مولانا کا دھرنا اور مبصرانہ کسوٹیوں کی پریشانیاں

Ahmed Ali Kazmi photo

مولانا کا دھرنا اور مبصرانہ کسوٹیوں کی پریشانیاں

آپ کو مولانا کے اقلیتوں اور خواتین کے متعلق تصورات اور مذہبی ریاست کے منشور پر حد سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ مولانا کبھی بھی قومی سیاست میں ایسی مرکزی مقتدر پوزیشن پر نہیں آ سکتے جس میں وہ اپنے خیالات کو نافذ کروا سکیں۔

آپ کو اس بات پر مولانا کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے، مدرسوں کے طالب علم لا کر ہی سہی، ایسا احتجاجی ماحول پیدا کر دیا ہے کہ جس میں تمام قومی سیاسی جماعتوں اور اے این پی اور پی کے میپ جیسی خالص سیکولر جماعتوں کو بھی جمہوری عمل، فوجی عدم مداخلت اور ووٹ کے آزادانہ استعمال جیسے بنیادی مسئلے پر عوامی سطح پر گفتگو کرنے کا پلیٹ فارم مہیا ہو چکا ہے۔

یہ لڑائی مولانا اور عمران خان/اسٹیبلشمنٹ کی نہیں ہے کہ آپ یہ موازنہ کرتے پھریں کہ مولانا یا اسٹیبلشمنٹ میں سے کم خطر ناک کون ہے۔ مولانا کی نظر اقتدار پر ہے نہ ہی یہ ممکن ہے۔

عاصمہ شیرازی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا  کہ ہم تو بڑی سیاسی جماعت نہیں، بڑی جماعتیں مسلم لیگ اور پی پی ہیں۔


متبادل رائے:

آزادی مارچ کے کارکنوں کا سیاسی ویژن تو تحریک انصاف والوں جتنا ہی ہے؟ از، محمد عاطف علیم


شہریوں کا اپنے حاکم چننے کے لیے آزاد حقِّ انتخاب وہ بنیادی لبرل value ہے جو جمہوریت کی بنیاد ہے۔ باقی تمام لبرل جمہوری اقدار مثلاً شہریوں کے درمیان مکمل مساوات اس بنیادی حقِّ انتخاب کے بعد ہی ممکن العمل ہو سکتی ہیں، کیوں کہ حقِّ انتخاب سے ہی وہ جمہوری ڈھانچہ وجود میں آتا ہے جو اس بات کا مجاز ہے کہ وہ دیگر لبرل values کو uphold کرے۔

ایک سیاسی جماعت سے آپ یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ وہ لازماً شہریوں کے درمیان مساوات کے اصول پر چلے، ہاں ایک حکومت سے آپ یہ مطالبہ ضرور کر سکتے ہیں۔ جے یو آئی سے باقی لبرل اقدار پر ایمان لانے کے مطالبات  کرنے کی بَہ جائے آپ حقِّ انتخاب میں فوجی عدم مداخلت پر ان کا ساتھ دیں۔

آزاد انتخاب کے نتیجے میں جب حکومت وجود میں آ جائے جو سابقہ تاریخ کی روشنی میں مسلم لیگ ن، یا پیپلز پارٹی کی ہو گی تو حکومت سے یہ مطالبات  ضرور کیجیے۔

از، احمد علی کاظمی