معصوم بچیوں کا جنسی استحصال اور قتل

منزہ احتشام گوندل

معصوم بچیوں کا جنسی استحصال اور قتل

از، منزہ احتشام گوندل

ابھی پھر ایک سانحہ ہو گیا۔ فریشتہ نام کا بچی پھر کسی ذہنی مریض کے مرض کی بھینٹ چڑھ گئی۔ مجھ ایسے درد مند دوستوں نے سٹیٹس لکھے ہیں اور کچھ نے نظمیں بھی۔ اپنی بھڑاس نکال کے مطمئن ہو جائیں گے۔ چار دن میں بچی کی کھال اور گوشت بھی گل سڑ جائے گا اور وقت کا بہاؤ یوں ہی جاری رہے گا۔
میرے کچھ دوستوں کی تان ہر ایسے واقعے کے بعد اس بات پہ آ کر ٹوٹتی ہے کہ غلاظت کی نکاسی کا سسٹم ناقص ہے، یا پھر مذہبی اور شرعی معاملات نے گٹروں کے ڈھکن اور نالیاں بند کر رکھی ہیں اس لیے یہ نالیاں پھٹتی ہیں اور غلاظت ہر طرف پھیلتی ہے۔
میں صرف اتنا پوچھتی ہوں کہ جو شخص کسی پیشہ ور عورت کے پاس مذہبی خوف سے نہیں جاتا وہ کسی معصوم بچی کو کیسے ریپ کر لیتا ہے۔ کیا وہی شریعت جو پیشہ ور عورت سے تعلق کو منع کرتی ہے ایک بچی کو ریپ کر کے بعد میں اسے جان سے مار دینے کی اجازت دیتی ہے؟
کیا یہ مذہبی اور شرعی گھٹن کے شکار لوگ شرعی اجازت سے ایسے کام کرتے ہیں؟
وہی معاشرہ جس میں آ پ جیسے لوگ موجود ہیں جن کی غلاظت کی نکاسی کا نظام کبھی رکاوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ آ پ کا تو کوئی مولوی کوئی شارع کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
آخر ہم کیوں ایک نفسیاتی بیماری کو، ایک ذہنی سفاکی کو مذہب کے کھاتے میں اتنی آ سانی سے ڈال دیتے ہیں اور روشن خیال بن جاتے ہیں۔قانون کو بھی ہم نے بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔ آ ج تک ہمارے ہاں معصوم بچوں کے ریپ کے خلاف کوئی ریاستی قانون نہیں بن سکا۔ جنسی مریض تو ان معاشروں میں بھی ہیں جہاں مرد عورت کے آ زاد اختلاط پہ کوئی سماجی یا مذہبی پابندی نہیں۔ لیکن وہاں نابالغ بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف سخت ریاستی قوانین موجود ہیں۔

ہر مسئلے کا حل مذہب سے نفرت اور بیزاری نہیں ہے۔ بلکہ یہ رویہ اب نہایت جاہلانہ صورتحال اختیار کرچکا ہے۔دنیا فرد کو نفسیاتی سطح پہ پرکھ رہی ہے آ پ ہر چیز کو لے کر مذہب کی کوکھ میں گھس جاتے ہیں اور مذہبی اور سماجی قدروں کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ان جرائم کے پیچھے ہم سب موجود ہیں۔ہماری عادت ہے ایک ڈسکورس کے پیچھے چل پڑنے کی خواہ وہ مولوی کے خلاف بنایا گیا ہو یا سرمایہ دار کے خلاف۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے معاشروں میں جرائم اسی لیے کبھی نہیں رکتے کہ ہم ایک بیانیے کو لے کر اسی کا راگ الاپنے والی قوم ہیں۔
ایسے واقعات کے پیچھے کیا محرکات ہیں ان کا کھوج لگایا جائے۔اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم سارے تعصب ذہن سے نکال کے سوچیں گے۔ جرم کو ایک فرد کا جرم سمجھ کے اس پہ کام کریں گے۔
یاد رکھیے کہ اگر آپ مذہب، خدا، قانون اور سماج کی کسی پابندی کے خوف سے آزاد ہو کر اپنے جنسی معاملات میں خود مختار ہیں تو معصوم بچیوں کو روند کر قتل کر دینے والے آپ سے زیادہ نڈر ہیں۔
جس دن آ پ تصویر کو اس رخ سے دیکھیں گے آپ کو اپنی بچیوں کے مجرم بھی نظر آ جائیں گے۔