وقت کے چکی میں پستے عام لوگ

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

 

(ذوالفقار علی)

وقت کسی مادی یا غیر مادی اشیا کے آغاز اور انجام کے بیچ والا دورانیہ، وقفہ یا مدت کو جانچنے کا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ اس کے آغاز کے بارے میں مختلف ادوار میں بہت ساری فلسفیانہ بحثیں ہوتی رہی ہیں، ہو بھی رہی ہیں اور ہوتی بھی رہیں گی۔ ہستی اور نیستی کے تصورکو وقت کے ساتھ جوڑ کر اس معمے کو سُلجھانے کی سعی میں بے شُمار کتابیں اور نظریات موجود ہیں۔

وقت کی بحث نے جب مذہب کے ماننے والوں کو اپنی طرف راغب کیا تو ایک بہت بڑا سوال کھڑا ہو گیا کہ “ہستی” کا وجود وقت کی گرفت سے آزاد ہے یا اس کو بھی کسی نقطہ آغاز سے جوڑا جا سکتا ہے مگر اس بحث کا انجام “ازل” اور “ابد” کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے اور ابھی تک حاصل وصول کچھ نہیں۔

نیستی سے ہستی کا جنم ممکن نہیں مگر پھر سوال یہ اُٹھتا رہا کہ اگر نیستی سے ہستی کا وجود ممکن نہیں تو پھر ہستی کے وجود کا کوئی نقطہ آغاز بھی نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہے تو پھر مادہ یا ہستی کیسے وجود میں آئے ؟ کیا یہ ازل سے تھے؟ اگر ازل سے تھے تو پھر کائنات کی توجیح وقت کے مختلف وقفوں میں کیونکر ہو پائی۔ اس سوال کا جواب نہ تو ابھی سائنس کے پاس ہے اور نہ ہی مذہب کے پاس۔ سائینس 5 ارب سال کے وقت کو نقطہ آغاز مانتی ہے اور مذہب کُن فیقون کے لفظوں سے اسکی توجیح پیش کرتا ہے۔
اس سارے پس منظر میں سوال یہ در پیش ہے کہ سائنس اور مذہب دونوں کی لڑائی میں جانداروں اور بے جانوں نے کیا پایا کیا کھویا؟

اکثر مذاہب مرگ کے بعد کی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس اصول کے تحت زندگی گُزارنے کی اخلاقیات اور سماجیات کی رسیوں سے انسان کو قابو کرتے ہیں جبکہ سائنس مظاہر فطرت کو اپنے مشاہدے کی رسیوں میں جکڑ کر اپنا کام کرتی ہے۔

ان دو طرفہ رسیوں کے بندھن میں بندھا انسان دن بدن خود تو پستا رہا مگر اس کے ساتھ ساتھ دوسرے جانداروں اور بے جانوں کو بھی تجربات، اخلاقیات اور سماجیات کے چُنگلوں میں سمیٹتے سمیٹتے کھا گیا۔جن کا نہ سائینس سے کوئی لینا دینا تھا نہ ہی مذہب سے کوئی سروکار۔

اب جس طرف دیکھیں وقت کے کالے سائے کائنات کی روشنیوں کو نگلتے جا رہے ہیں اور انسان کا وہ جوہر جس سے خوشیاں، چاشنیاں، جذبے اور احساس جُڑے ہیں اپنی موت مرتا جا رہا ہے۔ انسان کٹ رہا ہے اپنے اتیت سے، اپنی آتما سے اور کائنات کے ردھم سے۔

اس کٹنے سے اب تصور جاناں کی جگہ تصور حور ، تصور فرصت کی جگہ تصور کاروبار، تصور عشق کی جگہ تصور وجود اور تصور حُسن کی جگہ تصور نقش مرد و زن۔۔ ہائے یہ کہانی کیسی کہانی ہے جسمیں کلائمکس کے رنگ ایسے پھیکے پڑے ہیں جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔
ہستی کے “ہونے” اور “نہ ہونے” کےاس فریب میں آکے اس تن ناتواں نے کیا کیا نہ جھیلا، درد کاٹے، جسم وجاں کے پاس بسنے والے قُربان کئے، پرندوں کے ہجر میں ہلکان ہوئے، وسوں کی وصیت ماتھے پے سجائے رُدھالی بنے، موالی بنے مگر وہ بھید نہ پایا جس کا سُراغ وقت کے پنجوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے اتنا کٹھن اور طولانی مسافت کی کٹھنائیاں جھیلیں۔

نصیب ہوا تو کڑکتا مزاح، بھڑکتی صورت والوں کے پھڑکتے مضمون، ساحروں کی خود نوشتیاں، چلغوزوں کے چھلکے، کیلوں کی پھسلنیں، مالٹوں کی کھٹاس، اخروٹوں کی سختیاں ، جان لیوا فتوے کے پرت ، غداری کے طعنے، فرقوں میں بٹے انسانوں کی دُہائیاں، سانسوں میں زہر بھری ہوا، تقسیم کے بھاری بھاری کتبے، نا ختم ہونے والی جنگوں کے گھاؤ، بیگانگی کی اوڑھنی، بھوک زدہ بچے، ہجرتوں کے قافلے، ننگی گالیاں اور فن پاروں کی باسی چٹنیاں۔۔!

ہائے کیسی ہے یہ جست۔
دم مست دم مست،
نیلو نیل تن من والے،
ہمیں است ہمیں است،
بھاگم بھاگ آگو آگ
ہاتھ آیا نیست نہ ہست،
ہائے کیسی ہے یہ جست!
میلا من کالی روح،
میں اور تو دوہ بدوہ،
میرا بُلھا، تیرا بہو،
ول وی اللہ ہو اللہ ہو۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔