانے کے لئے ہمیں دوسروں کو نقصان سے بچانا چاہیے۔ اپنی عزت کروانے کے لئے دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ اعتدال پسند کی پوری زندگی ‘جیو اور جینے دو’ کے فلسفے کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔

ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے کون سا انسانیت کے لئے مفید ہے، یہ جاننے کے لئے بہت بڑا عالم یا مفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام الہامی مذاہب اعتدال پسندی کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن مجید کو بغیر کسی تفسیر کے شروع سے آخر تک پڑھتے چلے جائیے، ہمیں اعتدال پسندی ہی کی تلقین ملے گی۔ اگر ہم کسی شخص کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں، تو ہمیں صرف اور صرف یہی حق حاصل ہے کہ ہم شائستگی کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کر کے اس شخص کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے نظریات کو دوسروں پر زبردستی مسلط کر دیں۔ یہ قرآن کا واضح پیغام ہے:

لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدْ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔

دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت، گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت (یعنی شیطانی قوتوں) کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لائے گا تو وہ مضبوط ترین سہارے کو تھام لے گا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اللہ (جس کا سہارا لیا گیا ہے، ہر بات کو) سننے اور جاننے والا ہے۔