ایک اور؟ (اردو افسانہ)

گمشدہ افراد

(نعیم بیگ)

شام ڈھل چکی تھی لیکن کھانے میں دیر تھی۔ عالمی ادبی کانفرنس دارالحکومت کے پنج ستارے ہوٹل اور کئی ایک ہالز پر مشتمل سرکاری عمارت میں زور و شور سے جاری تھی۔ پوری دنیا سے ادب کے متوالے شاعر و ادیب و نقاد چہروں پر مسکراہٹیں سجائے ایک دوسرے سے جوش و خروش سے معانقہ و مصافحہ کر رہے تھے۔ رسم و راہ بڑھانے اور ملاقاتیں کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کونسا موقع ہو سکتا تھا۔ مرکزی ہال سے منسلک نسبتاً ایک چھوٹے ہال میں ایک کونے میں لگے بوفے پر گرم گرم چائے اور کافی کے ساتھ بے شمار سنیکس جسے عرف عام میں ہائی ٹی کہا جاتا ہے پر مندوبین کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
مرکزی ہال میں جاری سیشن کا آخری مقالہ پڑھا جا رہا تھا ۔۔۔’’ عہد جدید میں ادب کا مقام و معاشرہ ‘‘ ۔ مقالہ ختم ہوتے ہی بیشتر لوگ جلدی سے کھڑے ہوگئے۔ کچھ نے بڑھ کر مقالہ نویس کو مبارک باد پیش کی۔ چند مہمان واش رومز کی طرف نکل گئے، بقیہ اعلانیہ کے مطابق سنیکس کے بوفے کی طرف مڑ گئے۔جہاں چند معروف و ممتاز ادیب و شاعر پہلے سے کافی کے مگ ہاتھ میں لئے ہلکی ہلکی چسکیاں بھر تے ہوئے فکری جہات و عملی و سائنسی انتقادات کے منظر نامہ پر علم کے دریا بہا رہے تھے۔ اساطیری ادب سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے عہد جدید میں لکھا جانے والا عصری ادب زیرِ بحث تھا۔ سماج کے ٹیبوز کو آشکار کیا جا رہا تھا اور معاشی ناانصافیوں اور طبقاتی جنگ میں پیچھے رہ جانے والا انسان موضوعِ گفتگو تھا۔
پرجوش مباحث کا اجمال و عروج اس نقطہ پر پہنچ چکا تھا، جہاں دلائل کے ساتھ جذبات اور چہروں پر متانت کی بجائے حریفانہ سرخی اور لہجوں میں دبی ہوئی خفگی اور ناراضی عیاں تھی۔
سوال اٹھ رہے تھے کہ عصری ادب میں زندگی کہاں ہے؟ اور اگر ہے تو اتنی بے بس کیوں ہے؟ اس کے بازو شل کیوں ہیں ؟
کیا ان پرندوں کے پر کاٹ دئیے گئے ہیں یا ان کے کمزور پروں میں اب اڑنے کی سکت باقی نہیں رہی ہے؟
یہ بھی سوال اٹھ رہا تھا کہ کیا ہمارا معاشرہ بے حس ہو گیا ہے؟
کافی پیتے گہرے رنگوں میں وولن سٹیم شدہ سوٹوں اور نکٹائیوں میں ملبوس ان دانشوروں کے ساتھ مقالہ ختم کر کے آنے والے دیگر خوش پوش خواتین و مرد بھی آن ملے تھے جنہوں نے دارالحکومت کی یخ بستہ سردی سے بچنے کے لئے لِینن اور گبرڈئین کے ملبوسات زیبِ تن کئےہوئے تھے۔ کچھ نوجوان لڑکے لڑکیوں نے فلالیَن کے نرم اونی مفلر گلے کے گرد لپیٹ رکھے تھے۔۔۔۔ماحول اور زیادہ پراثرہو گیا تھا کچھ پرجوش و جذباتی دانشور اپنے دلائل کو پیش کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں ، آنکھوں اور چہرے کے اتار چڑھاؤ سے انہیں مہمیز دے رہے تھے۔ نوجوان ادیب و شاعر ایک جانب کھڑے سینئرز کو ادب و تعظیم دئیے، لیکن چہروں پر استعجابی تاثرات لئے سرگوشیوں میں دلائل پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
یہ گفتگو کا اوپن سیشن تھا جو وقت سے پہلے ہی مرکزی ہال کی بجائے چائے کی میز پر شروع ہو چکا تھا۔
جوں جوں گفتگو میں تیزی آ نے سے آوازوں کی لَے میں بے سرُی پیداہو نے لگی، توں توں دارالحکومت کی یخ بستہ ویران سڑکوں پر سگنلز کی بتیاں سرخ سے پیلی اور سبز ہوتی ہوئی اپنی بے بس نگاہوں سے مسلسل گذرتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اپنے میکانکی انداز میں سڑک کے پار سٹریٹ لیمپ کی نئی لیڈ سفید روشنیوں سے کبھی سرگوشیوں میں باتیں کرتیں ، کبھی خاموش تماشائی بنی ٹھٹر ی رہتیں۔
سبز ہوتی ہوئی دائیں جانب کے روشنی نے بائیں جانب سرخ روشنی سے پوچھا ۔
’’ تم نے دیکھا اس سفید کار کے اندر کچھ دھینگا مشتی ہو رہی تھی؟ ‘‘
سر خ روشنی نے شرم سے سر جھکا لیا۔
’’کیوں ۔۔ ۔ کیا ہوا؟ کیا تم نے نہیں دیکھا۔‘‘ سبز نے آنکھیں نکالیں۔
’’ دیکھا تھا۔۔۔ وہ وہی تھا۔‘‘ اس نے یاسیت بھرے لہجے میں بے بسی سے کہا۔
’’ کون ۔۔۔ وہی؟‘‘ سبز نے پیلی ہوتے ہوئے کہا۔
’’ وہی۔۔۔ لمبے بالوں والا جو اکثر ہاتھ میں بھونپو لئے سڑک کے اس پار چِلاتا رہتا ہے‘‘
’’ اچھا ۔۔۔ اچھا وہی جس کے ساتھ کالج کے چند لڑکے لڑکیاں ہوتے ہیں۔ اِن بچوں کو نظمیں سنا کر گمراہ کرتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سرخ ہو گئی۔
دوسری سرخ بتی ایکدم سبز ہو گئی۔ اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو شبنم کے قطروں کیساتھ مل کر ایک دوسرے میں جذب ہوتے ہوئے پول سے نیچے اترنے لگے۔
’’میں سامنے سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ اس کے سر پر پستول تانے کچھ لوگ ساتھ بیٹھے تھے۔ انکی آنکھیں ہماری طرح سرخ تھیں۔‘‘
’’تم نے انہیں روکا کیوں نہیں؟ ‘‘
’’ میں سرخ تھی، لیکن وہ رکے نہیں۔‘‘ اس نے بے چارگی سے کہا۔
’’ دراصل تم میں اتنی قوت ہی نہیں کہ تم کچھ دیر مسلسل سرخ رہو؟ مجھے دیکھو ساری رات سرد یخ بستہ ہواؤں میں چاندی پھیلاتا رہتا ہوں، لیکن کیا مجال لمحہ بھر کو بند ہو جاؤں۔ہاں بس جن کے پاس میرا بٹن ہے وہ بند کردیں تو میں زندگی سے محروم ہو جاتا ہوں۔ ‘‘ سڑک کے اُس پار ٹھٹھرے ہوئے سٹریٹ لیمپ نے آنکھیں جھپکائیں۔
’’ ہماری جلتی بجھتی روشنیوں میں تو صرف احکامات ہیں لیکن تم تو مسلسل روشنی بہم پہنچاتے ہو۔ تم بھی یہاں اتنے ہی کمزور ہو۔ ‘‘
سرخ ، پیلی اور سبز روشنیوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔
’’رکو۔۔۔ رکو دیکھو سامنے سے کچھ لوگ مکے بلند کئے نعرے لگاتے آ رہے ہیں۔‘‘ بلند و بالا سفید روشنی کا لیمپ چلایا۔
’’یہ وہی نوجوان لڑکے لڑکیاں ہیں۔۔۔ جنہیں ہم اکثر یہاں دیکھتے ہیں، لیکن ان میں وہ گھنے بالوں والا شامل نہیں ہے۔‘‘
لیکن یہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کیوں کھڑے ہیں؟‘‘ ایک دور ایستادہ لیمپ نے آواز دی۔
ایک نوجوان نے ہاتھ بلند کرکے کہا۔’’ ہم محبت کے متلاشی ہیں ۔ امن کے پیامبر ہیں ۔ ‘‘
دوسرا بولا۔ ’’ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہمیں بولنے کی اجازت دو۔‘‘
سرخ،پیلی اور سبز بتیاں ایک ساتھ سفید ہو گئیں ۔ روشنیوں کا ایک سیلاب گزرنے والوں پر اتر آیا ۔ چہار طرفہ سڑکوں کے آر پار ہر جگہ چاندنی پھیل گئی۔سبزے کی پٹی پر ادَھ کھِلی کلیوں پر شبنم کے قطرے نمایاں ہو گئے اور روشنی معکوس ہوکر دور دور تک گھروں کے اندر جانے لگی۔
’’لیکن ہمیں سماجی اجتماعی زندگی میں انسان کو ہر قیمت پر فوقیت دینا ہوگی ‘‘ نوجوان شاعر نے ہمت کرکے دانشوروں کے سامنے زبان کھول دی۔
کچھ لوگوں کے کافی کے مگ منہ کے قریب رک گئے۔ کچھ کے ہاتھوں میں سموسے وہیں ٹھٹھر گئے۔ سب نے متعجب نگاہوں سے اس نوجوان کی طرف دیکھا۔ چند بڑوں نے اپنی نکٹائیاں گردن سے ڈھیلی کیں۔ اوپن سیشن کے اختتام ہونے سے پہلے گفتگو منجمد ہو گئی۔ نوجوان کی اس جراٗت پر سبھی انگشت بدندان تھے۔
خبر سڑکوں سے ہوتی، لیمپوں سے ٹکراتی ، ہتھیلیوں پر اچھلتی ،ہواؤں کے دوش پر ہر سو پھیل چکی تھی۔
چوک میں ایستادہ بڑے لیمپ نے بالآخر سکوت توڑا۔
’’وہ کہتے ہیں، محبت ، امن سکون اور چاہتوں کا یہ بازار ختم ہو، ایسے میں انکے مہنگے داموں فروخت ہونے والے ظلم و ستم کے آلات نہیں بکتے ہیں، وہ ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
’’ تب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ ایک نوجوان ادیب بولا
’’ہم روشنیوں کو جاری رکھیں گے لیکن انکے احکامات کو رد کر دیں گے۔ ہم اپنی طاقت سے انہیں روکیں گے۔ ہم احتجاج کرنے والوں کے لئے ساری ساری رات سردی میں ٹھٹھرکر انہیں روشن مستقبل دیں گے۔ آؤ ہاتھوں میں ہاتھ دو ۔۔۔‘‘ بڑے لیمپ نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں پھیلا دئیے۔چند نوجوان ان ہاتھوں کو تھامنے آگے بڑھے۔
’’انکا یہ ارمان کبھی پورا نہیں ہوگا ، کہہ دو انہیں۔۔۔ اب رات کے آخری پہر میں اپنے دامن میں کسی لمحہِ پیار کے وہ چند بول باندھ رکھو۔ یہی رخت سفر ہے۔ زنداں میں یہی سامان انہیں میسر ہوگا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دوسرے بڑے لیمپ نے دودھیا روشنی گل کردی۔۔۔ رفتہ رفتہ ساری دودھیا لیمپ بجھ گئے۔
لیکن سرخ ، پیلی اور سبز جلتی بجھتی روشنیاں مسلسل جلتی رہیں۔
سحر کے سپیدی دور پہاڑوں کے پار اتر رہی تھی۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

2 Comments

  1. “ایک اور؟” ۔۔۔۔۔ اس افسانے کے عنوان ہی میں بہت کچھ پوشیدہ ہے۔ حرفِ حق کہنے والوں کو پابندِ سلاسل کیا جاتا تھا، اب غائب کر دیا جاتا ہے۔ اہلِ قلم جنھیں ان حقائق سے اپنے فن کو زندگی دینی چاہیے، وہ ان حقائق سے قطعی لاتعلق اور عجیب طرح کی بےحسی کا شکار ہیں۔ افسانہ ہمارے سامنے کی زندگی کے افسوسناک منظرنامے کو کہانی بناتے ہوئے امید کا ایک پیغام بھی دیتا ہے۔ نعیم بیگ صاحب اپنے افسانوں کا خمیر حقیقی زندگی سے اٹھاتے ہیں۔ ادب برائے زندگی اور ترقی پسند ادب کا سلسلہ ایسے ہی فن پاروں سے آگے بڑھ رہا ہے۔

Comments are closed.